Damadam.pk
MushtaqAhmed's posts | Damadam

MushtaqAhmed's posts:

MushtaqAhmed
 

: ۱۳۱۲)
گھریلو کاموں میں معاونت
حضرت عائشہؓ سے کسی نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں کس طرح رہا کرتے تھے، آپ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام انسانوں کی طرح ایک انسان تھے، اپنی بکریوں کا دودھ خود نکال لیا کرتے تھے، اپنا کام خود کرلیا کرتے تھے۔ (الادب المفرد ص:۱۶۵) ایک مرتبہ آپؐ ساتھیوں کے ساتھ کسی سفر میں تھے، کھانے کے لئے بکری ذبح کی گئی، تمام ساتھیوں نے کھانا پکانے کے کام تقسیم کرلئے، کسی نے کھال اتارنے کا کام اپنے ذمے لیا، کسی نے بوٹیاں بنانے کا، کسی نے پکانے کا، آپ نے فرمایا لکڑیاں اکٹھی کرکے میں لاؤں گا۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپؐ رہنے دیں ، یہ کام بھی ہم میں سے کوئی کرلے گا، آپؐ نے فرمایا: میں جانتا ہوں تم یہ کام بھی کرلوگے مگر مجھے یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ میں لوگوں میں امتیازی حیثیت اختیار

MushtaqAhmed
 

سلموں کے ساتھ بھی اسی طرح تواضع اور اخلاق سے پیش آیا کرتے تھے۔ حضرت انسؓ نے ایک یہودی بچے کا واقعہ بیان فرمایاہے، یہ لڑکا آپؐ کی خدمت میں رہا کرتا تھا، ایک دن خبر ملی کہ وہ یہودی بچہ بیمار ہے، آپ عیادت کے لئے اس کے گھر تشریف لے گئے اس کے سرہانے تشریف فرما ہوئے، اس کے سر پر دست شفقت رکھا اور فرمایا: اسلام لے آؤ! بچے نے باپ کی طرف دیکھا، گویا اجازت مانگ رہا ہو، باپ نے کہا: ابو القاسم کا حکم مان لو، بچّے نے اسلام قبول کرلیا، آپؐ باہر تشریف لائے اورساتھیوں سے فرمایا: اللہ کا شکر ہے اس نے بچے کو آگ سے بچا لیا۔ (صحیح البخاری: ۲/۹۴، رقم الحدیث: ۱۳۵۶)
ایک مرتبہ آپؐ تشریف فرما تھے، اتنے میں ایک جنازہ گزرا، آپؐ جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوگئے، لوگوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ تو یہودی کا جنازہ تھا، آپؐ نے فرمایا: کیا یہودی انسان نہیں ہوتے۔ (صح

MushtaqAhmed
 

رہی۔ کچھ دیر بعد آپؐ نے فرمایا: عدی آؤ میرے ساتھ گھر چلو، باقی باتیں وہیں بیٹھ کر ہوں گی۔ عدی ساتھ ساتھ چلے، راستے میں ایک بوڑھی عورت ملی، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک لیا اور گفتگو کرنے لگی، آپؐ اس کی باتیں غور سے سن رہے تھے، جب تک اس نے اپنی بات پوری نہ کرلی آپؐ پوری بشاشت کے ساتھ اس کی طرف متوجہ رہے۔ عدی نے یہ منظر دیکھا تو متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا، اسے یقین ہوگیا کہ اتنی متواضع اور بااخلاق شخصیت کسی دنیا دار بادشاہ کی نہیں ہوسکتی بلکہ یہ اخلاق اور تواضع کسی نبی کا ہی ہوسکتا ہے۔ اس منظر نے عدی کے دل میں ایسا گھر کیا کہ وہ اسلام قبول کئے بغیر نہ رہ سکے۔ (السیرۃ النبویہ لابن ہشام: ۴/۲۲۴)
غیر مسلموں کے ساتھ بھی اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ:
آپؐ کے یہ اعلیٰ اخلاق صرف مسلمانوں کے لئے ہی نہیں تھے بلکہ آپ غیر مسلموں کے

MushtaqAhmed
 

عدی بن حاتم کا قصہ
عدی بن حاتم عرب کے مشہور سخی حاتم طائی کا بیٹا تھا، اس کی بہن سفانہ قید ہوکر مدینے آئی تھی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم ہوا کہ سفانہ حاتم کی بیٹی ہے آپؐ نے اس کے ساتھ حسن سلوک کیا، اسے بھی رہا کردیا اور اس کے ساتھ جو دوسرے قیدی تھے انہیں بھی رہا فرمادیا۔ سفانہ نے واپس جاکر اپنے بھائی عدی کو خوب لعنت ملامت کی اور اسے ترغیب دی کہ وہ مدینے جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرے۔ بہن کی ترغیب پر عدی مدینے حاضر ہوا۔ اس وقت مکہ فتح ہوچکا تھا۔ مال غنیمت کی صورت میں مال ودولت کا دریا بہہ رہا تھا، عرب کی اکثریت اسلام کے دامن رحمت میں آچکی تھی۔ عدی مدینے پہنچے تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبویؐ میں تشریف فرما تھے، کچھ دیر تو وہیں بیٹھے رہے اور بات چیت ہوتی رہی۔

MushtaqAhmed
 

اس کی سانسیں ختم ہوچکی ہیں۔ وہ زندگی کو الوداع کہہ چکا ہے۔ اس کے ہاتھ سے کدال الگ کر لی جاتی ہے۔ ایک صدا گونجتی ہے ’’اس کی قبر کھود دو اسے صرف دو گز زمین کی ضرورت تھی‘‘۔
endd

MushtaqAhmed
 

کامیابی کی امید ہونے لگتی ہے وہ سوچتا ہے کہ چونکہ اب وہ مجھے دکھنے لگے ہیں لہٰذا میں پہنچ جائوں گا۔ وہ فیصلہ کرتا ہے کہ اپنے بدن کی تمام طاقت کو استعمال کرکے اس مرحلے کے بھی پار پہنچے گا۔ وہ پھر بھاگتا ہے۔ جسم وجان کی پوری طاقت کے ساتھ۔ وہ دوڑتا ہے، وہ دوڑتا ہے وہ اور دوڑتا ہے۔ آخر کار وہ نقطہ آغاز پر پہنچ جاتا ہے لیکن اس وقت جب سورج ڈھل چکا ہوتا ہے۔ پھر بھی وہ دیکھتا ہے کہ اب بھی سارے بشکی اس کی ہمت بڑھا رہے ہوتے ہیں۔ وہ سمجھ جاتا ہے کہ پہاڑی کی اونچائی پر سورج ڈھلتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اپنی تمام طاقت مجتمع کرکے بالآخر وہ پہاڑی کے نقطہ آغاز پر پہنچ کر، بے دم ہوکر گر پڑتا ہے۔ سب لوگ تالیاں بجاتے ہیں۔ اس کی کامیابی پر خوش ہوتے ہیں۔ جب وہ پیکھم کو سیدھا کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اس کے منہ سے خون کی دھار بہہ رہی ہے۔ اس کی سانسیں ختم ہوچکی

MushtaqAhmed
 

الت بگڑنے لگتی ہے۔ سورج عین اس کے سر کے اوپر چمک رہا تھا۔ اسے اندازہ ہوجاتا ہے کہ ہدف کا حصول بہت مشکل ہے۔ آٹھویں میل سے ہی وہ واپس مڑنے کا سوچتا ہے کہ اس سے زیادہ کی اس میں ہمت نہیں تھی لیکن زیادہ سے زیادہ پانے کی خواہش میں وہ پھر دوڑنا شروع کردیتا ہے۔
گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ تک وہ برابر دوڑتا رہتا ہے جس کے نتیجے میں پسینے سے شرابور ہونے کے ساتھ ساتھ چکر اور بدحواسی بھی اسے آلیتی ہے۔ وہ پھر بیٹھنے اور کچھ کھانے پینے کا فیصلہ کرتا ہے۔ اسے لگنے لگتا ہے کہ نقطہ آغاز پر واپس پہنچنا اب ناممکن ہے لیکن پھر بھی زندگی میں ملنے والے اس نادر موقع کو وہ کھونا نہیں چاہتا۔ وہ دیکھتا ہے کہ سورج بھی ڈھلنا شروع ہو گیا ہے۔ وہ بھاگتا ہے۔ پوری ہمت کے ساتھ وہ واپس دوڑتا ہے حتی کہ اسے وہ پہاڑی، بشکر لینڈ کے لوگ اور جھنڈہ دکھائی دینے لگتا ہے۔ اسے کامیابی

MushtaqAhmed
 

صورت میں ڈھل گئے۔ وہ اپنے سامنے پڑی ایک آدمی کی ننگی لاش پر ہنس رہے ہیں جو کہ اسی کی لاش تھی۔ صبح جب کدال ہاتھ میں لیے پیکھم سفر پر نکلا تو اس کے ذہن میں خواب کہیں موجود نہیں تھا۔
بشکر لینڈ کے لوگوں کے ہلّے گلّے اور سردار کی موجودگی میں نقطہ آغاز پر جھنڈا گاڑ کر پیکھم نے اپنی دوڑ کا آغازکیا۔ شروع میں وہ بہت تیز دوڑا۔ وہ جانتا تھا کہ صبح کا وقت ہے گرمی زیادہ نہیں وہ پوری طاقت سے دوڑ سکتا ہے۔ دو سے ڈھائی گھنٹے میں دس میل کا فاصلہ سیدھا طے کرکے وہ اس مقام تک پہنچ جاتا ہے جہاں سے اسے الٹے ہاتھ مڑنا تھا۔ وہاںکدال سے نشان لگا کر وہ پھر دوڑنا شروع کرتا ہے تو آہستہ آہستہ سورج کی حدت میں بھی اضافہ ہونے لگتا ہے۔ پیکھم کی ہمت کم ہونے لگتی ہے۔ تھوڑا کھاپی کرد وہ پھر دوڑنا شروع کردیتا ہے۔ الٹے ہاتھ آٹھ میل کے برابر طے کرنے کے بعد اس کی حالت بگڑنے

MushtaqAhmed
 

فے تحائف ملنے پر بشکر لینڈ کے لوگ اس کی دریا دلی سے بہت خوش ہوئے اور اس کی خوب آئو بھگت کی۔ پیکھم نے انہیں زمین خریدنے کے اپنے ارادے سے آگاہ کیا تو ان کے سردار نے کہا ’’فکر مت کرو تمہیں جتنی زمین چاہیے مل جائے گی۔ ہمارے پاس بہت زمین ہے۔ جتنا دور تک تم پیدل جاسکتے ہو اتنی زمین تمہاری ہے۔ ایک دن کا بھائو ایک ہزار روبل ہے۔ سورج طلوع ہوتے ہی تمہارے سفر کا آغاز ہوجائے گا لیکن سورج ڈوبنے سے پہلے تمہیں واپس اسی مقام تک آنا پڑے گا جہاں سے تم نے شروع کیا تھا۔ اگر تم ایسا نہ کرسکے تو تمہارے ایک ہزارر وبل ڈوب جائیں گے‘‘۔ پیکھم بخوشی تیار ہوگیا۔ صبح جلد اٹھنے کی خوشی میں بمشکل اسے نیندآئی۔ اس نے خواب میں دیکھاکہ بشکر سردار، وہ بیوپاری جس نے اسے بشکر لینڈ سے متعلق آگاہ کیا تھا اور وہ کسان جو اپنی زمینیں فروخت کررہا تھا تینوں شیطان کی صورت میں ڈھل

MushtaqAhmed
 

ہو گئی۔ اس نے سوچا اگر وہ تعلقہ کی زمین پٹے پر لے لے تو زیادہ رقبے پر کاشت کرکے جلد ہی بہت امیر ہو جائے گا۔ ایک زمیندار جو دیوالیہ ہو گیا تھا اپنی زمین اونے پونے بیچ رہا تھا۔ پیکھم نے سوچا کہ یہ بہتر موقع ہے زیادہ سے زیادہ زمین خریدنے کا۔ وہ یہ سودا کرنے ہی جارہا تھاکہ ایک بیوپاری نے اسے بتایا کہ میں ابھی ابھی ’’بشکر لینڈ‘‘ سے آرہا ہوں جو کہ ایشیا کی طرف ہے وہاں نے میں ایک ہزار روبل (روسی کرنسی) میں 13 ہزار ایکڑزمین خریدی ہے۔ وہاں کی زمین بہت زرخیز ہے۔ لوگ محنت طلب کاموں سے جی چراتے اور بس عیش کی زندگی گزارنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اگرتم ان کے لیے بہت سارے تحائف لے جائو تو بدلے میں وہ بھی تم سے فیاضی سے پیش آئیں گے۔ پیکھم کو یہ مشورہ بہت پسند آیا۔ اپنی بیوی اور بچوں کو وہیں چھوڑ جلد ہی وہ بشکر لینڈ پہنچ گیا۔
تحفے تحائف ملنے پر بشکر لینڈ کے

MushtaqAhmed
 

بیوی بچوں کو ایک اچھی زندگی دے سکے گا۔ پیکھم کا یہ منصوبہ کامیاب رہا لیکن اس کامیابی نے اسے تند خو بنادیا، اتنا کہ اس کے پڑوسی کسان تنگ آکر اپنی زمینیں بیچنے پر مجبور ہو گئے۔ پیکھم نے ان کی زمینیں خریدنے کا پروگرام بنایا لیکن اسی دوران اس کے سامنے ایک اور اچھا سودا آگیا۔ ایک دن ایک کسان نے اسے بتایا کہ والگر ایور کے قریب ایک گائوں بس رہا ہے جہاں آباد ہونے والے لوگوں میں سے مردوں کو فی کس 25 ایکڑ زمین دی جارہی ہے۔ پیکھم کے خاندان میں چار افراد تھے جس کا مطلب تھا سو ایکڑزمین۔ وہ اپنے خاندان کے افراد کو یہاں لے کر آیا تو یہاں کے لوگوں نے اس کا بہت گرمجوشی سے استقبال کیا اور ساتھ ہی سو ایکڑزمین بھی اسے دیدی۔ اب پیکھم کے پاس پہلے سے تین چار گنا زیادہ زمین تھی۔
اس کامیابی پر پیکھم قانع ہو کر نہیں بیٹھ گیا۔ اسے اور زیادہ زمین کی حرص ہو گئی۔ ا

MushtaqAhmed
 

زمین بھی ہوتی تو میں دنیا کو دکھا دیتا کہ میں کیا ہوں۔ میں اپنی بیوی اور بچوں کو خوشحالی کی وہ زندگی دیتا کہ دنیا دیکھتی رہ جاتی۔ پھر میرا کوئی بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا حتی کہ شیطان بھی نہیں‘‘۔
پیکھم کی یہ بات تنور کے پیچھے بیٹھے شیطان نے سنی تو اس کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ آگئی ’’اتنا بڑا دعویٰ! اچھا بیٹا تو دیکھ اب میں تیرے ساتھ کیا کرتا ہوں۔ تجھے زمین کی خواہش ہے نا تو میں تجھے زمین ہی دونگا اور پھر تجھے اپنے قابو میں کروں گا‘‘۔
پیکھم جس زمیندارنی کی زمین پر کام کرتا تھا شہر منتقل ہونے کے لیے وہ اپنی وسیع وعریض زمین چھوٹے چھوٹے قطعات میں کاٹ کر بیچ رہی تھی۔ پیکھم نے جیسے تیسے کرکے اس سے بیس ایکڑ زمین خریدلی۔ اسے امید تھی کہ وہ اس زمین پر خوب محنت کرے گا اور جلدہی سارے قرضے اُتار دے گا اور اپنی بیوی

MushtaqAhmed
 

:
پیکھم جو گائوں میں ایک چھوٹا سا کسان تھا اس کی بیوی کی بڑی بہن شہر میں ایک مالدار بزنس مین سے بیاہی گئی تھی۔ بڑی بہن گائوں میں اپنی چھوٹی بہن سے ملنے آئی تو اترا اترا کر اپنی شہری زندگی کے عیش وآرام اور دولت مندی کے قصے بیان کرتی اور چھوٹی بہن کی گائوں کی غربت زدہ زندگی پر افسوس اور دکھ کا اظہار کرتی رہی۔ ’’کہاں تم اس گائوں میں پڑی ہوئی ہو‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کے لہجے میں توہین کا پہلو بہت نمایاں تھا۔ بڑی بہن کی شیخیوں اور جامے سے باہر باتوں سے پیکھم کی بیوی ذرا متاثر نہیں ہوئی۔ گائوں کی سادہ اور پر مسرت زندگی کی تعریف کرتے ہوئے کہتی ہے ’’ہم جہاں بھی ہیں جیسے بھی ہیں بہت خوش اور مزے میں ہیں‘‘۔ پیکھم اپنی بیوی اور اس کی بڑی بہن کی باتیں سن رہا تھا، وہ کہتا ہے ’’مجھے کوئی افسوس نہیں کہ میں ایک کسان ہوں۔ اگر میری پاس تھوڑی سی زمین بھی

MushtaqAhmed
 

ستائیس ارب روپے کی سخاوت۔ بندر نے انصاف کے نام پر بلیوں کی ساری روٹی تو کھا لی لیکن اس کا مقصد صرف یہ نہ تھا۔ وہ مستقبل شناس تھا۔وہ چاہتا تھا کہ اس پر دھوکے کا الزام بھی نہ آئے اور بلیوں کی ہر لڑائی میں روٹی صرف اس کے پیٹ میں جائے۔ ساری زندگی وہ اپنی اولاد کو یہ پاٹھ پڑھانے کی کوشش کرتا رہا۔دم آخر بندر نے جلی حروف میں یہ خواہش اب وصیت میں شامل کروا دی تھی۔اب کسی بلی کو روٹی نہیں ملنے والی تھی۔
end

MushtaqAhmed
 

سطح پر تین سال سے زیادہ نہ تھا۔ صرف آئی پی پیز کے معاہدے تیس تیس سال پر محیط تھے۔ اندھے نے ریوڑیوں کی بوری ہی بیچ دی تھی۔ نہ سالانہ آڈٹ۔ نہ کوالٹی اسسمنٹ ٹیسٹ، نہ ویری فکیشن اور نہ ہی معاہدہ کی شق میں شعور کی کوئی چنگاری۔ شہر عجب میں اتنا ذہین کون تھا جو سوال بنا دے یا سوال اٹھا سکے۔یہاں اعمال نامہ صرف دائیں ہاتھ میں دینے کا قانون رائج کیا گیا تھا۔ بائیں بازو والے تھے ہی نہیں۔ کچھ ایسی ہی صورت بچوں کی صحت کے متعلق فیصلے کی تھی۔ مائیں دس ہزار بجلی کے بل پر نہر میں چھلانگیں لگا رہی تھیں۔بھائی بجلی کے بل پر بھائیوں کے گلے کاٹ رہے تھے۔ بے چھت کے گھر،سر پر طوفان اور بچوں کے لیے دودھ کے نام پر ستائیس ارب روپ

MushtaqAhmed
 

کے بس میں نہیں تھا۔شہر عجب میں دانش وہ وردی تھی جسے جادوئی کرشمہ سمجھا جاتا تھا۔متاثرین کی تعداد سے قطع نظر ہجوم کو آٹو میٹک سسٹم پر لگا رکھا تھا اور یہ ہجوم سیل بے کراں کا روپ دھار لیتا تھا۔ جہاں اس ہجوم کے چند پارٹیکلز بھی جمع ہوتے،کسی بم کی طرح دھماکے سے پھٹتے۔ مقصد صرف لولے لنگڑے اپاہج دماغوں کی افزائش میں اضافہ تھا۔یہ عمل نرسری سے شروع ہوتا اور سکولز سے کالج اور پھر یونیورسٹی کا سفر طے کر کے معاشرے میں رنگ بھری تصویریں پھینکنے پر مامور تھا۔ کارکردگی کے سوال پر استثنی صرف مخصوص عوامل پر نافذ تھا۔ طلبہ سے لے کر ہر سطح کے ملازمین کو اچھی کارکردگی سے مشروط رکھا جاتا تھا۔ہر امتحان میں کارکردگی کو اولیت دی جاتی۔کنٹریکٹ ری نیو کرنا ہوتا تو بھی کارکردگی دیکھی جاتی۔ یہ کنٹریکٹ کسی بھی سطح پر تین

MushtaqAhmed
 

باز بھول گئے کہ اب تماشا سنگین حقیقت بن کر انارکی کی طرف جا رہا ہے۔یک طرفہ محبت کی طرح یک طرفہ اصطلاحات اور فیصلوں سے کسی کو سروکار نہیں کہ اس کی زد میں کتنی زندگیاں برباد ہو رہی ہیں لیکن اسلام کی فتح کا شوق ایسا غالب ہے جو کھیل میں بھی چسپاں کر دیا جاتا ہے۔بھلے دنیا جتنا بھی مذاق اڑا لے۔ ضرب المثل ہے کہ بات کرو تا کہ پہچانے جاؤ یا پھر جس کا اصل روپ دیکھنا ہے اس کے ساتھ سفر کیا جائے تا کہ اس کے متعلق فیصلے میں آسانی ہو۔ یہاں تو برسوں کا سفر ہے جس میں ہجر کے سال اور ہزاروں رٹے رٹائے بیانات میں سمجھ ہی نہیں آتی تھی کہ دل کو روئیں یا جگر کو پیٹیں۔شعور کو عشق کی بجھی راکھ تصور کیا جا چکا تھا۔ اب اس راکھ میں کوئی چنگاری باقی نہ تھی۔ راکھ میں انگلیاں پھیر کر سب اپنی اپنی خواہش کے مطابق تصاویر ڈھال رہے تھے۔ لیکن ان میں رنگ بھرنا کسی کے بس میں ن

MushtaqAhmed
 

نسائیت کا بنیادی مقصد خواتین کو سماجی حقوق کے ساتھ ساتھ عورتوں کے لیے حقِ رائے دہی، مساوات، عورتوں کی ضروریات، حق وراثت، آزادیء رائے، خود کفالت اور آزاد خیالی کے ساتھ ساتھ خانگی ایذا یا گھریلو تشدد اور آبروریزی سے تحفظ وغیرہ بھی شامل ہیں۔لیکن غلام بنانے کے شوق انصاف کی تاویل میں انصاف کو ہی ذبح کر رہے تھے۔ انصاف اب صرف خواہش کا نام تھا اور تبدیلی نام کی کوئی گنجائش باقی ہی نہ تھی۔اب ایسی آگ تھی،جس کا دھواں کہیں اور سے اٹھ رہا تھا۔یہ ایسی آگ تھی جو بجھتی ہی نہ تھی اور دھوئیں پر پیمرا نے پابندی لگا رکھی تھی اور وہ دھواں جس نے عوام پر سانسیں تنگ کر رکھی ہیں۔اس کی آگ حکومتی راہداریوں میں گم مذہب کے ہتھیار کند کر رہی تھی۔ خلقت خدا کہنے کو فسانے نہیں،ضروریات زندگی مانگ رہی تھی زباں بندی کے تعویذ اور پھونکوں سے اسم اعظم تخلیق کرتے ہوئے شعبدہ باز

MushtaqAhmed
 

شہر عجب میں معاملات ازل سے ڈگڈگی کی تال پر ہی رواں دواں تھے۔بندر تو بندر، ریچھ، اونٹ اور ہاتھی تک کا کام صرف اپنی اپنی تال پر جھومنے کا ہی تھا اور وہ اسی میں مگن تھے۔بیل کی آنکھوں پر بندھی پٹی تو جیسے آنکھ کا حصہ بن چکی تھی۔اب یہ پٹی بہت سے گروہان کی آنکھوں کو بھی دھندلا چکی تھی۔اب شعور صرف حلال و حرام تک محدود تھا اور آپسی معاملات سے انسانی تعلقات کو اسی پیمانے پر تولنے کا شوقین تھا۔ فیمینزم کا نام سنتے ہی مینڈکوں کو بھی زکام ہو جاتا۔اس سے قطع نظرکہ اصل معاملہ کیا ہو سکتا ہے اور حقوق و فرائض کی تفہیم کیسے ہونا چاہیے۔ حرام کے داغ لگا کر ہر شعور کو اپاہج کرنے کے شوق میں ہلکان ہونے کا رواج فروغ پا چکا تھا۔ مغربی دنیا کی پیروی میں ہلکان ہونے والوں کو بیٹی کی ٹانگیں کاٹتے وقت یاد تک نہ تھا کہ مغربی دنیا میں حقوق نسواں کی تحریک نسائیت کا بنیاد

Ach mithi khaion
M  : Ach mithi khaion -