Damadam.pk
MushtaqAhmed's posts | Damadam

MushtaqAhmed's posts:

MushtaqAhmed
 

لینا تصوف کی حقیقت اور اصلیت سے ناواقفیت کے سبب ہے۔
تصوف دل و دماغ کی کامل حضوری اور محبت کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنا اور سنت نبوی کی مکمل پیروی کے ساتھ ہے۔ علم و معرفت کے لیے استاد یا شیخ کی رہنمائی اور نگرانی ضروری ہے، ورنہ غلطی اور خطا کا قوی امکان ہوتا ہے۔ اسی لیے کامل شیخ کی رہنمائی بہت ضروری ہے۔ اسی لیے بڑے علماء اور اولیا اللہ نے عام متلاشیان حق کی رہنمائی کے لیے کسی کامل شیخ کی شاگردی یا بیعت پر زور دیا ہے، ورنہ شیطان استاد یا شیخ بن جاتا ہے اور وہ گمراہی کی طرف راغب کرتا ہے۔
end

MushtaqAhmed
 

ذکر و فکر کی مداومت کے ذریعے پروان چڑھتی ہے۔ یہ دونوں اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے دوپر ہیں۔تصوف ایک بے چین وجد ہے، ایک جلن پیدا کرنے والا شوق ہے، دل کی تڑپ اور روح کی اس عظیم ذات کے لیے آرزو ہے جس کی کوئی مثال نہیں۔
بد قسمتی اور عدم فہم کے باعث بعض نادان تصوف کو سمجھتے ہیں کہ یہ خاص قسم کی ٹوپی پہننے یا چادر اوڑھنے، ہاتھ میں تسبیح رکھنے کا نام ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ تصوف مذہبی گانوں اور نظموں کا نام ہے۔بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تصوف میلاد بنانا اور اولیا اللہ کے مزارات پر جانا ہے۔ یہ صرف باہمی ادب اور بزرگان دین کی محبت کی ادائیگی ہیں، لیکن ان عادات اور تقلید کو تصوف سمجھ لینا

MushtaqAhmed
 

حسد، غصے اور بدگمانی سے پاک رکھنا۔تزکیہ نفس کا اہتمام کرنا۔ تصوف نفس کو تکبر، ریا، لالچ سے پاک کرنے، اس سے مجاہدہ کرنے، اور ایمان کے اعلیٰ مراتب (مقامِ احسان)تک پہنچنے کی کوشش کرنے کا نام ہے۔
تصوف رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کو اپنانا، ان کے راستے پر چلنا، ان کی سنت کی پیروی کرنا، اور ان کے اقوال و افعال میں ان کی پیروی کرنے کا نام ہے۔ تصوف دنیا سے بے رغبتی اور دل سے دنیا کو نکال کر اللہ سے لگانے کا نام ہے۔توبہ، استغفار، اور ذکر و تسبیح کا انفرادی یا اجتماعی اہتمام کرنا۔تصوف یہ ہے کہ بندہ ہر چیز میں اور ہر حال میں حق تعالیٰ کا مشاہدہ کرے، حتیٰ کہ وہ اس مقام پر پہنچ جائے کہ وہ اللہ کے ساتھ اس مقام پر پہنچ جائے جیسا کہ اوپر حدیث میں وارد ہے۔
تصوف ایک وجدانی کیفیت ہے جو دل کی سچی محبت اور اخلاص کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہونے سے پیدا ہوتی ہے اور ذکو

MushtaqAhmed
 

: ’’یہ جبرائیل علیہ السلام تھے۔‘‘
حقیقی تصوف توحید کامل اور سنت نبوی کی قول و عمل سے پیروی کرنے کا نام ہے۔ یہ دل کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ لگانے، عبادت میں مکمل خشوع و خضوع، اخلاص، محبت، اور مخلوق خدا کے ساتھ حسن سلوک اور اخلاق کے بہترین برتائو کی تلقین کرتا ہے۔ اس میں شرک و بدعت سے دور رہنا، حلال و حرام کی حدود کا سختی سے پاس رکھنا بھی شامل ہے۔تصوف یہ ہے کہ تمہارا دل مخلوقات سے بے نیاز ہو کر صرف حق اللہ کی یاد میں مشغول ہو، فانی سے بے نیاز ہو کر باقی میں مشغول ہو، اور کائنات کی ہر شے سے بے نیاز ہو کر صرف اس کے خالق میں مشغول ہو اور اس کی رضا کے لیے اس کی مخلوق کے ساتھ اخلاق اور تواضع کا برتائو بغیر کسی لالچ یا معاوضے کی توقع کے کرو۔کسی سے نفرت نہ کرنا اور نہ کسی سے زیادتی کرنا۔ انسانوں کی عزت اور احترام کرنا، غلطیاں معاف کرنا، اور دل کو حسد،

MushtaqAhmed
 

تصوف، سلوک اور احسان کا نام ہے۔ ایک مشہور حدیث ہے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اور حدیث جبریل ؑ کے حوالے سے معروف ہے۔ حضرت عمر ؓنے فرمایا کہ ایک دن ہم مسجد نبوی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک شخص سفید لباس میں آیا اور وہ سیدھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے زانو بزانوں ہو کر بیٹھ گیا اور آپ سے سوال کیا: ’’اسلام کیا ہے؟‘‘ آپ نے فرمایا: ’’اسلام یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو، فرض زکوٰۃ ادا کرو، اور رمضان کے روزے رکھو۔‘‘ پھر اس شخص نے پوچھا: ’’احسان کیا ہے؟‘‘ آپ نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ اس شخص کے جانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’

MushtaqAhmed
 

پڑھتا ہوں‘ دس بیس تیس برگرز بنواتا ہوں‘ اتنی ہی دودھ کی بوتلیں لیتا ہوں اور کسی ایسے چوک میں جہاں بھکاری بچے زیادہ ہوتے ہیں میں یہ سامان ان میں تقسیم کر دیتا ہوں‘ انھیں اپنے سامنے کھلاتا پلاتا ہوں اوراللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں یا باری تعالیٰ مجھے اسی طرح توفیق دیتے رہو تاکہ میں اپنی اوقات کے مطابق تمہارے لوگوں کی خدمت کر سکوں اور اس کے بعد گھر واپس چلا جاتا ہوں‘‘ میں نے لپک کر اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے چوم لیا‘میں بھی اس وقت ایک ولی کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔

MushtaqAhmed
 

انھیں دینے لگا‘ تمام بچوں کو برگر مل گیا۔
اس کے بعد اس نے انھیں دودھ کی بوتلیں دے دیں‘ بچے کھڑے ہو کر برگر کھانے اور دودھ پینے لگے‘ وہ قہقہے لگا رہے تھے اور وہ اطمینان سے ان کے درمیان کھڑا تھا جب کہ میں گاڑی کے شیشے سے حیرت سے انھیں دیکھ رہا تھا‘ بچے شاید بھوکے تھے‘ انھوں نے دس منٹ میں برگر اور دودھ کی بوتلیں صاف کر دیں‘ اس نے اطمینان سے برگر کے ریپرز اور دودھ کی خالی بوتلیں اکٹھی کیں‘ کریٹ میں رکھیں اور ڈرائیور نے کریٹ اٹھا کر ڈکی میں رکھ دیا‘ وہ گاڑی میں واپس آیا اور ہم آگے روانہ ہو گئے‘ میں نے اس سے پوچھا ’’یہ کیا تھا؟‘‘ اس کا جواب تھا ’’یہ میری چھٹی نماز ہے‘ میں پانچ نمازوں کے ساتھ روزانہ یہ نماز بھی پڑھتا ہوں‘ دس بی

MushtaqAhmed
 

لجاجت سے کہا ’’آپ اگر اجازت دیں تو میں پانچ منٹ میں نماز پڑھ لوں‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا ’’سر کیوں نہیں؟ ہمارے پاس وقت ہی وقت ہے‘‘ اس نے ڈرائیور کو اشارہ کر دیا‘ ڈرائیور نے سگنل کراس کر کے گاڑی کھڑی کر دی‘ وہ گاڑی سے اترا‘ کوٹ اتار کر سیٹ پر رکھا‘ ڈکی کھولی‘ اس میں سے کریٹ نکال کرفٹ پاتھ پر رکھا اور اونچی آواز میں بھکاری بچوں کو آوازیں دینے لگا‘ ایک بچے کی نظر اس پر پڑی‘ اس نے اونچی آواز میں دوسرے بھکاری بچوں کو اسکی طرف متوجہ کیا اور اس کے بعد تمام بچوں نے گاڑی کی طرف دوڑ لگا دی اور پھر چند لمحوں میں میرا دوست بھکاری بچوں میں گھر چکا تھا‘ اس کے دائیں بائیں تین چار درجن بچے تھے اور وہ سب اونچی آواز میں قہقہے لگا رہے تھے اور اسے بار بار کہہ رہے تھے ’’چچا آج تم مجھے دو برگر دو گے‘‘ میرے دوست نے کریٹ کھولا اور اس میں سے برگر نکال کر انھیں دین

MushtaqAhmed
 

انتقال ہو گیا تھا‘ بیوی بیمار ہے‘ یہ روز بیوی کو پیمپر پہنا کر منڈی جاتا ہے‘ سبزی لاتا اور چپ چاپ یہاں بیٹھ جاتا ہے‘ سبزی بک جاتی ہے تو تین چار سو روپے لے کر گھر چلا جاتا ہے‘ کھانا بناتا ہے‘ بیوی کو نہلاتا اور پھر دونوں مل کر کھانا کھاتے ہیں‘ میں ان دونوں کی زندگی تبدیل نہیں کر سکتا‘ میں ان کے دکھ بھی کم نہیں کر سکتا لیکن میں اس کی سبزی خرید کر اسے جلدی گھر ضرور بھجوا سکتا ہوں اور میں یہ روز کرتا ہوں‘ شاید اللہ تعالیٰ کو میری یہ چھوٹی سی خفیہ نیکی پسند آ جائے‘‘ جونیئر استاد کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ اس نے سینئر کولیگ کا ہاتھ پکڑا اور اسے پاگلوں کی طرح چومنے لگا‘ اس کے سامنے بھی ایک ولی بیٹھا ہوا تھا۔
ہم بلیو ایریا سے گزر رہے تھے‘ ہمارے سامنے چوک میں بھکاری بچوں کا پورا لشکر کھڑا تھا‘ میرے دوست نے شرمندگی سے میری طرف دیکھا اور لجاجت سے کہا

MushtaqAhmed
 

کر بولا’’ میں اسی لیے اس بوڑھے کے پاس جاتا ہوںکہ اس کے پاس سبزیاں بھی کم ہوتی ہیں اور گاہک بھی‘ میں اس کا واحد گاہک ہوتا ہوں‘ مجھے محسوس ہوتا ہے میں جس دن اس کے پاس نہیں آؤں گا یہ اس دن شاید خالی ہاتھ گھر واپس جائے گا‘ پورے بازار میں اس کا کوئی خریدار نہیں ہوتا‘ یہ بھری دکانوں کے درمیان زمین پر بیٹھ کر چپ چاپ خریداروں کا انتظار کرتا ہے لہٰذا میں اس کے پاس چلا جاتا ہوں اور اس کی ساری سبزی خرید لیتا ہوں۔
جونیئر استاد نے حیرت سے یہ داستان سنی اور پھر پوچھا ’’اس سے کیا فرق پڑ جاتا ہے؟‘‘ سینئر کولیگ نے سنجیدگی سے جواب دیا ’’میری زندگی میں شاید کوئی فرق نہیں پڑتا‘ میں کسی بھی جگہ سے سبزی خرید سکتا ہوں لیکن میری اس چھوٹی سی کوشش سے اس بوڑھے کی زندگی میں بہت فرق پڑ جاتا ہے‘ یہ اور اس کی بیوی دونوں اکیلے رہتے ہیں‘ اس کی بہو اوربیٹے کا ایکسیڈنٹ می

MushtaqAhmed
 

کر واب دیا ’’ہم یہ پکاتے ہیں اور کھاتے ہیں‘‘ جونیئر استاد کا اگلا سوال تھا ’’میری معلومات کے مطابق آپ صرف دو میاں بیوی ہیں‘ کیا آپ دونوں روزانہ اتنی سبزیاں کھا جاتے ہیں؟‘‘ کولیگ نے قہقہہ لگایا اور کہا ’’ہرگز نہیں‘ میں آدھی سبزیاں محلے میں تقسیم کردیتا ہوں‘ ہمارے دائیں بائیں بہت لوگ رہتے ہیں اور انھیں بھی سبزیاں چاہیے ہوتی ہیں لہٰذا میری بیوی یہ ان میں تقسیم کر دیتی ہے۔
پوچھنے والے کی حیرت میں اضافہ ہو گیا اور اس نے پوچھا ’’لیکن آپ صرف ایک ہی بوڑھے شخص سے سبزیاں کیوں خریدتے ہیں؟ پوری مارکیٹ دکان داروں سے بھری ہے‘ ان سب کے پاس زیادہ ورائٹی ہے مگر آپ انھیں چھوڑ کر دور جاتے ہیں اور نیچے بیٹھ کر اس بوڑھے سے خریداری کرتے ہیں جسے نظر بھی نہیں آتا اور جس سے سبزیاں تولی بھی نہیں جاتیں‘‘ کولیگ نے قہقہہ لگایا‘ تھوڑی دیر رکا اور پھر مسکرا کر بولا’’ می

MushtaqAhmed
 

کتنا بڑا ولی پل رہا ہے۔
وہ دونوںاکٹھے واپس جاتے تھے‘ نوجوان استاد کے پاس سواری کا بندوبست نہیں تھا جب کہ اس کے کولیگ کے پاس گاڑی تھی لہٰذا وہ روز اسے ڈراپ کرتا تھا‘ ان کا معمول تھا وہ کالج سے نکلتے تھے‘ گاڑی میں بیٹھتے تھے اور گھر کے لیے روانہ ہو جاتے تھے‘ گاڑی کا مالک روزانہ محلے کی مارکیٹ میں رکتا تھا‘ گاڑی سائیڈ پر لگا کر اترتا تھا‘ چل کر دور جاتا تھا‘ زمین پر بیٹھے بوڑھے چھابڑی والے سے مرجھائی ہوئی سبزیاں خریدتا تھا اور پھر لفافے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر رکھ کر آگے چل پڑتا تھا‘ یہ روز کا معمول تھا‘روز ایک ہی جگہ رکنا‘ گاڑی سے اترنا‘ ایک ہی بوڑھے سے سبزیاں خریدنا اور پھر آگے روانہ ہو جانا۔
نوجوان استاد یہ منظر روز دیکھتا تھا‘ ایک دن اس سے رہا نہ گیا اور اس نے اپنے سینئر کولیگ سے پوچھ لیا ’’سر آپ اتنی سبزیوں کا کیا کرتے ہیں؟‘‘ کولیگ نے ہنس

MushtaqAhmed
 

ں کرتی‘ میں دن میں صرف ایک اچھا کام کرتا ہوں‘ میں اسے ایک مالٹا کھلا دیتا ہوں‘ میں روز دیکھتا ہوں یہ جوں ہی مالٹے کی مٹھاس محسوس کرتی ہے تو ایک لمحے کے لیے اس کے چہرے کی غربت پسپا ہو جاتی ہے اور وہاں اطمینان اور سکون کا ایک سایہ سا لہرا جاتا ہے۔
میں یہ سارا ڈرامہ اس ایک لمحے کے لیے کرتا ہوں ‘میں دن کے وقت چائے نہیں پیتا‘ اسکے پیسے بچاتا ہوں‘ موٹر سائیکل تیز چلا کر پٹرول کی بچت کرتا ہوں‘ تم سے دس بارہ روپے ادھار لیتا ہوں اور پھر مالٹوں کی رقم جمع کر کے یہاں آ جاتا ہوں‘ مالٹے خریدتا ہوں اور اس میں سے ایک اچھا اور میٹھا مالٹا تلاش کر کے اسے کھلا دیتا ہوں اور تم رضیہ یقین کرو‘ یہ میری سارے دن کی واحد نیکی ہوتی ہے‘‘ کلرک کی بیوی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ اس نے اس کا ہاتھ پکڑا اور ہونٹوں سے لگا لیا‘ اسے معلوم ہی نہیں تھا اس کے گھر میں کتنا بڑا و

MushtaqAhmed
 

بالکل مختلف تھا‘ مالٹے خریدنے کے بعد کلرک ایک صحت مند اور بڑا مالٹا چھیلتا تھا‘ اس میں سے ایک کاش توڑ کر چکھتا تھا اور پھر پورا مالٹا بوڑھی عورت کو دے کر کہتا تھا ’’یہ کھٹا ہے‘ذرا اسے چیک کرو‘‘ بوڑھی عورت چکھتی تھی اور ہنس کر کہتی تھی ’’باؤ جی یہ تو میٹھا ہے‘‘ یہ سن کر کلرک ہنستا تھا اور کہتا تھا ’’اچھا پھر یہ تم ہی کھاؤ‘‘ اور اس کے بعد موٹر سائیکل اسٹارٹ کر کے گھر روانہ ہو جاتا تھا۔
بیوی روزانہ یہ کھیل دیکھتی تھی‘ اس نے ایک دن اس سے کہا ’’تم روز یہ کیا ڈرامہ کرتے ہو‘ پکا ہوا‘ میٹھا مالٹا چھیلتے ہو اور اسے بوڑھی عورت کو دے دیتے ہو‘ مجھے تمہاری سمجھ نہیں آتی‘‘ کلرک نے ہنس کر جواب دیا ’’تم کسی دن غور سے اس عورت کے چہرے کی طرف دیکھو تمہیں اس پرغربت کے ساتھ بھوک بھی نظر آئے گی‘ اس کے پاس مالٹے کم ہوتے ہیں لہٰذا یہ اپنا پھل کھا کر چیک نہیں کرت

MushtaqAhmed
 

کھے مالٹوں کو اور وہ یعنی واپڈا کا وہ کلرک ہمیشہ اسی بوڑھی عورت سے مالٹے خریدتا تھا‘ بوڑھی عورت جس دن ریڑھی نہیں لگاتی تھی اس دن وہ خالی ہاتھ گھر چلا جاتا تھا‘ وہ کون تھا؟ وہ واپڈا میں کلرک تھا‘ سارا دن فائلوں کی بک بک میں پھنسا رہتا تھا اور شام اپنی پرانی اور تھکی ہوئی موٹر سائیکل پر گھر نکل جاتا تھا۔
لیکن نہیں رکیے وہ راستے سے اپنی بیوی کو بھی پک کرتا تھا‘ اس کی بیگم اسکول ٹیچر تھی‘ اسکول کے وقت کے بعد وہ بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی تھی اور خاوند کا انتظار کرتی تھی‘ کلرک دفتر سے نکل کر بیوی کو لیتا تھا اور پھر دونوں گھر روانہ ہو جاتے تھے لیکن نہیں نہیں‘ یہ دونوں راستے سے مالٹے بھی خریدتے تھے اور صرف اسی بوڑھی عورت سے خریدتے تھے‘ اب مالٹے خریدنا بھی کوئی جرم نہیں تھا‘ دنیا میں ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ روزانہ فروٹ خریدتے ہیں لیکن اصل مسئلہ بالکل مخ

MushtaqAhmed
 

وہ روز ایک ہی ریڑھی سے مالٹے خریدتا تھا‘ بوڑھی عورت شہر کے درمیان مالٹوں کی ریڑھی لگاتی تھی‘ عورت اور اس کی ریڑھی دونوں بوڑھی تھیں‘ عورت کے چہرے پر جھریوں کا جال تھا‘ دیکھنے میں یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کسی نے لٹھے کے رومال کو دھو کر سوکھنے کے لیے تار پر ڈال دیا ہو اور جب اسے اتارا ہو تو اس پر مچھلیاں پکڑنے والے جال کی طرح جھریاں ہی جھریاں ہوں‘ اس کی ریڑھی بھی ٹیڑھی اور بوسیدہ تھی اور اس کے پاس مالٹوں کی ورائٹی بھی زیادہ نہیں ہوتی تھی شاید دس پندرہ درجن ہوتے ہونگے لہٰذا گاہک اسکے قریب سے گزر کر دوسری ریڑھیوں کی طرف چلے جاتے تھے۔
دائیں بائیں ریڑھیاں اچھی بھی تھیں اور ان کے پاس فروٹ بھی زیادہ ہوتے تھے چنانچہ بوڑھی عورت کے دائیں بائیں گاہکوں کی ریل پیل ہوتی تھی جب کہ وہ خاموش کھڑی کبھی اپنی اجڑی ہوئی ریڑھی کو دیکھتی تھی اور کبھی سامنے رکھے مال

MushtaqAhmed
 

ا، اس نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ تو گھاٹے کا سودا ہوگا، اس کا مطلب یہ تھا کہ میں ایک حقیر اور معمولی انسان ہوں ، بھلا مجھے کون خریدے گا، آپؐ نے فرمایا: مگر تو اللہ کے نزدیک گھاٹے کا سودا نہیں ہے، بلکہ اللہ کے نزدیک تو انتہائی بیش قیمت ہے۔ (مسند احمد بن حنبل: ۲۰/۹۱، رقم الحدیث: ۱۲۶۴۹)

MushtaqAhmed
 

ا۔ آپؐ کو بھی اس سے بڑی محبت تھی، دیکھنے میں وہ بڑا معمولی سا شخص تھا، گندے سندے کپڑوں میں رہا کرتا تھا، ایک مرتبہ آپؐ بازار تشریف لے گئے، دیکھا کہ زاہر وہاں بیٹھا ہوا کچھ فروخت کررہا ہے، آپؐ چپکے سے اس کے پیچھے جاکر کھڑے ہوگئے اور اس کو دبوچ لیا، وہ خود کو چھڑانے کی کوشش کرنے لگا، اور جب اس نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ اس کے ساتھ ہیں تو اس نے آپ ؐ کے جسم اطہر سے خود کو اور قریب کرلیا ، اور چھڑانے کی جو کوشش وہ کررہا تھا اس نے وہ کوشش ترک کردی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم از راہ مذاق اسے دبوچے رہے اور پکار پکار کر کہنے لگے اس غلام کو کون خریدے گا، اس نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ!

MushtaqAhmed
 

وسلم اور حضرت ابوبکرؓ دونوں ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے، گھر پہنچ کر دیکھا کہ جابرؓ مرض کی شدت سے بے ہوش پڑے ہوئے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا اور اس کا بچا ہوا پانی ان کے اوپر چھڑکا، جس سے انہیں افاقہ ہوگیا، حضرت جابرؓ نے ہوش میں آکر دیکھا کہ دونوں حضرات ان کے قریب بیٹھے ہوئے ہیں۔ (خصائل نبوی ص:۲۹۴)
بیماروں اور ناداروں کے ساتھ
آپ کسی مریض سے دور ی اختیار نہیں فرماتے تھے، ایک مرتبہ آپؐ نے ایک جذامی کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ساتھ کھانے میں شریک کرلیا، اور فرمایا: کھاؤ، بسم اللّٰہ، وثقۃً باللّٰہ، وتوکلا علیہ۔ (اللہ کے نام پر، اس پر اعتماد اور بھروسہ کرتے ہوئے کھاؤ) (سنن الترمذی: ۴/۲۶۶، رقم الحدیث: ۱۸۱۷)
گاؤں کا رہنے والا ایک شخص جس کا نام زاہر تھا، آپؐ سے بڑی محبت کرتا تھا، اس کا معمول ہدیہ بھیجنے کا تھا۔ آ

MushtaqAhmed
 

امتیازی حیثیت اختیار کروں ، اللہ بھی اسے پسند نہیں فرماتے۔ (سبیل الہدی :۷/۱۳)
پیدل چلنے کا معمول
حالاں کہ آپ کے پاس اونٹنی بھی تھی، خچر بھی تھا، مگر آپ دور دراز کے اسفار کے لئے ہی ان جانوروں پر سوار ہوتے، قرب وجوار میں آنے جانے کے لئے پیدل چلنے کو ترجیح دیا کرتے تھے، حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں بیمار پڑا، آپؐ میری عیادت کے لیے تشریف لائے، نہ آپ خچر پر سوار تھے، نہ ترکی گھوڑے پر بلکہ پیدل چل کر تشریف لائے۔ (صحیح البخاری: ۷/۱۱۶، رقم الحدیث: ۵۶۵۱)
خصائل شرح شمائل میں ہے کہ آپ امراء وسلاطین کی طرح سواری کے عادی نہ تھے بلکہ پا پیادہ کثرت سے چلتے تھے، بخاری شریف کی روایت میں اس عیادت کا قصہ ذرا مفصل ہے، وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جابرؓ بیمار ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور