Damadam.pk
MushtaqAhmed's posts | Damadam

MushtaqAhmed's posts:

MushtaqAhmed
 

ہمیشہ چونکہ مجھ جیسے ہوتے اس لیے دستک کے ساتھ ایک ’اوئے‘ کی آواز آتی، انہیں پتہ ہوتا تھا میں دروازے کے ساتھ والی بیٹھک میں ہوں گا اس لیے ہلکی سی ’اوئے‘ دراصل کنفرمیشن سائن ہوتا تھا کہ بھائی تُو خود باہر آ، ابا اماں کے سامنے پیش ہونے والا حلیہ نہیں ہے ہمارا۔فقیر تک مہذب ہوا کرتے تھے یار، دروازے پہ رکتے، اونچی ایک آواز لگاتے، پانچ منٹ دیکھتے، کوئی باہر نہ آتا تو بڑھ جایا کرتے تھے۔ اس زمانے میں لیکن دروازے پہ آواز لگانے والا خالی بھی تو نہیں جاتا تھا۔
خیر، اب یقین کرنا مشکل ہو گا آپ لوگوں کے لیے مگر پہلی مرتبہ پیچھے پڑ کے بھیک مانگنے والے فقیر بھی میں نے کوئی تیرہ چودہ برس کی عمر میں دیکھے تھے۔ خدا رحم کرے، نوے کی دہائی تھی، راوی بے چینی لکھنا شروع ہو چکے تھے

MushtaqAhmed
 

باہر سے جائز سمجھی جاتی، اور اس بندے کو بھی پورا محلہ جانتا ہوتا تھا کہ یہ جو صاحب آواز لگاتے ہیں یہ فلاں صاحب کے قریبی دوست ہیں، اور وہ آواز بھی مختصر ہوا کرتی تھی۔
دروازے پہ مختصر آواز، یہ بھی ایک آرٹ تھا، دیکھیے ذرا ۔۔۔
ڈاکٹر صاحااااااب، ایسی طویل آواز دادا کے شاگرد یا ان کے قریبی دوستوں کی ہوا کرتی۔
جمال ۔۔۔ یہ آواز دستک کے بعد حسن انکل کی ہوتی جو ابو کے بیسٹ فرینڈ ہیں۔
نئے آنے والے ایک دو بار دستک کے بعد دروازے پہ منہ گُھسا کے کہتے، ’کوئی ہے۔‘
میرے دوست ہمیشہ چونک

MushtaqAhmed
 

ب سے چھوٹا بچہ باہر جا کے جھانکتا اور مہمان کی آمد کا سلسلہ ایک عجیب نحوست سے جڑ جاتا۔
کہاں دستک، اب سوچیے، ٹک ٹک ٹک، اور کہاں یہ مشینی قسم کی چیختی ہوئی آواز، تو شاید وہ دن تھے جب مہمانوں کا آنا زحمت میں بدلنا شروع ہوا ہو گا۔یہ بڑی باریک بات ہے، لکھ رہا ہوں تو بہت کچھ یاد آ رہا ہے، دستک کی آواز ہی کئی دفعہ طے کر دیتی تھی کہ آیا کون ہو گا، ننانوے فیصد وہ آئیڈیا ٹھیک ہوا کرتا تھا۔ کئی مرتبہ آنے والا باہر سے آواز بھی دے دیا کرتا تھا، سہولت اس سے یہ ہوتی کہ مطلوبہ بندہ ہی دروازے پہ جایا کرتا، لیکن شرفا میں یہ چلن نہیں تھا، صرف بے تکلف دوست یا فیملی فرینڈز کی آواز باہر سے جائز

MushtaqAhmed
 

چونکہ وہ زنجیر سے لٹکتا تھا، جس کا جہاں ہاتھ پڑا اس نے وہیں بجا کے دستک دے دی، اور نیچے وہ نئی کنڈی کا نشان۔ ٹک ٹک ٹک، جو کئی برس کی متواتر کھٹکھٹاہٹ کے بعد نمودار ہوتا۔
میری یادداشت کے مطابق سب سے پہلے ایک کرخت آواز کی بیل پاکستان میں آئی تھی۔ ٹرررررر، باہر آنے والا دروازے پہ لگا بٹن دباتا اور اندر پورے گھر میں بھونچال آ جاتا۔ دستک کا مزہ یہ تھا کہ آواز کسی کو آئی، کسی کو نہیں آئی، جسے آئی اس نے بڑھ کے دیکھ لیا، یہ آواز؟ یہ تو صور تھا اور مسلسل پھونکا جاتا تھا۔ سب ہڑبڑا جاتے اور ایک دوسرے کو آواز دیتے کہ بھئی دیکھو کون ہے، سب سے

MushtaqAhmed
 

ان دنوں اخبار والے سائیکل پہ آیا کرتے اور اخبار دروازے کے نیچے سِرکانے کے بعد باقاعدہ ایک تھاپ دروازے پہ دیا کرتے کہ بھئی جاگتے ہیں تو اٹھا لیجے۔
ڈور بیل کا منحوس رواج ابھی نہیں ہوا تھا۔ گھروں میں کمرے ہوتے، ان کے سامنے برآمدہ، اس کے بعد صحن، پھر ایک ڈیوڑھی اور آخر میں ایک مناسب سا لکڑی کا دروازہ۔
دروزے پر دستک دینے کے لیے اسی پہ لگی کنڈی استعمال کی جاتی تھی، بیس تیس سال بعد اس کُنڈی کا ایک الگ ہی کیریکٹر لکڑی پہ نقش ہوا کرتا تھا۔ کچھ دروازے ایسے بھی تھے جن سے ہوڑا اور زنجیر نکلوا کے بعد ان پہ کنڈیاں لگائی گئی تھیں، تو ان پہ عمر کے دوہرے ثبوت ہوا کرتے۔ اوپری حصے پہ آدھے دائرے کی صورت میں ہوڑے کا نشان ہوا کرتا، چونکہ

MushtaqAhmed
 

میری یادداشت کے مطابق سب سے پہلے ایک کرخت آواز کی بیل پاکستان میں آئی تھی۔ ٹررررر، باہر آنے والا دروازے پہ لگا بٹن دباتا اور اندر پورے گھر میں بھونچال آ جاتا۔ دستک کا مزہ یہ تھا کہ آواز کسی کو آئی، کسی کو نہیں آئی، جسے آئی اس نے بڑھ کے دیکھ لیا۔
سردیاں ہوتی تھیں، دھوپ کے آنے میں تھوڑی دیر ہوا کرتی اور اس وقت پہلی دستک اخبار والے کی سنائی دیتی تھی۔

MushtaqAhmed
 

مخلوق کی ، یہ انسان دشمن نظام اچھی طرح سمجھتا جانتا ہے کہ انسان سوال کریں گے ۔ ان کے سوالات کبھی ختم نہیں ہوں گے ۔ حاکم طبقات کو اطاعت گزار پسند ہیں ۔ شب و روز میں تمیز نہ کرسکنے والے ۔ طاقت کے سامنے جھکنے والے ۔ انسانوں کا سماج تو آگہی تحقیق اور تعمیر پر بضد ہوتا ہے”یہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں ۔ معاف کیجئے گا ہمارے حاکم طبقات کی زندگی اسی نظام کی بدولت ہے ہماری درسگاہوں کے نصاب اس نظام کو غلام فراہم کرنے کا ذریعہ ہیں ۔ شاہ لطیف رح کہتے تھے”سرمدی نغمہ اپنے خون سے غسل لے کر الاپا جاتا ہے”ہمارا نصاب اور نظام سرمدی نغمے کے اول نمبر دشمن ہیں۔
(پوری ہوگئی)

MushtaqAhmed
 

۔”بے شمار طبیب بلائے دوا دارو ہوا لیکن میرے مرض کو طبیب کیا سمجھیں گے’ دل کی بیماری کے راز طبیبوں پر نہیں یار پر عیاں ہوتے ہیں”۔”اب تو درد اور اندیشہ ہائے گوناگوں ہی اس دل کی میراث بن گئے باقی جو علم وہنر تھے سب بھول گئے۔ اس ایک تعلق پر ہم نے دنیا لٹا دی ،سب رنگ اس کی ذات کے ہیں”۔ سیدی بلھے شاہ فرماتے ہیں ”جس نے حب ذات کا ڈھول پیٹا وہی رسوا ہوا۔ آدمی تو ناواقف اسرار ہے”۔کبھی کبھی سوچتا ہوں ہماری درسگاہوں میں ان عارفوں کو کیوں نہیں پڑھایا جاتا جو انسان دوستی علم اور ایثار کو مقصد زندگی قرار دیتے ہیں ؟ تب فقیر راحموں سمجھاتے ہوئے کہتے ہیں ” ہمارے نظام کو آدمیوں کی ضرورت ہے لگڑ بگڑ قسم کی مخلوق کی

MushtaqAhmed
 

والے تالے کی چابی ہم نے کبھی تلاش ہی نہیں کی وہ جانے اور اس کے بھید۔ ہم وہی بولے جو اس نے چاہا”۔ وارث شاہ ہی کہتے ہیں”جب سب تھک ہار کے سو جاتے ہیں تب بھی وہی جاگ رہا ہوتا ہے”۔ حافظ شیرازی کہتے ہیں”حال دل بیان کرنے سے کبھی کبھی بوجھ کیساتھ آدمی کا وزن بھی کم ہوجاتا ہے۔ لازم ہے کہ حال دل فقط”اسی” سے بیان کیا جائے۔بھلے شاہ کہتے ہیں ”سب پتا چل گیا کا دعوی امانت میں خیانت ہے۔ اس کے روپ شمار کرنا تیرے میرے بس میں نہیں وہ ہر جگہ موجود ہے”بھیس بدلنے والے لاکھ بھیس بدلیںساجن کو جو پسند ہم اسی پر راضی ہوئے”خواجہ غلام فرید کہتے ہیں”اس دل بے قرار کی حالت کسے بیان کروں کوئی واقف حال رازدار بھی تو نہیں ملتا ”ہجر میں ہونے والی گریہ وزاری بنائو سنگھار کو کھا گئی۔ میرا راتوں کو اٹھ اٹھ کر اشکوں کے طوفان برپا کرنا تمہارے کارن ہی تو ہے

MushtaqAhmed
 

وضو کیا اور کہا”میرے محبوب تو نے کیوں اتنی دیر لگا دی۔ میری تو جان لبوں پر آگئی ہے”۔شاہ کہتے ہیں ”فقیروں کو روزحساب میں کوئی فکر لاحق ہوئی تو شمع احمد بن کر اس کے دربار میں کھڑے ہوجائیں گے”۔ ”ساجن بس تو ہی تو ہے میں تو کچھ بھی نہیں۔ اس بازیگر نے کیا خوب بازی کھیلی میں اب اس تال پر رقصاں ہوں”۔ سرمد کہتے ہیں ”ہونے ناہونے کے سارے فیصلے اسی کے ہیں ہم تو یار کے فیصلوں پر جیتے مرتے ہیں’ پیا کس دیس ملیں گے’ فیصلہ پیا کو کرنا ہے سرمد تو بس دیدار کا مشتاق ہے۔ عاشق یار کے بلاوے سے بھاگتے نہیں بلکہ ہنسی خوشی اپنی گردن جلاد کی تلوار کے نیچے رکھ دیتے ہیں”۔ بلھے شاہ کہتے ہیں”کوئی پوچھے تو دلبر کیا تماشے کرتا ہے۔ میں جس طرف بھی دیکھتا ہوں وہی دلبر ہے”۔ شاہ لطیف فرماتے ہیں”جس نے بھید سنبھال کر نہ رکھا وہی مارا گیا” وارت شاہ کہتے ہیں”بھید کے صندوق والے تالے

MushtaqAhmed
 

باہو نے ایک اور جگہ یوں کہا ”بندے کی زندگی تو بس اتنی ہے جتنی دیر پانی میں بتاشہ رہتا ہے” حسین بن منصور حلاج یاد آئے۔”ہم تو دوست کیلئے جیتے تھے اب وہی واپسی پر بضد ہے تو انکار کیوں کریں”۔ مرشدی بلھے شاہ کہتے ہیں”میں جب بھی ”ب” پر غور کرتا ہوں یا دوسروں کو سمجھنے کی کوشش تو مجھے الف کا ادراک ہوتا ہے” ہم نے تو عین ذات اور غیر ذات میں کوئی فرق سمجھا ہی نہیں۔ یہ راز بھی درحقیقت مجھے الف نے سمجھایا ہے”۔ کہتے ہیں ”بس اس ایک الف کو پڑھ سمجھ لو ساری الجھنوں سے بچ جاگے”۔ ایک اور جگہ فرماتے ہیں”لاکھ ہزاروں کتابیں پڑھ ڈالو اگر خود سمجھ نہیں سکے تو اس تک کا سفر طے نہیں کر پائوگے” سیدی ہی فرماتے ہیں”ہم نے بھی وہ جامِ عشق پوری جانچ پڑتال کے بعد پیا ہے جو شاہ(بلھے شاہ) اور منصور(حسین بن مصنور حلاج)نے لبریز کرکے پیا تھا۔ بلھے نے عشق کے جام سے وضو کیا اور

MushtaqAhmed
 

جانتے”۔ ہم جہاں رہ رہے ہیں یوں کہہ لیجئے جس عہد میں جی رہے ہیں یہاں ایسے لوگوں کی بھرمار ہے جو غیبت کو رزق بنائے پیٹ بھرتے رہتے ہیں۔ جدامجد سرکار حضرت سید جلال الدین سرخ پوش نقوی البخاری رح فرماتے ہیں”غیبت اور حسد ایسے مرض ہیں جو دیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں”شاہ حسین رح کہتے ہیں”عجز کا راستہ ہی سب سے اچھا”کون سمجھائے سرابوں کے پیچھے دوڑتے بھاگتے دنیاداروں کو ”سچ تو یہ ہے کہ شمع کے پروانوں کی طرح جل جانے سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے۔ زندگی کھیل تماشا نہیں”حق بندگی ادا کرنے کا میدان ہے اس میں فاتح وہی رہتے ہیں جو گردن تلوار کے نیچے رکھنے کا حوصلہ کرسکتے ہوں۔سلطان باہو کہتے تھے ”ایک دوست ہے اور اس کی وجہ سے لاکھوں ہمارے دشمن بن گئے ہیں۔ وہ کیا جانیں گے اس حقیقت کو کہ دوست کیلئے جینا اپنے لئے مرنے سے بہتر ہے”۔ باہو نے ایک اور جگہ یوں کہا ”بندے کی زند

MushtaqAhmed
 

گورو نانک کہتے ہیں”مجھ میں بھلا ایسی قوت کہاں ہے کہ تمہیں اپنے تدبر کے حصار میں لوں۔ میں تم پر ایک نہیں ہزار بار قربان جاں۔ جو تمہاری رضا میں ہے وہی افضل ہے”۔ یار کی رضا ہی تو سارا معاملہ ہے۔ راضی بہ رضا ہو جانا۔ طمع کے گھاٹ سے جو بچ رہے وہی راضی بہ رضا ہوئے۔ فرات کنارے اترے محبوبان خدا کے قافلہ سالار امام حریت فکر امام حسین یاد آئے۔ ارشاد ہوا ”ظلم کیخلاف جتنی دیر سے اٹھوگے قربانی اتنی ہی زیادہ دینا پڑے گی”۔ برا ہو اس عہد نفساں کا جس میں ظالم اور مظلوم کے حوالے سے معیارات الگ الگ ہیں۔ سچل تو کہتے تھے ”مظلوم کی ہمنوائی واجب اول ہے۔ اس سے بڑھ کر واجب فقط یہ ہے کہ بھوکے کو کھانا کھلایا جائے”۔ نانک کی یادوں نے پھر سے دستک دی۔ کہتے ہیں”موسم تو جوگیوں کو معلوم نہیں ہوتے”۔ سامی نے کہا تھا”دل کے موسم جوگی نہیں جانتے”۔

MushtaqAhmed
 

و شاپ اور ایڈیٹنگ کے ذریعے اپنی محرومی دکھانا ہے۔ بہتر ہے کہ ہم اپنا سبق یاد رکھیں اور تعمیری خوب صورتی کے زندگی پرور مناظر کی تہہ میں موجود خاموشی کو زبان دینے کی کوشش کریں۔کنکروں اور پتھروں کی زبان سے منظر کو بگاڑنے کی بجائے مکالمہ سیکھنے کی کوشش کریں جس کی کوششیں شروع ہو چکی ہیں۔یہ ملک جنت نظیر ہے جس کی محافظ فوج ہے۔جس کا شکریہ واجب ہے۔ چاند ہے، ساتھ اس کے ستارے بھی ہیںend

MushtaqAhmed
 

کہاوت ہے کہ رات کے کھانے نے اسے بھیڑیے کے پاس پہنچا دیا۔ساکت اور ساقط قوم کو بھیڑیے کی پہچان نہیں۔ شوروغل کی ہر کہانی مرگ انبوہ پر ختم ہوتی ہے۔ شعور و آگہی سے خالی اس شور مچاتی قوم کے غم بہت زیادہ ہیں۔تحفظات بھی ہیں لیکن حسن بیان کا سلیقہ نہیں۔ قوم کے ایک ایک فرد کے پاس شکوہ شکایات کا ایک انبار ہے۔جس کو اس نے اپنی بد دیانتی اور بے عملی کی چادر سے ڈھانپ رکھا ہے۔ہمارے اپنے پاس ایسے ہزاروں حل موجود ہیں۔لیکن یوم آزادی ناچتے گاتے گزر جاتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے، ہم یہ طے کر لیں کہ ہمیں اپنے حق کے لیے اپنی جگہ، اپنے مقام اور اپنے گھر میں حقوق و فرائض کی جنگ لڑنا ہے یا سوشل میڈیا پر فوٹو شاپ اور ایڈیٹنگ

MushtaqAhmed
 

ہ
وقت کی روانی ہے بخت کی گرانی ہے
سخت بے زمینی ہے سخت لا مکانی ہے
ہجر کے سمندر میں تخت اور تختے کی ایک ہی کہانی ہے یہ کہانی اپنے دامن میں سانحہ در سانحہ ڈیزائن بناتی جا رہی تھی۔مخالف باغی گروپ ہر دور نعرہ باز تھا کہ کب تخت اچھالے جائیں اور انارکی پھیل جائے۔تخت اور تختہ بنانے والوں کی ذہانت کو سو توپوں کی سلامی قبول ہو۔ یہاں تخت سے مراد تخت ہزارہ نہیں نہ ہی تختہ پھانسی گھاٹ ہے۔ یہ تخت وہ تخت ہے جس کے نیچے دو بندے بھی کھڑے ہو کر زور لگائیں تو تختہ بن جاتا ہے۔ جاہل ملک دشمن تختے بنانے میں مگن ہیں اور ہم سب سکوت کی بجائے "سقط "کے عالم میں ہیں۔ سقط ایسے شخص کے بارے میں بولتے ہیں جو اچھی چیز کی خواہش کرے مگر ہلاکت میں پڑ جائے۔کہاوت

MushtaqAhmed
 

استعمال سے وہ انرجی پیدا کرنے کا عمل (Metabolism) جاری رکھ سکیں۔اور اپنے لیے زندگی کے تمام تر گوشوں کو انرجی پہنچاتے رہیں تاکہ زندگی چلتی رہے۔ اسی طرح درختوں کے آنسو جب مٹی کے اندر بہنے لگتے اور لگا تار بہتے چلے جاتے تو ان کی وجہ سے آکسیجن میں کمی ہونے لگتی اور جڑوں میں قدرتی طور پر پانی سے باہر نکل کر سر اٹھانے کی جدوجہد شروع ہوجاتی تاکہ ہوا سے براہ راست آکسیجن لی جاسکے۔ اس طرح ان جڑوں سے مختلف شکلیں بننے لگتیں جو کبھی ہوا بردار ہوتیں اور کبھی حبس بردار۔ صف برداروں سے لے کر گروہ بردار تخت کو تختہ بنانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔سب جانتے تھے کہ تخت کے تو سائے ہوتے ہیں۔تختے کا کوئی ایک بھی سایہ نہیں ہوتا۔ امجد اسلام امجد نے سچ ہی تو کہا ہے کہ
وقت ک

MushtaqAhmed
 

گردن کومختلف ڈوریوں کی مدد سے حرکت دیتے ہیں۔یہ ہاتھ بھی کٹھ پتلی کی طرح کام کر رہے تھے۔ آقا دماغ ڈوریوں کی مدد سے اپنے احکامات کے مطابق ان ہاتھوں کی انگلیوں،جوڑوں اور پوروں کو حرکت دینے میں مشغول تھے۔ یہ ہاتھ دل سے فاصلے پر مضافات میں مقیم حالات کی گرد سے اٹے تھے۔ یہ گرد ہر شے پر جم چکی تھی اور اس کے ذریات کو لڑائی کا ایسا پاٹھ ازبر تھا جس کی شروعات میں کوئی امر مانع نہ تھا۔ ایسا ماحول تخلیق کیا گیا تھا جس سے لگتا کہ درختوں کی چہ میگوئیاں پودوں کی زندگی دشوار بنا رہی ہیں۔اصل میں ہوا کچھ یوں تھا کہ دلدلی علاقوں میں یا جہاں مٹی میں آکسیجن کی کمی تھی وہاں بہت سارے درختوں کی جڑوں نے آسمان کی جانب سفر شروع کر رکھا تھا اور انھیں احساس تک نہیں تھا کہ پودوں کو بھی آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے۔ انھیں زندگی کے لیے شوگر بھی چاہیے تھی۔جس کے استعمال سے وہ ان

MushtaqAhmed
 

عرفت بس یہ ہی تھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کچھ تخت تو گویا آسمان چھو رہے ہوں۔ہر طرف اڑتی دھول نے "دھول دھپا " کا سماں تخلیق کر دیا تھا۔کتنے ہی ہاتھ تھے جو رنگ برنگ تخت کو تھامے ہوئے تھے۔ کم زور، مضبوط، تھکے ہوئے، بٹے ہوئے،حرام حلال کی تمیز کیے بنا استخوانی ہاتھ جو تخت کو اٹھائے رکھنے کی خاطرخون پسینہ کیے جاتے تھے۔جے ڈی ریٹ کلف ہاتھوں کے کہانی میں لکھتے ہیں۔کہ یہ ہاتھ ہی ہیں جو سب سے پہلے گرمی،سردی،نرمی،سختی درد یا راحت کو محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔یہ حساسیت جسم کے کسی دوسرے حصے میں نہیں پائی جاتی۔ ہاتھ کے ہر مربع انچ کے اندر اعصاب کے ہزاروں آخری حصے موجود ہیں خاص طور پر انگلیوں کے سروں یا پوروں میں تو ا ن کا بہت بڑا جال پھیلا ہوا ہے۔ یہ ہاتھ اپنی طاقت اور وجود سے بے خبر پھیلے ہوئے تھے۔تماشا دکھانے والے کٹھ پتلی کے ہاتھ،پیر اور گردن

MushtaqAhmed
 

وسیع میدان میں پھولوں کا تختہ نہیں بلکہ تخت کھلے تھے۔ایسے تخت جن کی خوش بو تھی،نہ ہی کوئی رنگ تھے۔ بس تخت تھے اور اپنی خو بو سے صاف پہچانے جاتے تھے۔ ایسے تخت!! جن کی سالانہ کارگزاری کی سالگرہ منائی جاتی اور خوب رونق ہوتی۔ کسی کو یاد بھی نہ تھا کہ پہلی بار اس وسیع میدان میں ایسے تخت کب رکھے گئے تھے اور ایک اور ایک مل کر گیارہ کب ہوئے تھے۔اب تو پورا میدان گویا تخت بہ تخت نظر آتا تھا۔حد نظر تک بچھے تخت۔کئی چھوٹے چھوٹے تخت بھی معرفت کی منازل طے کر رہے تھے۔ ایسی معرفت جہاں ایک ہاتھ سے وصولنے میں دوسرے ہاتھ کی خموشی گہری ہونے لگتی۔جہاں معرفت کی بیری اگتی وہاں بھر بھر نوٹوں کی برسات ہوتی جس کی رم جھم میں بین سنائی دیتے۔کچھ مقامات کی معرفت بس یہ