Damadam.pk
MushtaqAhmed's posts | Damadam

MushtaqAhmed's posts:

MushtaqAhmed
 

یہ حق ہے کہ وہ اپنے پاس کسی ایسے شخص کو نہ بلائیں جسے تم پسند نہیں کرتے اور وہ کوئی خیانت نہ کریں، کوئی کام کھلی بے حیائی کا نہ کریں اور اگر وہ ایسا کریں تو اﷲ کی جانب سے اس کی اجازت ہے کہ تم انہیں معمولی جسمانی سزا دو اور وہ باز آجائیں تو انہیں اچھی طرح کھلاؤ پہناؤ۔
’’عورتوں سے بہتر سلوک کرو، کیوں کہ وہ تمہاری پابند ہیں اور خود اپنے لیے وہ کچھ نہیں کرسکتیں چناںچہ ان کے بارے میں اﷲ کا لحاظ رکھو کہ تم نے انہیں اﷲ کے نام پر حاصل کیا اور اسی کے نام پر وہ تمہارے لیے حلال ہوئیں۔ لوگو! میری بات سمجھ لو، میں نے حق تبلیغ ادا کر دیا ہے‘‘۔’’میں تمہارے درمیان ایک ایسی چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ تم کبھی گم راہ نہ ہو سکو گے۔ اگر اس پر قائم رہے اور وہ اﷲ کی کتاب ہے اور ہاں دیکھو دینی معاملات میں غلو سے بچنا کہ تم سے پہلے کے لوگ انہی باتوں کے سبب ہلاک کر دیے

MushtaqAhmed
 

ئی کسی وارث کے حق کے لیے وصیت نہ کرے‘‘۔ بچہ اسی کی طرف منسوب کیا جائے گا جس کے بستر پر پیدا ہوا، جس پر حرام کاری ثابت ہو، اس کی سزا پتھر ہے، حساب کتاب اﷲ کے ہاں ہوگا۔
’’جو کوئی اپنا نسب بدلے گا یا کوئی اپنے آقا کے مقابلے میں کسی کو اپنا آقا ظاہر کرے گا اس پر اﷲ کی لعنت‘‘۔ ’’قرض قابل ادائیگی ہے، عاریتاً دی ہوئی چیز واپس کرنی چاہیے، تحفے کا بدلہ دینا چاہیے اور جو کسی کا ضامن ہے وہ تاوان ادا کرے‘‘۔ کسی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے کچھ لے۔ سوائے اس کے جس پر اس کا بھائی راضی ہو اور خوشی خوشی دے، خود پر اور ایک دوسرے پر زیادتی نہ کرو۔’’عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کا مال اس کی اجازت کے بغیر کسی کو دے‘‘۔
دیکھو! تمہارے اوپر تمہاری عورتوں کے کچھ حقوق ہیں۔ اسی طرح ان پر تمہارے حقوق واجب ہیں، عورتوں پر تمہارا یہ حق ہے کہ

MushtaqAhmed
 

امانت رکھوائی جائے تو وہ اس کا پابند ہے کہ امانت رکھوانے والے کو امانت پہنچا دے‘‘۔
’’لوگو! ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اپنے غلاموں کا خیال رکھو، ہاں غلاموں کا خیال رکھو، انہیں وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو، ایسا ہی پہناؤ جیسا تم پہنتے ہو‘‘۔دور جاہلیت کا سب کچھ میں نے اپنے پیروں سے روند دیا ہے، زمانہ جاہلیت کے خون کے سارے انتقام اب کالعدم ہیں۔ پہلا انتقام جسے کالعدم قرار دیتا ہوں۔ میرے اپنے خاندان کا ہے۔ ربیعہ بن حارث کے دودھ پیتے بیٹے کا خون جسے بنو ہذیل نے مار ڈالا تھا اب میں معاف کرتا ہوں۔
دور جاہلیت کا سود اب کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ پہلا سود جسے میں چھوڑتا ہوں، عباس بن عبدالمطلب کے خاندان کا سود ہے اب یہ ختم ہوگیا ہے۔’’لوگو! اﷲ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا، اب کوئی کسی وارث کے حق کے لیے و

MushtaqAhmed
 

چناںچہ اس آیت کی روشنی میں نہ کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت حاصل ہے نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر، نہ کالا گورے سے افضل ہے، نہ گورا کالے سے، ہاں بزرگی اور فضیلت کا کوئی معیار ہے تو وہ تقویٰ ہے۔ ’’سب انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدمؑ کی حقیقت اس کے سوا کیا ہے کہ مٹی سے بنائے گئے۔ اب فضیلت و برتری کے سارے دعوے، خون و مال کے سارے مطالبے اور سارے انتقام میرے پاؤں تلے روندے جا چکے ہیں۔
بس بیت اﷲ کی تولیت اور حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمات بدستور باقی رہیں گی۔’’اے قریش! ایسا نہ ہو کہ اﷲ کے حضور تم اس طرح آؤ کہ تمہاری گردنوں پر تو دنیا کا بوجھ لدا ہوا ہو اور دوسرے لوگ سامان آخرت لے کر پہنچیں اور اگر ایسا ہوا تو میں اﷲ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہ آ سکوں گا‘‘۔’’دیکھو میرے بعد گم راہ نہ ہو جانا کہ آپس میں کشت و خون کرنے لگو، اگر کسی کے پاس امانت رک

MushtaqAhmed
 

و آرام اور تعیش ہمارا مقصود و مطلوب نہیں ہے۔ اگر ہم ایسی سو چ لے کر جائیں تو پھر ہر بڑی تکلیف ہمیں چھوٹی نظر آئے اور ہمیں یہ احساس ہو کہ حج کے لیے اتنا بڑا اجر اسی تکلیف و مشقت کا انعام ہے۔
منشورانسانیت
حضور نبیٔ کریم ﷺ نے فرمایا:
’’لوگو! میری بات سنو، میں نہیں سمجھتا کہ آئندہ کبھی ہم اس طرح کسی مجلس میں یک جا ہو سکیں گے۔
لوگو! اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ انسانو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہیں جماعتوں اور قبیلوں میں بانٹ دیا تاکہ تم الگ الگ پہچانے جاسکو، تم میں زیادہ عزت و کرامت والا اﷲ کی نظروں میں وہی ہے جو اﷲ سے زیادہ ڈرنے والا ہے‘‘۔

MushtaqAhmed
 

صعوبتیں، زاد راہ کی دشواریاں، موسم کی ناگواریاں، نکیلے پتھروں اور کانٹوں پر چلنا، پانی کی عدم دست یابی، وسائل کی کمی وغیرہ تھی، جب کہ آ ج مادی لحاظ سے زیادہ راحتیں، بلکہ تعیشات موجود ہیں، لیکن مشقت کی روح آج بھی موجود ہے۔ اس مشقت کا سب سے بڑا سبب انسانوں کا ہجوم، ان کی آسائشوں اور تعیشات کا دل دادہ ہونا، محنت ومشقت کا عادی نہ ہونا، جذبۂ ایثار و قربانی کا فقدان، صرف اپنی ذات اور اپنے مفادات کا اسیر ہونا وغیرہ ہیں۔ چناں چہ آ ج طواف، سعی اور رمی جمرات اور منیٰ میں حادثات پہلے سے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ حاجی جب حج سے واپس آتا ہے تو اس کی زبان پر شکایات ہوتی ہیں۔
یہ طرز فکر وعمل اس لیے ہے کہ ہم ذہنی طور پر اس عمل کے لیے تیار ہو کر نہیں جاتے کہ ہم ایک سپاہی کی طر ح ’کیمپ لائف‘ میں جارہے ہیں اور ہمیں ایک بڑی مشقت کے عمل سے گزر نا ہے۔ راحت و آ

MushtaqAhmed
 

اور اس دوران نہ تو شہوت رانی کی اور نہ ہی گنا ہ کیا تو وہ گنا ہوں سے ایسا پاک وصاف ہوکر لوٹے گا جیسے اپنی پیدایش کے دن گناہوں سے پا ک تھا۔‘‘
ایسے ہی کامل و مکمل حج کو تاج دار انبیاء ؐ نے ’حج مبرور‘ قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’حج مبرور کی جزا جنت کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔‘‘اگر ہم نے حج سے یہ مقصد حاصل نہ کیا تو گویا ہم نے حج کی حقیقت کو سمجھا ہی نہیں، ایسی بے رخ عبادات صرف صورتاً عبادات ہوتی ہیں، حقیقتاً نہیں۔
حج: مشقت کی عبادت ہے
حج بنیا دی طور پر مشقت کی عبا دت ہے۔ اس کی یہ کیفیت آج سے ہزار سال پہلے بھی تھی اور آج بھی ہے۔ ما ضی میں سفر کی صعوبتیں

MushtaqAhmed
 

طور پر ایک عہدوپیمان اور تجدید وفا کا عزم کرکے، صرف سلا ہوا لباس ہی نہ اتارے، بلکہ گناہ کا وہ لباس بھی اتار پھینکے جس میں وہ سر تا پا جکڑا ہوا ہے۔ صر ف دو سفید چادروں پر مشتمل اجلا لباس ہی نہ پہنے، بلکہ ایمان و ایقان اور کردار کو بھی اتنا ہی صاف اور پاکیزہ بنا دے۔ اپنے آپ کو، اپنی رو ح اور جسم کو بھی اسی فطرت سلیم کے سانچے میں ڈھا ل لے جس پر خالق نے اسے پہلے روز تخلیق فر مایا تھا۔
رسول کریم ؐ کا فرمان ہے:’’ہر بچہ دین فطرت پر پیدا ہو تا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔‘‘
یعنی حج کا لباس بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ انسان اپنے آ پ کو گناہوں کی ان آلودگیوں سے دور کرکے جو معاشرے نے اس پر تھوپ دی ہیں، فطرت سے قریب تر، بلکہ اس کے عین مطابق ہوجائے۔
رسول عربیؐ نے ارشاد فرمایا:’’جس نے خالص اﷲ کی رضا کے لیے حج کیا اور اس

MushtaqAhmed
 

اور اس کے گرد طواف کرنے کا حکم دیا، تاکہ ہم پر کعبے کی برکات کے طفیل اس کی رحمتوں، برکتوں اور انوار و تجلیات کا نزول ہو۔
دوسری حکمت یہ ہے کہ ہماری عبا دت کے لیے مرکزیت، ایک نقطۂ ارتکاز تو جہ ہو، تاکہ ہم مختلف سمتوں کی جا نب بھٹکنے سے محفوظ رہیں۔ اطراف عالم کے مسلمانوں میں ایک مثالی وحدت اور یک رنگی پیدا ہوجائے۔ حضور نبی پاکﷺ نے اسی قبلے کو مومن کی شناخت اور پہچان کا وسیلہ قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’جس نے ہماری طرح نماز پڑھی، ہمارے قبلے کی جانب عبا دت میں رخ کیا اور ہمارا ذبیحہ کھایا تو وہ ظاہری علامات کے اعتبار سے مسلم ہے۔‘‘
حج: زندگی میں تبدیلی کا فیصلہ کن موڑ
اسلام چا ہتا ہے کہ حج مومن کی زندگی میں تبدیلی لا ئے، بلکہ ایک فیصلہ کن موڑ بن جائے،گناہوں کو ترک کرکے پاکیزہ زندگی گزارنے کا نقطۂ آغاز ہو۔ بند ہ اپنے رب سے شعوری طور پر ایک

MushtaqAhmed
 

بھرپور مظاہرے کا نام ہے ، اور اس عزم کے عملی اظہار کا نام ہے کہ اگر اﷲ تعالیٰ کے دین کا تقاضا ہوا تو ہم حضرت ابراہیمؑ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنا سب کچھ اﷲ کی را ہ میں لٹانے کا عزم رکھتے ہیں اور حج اسی عزم مصمم کے اظہار کا نام ہے۔ اگر یہ ’’روح حج‘‘ ہما رے قلب وقالب میں صحیح معنیٰ میں اتر گئی تو ہم نے مقصد حیات پالیا، ورنہ محض مشقت سفر کے سوا اور حکم الٰہی کی ظاہری تعمیل کے سوا ہمارے ہاتھ کچھ نہ آیا۔
کعبہ معبود نہیں، جہت عبادت ہے
جب ہم عین بیت اﷲ کی چوکھٹ کے سامنے سجدہ کررہے ہوں تب بھی بیت اﷲ ہمارا مسجود و معبود نہیں ہوتا، مسجود و معبود تو صرف اﷲ کی ذات ہوتی ہے، بیت اﷲ تو صرف ’جہتِ سجدہ ‘ ہوتا ہے اور اﷲ تعالیٰ نے غالباً اس میں حکمت یہ مستور رکھی ہے کہ کعبے کو اپنے انوار و تجلیات کا مرکز بناکر ہمیں اس کی جانب رخ کرکے نماز پڑھنے اور اس کے

MushtaqAhmed
 

کاٹ رہے ہیں؟ دو پہاڑیوں کے درمیان دوڑ رہے ہیں؟ ایک خاص دن اور تا ریخ کو ایک خاص مقام پر پو را شہر آباد ہوتا ہے اور شام کو اجڑ جاتا ہے۔ لاکھوں لو گ پتھروں کے علامتی ستون پر کنکریاں برسا رہے ہیں، ایک خاص مقام پر ایک ہی دن لا کھوں لوگ جمع ہو کر لاکھو ں جانوروں کی قربانی پیش کر تے ہیں،آخر کیوں؟
یہ سارے انداز یہ بتاتے ہیں کہ حج معمول کے شب و روز کا نام نہیں، بلکہ معمول کی زندگی کو تر ک کر کے مجاہدانہ انداز سے کیمپ لائف گزارنے کا نام ہے، ایک محدود عرصے کے لیے لباس، رنگ، علاقائیت، زبان اور نسب و نسل کے تمام امتیازات کو کلی طور پر ترک کردینے کا نام ہے، یہ سب کچھ دراصل امام الانبیاء حضرت ابراہیمؑ، ان کے صاحب زادے حضرت اسمٰعیلؑ اور ان کی اہلیہ حضرت ہاجرہ کی اداؤں کو اپنانے کا نام ہے۔
عالمی اسلامی اخوت، وحدت و اتحاد اور نظریاتی ہم آہنگی کے بھرپ

MushtaqAhmed
 

حج کے معنیٰ ہیں، کسی قابل تعظیم چیز کا قصد کرنا اور اصطلاح شریعت میں عبادت کی غرض سے بیت اﷲ کے قصد کو حج کہتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’بیت اﷲ کا حج کرنا لوگوں پر اﷲ کا حق ہے، جو بھی وہاں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔‘‘
رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جو شخص سفر خر چ اور سواری پر قادر ہو، جس کے ذریعے وہ بیت اﷲ تک پہنچ سکے اور اس کے باوجود وہ حج نہ کر ے تو عملاً اس سے کو ئی فر ق نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مر ے یا نصرانی ہوکر مر ے۔‘‘
حج: ایک کیفیت جذب و جنوں
یہ سوال ہر ذہن میں اٹھ سکتا ہے کہ طویل اور تکلیف دہ سفر کرکے مسلمانوں کو ایک مقام پر جمع کرنے میں آ خر کیا راز پنہاں ہے؟ سب لوگوں کو ان کا روایتی لباس اتروا کر دو چا دریں پہنا دینے میں کیا مصلحت ہے؟ آخر اس میں کیا حکمت ہے کہ لاکھو ں انسان دیوانہ وار پتھر کی ایک عمارت کے گرد چکر کاٹ

MushtaqAhmed
 

مربوط نظام بھی عطا کیا جن کا حقیقی مقصد مومن کے قلب میں اس جامع تصور عبادت کو ابھارنا ہے۔ یہ عبادات تین اقسام پر مشتمل ہیں۔
(1) خالص بدنی عبادات: جیسے نماز اور روزہ، یہ بہرصورت ہر بندے کو خود ادا کرنی ہوتی ہیں اور ان میں نیابت کا کوئی تصور نہیں۔
(2) خالص مالی عبادت: جیسے زکوٰۃ اور فطرہ وغیرہ، ان میں نیابت چل جاتی ہے، یعنی کوئی فرد دوسرے کا وکیل یا نمائندہ بن کی بھی ادا کرسکتا ہے۔
(3) مخلوط عبادات: یعنی جو بدنی بھی ہوں اور مالی بھی، اس میں بھی اصل رو ح تو یہی ہے کہ بندہ خود ادا کر ے، لیکن اگر مجبوری کے باعث خود ادا نہ کرسکتا ہو تو اس کی نیابت میں اس کے مصارف پر دوسرا قابل اعتماد آدمی بھی کرسکتا ہے، اسے ’’حج بدل‘‘ کہتے ہیں۔
حج کے معنیٰ و مفہوم
لغت میں حج کے

MushtaqAhmed
 

اسلام کی کامل روح تو یہ ہے کہ بندۂ مومن کی زندگی مجسم عبادت بن جائے، اس کی چال ڈھال، رفتار و گفتار، نشست و برخاست، انفرادی و اجتماعی معاملات، حتیٰ کہ ہر شعبۂ زندگی اور ہر لمحۂ حیات میں اﷲ تعالیٰ کی مکمل بندگی اور اس کے رسول ﷺ کی کامل اطاعت کی جھلک نظر آئے۔
ہم نے اپنی زندگی کو دین اور دنیا کے نام سے جن دو خانوں میں تقسیم کردیا ہے، اس کا خاتمہ ہوجائے۔ اگر ہر مسلمان اپنی زندگی کو اﷲ اور اس کے رسول ﷺکی رضا اور اطاعت کے قالب میں ڈھال لے اور اس کا وجود اﷲ کے بندوں کے لیے وسیلۂ رحمت بن جائے تو اس کی معیشت، تجارت اور سیاست، سب عبادت بن جائے گی اور خوف خدا اور اخلاقی گرفت سے عاری زندگی جو انسانیت کے لیے باعث آزار بن گئی ہے، اس سے نجا ت مل جائے گی۔ لیکن اس عمومی اور جا مع و کامل تصور عبادت کے ساتھ اسلام نے رسمی عبادات کا ایک حکیمانہ اور مربوط

MushtaqAhmed
 

و؟حالانکہ اللہ توآسمان اورزمین میں، جوکچھ بھی ہے اُس سب سے خوب واقف ہے بلاشبہ اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے یہ لوگ آپ ﷺ پر احسان جتاتے ہیںکہ اِنہوں نے اسلام قبول کر لیااِن کو بتا دیں کہ تُم اپنے اِسلام لانے کا اِحسان مجھ پر نہ جتاﺅ بلکہ اللہ نے تُم پراِحسان کیا ہے کہ اُس نے تُمھیں ایمان کی توفیق بخشی اگرتم سچے ہو تو تمھارا دل بھی اس بات کی گواہی دے گا۔بے شک !اللہ آسمانوں اورزمین کی سب پوشیدہ چیزوںکوجانتاہے اورجوکچھ بھی تُم کررہے ہو اللہ اُسے مسلسل دیکھ رہاہے“۔ آئیں آج سے ہم سورة الحجرات کے اللہ کے احکامات کو اپنی زندگی میں شامل کریں اور ایک فلاحی اسلامی ریاست کی بنیاد رکھیںend۔

MushtaqAhmed
 

زیادہ عزت والا تو وہ ہے جو بُرائیوںسے دُور رہ کر اللہ کی ناراضگی سے بچتارہا بلاشبہ اللہ کو ہر چیز کا علم ہے اور وہ سب سے باخبر ہے“۔پھر سورة کے آخر میںاللہ فرماتاہے” یہ دیہاتی لوگ کہتے ہیںکہ ہم ایمان لے آئے ہیں اِن کو بتا دو تم ایمان نہیںلائے ہو بلکہ یہ یوںکہیں،کہ ہم نے اِسلام قبول کرلیاہے کیونکہ ایمان تو تمھارے دِلوں میں داخل ہی نہیں ہوالیکن اگر تم اللہ اوراُس کے رسول ﷺ کی فرمانبرداری کرﺅ تواللہ تُمھارے اعمال کے اجر میںذرابھی کمی نہیںکرئے گابے شک اللہ بڑا معاف کرنے والا اوررحم کرنے والاہے ۔ مومن تو بس وہی ہیںجو اللہ اوراُس کے رسولﷺ پرایمان لائیں،پھر کسی شک میںنہ پڑیںاوراپنی جانوں اورمالوں سے اللہ کی راہ میںجدوجہد کریں یہی لوگ اپنے ایمان کے دعویٰ میںسچے ہیں۔اِن دیہاتی لوگوں سے پوچھئے! کیا تُم اللہ کواپنے دین دار ہونے کی اطلاع دے رہے ہو؟حالان

MushtaqAhmed
 

رہتے ہیں اور دُوسروں کی پیٹھ پیچھے بُرائی کرتے ہیں ۔اللہ فرماتے ہیں”اور نہ ہی لوگوں کی بُرائیوں کاکھوج لگاتے پھرو اور نہ ہی تُم میں سے کوئی کسی کی پیٹھ پیچھے بُرائی کرئے۔کیا تُم میں سے کوئی یہ چاہے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے؟یقیناََ تُمھیں اِس سے کراہت آئے گی لہذا اللہ کی ناراضگی سے ڈروبے شک اللہ تو بہت ہی توبہ قبول کرنے والا اوررحم کرنے والاہے“۔پھر ایک اور اہم معاشرتی بیماری کی طرف اللہ نے ہماری توجہ دلائی ہے ہم قوم ،خاندان ونسل ،علاقہ کی بنیاد پر اپنے آپ کو بلنددرجات دیتے ہیںکہ ہم ان سے افضل ہیں مگر اللہ کے ہاں بلند ترین فضیلت رکھنے والا صرف وہ ہے جوتقوی کے بلندمقام پر ہو ۔اللہ تعالی ٰ نے کچھ یوں اس سورة میںہی فرمایا ہے”پھر تُمھیں مختلف قوموں اور خاندانوں میںتقسیم کیا تاکہ تُم ایک دُوسرے کی پہچان کرسکوتُم میں سے اللہ کے ہاںزی

MushtaqAhmed
 

نکالنے اور ایک دُوسرے کو بُرے بُرے ناموں سے پکارنے والوںکے لیے اللہ اس سورة میں فرماتاہے”اور نہ ہی ایک دُوسرے میںعیب نکالواورنہ ایک دُوسرے کو بُرے ناموں سے پکارو۔ایمان لانے کے بعدبُرائی کانام لینابھی بہت بُری عادت ہے اب جو بھی ایسے کاموںسے توبہ نہیں کرئےگا وہی ظالموں میں شمار ہوگا“۔پس ظالموں کی نشانیوں میں سے ایک یہ کہ دُوسروں کی ذات میں عیب نکالنا اور بُرے ناموں سے اپنے مسلمان بھائی کو پکار کر چھیڑنا اس کی دل آزاری کرنا ہے۔اللہ کے نزدیک یہ سخت گناہ ہے اوراللہ اس کو ناپسندید ہ قرار دیتاہے۔ہمارے معاشرے میں یہ بیماریاں تو عام ہیں۔بہت زیادہ گمان کرنے والوں کے بارے میںاللہ فرماتے ہیں”اے لوگو جو ایمان لائے ہوبہت زیادہ گمان کرنے سے بچوبلاشبہ بعض گمان تو صرف گناہ ہیں “۔اور ان مسلمانوں کے بارے میں حکم دیا جو لوگوںکی بُرائیوںکا کھوج کرتے رہتے ہیں او

MushtaqAhmed
 

کہ وہ اللہ کے فیصلے کی طرف لوٹ آئے پھر اگر وہ لوٹ آئے تو اِن کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کروادو اور ہرمعاملے میں انصاف سے کام لیا کرﺅ کیونکہ انصاف کرنے والے اللہ کو نہایت پیارے ہیں۔سب مسلمان تو آپس میں بھائی بھائی ہیں لہٰذا اپنے بھائیوںکے درمیان صلح کروادیا کرﺅ اوراللہ کی ناراضگی سے ڈرو تاکہ تُم پر رحم کیا جائے“ ۔اورایمان والوں کے لیے ہی کہا ہے کہاکہ ایک قوم دُوسری قوم کامذاق نہ اُڑائے ۔اللہ فرماتے ہیں”اے لوگوں جو ایمان لائے ہو! ایک قوم دُوسری قوم کا مذاق نہ اُڑائے ہو سکتاہے جس قوم کا مذاق اُڑایا جارہاہو وہ اُن سے بہتر ہوں۔ہو سکتاہے جس قوم کا مذاق اُڑایا جارہاہو وہ اُن سے بہتر ہوں“ اور عورتوں کے بارے میں کہا کہ”اور نہ ہی عورتیں دُوسری عورتوں کا مذاق اُڑایں ہوسکتاہے جن کا مذاق اُڑایا جارہاہو وہ اُن سے بہتر ہوں“۔اور دُوسروں کے عیب نکالنے اور ا

MushtaqAhmed
 

جاﺅ۔اچھی طرح سمجھ لو کہ تمھارے درمیان اللہ کے رسول ﷺ موجود ہیں۔اگر وہ بہت سے معاملات می تہمھارامشورہ مان جائیں تو تُم خودہی مشکل میں پڑجاﺅ مگر کیونکہ اللہ نے تمھیں ایمان کی محبت عطا کی ہے اورتُمھارے دلوں کو اِس سے مزین کردیا ہے جس کی وجہ سے کفر،گناہ اورنافرمانی کے کام تمھاری نگاہوں میں ناپسندیدہ بنا دیے گئے ہیں۔ یقین جانو!یہی وہ لوگ ہیں جو سیدھی راہ پرہیں جوکہ صرف اللہ کے فضل اور نعمت کا نتیجہ ہے اوراللہ ہی ہر چیز کا جاننے والا،کمال حکمت والاہے“۔ ایک ہی معاشرہ میں مسلمانوں کے دوگروہ کے درمیان اختلاف بھی ہو سکتاہے اوراِن کے درمیان جھگڑا بھی ہوجاتاہے ۔اللہ اسی سورة میں رماتے ہیں”اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو اُن کے درمیان صلح کروا دیا کرﺅ پھر اگر ایک گروہ دُوسرے سے زیادتی کرئے تو اُس گروہ سے لڑﺅ جو زیادتی کررہا ہے یہاں تک کہ وہ ا