وہ چاروں طرف دور دور تک دیکھنے لگا۔ قریب ہی اس کو شاہ اسکونس کا شہر نظر آنے لگا۔ جس کی عمارتیں دھوپ میں چمک رہی تھیں۔ ساتھ ہی اس نے دیکھا کہ شہر سے باہر ایک بڑے میدان کی طرف لوگ جا رہے ہیں.... شہزادے کا شوق ہوا کہ دیکھے یہ لوگ کہاں جا رہے ہیں اور اسے پیاس بھی محسوس ہورہی تھی۔ اس نے گھوڑے کو اس میدان کی طرف بڑھایا۔
شہزادے نے میدان کے قریب کی جھیل سے پانی پیا۔ اور پھر میدان کی طرف بڑھا جہاں لوگ سیکڑوں کی تعداد میں جمع ہورہے تھے۔ میدان کے ایک طرف پر خوبصورت شامیانہ تنا ہوا تھا۔ جس پر شاہ اسکونسؔ کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ جس میں بادشاہ کے بیٹھنے کیلئے خوبصورت تخت رکھا تھا اور درباریوں کے بیٹھنے کا بھی انتظام تھا۔ شامیانے کے عین سامنے سرخ پتھر کے چبوترے پر دیوی ڈائنا کا بُت کھڑا کیا گیا تھا سب لوگ بادشاہ کی سواری کا انتظار کر رہے تھے۔
شہزادے نے
اگلے وقتوں کی بات ہے کہ ملک آرگونؔ کا شہزادہ میلانینؔ بہادری اور تیر اندازی میں اپنا جواب نہ رکھتا تھا۔ اسے اپنی دیویوں اور دیوتاؤں پر بڑا یقین تھا۔ نڈر اتنا کہ خوفناک جنگلوں میں شکار کیلئے تن تنہا نکل پڑتا۔ شکار کا شوق عادت بن گیا تھا۔ وہ شکار کیلئے نکلتا تو کئی کئی دن باہر رہتا۔ اس کے ساتھ صرف دو شکاری کتّے ہوتے جن کی مدد سے وہ شکار کا پتہ لگا لیتا۔ اس کا نشانہ اتنا اچھا تھا کہ جس ٹانگ پر چاہتا تاک کر اسی پر تیر مارتا۔
ایک روز شہزادہ میلانینؔ ہرنوں کا پیچھا کرتے کرتے بہت دور نکل گیا، یہاں تک کہ وہ اپنے ملک کی سرحد پار کرکے دوسرے بادشاہ کی سلطنت میں جا پہنچا۔ دھوپ قدرے تیز تھی۔ گھوڑا تھک چکا تھا اس لئے وہ ایک درخت کے سائے میں کچھ دیر سستانے کھڑا ہوگیا۔ شکاری کتّے بھی ہانپتے ہانپتے آپہنچے۔ اپنے آپ کو اجنبی حکومت میں پا کر وہ چاروں طرف
یں۔ مجھ ضعیف راوی کو عرصہ دراز سے ضعیف روایت کی طرح فراموش قید تنہائی میں رکھا گیا تھا۔ حالانکہ علماء سو جھوٹی روایات کے فتوی لگا کر خوب عیش کر رہے ہیں۔دوسروں کے گلے کاٹنے اور دھوکا دینے والے بھی آج یہ کہتے ہیں کہ دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے پیار ہے۔ کسی کی کشتی ڈوب جائے یا پار لگے اسے کوئی غرض نہیں۔ لیکن دریا کے بلکتے آنسو کسی کو نظر نہیں آتے۔ میرے کنارے ساس بہو کی دشمنیاں پلتی رہیں اور محبوب قدموں میں روندے گئے۔ گمان ہے کوئی وظیفہ الٹا کر محبوب کی جگہ میرا نام شامل کیا گیا۔ محبوب تو بچ نکلا اور میری سوئیاں نکالنے والا اب کوئی نہیں۔ اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا۔ نہ ہی بدو بدی اور نہ اپنی خواہش سے۔
وہ قلندر بھی نہ مل سکا جس کی بات مجھے پھر سے پانی پانی کر دیتی۔ کاش کہانی کا وہ دانا کوا کوئی جادوئی کنکریاں لاتا اور پانی کی سطح اتنی بلند کر دیتا کہ شاعر اپنے محبوب کو پکارتے کہ "مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیے۔ "پھر سوچتا ہوں کہ خاموشی یا شور مچا کر بہنے والے آخرش بجھ ہی جاتے ہیں۔ چیخ و پکار اور اپنی بقا کی جدوجہد کرنے والے شہید بھی ہوئے۔ پھانسی بھی لگائے گئے اور جلا وطنی کے عذاب بھی انھوں نے خوب جھیلے۔ یہ علم نہیں کہ وہ فائلر تھے یا نان فائلر۔ مجھے تو نان فائلر قرار دے کر یہ ٹیگ لگا دیا گیا ہے
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوش نصیحت نیوش ہے
دنیا کی خوب صورت آبشاریں ہوں یا دل کش دریا۔ سیاح جوق در جوق ان کو دیکھنے بھی جاتے ہیں اور دنیا کو اس طرف متوجہ بھی کرتے ہیں۔
جواں رہتا ہے۔ ہائے!! کوئی میکدے سے میرا عروج اٹھاکر لاؤ۔ فی زمانا بحث سن کر مجھے احساس ہوا ہے کہ شاید میں فائلر ہوتا تو کسی سمندر میں ہجرت کر سکتا تھا۔ میں فائلر ہوتا تو میرا چپکے سے یوں قتل نہ کیا جاتا۔ مجھے یقین ہے کہ سارے مصائب نان فائلر ہونے کی وجہ سے نازل ہوئے ہیں۔ ساتھی دریاؤں کو میری نصیحت ہے کہ پلیز فائلر بن جائیں ورنہ کوئی پڑھا لکھا دشمن آپ پہ ڈیم بنا لے گا اور ہم اپنی پرائمری سکول بیچتے رہیں گے۔ دل میں ایک کمینہ سا خیال یہ بھی آتا ہے ک اپنے کنارے مرادیں مانگنے والوں اور والیوں کی ویڈیوز لیک کر کے بھی ارباب اختیار کی توجہ کھینچی جا سکتی تھی۔ پھر سوچتا ہوں ارباب اختیار کی تو خود آئے روز آڈیوز اور ویڈیوز لیک کا کھاتا کھلا ہے۔ شاہ و وزیر ہر طرح کی آڈیوز / ویڈیوز پر بلیک میل ہو رہے ہوں تو مرتے دریا پر کون توجہ دے گا۔ مجھے تو وہ قلندر
ی بحر یا بحیرے میں جاگرتا ہے۔ بقول شاعر
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا لیکن میں تو پیر فرتوت رہا جو نہ دریا رہا اور نہ ہی کسی سمندر میں اتر سکا۔ شاعر نے پتہ نہیں کس کیفیت میں کہا تھا:
"پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور"
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کئی دریا بذات خود مستقل بھی ہوتے ہیں اور معاون بھی۔ یعنی ایک دریا دوسرے دریا میں جا گرے تو معاون کہلاتا ہے۔ لیکن میں نہ تو ہیرو بن سکا نہ ہی ولن کا لبادہ اوڑھ سکا۔ قطرہ نیساں کی طرح میری چیخ دبی دبی رہی۔ نقار خانے میں طوطی کی سنتا ہی کون ہے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ مرنے سے پہلے میری چیخیں دلدوز تھیں۔ میری آہیں، میری معذوری، میرے چیخ پکار گویا سب ماتم رائیگاں رہا۔ یہ مصرع مجھ پر صادق ہے کہ عمر بھر کون حسیں،کون جواں رہتا ہ
ضلع کانگڑامیں درہ روتنگ میں ہوئی۔لاہور شہر کی بنیاد میرے اسی کنارے پر رکھی گئی جس سے اب طوطا چشموں نے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔ مجھے تو اب یہ بھی یاد نہیں کہ بہتے پانی پر گدھ کب سے منڈلا رہے تھے نہ ہی اس کا ذکر ہے۔ مت پوچھیے احوال دل! میں نے کیا کیا نہیں دیکھا جین مت، ہندو مت، اسلامی بادشاہتیں اور پھر گورا راج۔ سب سے زیادہ پذیرائی مجھے مغلوں کے دور میں ملی۔ جب میں لاہور شہر کے شمال میں واقع شاہی قلعے کے عقب میں بہتا تھا۔کیا لطف تھا زندگانی کا۔ بس میرے پاس تخت نہیں تھا۔ باقی سب وسائل تھے۔ بارہ دری میں چاند نکلتے تھے اور ستارے ٹکٹکی باندھے محو تماشا ہوتے تھے۔ میں اپنی مستی میں تھا۔ جب جی چاہتا لہراتا ہوا کنارے کی بستیاں روند دیتا۔ شاید یہ غرور مجھے لے ڈوبا۔ عام خیال ہے کہ دریا یا تو کسی دوسرے دریا سے جا ملتا ہے۔ یا کسی بحر یا بحیرے میں جا
میں راوی ہوں۔ میں پہلے دریا ہوا کرتا تھا۔اب سے صرف روایات بیان کرنے والا ہوں۔ حلف اٹھا کر کہتا ہوں کہ صرف سچ اور آنکھوں دیکھی کہوں گا۔ علماء سو کی طرح روایات گھڑنے میں مجھے کوئی دل چسپی ہے اور نہ ہی حوروں کے خواب سنانے میں۔ بس۔۔ جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتا رہوں گا۔۔ کون یقین کرے گا اور کس سے کہوں گا کہ میں پہلے بہتا تھا۔ بہتے بہتے رونے لگا اور پھر آخر میرے اشک بھی خشک ہوتے گئے۔ اشک شوئی کی ضرورت ہی کسے تھی۔ کئی زمانا ساز دورس نگاہوں نے فی مرلہ کے حساب سے میری قیمت اس وقت سے بی وصول کرنا شروع کر دی تھی جب میں زندہ تھا۔ مجھے اپنی عمر یاد دلانے کی کیا ضرورت ہے کہ میرا ذکر ہندو مت کی ویدوں میں بھی ملتا ہے لیکن اس وقت میرا نام راوی نہیں تھا بلکہ ریگ ویدا کے حوالے سے بھگت کبھی مجھے اراوتی اور کبھی پروشنی کے نام سے پکارتے تھے۔ میری پیدائش ضلع
بادشاہی مسجد میں اس سکون کی کمی تھی اور اس کی وجہ وہاں کی انتظامیہ کا چیخنا چنگھاڑنا، چندے کے لیے مجبور کرنا اور مسجد کا کمرشل کلچر تھا۔ وہاں جا کر انسان کا موڈ ہی خراب ہوتا ہے۔ سکون نصیب نہیں ہوتا۔
شاید مسجد انتظامیہ کو اس مسجد کو دوبارہ سے مسجد بنانے کی ضرورت ہے جہاں لوگ خوشی خوشی جائیں اور خوشی خوشی واپس اپنے گھروں کو جائیں۔
تھا اور اس کی حفاظت پر مامور شخص لوگوں کو اس میں پیسے ڈالنے کے لیے مجبور کر رہا تھا۔ ہم نے وہاں پیسے نہیں دیے۔ ایک بار چندہ دینا کافی تھا۔ یہ صندوق کیوں رکھے جاتے ہیں، ان میں کتنا پیسہ آتا ہے اور ان میں آنے والا پیسہ کہاں جاتا ہے یہ ہم سب کو پتہ ہے۔
مسجد سے باہر نکل کر جوتے واپس لیے۔ ان کی حفاظت کے لیے دکان دار کو ادائیگی کی۔ اس وقت مجھے چین کی مساجد یاد آئیں۔ کسی مسجد میں جوتوں کی حفاظت کے لیے لوگوں سے پیسے نہیں مانگے جاتے تھے۔ کسی مسجد میں لوگوں کو مجبور کر کے چندہ نہیں مانگا جاتا تھا۔ کوئی پیچھے پیچھے نہیں آتا تھا۔ مسجد میں تصاویر بناؤ یا نماز پڑھو، کوئی کچھ نہیں کہتا تھا۔ وہاں کی مساجد آرام دہ اور پرسکون لگتی تھیں۔
بادشاہی مسجد میں اس سکون
ر رہے تھے۔
اس کے بعد وہ اس صندوق کے ساتھ ایسے کھڑے ہو گئے کہ ہال سے نکلتے ہوئے ہر انسان ان کی موجودگی سے شرمندہ ہو کر کچھ نہ کچھ اس میں ڈال کر ہی باہر نکل رہا تھا۔ میں نے اپنے دوست کو کچھ روپے اس صندوق میں ڈالنے کے لیے دیے۔
اس سے اگلے ہال میں مقدس تبرکات زیارت کے لیے رکھے ہوئے تھے۔ وہاں لوگوں کے چلنے کے لیے رکاوٹوں کی مدد سے رستہ بنایا ہوا تھا۔ میں اپنے غیر ملکی دوست کو ہر شے کے بارے میں انگریزی میں بتا رہا تھآ۔ وہ ہر چیز کو حیرانی سے دیکھ رہے تھے۔ شاید ان کے ہاں مقدس تبرکات نہیں ہیں۔
چین میں کسی مسجد میں جوتوں کی حفاظت کے لیے لوگوں سے پیسے نہیں مانگے جاتے، نہ کسی کو مجبور کر کے چندہ لیا جاتا ہے۔ مسجد میں تصاویر بناؤ یا نماز پڑھو، کوئی کچھ نہیں کہتا۔
اس ہال کے اخراج پر بھی چندے کے لیے ایک بڑا سا صندوق پڑا ہوا تھا اور اس
بھی پورا ہو جائے۔ ایسا نہیں ہو سکتا تو سکیورٹی کا نظام ہی بڑھا دیں جو دیواروں پر لکھنے کو واقعی منع کرے۔
راہداری سے نکل کر ایک ہال میں داخل ہوئے۔ وہاں ہاتھ سے کڑھا ہوا قرآنِ پاک زیارت کے لیے رکھا ہوا تھا۔ اس ہال میں مامور آدمی چیخ چیخ کر سب کو ہال کی دیواروں کے ساتھ کھڑے ہونے کا کہہ رہا تھا۔ میرے خیال میں یہ کام ان کے گلے کی نسبت کچھ رکاوٹیں اور رسیاں بہتر انداز میں کر سکتی ہیں۔ہال کی دیواروں سے چند فٹ کے فاصلوں پر رکاوٹیں کھڑی کر کے انہیں رسیوں سے جوڑا جا سکتا ہے۔ اس طرح لوگ انہی کے پار رہ کر قرآنِ پاک دیکھ سکیں گے اور ان صاحب کے گلے کو بھی آ رام ملے گا۔
بہرحال اسی چیخ پکار میں وہ صاحب اس قرآن کے بارے میں بتانے لگے۔ جب ان کی سمجھ آنا شروع ہوئی تو وہ ہال کے دوسرے حصے میں رکھے چندے کے صندوق میں پیسے ڈالنے کی درخواست کر رہے تھے۔
اس
ہیں۔
راہداریوں میں صاف لکھا تھا کہ ’دیواروں پر لکھنا منع ہے‘ اور ’خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی‘ تاہم ہر دیوار پر ہمارے نوجوانوں کی محبت کے قصے لکھے ہوئے تھے۔
دیوارِ چین کے کچھ حصوں میں سیاحوں کے ایسے کاموں کے لیے بڑی بڑی چادریں لگی ہوئی ہیں۔ سیاح ان پر اپنا نام اور اس دن کی تاریخ لکھ سکتے ہیں۔ بادشاہی مسجد کی راہداریوں میں بھی کچھ ایسا ہی انتظام کیا جا سکتا ہے تاکہ مسجد کی دیواریں بھی خراب نہ ہوں اور لوگوں کا دیوار پر لکھنے کا شو
ہو گئے۔
مسجد میں داخل ہوتے ہی ہمارے پاس دو تین فوٹوگرافر آ گئے۔ ہم ابھی مسجد کا صحن دیکھ رہے تھے، وہ ہمارے سروں پر سوار ہو کر تصاویر بنوانے کی پیشکش کرنے لگے۔ اتنے میں عصر کی اذان شروع ہو گئی۔ میں نے انہیں کہا: ’بھائی، یہاں جس کام سے آئے ہیں، پہلے وہ کر لیں؟‘
وہ جی جی کرتے ہوئے ایک طرف تو ہو گئے لیکن صاف لگ رہا تھا کہ انہیں میرا ایسا کہنا برا لگا تھا۔ ہم وضو کر کے نماز پڑھنے چلے گئے۔
نماز پڑھ کر نکلے تو مسجد کی دونوں اطراف میں بنی راہداریوں کی طرف چلے گئے۔
فرش تپ رہا تھا۔ انتظامیہ نے فرش پر کچھ چٹائیوں کے ذریعے ایک حصے سے دوسرے حصے تک جانے کے لیے رستہ بنایا ہوا ہے۔ لوگ انہی پر چل کر مسجد کے ایک حصے سے دوسرے حصے کی طرف جاتے ہیں۔
مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی تعمیر کردہ بادشاہی مسجد سرخ پتھروں اور خوبصورت میناروں کی وجہ سے لاہور کی پہچان کے ساتھ ساتھ ایک سیاحتی مرکز بھی بن چکی ہے۔ لاہور آنے والا سیاح اگر یہاں نہ جائے تو اس کی سیر ادھوری رہتی ہے۔
میں بھی اس عید اپنے ایک غیر ملکی مسلمان دوست کو بادشاہی مسجد لے گئی۔ انہوں نے مسجد دیکھنے کے علاوہ وہاں نماز کی ادائیگی بھی کرنی تھی۔
ہم نے مسجد کے باہر کچھ تصاویر لیں، پھر مسجد کی طرف بڑھ گئے۔ مسجد میں داخل ہونے سے پہلے جوتے اتارنے تھے جن کی رکھوالی کے لیے کئی لوگ اپنی اپنی دکانیں سجائے ہوئے بیٹھے تھے۔ فی جوتا غالباً 50 روپے وصول کیے جا رہے تھے۔ ہم پانچ لوگ تھے، کچھ منٹ ان کے ساتھ ریٹ طے کرنے میں لگے، پھر انہیں جوتے پکڑا کر ہم مسجد میں داخل ہو
۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے حیرانگی سے فرمایا کہ تو تو سب کچھ کھا گئی ہے، اب بھی تیرا پیٹ نہیں بھرا؟؟؟ یہ جواب سن کرمچھلی بولی! کیا مہمان کیلئے میزبان کا ایسا جواب ہوتا ہے ۔ اے سلیمان! آپ خوب جان لیں کہ میرے لئے جتنا آپ نے پکایا، اتنا کھانا میرا اللہ مجھے دن میں تین مرتبہ دیتا ہے۔ جبکہ تو آج میرے کھانے میں کمی کی وجہ بن گیا ہے اور تو نے میرے کھانے میں کمی کر دی۔
یہ سننا تھا کہ اسی وقت اسی لمحے حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ رب العزت کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے اور کہنے لگے، پاک ہے وہ ذات جو مخلوقات کی روزیوں کے ساتھ کفالت کرنے والی ہے، کہ جہاں سے مخلوق جانتی بھی نہیں کہ آتا کہاں سے ہے۔beshak
رمایا کہ میں سمندر کے جانوروں سےشروع کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے بحر محیط کی ایک مچھلی کو حکم دیا کہ وہ سلیمان علیہ السلام کی ضیافت میں سے کھائے۔ چنانچہ وہ مچھلی آگئی اور حضرت سلیمان علیہ السلام سے کہنے لگی کہ میں نے سنا ہے کہ تو نے ضیافت کا دروازہ کھول دیا ہے اور آج میری ضیافت تو کرے گا؟
حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا، ہاں ایسا ہی ہے اور کھانا شروع کر۔ چنانچہ وہ مچھلی آگے بڑھی اور دسترخوان کے شروع سے کھانے لگی، مچھلی نے اس قدر کھایا کہ کچھ دیر میں جتنا بھی کھانا تھا سب کچھ اکیلے کھا گئی۔ سب کھا کر مچھلی نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو آواز لگا کر کہا، اے سلیمان! مجھے اور کھانا کھلاؤ۔
حضرت سلیمان علیہ
حضرت سلیمان علیہ السلام نے تمام جنات اور انسانوں کو حکم دیا کہ وہ تمام کے تمام ان چیزوں کو جو زمین پر حلال ہیں یعنی گائے، بیل، بکریاں، دنبے وغیرہ اور ان تمام چیزوں کو جو جنس حیوان میں سے ہیں، یعنی پرندے وغیرہ، ان کو جمع کریں۔ چنانچہ جن و انس نے ان تمام کو جمع کرلیا اور بڑی بڑی دیگیں تیار کی گئی اور پھر ان تمام جانوروں کو ذبح کر کے ان کو پکایا گیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہوا کو حکم دیا کہ کھانے پر چلے تاکہ خراب نہ ہو۔ پھر کھانوں کو جنگل میں پھیلا دیا گیا،
اس کھانے کی دعوت کی لمبائی ایک مہینے کی مسافت کے برابر تھی اور اس کی چوڑائی بھی اتنی ہی تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ سے حضرت سلیمان علیہ السلام سے دعا فرمائی تو اللہ رب العزت نے وحی نازل فرمائی۔ اے سلیمان! تو مخلوقات میں سے کس سے دعوت شروع کرے گا؟؟
حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا کہ میں
حضرت سلیمان علیہ السلام نے جب دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے دنیا کو وسیع کردیا ہے اور دنیا کی طاقت ان کے ہاتھ میں ہو گئی تو کہنے لگے۔ اے میرے معبود !! اگر آپ مجھے اجازت دیں کہ میں آپ کی تمام مخلوقات کو پورے سال کھلاؤں، تو بہترہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس وحی بھیجی کہ تو اس پر ہرگز قدرت نہیں رکھتا۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے پھر درخواست کی، یا الہیٰ!! ایک ہفتہ کے لیے ایسا ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب ملا کہ تو اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے پھر درخواست کی کہ یاللہ!! ایک دن کے لیے اجازت دے دیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ملی کہ تو اس کی بھی قدرت نہیں رکھتا لیکن ایک دن کی ضیافت کی اللہ تعالیٰ نے اجازت دے دی۔
اجازت ملنے کے بعد حضرت
ہلاک کر دیے گئے‘‘۔
’’سنو! جو لوگ یہاں موجود ہیں انہیں چاہیے کہ یہ احکام اور یہ باتیں ان لوگوں کو بتادیں جو یہاں نہیں ہیں، ہو سکتا ہے کہ کوئی غیرموجود تم سب سے زیادہ سمجھنے اور محفوظ رکھنے والا ہو‘‘۔’’اور لوگو! تم سے میرے بارے میں (اﷲ کے ہاں) سوال کیا جائے گا۔ بتاؤ تم کیا جواب دو گے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ ’’ہم اس بات کی شہادت دیں گے کہ آپ نے امانت ’دین‘ پہنچا دی اور آپ ﷺ نے حق رسالت ادا فرما دیا اور ہماری خیر خواہی فرمائی‘‘۔
end
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain