Damadam.pk
MushtaqAhmed's posts | Damadam

MushtaqAhmed's posts:

MushtaqAhmed
 

صبر کرلیتے یہاں تک کہ آپ رسول اللہ خود نکل کر ان کے پاس آجاتے تو یہ اِن کے لیے بہت بہتر ہوتا۔بہر حال اللہ بہت ہی درگزر رکرنے والااورمسلسل رحم کرنے والا ہے“۔ پھر ایک اورمعاشرتی بُرائی کا ذکر کیا ہے جو معاشرے میں نفرت ،انتشار اور بے چینی کی فضا قائم کرتی ہے وہ یہ کہ ہم ہر سُنی سُنائی بات پر تحقیق کیے بغیر نہ صرف خود یقین کرلیتے ہیں بلکہ اس کو اور بڑھا چڑھا کر آگے پھیلانے میں اہم کردار ادا کررہے ہوتے ہیں جس سے سارا معاشرہ معاشرتی طور پر متاثر ہوتاہے۔ صراط مستقیم پر کون سے لوگ ہیں تو یہ آیت آپ کو ایسے انسانوں کا پتہ دے رہی ہے۔اللہ فرماتے ہیں”اے ایمان والو!اگرکوئی ایسا شخص جو اعتماد کے لائق نہ ہو اورتمھارے پاس کوئی خبر لے آئے تو اسکی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرﺅ کہ کہیں تُم نادانی میں لوگوں و نقصان نہ پہنچا بیٹھو اورپھر اپنے کیے پر پچھتاتے رہ جاﺅ۔ا

MushtaqAhmed
 

انوں پر لازم قرار دیا اور فرمایا” اے لوگوجو ایمان لائے ہو۔اللہ اور اُس کے رسول ﷺ سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرﺅاوراللہ کی ناراضگی سے ڈرو یقینا اللہ ہر بات کاسُننے والا اورخوب اچھی طرح جاننے والا ہے۔اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ہرگز اپنی آوازوں کو نبی ﷺ کی آواز سے بلند نہ کیا کرﺅ اورنہ ہی اُن سے اِس طرح اُونچی آواز میں بات کرﺅ جیسا کہ تُم آپس میں ایکد دُوسرےے بات کرتے ہو۔کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھارے سارے اعمال برباد ہو جائیں اور تُمھیں پتہ بھی نہ چلے۔یقین جانو! جو لوگ بھی اللہ کے رسُول کے پاس اپنی آوازیں نیچی رکھتے ہیں یہی تو وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے خُوب جانچ کر پرہیز گاری کے لیے چُن لیا ہے اُنہی کے لیے مغفرت ہے اور اجر عظیم بھی۔جو لوگ بھی رسول اللہ کو حُجروں کے باہر سے اُونچی آواز میں پُکارتے ہیں۔اِن میں سے اکثر بے عقل ہیں اوراگر یہ لوگ صبر کرلیتے

MushtaqAhmed
 

آج ہمارا معاشرہ اخلاقی پستیوں کے آخری درجے پر ہے،الزام تراشی ،غیبت ،بُرے ناموں سے ایک دُوسرے کو پکار کر تذلیل کرنا اِن سب بُڑائیوں نے معاشرہ کا اخلاقی طور پر تنزلی کے آخری مقام پر لاکھڑا کیا ہے۔عدم برداشت اور دُوسرے کی رائے کو نہ احترام دینا پاکستانی معاشرے کی پہچان بن گیا ہے۔منافقت نے ہماری اخلاقی اقداروںکو کھوکھلا کردیاہے۔ہم جب تک اخلاقی بُرائیوںکے حصار سے نکل کر مثبت فکر کے ساتھ آگے نہیں بڑھیں گے ہم بحیثیت قوم کیسے ترقی کرسکتے ہیں ۔سورة الحجرات مدنی سورة ہے اور یہ 9 ہجری فتح مکہ کے بعد ناز ل ہوئی ۔یہ سورة نازل کرنے کامقصد یہ تھا کہ مسلم اُمہ کو بنیادی اخلاقیات کا درس دیا جائے کہ ایک اسلامی معاشرے میں ایک مسلمان کا کردار کیسا ہوناضروری ہے۔پہلی پانچ آیات میں اللہ اور اُس کے نبی ﷺ کے احترام سب مسلمانوں پر

MushtaqAhmed
 

میں باریابی سے انکار سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ہوا، اِس لیے کہ ہینڈ بیگ اندر لے جانے کی اجازت نہیں۔ اِس پر میری بھابھی نے جو خیر سے پولیٹکل سائنس پڑھاتی ہیں، باوردی گارڈ کو باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ مذکورہ تھیلے ہینڈ بیگ کی بجائے پرس کے زمرے میں آتے ہیں، پھر بھی تلاشی لے لو۔ بیگم نے یہ دلیل بھی دی کہ چلیں، ہمارے پاس تو کار ہے جس میں سامان رکھا جا سکتا ہے، لیکن جو عورتیں موٹر سائیکل یا رکشے پہ بیٹھ کر آتی ہیں وہ کیا کریں۔ گارڈ نے انکار میں سر ہلا دیا تھا۔ اِس پر بندہ ء عاجز کی آنکھوں میں قائد کی شبیہ ابھری جنہوں نے لندن میں اُس مسجد میں جمعہ پڑھنے کی خواہش کی تھی جہاں عام مسلمان نماز ادا کرتے ہیں۔ end

MushtaqAhmed
 

راستہ نہ بھول جاؤں۔
جوتے تلاش کر کے کامیابی سے باہر تو نکل آئے، لیکن میرے مولا، ہم دونوں کی بیویاں معینہ جگہ سے غائب تھیں۔ دراصل مسجد کے احاطے میں پہنچ کر یہ پیشگی سوچ لیا تھا کہ عمارت کے زنانہ اور مردانہ حصوں میں نماز سے فارغ ہو کر ایک طے شدہ مقام پر ملاقات ہو گی۔ پریشانی ہوئی کہ کئی منٹ کے انتطار کے باوجود دور و نزدیک بیگمات کا کوئی نام و نشان نہ ملا۔ موبائل فون خاموش تھے جس کا سبب مسجد کا احترام تھا یا یہ امکان کہ دونوں فی الوقت کسی پُر شور جگہ پر ہیں۔ بالآخر دوسرا اندازہ درست ثابت ہوا اور خواتین مسجد کی ملحقہ کیفے ٹیریا سے باہر نکلیں، مگر مُوڈ آف تھا۔ پوچھا کہ نماز پڑھ لی؟ ”پڑھی مگر لان میں، مسجد کے اندر نہیں۔“ مَیں سمجھ گیا کہ کوئی گھمبیر سمسیا ہے۔
معلوم ہوا کہ مسجد میں باریابی سے ا

MushtaqAhmed
 

والد کے بچپن میں چالیس دن قبر میں چلہ کاٹ کر شہر بھر پہ روحانی دہشت طاری کر دی تھی۔ ہم نے اپنے زمانے میں باقاعدہ نمازی کم ہی دیکھے مگر اِس کا حساب کوئی نہ رکھتا کہ کون مسجد میں گیا اور کون نہیں۔
آزاد پاکستان کی پہلی نسل کی یہ یادیں اُن مسجدوں کی ہیں جہاں عام مسلمان نماز ادا کیا کرتے تھے۔ اب اللہ کے پرانے گھر نئی آبادی کی گرینڈ مساجد سے بہت دُور رہ گئے ہیں۔ وجہ یہ کہ گرینڈ مسجد کے قریب پہنچتے ہی خوفِ خدا کی بجائے دلوں پر کار پارک کی کشادگی، لان کی شادابی اور فنِ تعمیر کی ہیبت طاری ہونے لگتی ہے۔ دو سال ہوئے ایک جمہور مسلمان نے اپنے نیک سیرت ماموں زاد بھائی کی دعوت پر ایک جدید خانہء خدا کے ایئر کنڈیشنرز کے سائے میں عشا کی نماز ادا تو کی، لیکن اُس نیم تکونے ہال میں جس کا مشرق مغرب سمجھنا آسان نہیں، یہ ڈر بھی رہا کہ کِہیں واپسی کا راستہ نہ

MushtaqAhmed
 

اور ان کے نائب ’بھا لمبڑ‘ یا بھائی نمبردار سے ہلکی پھلکی گپ شپ بھی ہو جایا کرتی۔ زیاد ہ تر یہ کہ عید میلاد ؐالنبی سجاوٹ کے لیے کتنی جھنڈیاں تیار ہوں گی اور قرآنی قاعدہ ختم کرکے پہلا سیپارہ شروع ہونے پر کون چینی کی ریوڑیاں لائے گا اور کون گُڑ کی۔
یہ تھا ہماری گلی کا لوک اسلام۔ مغرب کی طرف بڑھیں تو اراضی یعقوب کی سبز ٹیوب لائٹ والی مسجد، سو ڈیڑھ سو گز پر پاپڑاں والی خانقاہ اور اُس سے آگے امام علی الحق کا سفید گنبد والا مزار جس کے میدان میں ہر جمعرات کو میلہ لگتا۔ مشرق میں پہلے ٹبہ جالیاں اور پھر سیڑھیاں اتر کر محلہ ککے زئیاں کی مسجد۔ ذرا شمال کو اقبال روڈ کے کونے میں نبئیے ٹُنڈے کی مسیت، ذرا آگے کچی مسجد، پھر اڈہ پسروریاں کا امام باڑہ۔ بھائی حنیف مہتہ کی دکان کے بالمقابل موٹے موٹے منکوں کی مالا والے سائیں شِیدا ڈیرہ جماتے جنہوں نے میرے وا

MushtaqAhmed
 

اِسی طرح ذات برادری اور خاندانی پس منظر سے ہٹ کر ایک ایک کر کے سبھی لڑکے اذان کہنے کے اعزاز کا بے چینی سے انتظار کرتے۔ ساٹھ کی دہائی کے وسط میں مسجد میں لاؤڈ اسپیکر نصب ہو ا تو حمد و نعت کی محفل میں جمعہ کی پہلی اذان سے پیشتر صوفی تبسم، اسماعیل میرٹھی اور حامد اللہ افسر کی نظمیں بھی ترنم سے نشر ہونے لگیں۔
میرا مقصد اُن نیک روحوں سے چھیڑ خوانی نہیں جنہیں ہر تمدنی سرگرمی میں بدعت کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ پر شہرِ اقبال میں، جس کی قدیم مساجد میں جنات کی بورڈنگ لاجنگ کی روایات روزمرہ کہانیوں کا حصہ تھیں، اپنی مسجد کے ساتھ ہمارا رشتہ خوف کا نہیں، پیار محبت کا رہا۔ جب دل چاہتا، بچے یوں بے تابی سے بھاگتے ہوئے مسجد کے صحن میں داخل ہو جاتے جیسے کھیل کے میدان کا ر خ کرتے ہیں۔ یہاں دین و اخلاق کی باتیں سننے کو ملتیں، لیکن ناظرہ قرآن کے استاد لطیف او

MushtaqAhmed
 

وسیجرل غلطی نکلوا کر ہی لوٹے۔ اکثریت اُن کمزور ایمان والوں کی ہوتی ہے جنہیں محض عید بقرعید پر حاضری کی بنا پر والد مرحوم ’فصلی بٹیرے‘ کہا کرتے تھے۔ فصلی اور اصلی کا حقیقی فرق اُس دن نمازِ عصر کے وقت سمجھ میں آیا جب پہلی صف میں ’قبضہ گروپ‘ کے ایک معزز آدمی نے مجھے کُہنی رسید کرتے ہوئے پیچھے دھکیل دیا تھا۔ سلام پھیرتے ہی البتہ میرے پاس آئے اور وضعداری سے کہنے لگے ”معاف کیجیے، مَیں نماز کے لیے ہمیشہ یہیں کھڑا ہوتا ہوں۔“
اُس مرحلے پر مجھے آبائی شہر میں ٹبہ سیداں کی وہ چھوٹی سی مسجد بہت یاد آئی جہاں اہلِ محلہ میں سے کسی کے نجی سیکٹر میں امامت کرنے پر کوئی پابندی نہ تھی۔ پروفیسر مجید اور مستری عبدل تو تھے ہی باشرع بزرگ، لیکن میرا دوست افتخار بٹ گواہی دے گا کہ مسجد بابا اعظم میں لوگوں نے لالہ اسلم کو بھی ماڈرن چہرے کے ساتھ نماز پڑھاتے دیکھا۔ اِ

MushtaqAhmed
 

آئیے جہاں مَیں پھولوں سے لدی پھندی ایک مسجد کے نواح میں جنٹری میں پھنسا ہوا ہوں۔ یعنی وہ بزنس مین، ریٹائرڈ افسر اور خوشحال تاجر جو ڈونکی پمپ لگا کر ہر صبح ہمسایوں کے حصے کا پانی کھینچ لیتے ہیں، لیکن اِس سے فارغ ہوتے ہی ’تزئینِ در و بامِ ِ حرم‘ پر توجہ دینے سے بھی نہیں چو کتے۔ ایک مرتبہ اِس بندہء عاجز نے عدالت عظمی میں ایکسٹینشن لینے والے ایک معمر دوست کو اُس جرگے میں شامل دیکھا جو مسجد کمیٹی کے صدر کو منانے کے لیے اُن کے گھر کی طرف تیز تیز جا رہا تھا۔ پتا چلا کہ مذکورہ حاجی صاحب نے ہماری مسجد میں ائر کنڈیشنر لگوانے والوں میں فرسٹ پوزیشن حاصل کی ہے، اِس لیے اُن کی ناراضی افورڈ نہیں کی جا سکتی۔
کلب کلاس کے اِن نمازیوں سے بھلا عام مسلمانوں کا کیا موازنہ جو سال میں اگر دس دفعہ اللہ کے گھر گئے تو پانچ موقعوں پر کوئی نہ کوئی پروسیجرل غلطی نک

MushtaqAhmed
 

مسجد اللہ کا گھر ہے، مگر اللہ کے بندوں کا گھر بھی ہے۔ قائد ِ اعظم محمد علی جناح کا خیال تو یہی تھا۔ چنانچہ پاکستان بننے سے ایک سال پہلے جب دیگر رہنماؤں کے ساتھ برطانوی وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی سے ملاقات کے لیے لندن گئے تو انہوں نے جمعہ کی نماز کسی ایسی مسجد میں نماز ادا کرنی چاہی جہاں عام مسلمان نماز پڑھتے ہوں۔ اب قائد کے بنائے ہوئے ملک میں نئی صدی کے دوران خالق و مخلوق کے باہم مِلنے کے راستے مسدود ہوتے جا رہے ہیں۔ آپ سوچیں گے کہ میرا اشارہ مسالک کی تقسیم در تقسیم کی طرف ہے۔ اِس زاویے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا مگر نجی، سرکاری اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ والی بستیوں میں پیچیدگی کے بعض اور اسباب بھی ہیں۔ سب سے نمایاں ہے نو دولتیاپن اور اُس سے جُڑے ہوئے رویّے۔
بات سمجھ میں نہ آئے تو کسی دن لاہور کے اُس رہائشی علاقے میں تشریف لے آئیے جہاں

MushtaqAhmed
 

ضروری نہیں کیونکہ بہت سارے اولیاء کرام ایسے ہیں جن سے کبھی کوئی کرامت ظاہر نہیں ہوئی اسکایہ مطلب توہرگز نہیں لیاجاسکتاکہ انکی شان میں اس وجہ سے کوئی کمی ہوئی بلکہ یہ توان کے اختیارمیں بھی نہیں ہے یہ تو اللہ کے اختیارمیں ہے جب چاہے جس وقت چاہے جسکے ہاتھ پر ظاہرکردے اس لئے ہمیں اولیاء کرام رحمہم اللہ کی زندگی پڑھنے کی سمجھنے کی اور انکے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت ہے کیونکہ زندگی صرف دعویٰ سے نہیں بلکہ عمل سے بنتی ہے۔

MushtaqAhmed
 

ت کوزندگی کامقصدبناناچاہیے لیکن ہم غفلت وکوتاہی کی زندگی بسرکررہے ہیں ہم میں سے ہرمسلمان ولی اللہ بن سکتاہے کیوں کہ ولی اللہ کے لئے رنگ ونسل کنبہ قبیلہ شرط نہیں بلکہ حق وسچ، مومن، نیک، متقی، پرہیزگار،تقوی طہارت، حلال طیب روزگارکماناشرط ہے ہے جوہم میں سے ہرمسلمان بآسانی ان شرائط پراترسکتاہے لیکن ہم خودبننانہیں چاہتے ہم صرف دوسروں کو دیکھنا چاہتے ہیں ہمارے ہاں یہ بھی دیکھاجاتاہے کہ ہم سمجھتے ہیں جس سے کرامات ظاہر ہوں وہ اللہ کا ولی ہے
جبکہ کرامات کوظاہرہوناضروری نہیں

MushtaqAhmed
 

م کی بہت خدمت کی لوگوں تک دین پہنچایالوگوں کے دلوں کی اصلاح کی انسانوں کوحقیقی خالق ومالک کے ساتھ جوڑا مخلوق کاتعلق خالق
کائنات کیساتھ مضبوط کیالاکھوں انسانوں نے انکی دعوت حق کوسینے سے لگایاانکی طرز زندگی سے متاثرہوکراسلام قبول کیالیکن کیاآج انکی تعلیمات پرعمل کیاجارہے یا انکے نقش قدم پرکوئی بھی چلنے کوتیارہے جن اولیاء اللہ نے ساری زندگی دین کیلئے وقف کی ہمارے پاس اس دین کیلئے وقت نہیں جن تعلیمات پرساری زندگی ان اولیاء کرام نے عمل کی اہم عمل کرنے کوتیارنہیں پھرسال کے بعد ایک دن انکی قبرپرحاضری دیکرہم کیسے مطمئن ہیں کہ ہماری عقیدت ان سے سچی ہے ہم کیسے ا پنے آپ کوانکاعقیدت مندکہتے فخرمحسوس کرتے ہیں
جبکہ انکی تعلیمات پرعمل تودورکی بات ہم انکی تعلیمات سے واقف بھی نہیں ہمیں تو اللہ کے احکامات پرعمل کرنا چاہیے رسول اکرم شفیع اعظم ﷺ کی تعلیمات

MushtaqAhmed
 

کوشعبدہ باز توکہا جائیگا دھوکہ بازبھی کہیں گے لیکن جوقرآن وسنت کی تعلیمات سے دورہو متبع سنت بھی ناہووہ ولی نہیں ہوسکتا
اگرچہ وہ پانی پرچل رہاہویاہوامیں اڑتادکھائی دے حضرت علی المرتضیٰ شیر خداحیدر کرار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اولیائاللہ رات کو جاگتے ہیں جس سے انکے چہرے زرد ہوجاتے ہیں انکی آنکھیں آنسوؤں سے ترہوتی ہیں بھوک سے انکے پیٹ سکڑجاتے ہیں پیاس سے انکے ہونٹ خشک ہوجاتے ہیں کیوں کہ جب بندہ اللہ کادوست ہوتاہے توپھروہ دنیاوآخرت کے غم وخوف سے آزاد ہوجاتاہے آج ہم اپنے اردگردحالات کاجائزہ لیں توکتنے ایسے دعوی داردرست سمت میں سامنے آئیں گے جوحضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے قول کے مطابق صحیح معنوں میں اولیاء کرام کے نقش قدم پرچلتے ہوئے نظرآئیں گے
اس بات میں بھی کوئی شک وشبہ نہیں کہ برصغیر میں اولیاء کرام رحم ہم اللہ نے دین اسلام کی ب

MushtaqAhmed
 

ایمان لانے کے بعد تقوی اختیار کریں گے خودنبی اکرم شفیع اعظمﷺنے بھی اپنے خطبہ کے اندر ارشادفرمایاکہ کسی بھی شخص کوکوئی فضیلت نہیں سوائے تقوی والے شخص کہ یعنی اسی کو فضیلت حاصل ہے جومتقی ہوگا اولیاء اللہ کی یہ بھی صفات ہیں کہ انکی محبت بھی اللہ کی رضاکیلئے ہوتی ہے حضرت سعید بن جبیر ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرمؐ سے سوال کیاگیاکہ اولیاء اللہ کون لوگ ہیں فرمایا جن کے دیکھنے سے اللہ یادآجائے
اسی طرح حضرت ابن عباس ؓ سے بھی روایت ہے اسکے لئے ولی کیلئے صحیح العقیدہ ہونابھی ضروری ہے جسکے اعمال بھی شریعت کے مطابق ہوں اگر کوئی شخص کرامات کاتودعویٰ دار ہولیکن اگر وہ دین سے دور ہے وہ متبع سنت نہیں دین اسلام کی تعلیمات سے ناواقف ہے توایسے شخص کوشعبدہ باز

MushtaqAhmed
 

اصل نہیں کرسکتے بلاشک و شبہ اولیاء اللہ برحق ہیں ان کا ہونابھی خیرسے خالی نہیں قرآن مجید میں ارشادباری تعالیٰ ہے
بیشک اولیاء اللہ کوکوئی خوف نہیں ہوگااورناہی وہ غمگین ہوں گے یہاں تک توبیان کیاجاتا ہے لیکن یہ نہیں بتایاجاتاکہ اولیاء اللہ ہیں کون لوگ ساتھ ہی دوسری جگہ آیت میں اللہ نے فرمایاوہ لوگ جو ایمان لائیں اورتقویٰ اختیارکریں گے اسی طرح قرآن مجید میں اولیاء اللہ کی صفات بیان کیں گئیں ہیں کہ وہ سب سے پہلے توصاحب ایمان ہوں گے انکے ذہن اورسوچ پختہ ہوگی اللہ کے احکامات کی پابندی کریں گے رسولِ کریم روف الرحیم کی تعلیمات پر عمل پیراہوں گے دین اسلام پر اور دینی تعلیمات پردل وجان سے ایمان ویقین سے بخوشی ایمان بھی لائیں گے
حق وسچ کیساتھ کھڑے ہوں گے اللہ ورسول اللہ کے بتائے ہوئے طریقہ پرعمل کرتے ہوئے انہیں کے طریقوں پرزندگی گزاریں گے ایمان لانے

MushtaqAhmed
 

ہمارے معاشرے میں سچ جھوٹ حق باطل صحیح اورغلط کی پہچان کرناہرکسی کے بس کی بات نہیں کیوں کہ ہر بات کی پہچان ہرصحیح راہ کی تصدیق ہرحق کی تلاش علوم و معارف کے ذریعہ سے ہی ممکن ہے چونکہ ہربندہ علم دین کو اس معنی میں حاصل نہیں کررہا جس قدر اسے حاصل کرنا چاہیے اس لئے وہ دین کے نام پر کسی بھی شخص کی بات سن کر اسکی تحقیق کئے بغیرہی اسکامریدبننے کوتیارہوجاتاہے
دوسرے لفظوں میں یوں کہاجائے توبجاہوگاکہ ہم خوددین دار نہیں بنناچاہتے لیکن دوسروں کودین داردیکھناچاہتے ہیں ہم خودنیک متقی پرہیز گارنہیں بنناچاہتے لیکن ہم دوسروں کو ان صفات کا حامل دیکھناچاہتے ہیں اسی لئے ہم صحیح اور غلط کی حق وباطل کی پہچان نہیں کرسکتے اوراسی کمزوری کافائدہ اٹھاکرسامنے والاہمیں اپنے اندازمیں بآسانی اتار میں لیتاہے پھرہم ناچاہتے بھی خلاصی حاصل نہیں

MushtaqAhmed
 

اعتدال و توازن کا نام ہے۔ لیکن وہ اعتدال جو تجدد کی حدوں کو چھو رہا ہو اس کا ہر عہد میں رد کیا گیا ہے۔ اور اگر اس تجدد سے کہیں کچھ مثبت صادر ہوا تو اس کو لینے میں بھی بخل سے کام نہیں لیا گیا۔ موجود عہد میں بھی یہ دیوبندی مزاج اسی سپرٹ کے ساتھ موجود ہے۔ لیکن کچھ تجدد پسند، کچھ Inclusivity کے احساس اور کچھ فکری پراگندگی کا شکار ارباب علم اور ان کے خیر خواہوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں اصل دیوبندی مزاج کا نمائندہ ڈکلیئر کیا جائے۔ ان کے مطالبے پر غور کرنے سے قبل ایک لمحے کے لیے غور کر لیں اگر انیسویں صدی کے آخری میں سر سید احمد خان کی مذہبی فکر کو دین کی نمائندہ فکر تسلیم کر لیا جاتا تو آج مذہب کا وجود کس قدر زخمی اور چھلنی ہو چکا ہوتا

MushtaqAhmed
 

مشورے کے بغیر انہوں نے علی گڑھ کالج کو جوائن کر لیا۔ مشہور یہ ہو گیا کہ وہ بڑوں کی اجازت اور مشورے سے علی گڑھ منتقل ہوئے ہیں۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ نے مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے نام خط لکھا: ”مولوی عبداللہ صاحب کے حالات سن کر تعجب ہوا اور افسوس کہ باوجود دعویٰ صوفیت اور بزرگ زادگی کے اس مدرسہ کے متعلق ہو گئے جس کا نام علمائے آخرت کے نزدیک دارالالحاد ہے اور جو مذہب اور مشرب کے خلاف ہے اور یہ جو آپ سے کسی نے کہا ہے کہ وہ فقیر کی اجازت سے مدرسہ نیچریہ میں ملازم ہوئے ہیں سبحانک ھذا بہتان عظیم۔“ ایک دیوبندی خانوادے کے چشم و چراغ کا اپنے عہد کے تجدد پسند کے ہمرکاب ہونا صف اول کے دیوبندی مزاج کو پسند نہیں آیا۔
یہ چند واقعات اصل دیوبندی مزاج کی تفہیم میں معاون ہو سکتے ہیں۔ اس تفہیم کا حاصل یہ ہے کہ اصل دیوبندی مزاج توسع اور اعتدال و توازن کا