جوڑ میں سخت درد تھا وہ باوجود کوشش کے دوڑ نہیں سکتی تھی اور ادھر شہزادہ پوری طاقت سے بھاگ رہا تھا۔ شہزادے نے اپنی دوڑ پوری کرلی اور جیت گیا۔ دوڑ کے ختم ہوتے ہی شہزادی کے جسم کا درد ختم ہوگیا اور وہ بھی بجلی کی تیزی کے ساتھ جیتنے والے نشان تک پہنچ گئی، مگر اب بہت دیر ہوچکی تھی، شہزادہ دوڑ جیت چکا تھا، شہزادی حیران تھی کہ اسے کیا ہوگیا ہے وہ کیوں نہیں دوڑ سکی۔ پہلی مرتبہ سارے میدان میں شور بلند ہو رہا تھا تالیاں بج رہی تھیں۔ لوگ خوشی سے اچھل رہے تھے۔ شہزادی اٹلانٹاؔ کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ اسے اپنی دوڑ پر ناز تھا لیکن وینسؔ کے مدد سے میلانینؔ نے ہرا دیا۔ اور شرط کے مطابق میلانینؔ اور اٹلانٹاؔ کی شادی ہوگئی۔ سنگدل شہزادی اپنے پچھلے کئے پر نادم ہوئی اور توبہ کرلی اور دونوں ہنسی خوشی سے رہنے لگےend
کی کوشش کرے تم پھر اسے چھونا اس طرح وہ دوڑ نہیں سکے گی۔ مقابلے کے دن ہزاروں لوگ جمع تھے۔ شہزادی اٹلانٹاؔ تیار ہو کر آگئی۔ لوگوں کیلئے یہ بات عام ہوگئی تھی اور کسی کو شہزادہ میلانینؔ کے جیتنے کی امید نہ تھی۔ بگل کی آواز آئی شہزادہ اور شہزادی دوڑنے کیلئے تیار تھے۔ شہزادے نے تیسرے بگل کی آواز سے پہلے شہزادی کو چھو لیا۔ بگل بجا دونوں نے دوڑنا شروع کیا۔تھوڑی دیر تک دونوں برابر دوڑتے رہے مگر ایکا ایکی شہزادی آگے بڑھ گئی اتنے آگے کہ شہزادہ اس کا کسی طرح بھی پیچھا نہ کرسکتا تھا، شہزادے کو بہت افسوس ہوا کہ دیوی نے اس کے ساتھ دھوکا کیا ہے مگر شہزادے نے دیکھا وہ دوڑتے دوڑتے شہزادی کے قریب آگیا ہے شہزادی ایسا لگتا تھا کہ بہت تھک گئی ہے اس سے بالکل چلا نہیں جا رہا تھا۔ شہزادے نے شہزادی کو پھر چھوا اور دوڑتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔ شہزادی کے جوڑ جوڑ
کو دیکھ کر شاہ اسکونسؔ مجبور ہوگیا۔ اس نے کہا کہ، ’’تمہاری مرضی۔ مقابلہ ایک مہینے کے بعد ہوگا۔‘‘ پھر شہزادے کو قریب بلا کر پیار سے کہا، ’’اس ایک مہینے کے عرصہ میں تم محبّت کی دیوی وینسؔ، سے مدد مانگنا۔ تمہیں وہ اس دوڑ میں کامیاب کرے گی۔‘‘ شہزادہ میلانینؔ یہ سن کر رخصت ہوا اور ’’وینس‘‘ کے مندر کی طرف چل پڑا.... وینسؔ کا مندر دریائے آرگوسؔ کے کنارے پر بنا ہوا تھا۔ وہاں پہنچ کر وینسؔ کے مجسّمے کے سامنے اس نے مدد کی بھیک مانگی۔ خونی کھیل بند کرنے کی التجا کی اور شہزادی اٹلانٹاؔ سے اس کی بے انتہا محبّت کا اظہار کیا۔ اور اپنی محبّت کے سچی ہونے کا یقین دلایا تب وینسؔ نے میلانینؔ کے ہاتھ کو اپنی خوبصورت سونے کی چھڑی سے چھو دیا اور کہا کہ: دوڑ شروع کرنے سے پہلے تم شہزادی کو چھو لینا اور جب بھی وہ دوڑ میں تم سے آگے جانے کی کوشش کرے تم پھر اسے چ
طرف دیکھا اور سَر جھکا دیا۔ اور جلاد کی تلوار نے اس کا سَر تن سے جدا کر دیا۔ شہزادہ میلانینؔ نے عہد کر لیا کہ کسی طرح یہ خونی کھیل کو بند کر دے گا۔ اور اس مغرور اور سنگدل شہزادی کو نیچا دکھائے گا جس نے بیسیوں بے گناہوں کا خون کیا ہے۔ میلانینؔ نڈر اور بہادر ہونے کے علاوہ ایک رحم دل انسان بھی تھا جس سے یہ سب دیکھا نہ گیا۔ میلانینؔ شاہ اسکونسؔ کے پاس پہنچا اور مقابلے میں شریک ہونے کی خواہش ظاہر کی۔ شاہ اسکونسؔ نے کئی شہزادوں کا خون ہوتے ہوئے دیکھ چکا تھا اب ایک خوبصورت اور کمسن شہزادے کو دیکھ کر رحم آیا۔ اس نے میلانینؔ کو بہتیرا سمجھایا۔ لیکن شہزادہ کہاں ماننے والا تھا۔ وہ موت سے بالکل نہیں ڈرتا تھا۔ اس نے تن کر کہا، ’’مَیں ضرور مقابلہ کروں گا اور کسی طرح شہزادی کو اپنا لوں گا۔ مجھے شہزادی چاہئے یا موت۔‘‘ میلانینؔ کے چٹان جیسے مضبوط ار
ی اٹلانٹاؔ تیار ہوکر اس کے برابر کھڑی ہوگئی۔ دوڑ شروع ہونے والی تھی۔ بگل کی پہلی آواز پر دونوں تیار ہوگئے اور تیسری اور آخری آواز پر دوڑنے لگے۔ دونوں اپنی پوری طاقت سے بھاگ رہے تھے۔ لوگ دل میں دعائیں مانگ رہے تھے کہ وہ شہزادہ جیت جائے اور اٹلانٹاؔ سے شادی کرے اور کسی طرح یہ خونی کھیل ختم ہو جائے۔ دونوں بہت دور تک برابر رہے لیکن آدھا راستہ طے کرنے کے بعد شہزادی اٹلانٹاؔ آگے بڑھ گئی۔ شہزادے کے جیتنے کی امید رکھنے والے لوگوں کے چہرے لٹک گئے۔ اس شہزادے نے اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن پیچھے ہی رہا اور شہزادی جیت گئی۔ شہزادی کے جیتنے پر کہیں سے خوشیوں کا شور بلند نہیں ہوا اور سارے میدان پر موت کا سناٹا چھا گیا۔ ہارا ہوا شہزادہ رونی صورت بنائے ڈائنا دیوی کے چبوترے کے پاس آیا۔ اور ایک بار اس خوبصورت اور بے رحم شہزادی کی طرف
نے گھوڑے سے اتر کر ایک آدمی سے پوچھا، ’’یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ وہ آدمی اجنبی شہزادے کی طرف غور سے دیکھا اور کہا، ’’ہمارے شاہ اسکونسؔ کی بیٹی شہزادی اٹلانٹاؔ نے شرط رکھی ہے کہ وہ اسی نوجوان سے شادی کرے گی جو اسے دوڑ میں ہرا دے گا۔ ورنہ سامنے چبوترے پر کھڑی ہوئی ڈائنا دیوی کے سامنے قتل کر دیا جائے گا۔‘‘ پھر اس آدمی نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا، ’’اب تک کئی نوجوان شہزادوں نے اس دوڑ میں شہزادی کے ساتھ ہار کر اپنی جانیں گنوائی ہیں۔ آج ایک شہزادے کے ساتھ مقابلہ ہے....!‘‘ شہزادہ میلانینؔ اس آدمی کی باتیں بڑے شوق سے سن رہا تھا۔ اتنے میں شاہ اسکونسؔ کی سواری آئی۔ شاہ کے دائیں جانب خوبصورت شہزادی اٹلانٹا تھی۔ سب کے بیٹھتے ہی سب لوگ دوڑ کے شروع ہونے کا بڑی بے چینی سے انتظار کرنے لگے۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک نوجوان شہزادہ آیا اور ساتھ ہی شہزادی اٹلانٹاؔ
وہ چاروں طرف دور دور تک دیکھنے لگا۔ قریب ہی اس کو شاہ اسکونس کا شہر نظر آنے لگا۔ جس کی عمارتیں دھوپ میں چمک رہی تھیں۔ ساتھ ہی اس نے دیکھا کہ شہر سے باہر ایک بڑے میدان کی طرف لوگ جا رہے ہیں.... شہزادے کا شوق ہوا کہ دیکھے یہ لوگ کہاں جا رہے ہیں اور اسے پیاس بھی محسوس ہورہی تھی۔ اس نے گھوڑے کو اس میدان کی طرف بڑھایا۔ شہزادے نے میدان کے قریب کی جھیل سے پانی پیا۔ اور پھر میدان کی طرف بڑھا جہاں لوگ سیکڑوں کی تعداد میں جمع ہورہے تھے۔ میدان کے ایک طرف پر خوبصورت شامیانہ تنا ہوا تھا۔ جس پر شاہ اسکونسؔ کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ جس میں بادشاہ کے بیٹھنے کیلئے خوبصورت تخت رکھا تھا اور درباریوں کے بیٹھنے کا بھی انتظام تھا۔ شامیانے کے عین سامنے سرخ پتھر کے چبوترے پر دیوی ڈائنا کا بُت کھڑا کیا گیا تھا سب لوگ بادشاہ کی سواری کا انتظار کر رہے تھے۔ شہزادے نے
اگلے وقتوں کی بات ہے کہ ملک آرگونؔ کا شہزادہ میلانینؔ بہادری اور تیر اندازی میں اپنا جواب نہ رکھتا تھا۔ اسے اپنی دیویوں اور دیوتاؤں پر بڑا یقین تھا۔ نڈر اتنا کہ خوفناک جنگلوں میں شکار کیلئے تن تنہا نکل پڑتا۔ شکار کا شوق عادت بن گیا تھا۔ وہ شکار کیلئے نکلتا تو کئی کئی دن باہر رہتا۔ اس کے ساتھ صرف دو شکاری کتّے ہوتے جن کی مدد سے وہ شکار کا پتہ لگا لیتا۔ اس کا نشانہ اتنا اچھا تھا کہ جس ٹانگ پر چاہتا تاک کر اسی پر تیر مارتا۔ ایک روز شہزادہ میلانینؔ ہرنوں کا پیچھا کرتے کرتے بہت دور نکل گیا، یہاں تک کہ وہ اپنے ملک کی سرحد پار کرکے دوسرے بادشاہ کی سلطنت میں جا پہنچا۔ دھوپ قدرے تیز تھی۔ گھوڑا تھک چکا تھا اس لئے وہ ایک درخت کے سائے میں کچھ دیر سستانے کھڑا ہوگیا۔ شکاری کتّے بھی ہانپتے ہانپتے آپہنچے۔ اپنے آپ کو اجنبی حکومت میں پا کر وہ چاروں طرف
یں۔ مجھ ضعیف راوی کو عرصہ دراز سے ضعیف روایت کی طرح فراموش قید تنہائی میں رکھا گیا تھا۔ حالانکہ علماء سو جھوٹی روایات کے فتوی لگا کر خوب عیش کر رہے ہیں۔دوسروں کے گلے کاٹنے اور دھوکا دینے والے بھی آج یہ کہتے ہیں کہ دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے پیار ہے۔ کسی کی کشتی ڈوب جائے یا پار لگے اسے کوئی غرض نہیں۔ لیکن دریا کے بلکتے آنسو کسی کو نظر نہیں آتے۔ میرے کنارے ساس بہو کی دشمنیاں پلتی رہیں اور محبوب قدموں میں روندے گئے۔ گمان ہے کوئی وظیفہ الٹا کر محبوب کی جگہ میرا نام شامل کیا گیا۔ محبوب تو بچ نکلا اور میری سوئیاں نکالنے والا اب کوئی نہیں۔ اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا۔ نہ ہی بدو بدی اور نہ اپنی خواہش سے۔
وہ قلندر بھی نہ مل سکا جس کی بات مجھے پھر سے پانی پانی کر دیتی۔ کاش کہانی کا وہ دانا کوا کوئی جادوئی کنکریاں لاتا اور پانی کی سطح اتنی بلند کر دیتا کہ شاعر اپنے محبوب کو پکارتے کہ "مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیے۔ "پھر سوچتا ہوں کہ خاموشی یا شور مچا کر بہنے والے آخرش بجھ ہی جاتے ہیں۔ چیخ و پکار اور اپنی بقا کی جدوجہد کرنے والے شہید بھی ہوئے۔ پھانسی بھی لگائے گئے اور جلا وطنی کے عذاب بھی انھوں نے خوب جھیلے۔ یہ علم نہیں کہ وہ فائلر تھے یا نان فائلر۔ مجھے تو نان فائلر قرار دے کر یہ ٹیگ لگا دیا گیا ہے دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو میری سنو جو گوش نصیحت نیوش ہے دنیا کی خوب صورت آبشاریں ہوں یا دل کش دریا۔ سیاح جوق در جوق ان کو دیکھنے بھی جاتے ہیں اور دنیا کو اس طرف متوجہ بھی کرتے ہیں۔
جواں رہتا ہے۔ ہائے!! کوئی میکدے سے میرا عروج اٹھاکر لاؤ۔ فی زمانا بحث سن کر مجھے احساس ہوا ہے کہ شاید میں فائلر ہوتا تو کسی سمندر میں ہجرت کر سکتا تھا۔ میں فائلر ہوتا تو میرا چپکے سے یوں قتل نہ کیا جاتا۔ مجھے یقین ہے کہ سارے مصائب نان فائلر ہونے کی وجہ سے نازل ہوئے ہیں۔ ساتھی دریاؤں کو میری نصیحت ہے کہ پلیز فائلر بن جائیں ورنہ کوئی پڑھا لکھا دشمن آپ پہ ڈیم بنا لے گا اور ہم اپنی پرائمری سکول بیچتے رہیں گے۔ دل میں ایک کمینہ سا خیال یہ بھی آتا ہے ک اپنے کنارے مرادیں مانگنے والوں اور والیوں کی ویڈیوز لیک کر کے بھی ارباب اختیار کی توجہ کھینچی جا سکتی تھی۔ پھر سوچتا ہوں ارباب اختیار کی تو خود آئے روز آڈیوز اور ویڈیوز لیک کا کھاتا کھلا ہے۔ شاہ و وزیر ہر طرح کی آڈیوز / ویڈیوز پر بلیک میل ہو رہے ہوں تو مرتے دریا پر کون توجہ دے گا۔ مجھے تو وہ قلندر
ی بحر یا بحیرے میں جاگرتا ہے۔ بقول شاعر کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا لیکن میں تو پیر فرتوت رہا جو نہ دریا رہا اور نہ ہی کسی سمندر میں اتر سکا۔ شاعر نے پتہ نہیں کس کیفیت میں کہا تھا: "پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور" لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کئی دریا بذات خود مستقل بھی ہوتے ہیں اور معاون بھی۔ یعنی ایک دریا دوسرے دریا میں جا گرے تو معاون کہلاتا ہے۔ لیکن میں نہ تو ہیرو بن سکا نہ ہی ولن کا لبادہ اوڑھ سکا۔ قطرہ نیساں کی طرح میری چیخ دبی دبی رہی۔ نقار خانے میں طوطی کی سنتا ہی کون ہے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ مرنے سے پہلے میری چیخیں دلدوز تھیں۔ میری آہیں، میری معذوری، میرے چیخ پکار گویا سب ماتم رائیگاں رہا۔ یہ مصرع مجھ پر صادق ہے کہ عمر بھر کون حسیں،کون جواں رہتا ہ
ضلع کانگڑامیں درہ روتنگ میں ہوئی۔لاہور شہر کی بنیاد میرے اسی کنارے پر رکھی گئی جس سے اب طوطا چشموں نے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔ مجھے تو اب یہ بھی یاد نہیں کہ بہتے پانی پر گدھ کب سے منڈلا رہے تھے نہ ہی اس کا ذکر ہے۔ مت پوچھیے احوال دل! میں نے کیا کیا نہیں دیکھا جین مت، ہندو مت، اسلامی بادشاہتیں اور پھر گورا راج۔ سب سے زیادہ پذیرائی مجھے مغلوں کے دور میں ملی۔ جب میں لاہور شہر کے شمال میں واقع شاہی قلعے کے عقب میں بہتا تھا۔کیا لطف تھا زندگانی کا۔ بس میرے پاس تخت نہیں تھا۔ باقی سب وسائل تھے۔ بارہ دری میں چاند نکلتے تھے اور ستارے ٹکٹکی باندھے محو تماشا ہوتے تھے۔ میں اپنی مستی میں تھا۔ جب جی چاہتا لہراتا ہوا کنارے کی بستیاں روند دیتا۔ شاید یہ غرور مجھے لے ڈوبا۔ عام خیال ہے کہ دریا یا تو کسی دوسرے دریا سے جا ملتا ہے۔ یا کسی بحر یا بحیرے میں جا
میں راوی ہوں۔ میں پہلے دریا ہوا کرتا تھا۔اب سے صرف روایات بیان کرنے والا ہوں۔ حلف اٹھا کر کہتا ہوں کہ صرف سچ اور آنکھوں دیکھی کہوں گا۔ علماء سو کی طرح روایات گھڑنے میں مجھے کوئی دل چسپی ہے اور نہ ہی حوروں کے خواب سنانے میں۔ بس۔۔ جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتا رہوں گا۔۔ کون یقین کرے گا اور کس سے کہوں گا کہ میں پہلے بہتا تھا۔ بہتے بہتے رونے لگا اور پھر آخر میرے اشک بھی خشک ہوتے گئے۔ اشک شوئی کی ضرورت ہی کسے تھی۔ کئی زمانا ساز دورس نگاہوں نے فی مرلہ کے حساب سے میری قیمت اس وقت سے بی وصول کرنا شروع کر دی تھی جب میں زندہ تھا۔ مجھے اپنی عمر یاد دلانے کی کیا ضرورت ہے کہ میرا ذکر ہندو مت کی ویدوں میں بھی ملتا ہے لیکن اس وقت میرا نام راوی نہیں تھا بلکہ ریگ ویدا کے حوالے سے بھگت کبھی مجھے اراوتی اور کبھی پروشنی کے نام سے پکارتے تھے۔ میری پیدائش ضلع
بادشاہی مسجد میں اس سکون کی کمی تھی اور اس کی وجہ وہاں کی انتظامیہ کا چیخنا چنگھاڑنا، چندے کے لیے مجبور کرنا اور مسجد کا کمرشل کلچر تھا۔ وہاں جا کر انسان کا موڈ ہی خراب ہوتا ہے۔ سکون نصیب نہیں ہوتا۔ شاید مسجد انتظامیہ کو اس مسجد کو دوبارہ سے مسجد بنانے کی ضرورت ہے جہاں لوگ خوشی خوشی جائیں اور خوشی خوشی واپس اپنے گھروں کو جائیں۔
تھا اور اس کی حفاظت پر مامور شخص لوگوں کو اس میں پیسے ڈالنے کے لیے مجبور کر رہا تھا۔ ہم نے وہاں پیسے نہیں دیے۔ ایک بار چندہ دینا کافی تھا۔ یہ صندوق کیوں رکھے جاتے ہیں، ان میں کتنا پیسہ آتا ہے اور ان میں آنے والا پیسہ کہاں جاتا ہے یہ ہم سب کو پتہ ہے۔ مسجد سے باہر نکل کر جوتے واپس لیے۔ ان کی حفاظت کے لیے دکان دار کو ادائیگی کی۔ اس وقت مجھے چین کی مساجد یاد آئیں۔ کسی مسجد میں جوتوں کی حفاظت کے لیے لوگوں سے پیسے نہیں مانگے جاتے تھے۔ کسی مسجد میں لوگوں کو مجبور کر کے چندہ نہیں مانگا جاتا تھا۔ کوئی پیچھے پیچھے نہیں آتا تھا۔ مسجد میں تصاویر بناؤ یا نماز پڑھو، کوئی کچھ نہیں کہتا تھا۔ وہاں کی مساجد آرام دہ اور پرسکون لگتی تھیں۔ بادشاہی مسجد میں اس سکون
ر رہے تھے۔ اس کے بعد وہ اس صندوق کے ساتھ ایسے کھڑے ہو گئے کہ ہال سے نکلتے ہوئے ہر انسان ان کی موجودگی سے شرمندہ ہو کر کچھ نہ کچھ اس میں ڈال کر ہی باہر نکل رہا تھا۔ میں نے اپنے دوست کو کچھ روپے اس صندوق میں ڈالنے کے لیے دیے۔ اس سے اگلے ہال میں مقدس تبرکات زیارت کے لیے رکھے ہوئے تھے۔ وہاں لوگوں کے چلنے کے لیے رکاوٹوں کی مدد سے رستہ بنایا ہوا تھا۔ میں اپنے غیر ملکی دوست کو ہر شے کے بارے میں انگریزی میں بتا رہا تھآ۔ وہ ہر چیز کو حیرانی سے دیکھ رہے تھے۔ شاید ان کے ہاں مقدس تبرکات نہیں ہیں۔ چین میں کسی مسجد میں جوتوں کی حفاظت کے لیے لوگوں سے پیسے نہیں مانگے جاتے، نہ کسی کو مجبور کر کے چندہ لیا جاتا ہے۔ مسجد میں تصاویر بناؤ یا نماز پڑھو، کوئی کچھ نہیں کہتا۔ اس ہال کے اخراج پر بھی چندے کے لیے ایک بڑا سا صندوق پڑا ہوا تھا اور اس
بھی پورا ہو جائے۔ ایسا نہیں ہو سکتا تو سکیورٹی کا نظام ہی بڑھا دیں جو دیواروں پر لکھنے کو واقعی منع کرے۔ راہداری سے نکل کر ایک ہال میں داخل ہوئے۔ وہاں ہاتھ سے کڑھا ہوا قرآنِ پاک زیارت کے لیے رکھا ہوا تھا۔ اس ہال میں مامور آدمی چیخ چیخ کر سب کو ہال کی دیواروں کے ساتھ کھڑے ہونے کا کہہ رہا تھا۔ میرے خیال میں یہ کام ان کے گلے کی نسبت کچھ رکاوٹیں اور رسیاں بہتر انداز میں کر سکتی ہیں۔ہال کی دیواروں سے چند فٹ کے فاصلوں پر رکاوٹیں کھڑی کر کے انہیں رسیوں سے جوڑا جا سکتا ہے۔ اس طرح لوگ انہی کے پار رہ کر قرآنِ پاک دیکھ سکیں گے اور ان صاحب کے گلے کو بھی آ رام ملے گا۔ بہرحال اسی چیخ پکار میں وہ صاحب اس قرآن کے بارے میں بتانے لگے۔ جب ان کی سمجھ آنا شروع ہوئی تو وہ ہال کے دوسرے حصے میں رکھے چندے کے صندوق میں پیسے ڈالنے کی درخواست کر رہے تھے۔ اس
ہیں۔ راہداریوں میں صاف لکھا تھا کہ ’دیواروں پر لکھنا منع ہے‘ اور ’خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی‘ تاہم ہر دیوار پر ہمارے نوجوانوں کی محبت کے قصے لکھے ہوئے تھے۔ دیوارِ چین کے کچھ حصوں میں سیاحوں کے ایسے کاموں کے لیے بڑی بڑی چادریں لگی ہوئی ہیں۔ سیاح ان پر اپنا نام اور اس دن کی تاریخ لکھ سکتے ہیں۔ بادشاہی مسجد کی راہداریوں میں بھی کچھ ایسا ہی انتظام کیا جا سکتا ہے تاکہ مسجد کی دیواریں بھی خراب نہ ہوں اور لوگوں کا دیوار پر لکھنے کا شو
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain