Damadam.pk
MushtaqAhmed's posts | Damadam

MushtaqAhmed's posts:

MushtaqAhmed
 

اعتدال و توازن کا نام ہے۔ لیکن وہ اعتدال جو تجدد کی حدوں کو چھو رہا ہو اس کا ہر عہد میں رد کیا گیا ہے۔ اور اگر اس تجدد سے کہیں کچھ مثبت صادر ہوا تو اس کو لینے میں بھی بخل سے کام نہیں لیا گیا۔ موجود عہد میں بھی یہ دیوبندی مزاج اسی سپرٹ کے ساتھ موجود ہے۔ لیکن کچھ تجدد پسند، کچھ Inclusivity کے احساس اور کچھ فکری پراگندگی کا شکار ارباب علم اور ان کے خیر خواہوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں اصل دیوبندی مزاج کا نمائندہ ڈکلیئر کیا جائے۔ ان کے مطالبے پر غور کرنے سے قبل ایک لمحے کے لیے غور کر لیں اگر انیسویں صدی کے آخری میں سر سید احمد خان کی مذہبی فکر کو دین کی نمائندہ فکر تسلیم کر لیا جاتا تو آج مذہب کا وجود کس قدر زخمی اور چھلنی ہو چکا ہوتا

MushtaqAhmed
 

مشورے کے بغیر انہوں نے علی گڑھ کالج کو جوائن کر لیا۔ مشہور یہ ہو گیا کہ وہ بڑوں کی اجازت اور مشورے سے علی گڑھ منتقل ہوئے ہیں۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ نے مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے نام خط لکھا: ”مولوی عبداللہ صاحب کے حالات سن کر تعجب ہوا اور افسوس کہ باوجود دعویٰ صوفیت اور بزرگ زادگی کے اس مدرسہ کے متعلق ہو گئے جس کا نام علمائے آخرت کے نزدیک دارالالحاد ہے اور جو مذہب اور مشرب کے خلاف ہے اور یہ جو آپ سے کسی نے کہا ہے کہ وہ فقیر کی اجازت سے مدرسہ نیچریہ میں ملازم ہوئے ہیں سبحانک ھذا بہتان عظیم۔“ ایک دیوبندی خانوادے کے چشم و چراغ کا اپنے عہد کے تجدد پسند کے ہمرکاب ہونا صف اول کے دیوبندی مزاج کو پسند نہیں آیا۔
یہ چند واقعات اصل دیوبندی مزاج کی تفہیم میں معاون ہو سکتے ہیں۔ اس تفہیم کا حاصل یہ ہے کہ اصل دیوبندی مزاج توسع اور اعتدال و توازن کا

MushtaqAhmed
 

ہم
ان کی تقلید کریں گے۔“ وہ معتمد مولانا قاسم نانوتویؒ کے پاس پہنچا اور مولانا گنگوہی کا جواب سنایا۔ مولانا نے کہا: ”کام کرنے والوں کی تین قسمیں ہوتی ہیں،ایک نیت اچھی مگر عقل اچھی نہیں، دو عقل اچھی مگر نیت اچھی نہیں، تین نہ نیت اچھی نہ عقل اچھی۔ سر سید کے متعلق یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ نیت اچھی نہیں مگر یہ ضرور کہیں گے کہ عقل اچھی نہیں کیونکہ وہ جس زینہ سے مسلمانوں کو ترقی کی طرف لے جانا چاہتے ہیں اور فلاح و بہبود کا سبب سمجھتے ہیں وہ مسلمانوں کی تنزل کا سبب ہو گا۔“ یہ عبارت بھی اصل دیوبندی مزاج کی تفہیم میں کارگر ہے۔ اپنے عہد کے ارباب تجدد کی نیت پر شک نہیں کیا مگر اس ممکنہ غلطی کی نشان دہی بھی کر دی جس کا ارتکاب ابھی سرسید نے نہیں کیا تھا۔
مولانا عبد اللہ انصاریؒ مولانا قاسم نانوتویؒ کے داماد تھے۔ اپنے بزرگوں اور بڑوں کی اجازت اور مشورے ک

MushtaqAhmed
 

کی طرف سے رنجیدہ خاطر ہوں“۔ یہاں سر سید احمد خان کے اعتراف عظمت کے باوجود ان کے فساد عقائد کی شکایت اصل دیوبندی مزاج کی خوبصورت عکاسی ہے۔ اعتدال یہ ہے کہ اعتراف عظمت کے باوجود اگر کہیں فساد عقائد یا خرابی دین کی صورت پیش آ رہی ہو تو اسے بھی واضح کیا جائے۔
سر سید احمد خان نے علی گڑھ میں کالج کی بنیاد رکھی تو ایک معمتد خاص کو مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کی خدمت میں بھیجا کہ و ہ مولانا کو یہ پیغام پہنچائیں کہ میں نے مسلمانو ں کی ترقی کے لیے کالج کی بنیاد ڈالی ہے لہٰذا آپ میرا ساتھ دیں۔ مولانا گنگوہیؒ نے پیغام سن کر فرمایا: ”بھئی! ہم تو آج تک مسلمانوں کی فلاح کا راستہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے سمجھتے رہے مگر آج معلوم ہوا کہ ان کی ترقی کا اور بھی کوئی راستہ ہے۔“ پھر مولانا قاسم نانوتویؒ کا نام لے کر فرمایا: ”وہ ان باتوں میں مبصر ہیں جو وہ فرمائیں

MushtaqAhmed
 

معاملہ کر لینا۔ اور اگر ہنود کی شرکت سے اور معاملہ سے بھی کوئی خلافِ شرع امر لازم آتا ہو یا مسلمانوں کی ذلت یا اہانت یا ترقی ہنود ہوتی ہو، وہ کام بھی حرام ہے“۔ یہ تجدد کے باب میں صف اول کا دیوبندی مزاج ہے۔ گو اس مؤقف میں کچھ سختی در آئی ہے لیکن اس مؤقف کا حاصل یہ ہے کہ سر سید احمد خان دین کے نام پر بے دینی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ جنت و جہنم کا انکار، معجزات کا انکار وہ میٹھا زہر تھا جسے پینے کے بعد ایمان سسک سسک کر مر جاتا تھا۔
مولانا قاسم نانوتویؒ دار العلوم کے روح رواں تھے، ان کے سامنے سر سید احمد خان کا تذکرہ ہوا تو فرمایا: ”ہاں اس میں کچھ شک نہیں کہ سنی سنائی سید صاحب کی اولولعزمی اور درمندی اہل اسلام کا معتقد ہوں اور اس وجہ سے ان کی نسبت اظہار محبت کروں تو بجا ہے۔ مگر اتنا یا اس سے زیادہ ان کی فسادِ عقائد سن سن کر ان کا شاکی اور ان کی ط

MushtaqAhmed
 

۔ توسع اور اعتدال سے متصف ہونے کے باوجود دیوبندی مزاج تجدد کے باب میں ہمیشہ حساس رہا ہے۔ ہر عہد کے دیوبندی مزاج نے تجدد کی نشان دہی کی اور اس کا علمی و عملی رد کیا ہے۔ مولانا رشید احمد گنگوہیؒ دار العلوم کے بانیان میں سے تھے۔ ان سے جب اپنے عہد کے تجدد پسند سر سید احمد خان کے بارے سوال ہوا تو ان کا جواب کچھ اس طرح تھا: ”اگر ہندو مسلمان باہم شرکت بیع و شراء اور تجارت میں کر لیویں، اس طرح کہ کوئی نقصان دین میں یا خلاف شرع معاملہ کرنا اور سود اور بیع فاسد کا قصہ پیش نہ آوے، جائز ہے اور مباح ہے۔ مگر سید احمد سے تعلق رکھنا نہیں چاہیے۔ اگرچہ وہ خیر خواہی قومی کا نام لیتا ہے یا واقع میں خیر خواہ ہو مگر اس کی شرکت مالِ کار اسلام و مسلمان کو سم قاتل ہے۔ ایسا میٹھا زہر پلاتا ہے کہ آدمی ہرگز نہیں بچتا۔ پس اس کے شریک مت ہونا اور ہنود سے شرکت معاملہ کر ل

MushtaqAhmed
 

ہیں کہ انہیں اصل دیوبندی مزاج کا مستند نمائندہ سمجھا جائے۔ کچھ وہ جن کے اپنے مزاج کا اتار چڑھاؤ غیر معتدل رہتا ہے۔ معمولی اختلاف کی خراش سے ان کے آبگینے ٹوٹ جاتے ہیں۔ کچھ ایسے جو غیر ضروری مباحث کو سوشل میڈیا کی زینت بنائے رکھتے ہیں۔ کچھ وہ جن کا لازمی مطالبہ ہے کہ اصحاب رسول کے مابین خط امتیاز کھینچا جائے۔ کچھ وہ فکری اپاہج جن کی شخصیت تاثر اور مفادات سے گندھی ہے۔ یہ سب وہ متبادل ”تراث“ ہے جس کے بارے دعویٰ اور مطالبہ ہے کہ اسے اصل دیوبندی مزاج سمجھا جائے۔
علامہ اقبال مرحومؒ سے کسی نے دریافت کیا دیوبندیت کیا ہے؟ علامہ مرحومؒ نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا: ”دیوبند نہ فرقہ ہے نہ مذہب ہر معقول پسند، دین دار آدمی کا نام دیوبندی ہے۔“ اصل دیوبندی مزاج میں توسع ضرور ہے لیکن اس حد تک نہیں کہ یہ تجدد کی حدوں کو چھو کر اس سے بغلگیر ہو جائے۔ توسع ا

MushtaqAhmed
 

اصل دیوبندی مزاج کیا ہے؟ یہ بحث وقتاً فوقتاً سوشل میڈیا پر جاری رہتی ہے۔ میں نے ”دیوبندی مزاج“ کی تعبیر تفہیم کے لیے لکھی ہے ورنہ اصل تعبیر یہ ہونی چاہیے کہ اہل روایت کا اصل مزاج کیا ہے۔ اس بحث کا پس منظر یہ ہے کہ بعض تجدد پسند یہ خلط مبحث پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ موجودہ عہد کا دیوبندی مزاج اسلاف کے مسلک سے انحراف کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اصل دیوبندی مزاج میں توسع تھا وغیرہ۔ اس ضمن میں اپنی مرضی کی عبارات منتخب کر کے ان پر اپنا مقدمہ قائم کیا جاتا ہے۔ اس مقدمہ کے بطن سے پھر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اصل دیوبندی مزاج کی نمائندگی ان تجدد پسندوں کے افکار میں نظر آتی ہے۔
ان تجدد پسندوں میں سے کچھ غامدی صاحب کے خوشہ چین اور ان کے فکری جانشین ہیں۔ انہیں خود اصرار نہیں کہ انہیں دیوبندی کہا جائے لیکن ان کے چاہنے والے البتہ بضد ہی

MushtaqAhmed
 

رنی ہے۔
منی بیک گارنٹی
سونے میں ہمیشہ ایسی سرمایہ کاری کریں کہ ضرورت پڑنے پر اسے نقد رقم میں بدلنا ممکن اور آسان ہو۔ اس مقصد کو پانے اور اپنے مالی تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ آپ ایسے ریٹیلرز یا ایکسچینجز کا انتخاب یقینی بنائیں جو سونے کی واپسی کے شفاف طریقہ کار پر عمل پیرا ہوں اور آپ کو ایسی پیشکش کریں کہ آپ بخوشی اپنے سونے کو نقد رقم یا کسی اور اثاثے میں تبدیل کرسکیں۔
یاد رکھیں! سونے کی خریداری چاہے وہ ایک چھوٹی سی انگوٹھی کیوں نہ ہو، ایک اہم مالی فیصلہ ہے جس کا تعلق آپ کی سرمایہ کاری، رشتوں اور خوشیوں سے ہے۔ آپ مذکورہ معلومات اور اصولوں کی روشنی میں ایک درست فیصلہ کرکے اپنے سرمائے اور خوشیوں کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔

MushtaqAhmed
 

کا انتخاب کریں جس کی مارکیٹ میں اچھی شہرت ہو، صارفین اس پر اعتماد کرتے ہوں اور وہ ایمانداری سے کاروبار سے کرتا ہو۔ آپ صارفین کی رائے کی بنیاد پر اس سنار کے کاروباری کردار کے بارے میں بہتر اندازہ لگا سکتے ہیں اور اطمینان سے سونے کی خریداری کرسکتے ہیں۔
سونا خریدنے کا مناسب وقت
ہر کام کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے۔ سونے کی خریداری میں بھی یہ اصول بڑی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اسی اصول کی بدولت آپ اپنی محنت سے کمائے ہوئے سرمائے کی بچت اور اسے اگلے وقتوں کے لیے محفوظ بناسکتے ہیں۔ آپ کو شادی، بیاہ یا کسی بھی موقع کے لیے سونا خریدنا ہو تو اس کے لیے مناسب وقت اور بہتر موقع کا انتظار کیا جاسکتا ہے۔ آپ مارکیٹ میں سونے کے اتار چڑھاؤ اور زمینی حقائق پر نظر رکھ کر بہتر فیصلہ کرسکتے ہیں کہ آپ کو کب سونے کی خریداری کرنی ہے۔

MushtaqAhmed
 

نا نہیں ہوتی
یہ صرف سونا خریدنے کا ہی نہیں بلکہ زندگی کا بھی اصول بنالیں اور ذہن نشین کرلیں کہ ہر چمکتی ہوئی چیز سونا نہیں ہوتی۔ بہرحال، اگر آپ سونا خریدنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو سب سے پہلے اس کے خالص ہونے کی تصدیق کرنا ضروری ہے۔ سونے کا خالص پن قیراط کے پیمانے سے جانچا جاسکتا ہے۔ 24 قیراط کا سونا خالص ترین تصور کیا جاتا ہے۔ سونا 22، 20، 18، 14 اور 10 قیراط میں بھی دستیاب ہوتا ہے۔ جیسے جیسے آپ قیراط کم کرتے جائیں گے ویسے ہی سونے کی قیمت بھی کم ہوتی جائے گی۔ ایک عام خریدار مختلف قیراط کا سونا یا اس سے بنے زیورات کا بغور جائزہ لے کر باآسانی خالص اور ملاوٹی سونے کے درمیان فرق کرسکتا ہے۔
سنار کا انتخاب
سونے کی خریداری میں دکاندار کی شہرت، اعتماد اور اس کے پیش کردہ ریٹس کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ سونا خریدنے کے لیے ہمیشہ ایسے سنار کا ا

MushtaqAhmed
 

خریدتے ہوئے کن باتوں کا خاص خیال رکھنا چاہیے؟
کراچی (ویب ڈیسک) سونا خریدتے وقت اس کے اصل اور خالص ہونے کی تصدیق وہی لوگ کرسکتے ہیں جنہیں سونے کی پہچان ہوتی ہے۔ سنار کی دکان پر سونا خریدتے وقت لوگ اکثر مخمصے کا شکار نظر آتے ہیں۔ بعض لوگ تو آرٹیفیشل جیولری کو ہی اصلی سونے سے بنے زیورات سمجھ بیٹھتے ہیں۔
گو کہ سونے کی کوالٹی کو بہتر طور پر وہی جانچ سکتے ہیں جو اس کاروبار سے وابستہ ہوں تاہم بھاری رقم کے عوض سونا خریدنے والے ایک عام خریدار کے لیے بھی ضروری ہے کہ اسے اس حوالے سے چند اہم اور بنیادی اصول پتہ ہوں۔ ذیل میں سونا خریدنے سے متعلق ایسے ہی چند سنہری اصولوں پر بات کی گئی ہے۔
مزید پڑھیں:پرنس کریم آغا خان کی صاحبزادی کی گلگت آمد، صحت و تعلیم کے شعبہ میں حکومت کے ساتھ ملکر کام کرنے کا اعلان
ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی

MushtaqAhmed
 

ئی حرکتیں کرنے پر اکساتا ہے اس دوران کسی چیز کا نقصان ہو جانا ارادتاً نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ بات خود بھی ذہن میں رکھیں اور دوسرون کو بھی باور کرائیں کہ بچوں کی فطرت میں شرارت کرنا ہے، لہٰذا ماؤں کی تربیت پر سوال اٹھانا کسی طور مناسب طرز عمل نہیں۔
ایسی بہت سی باتیں ہیں، جو سماعتوں کے ذریعے دل تک پہنچ کر دکھ کا وہ احساس پیدا کرتی ہیں کہ بے بسی آنکھوں کو نم کر دیتی ہے۔ اگرہم بہ ذات فرد واحد ان باتوں کو اپنی گفتگو کے ذخیرۂ الفاظ سے منہا کر دیں، تو یقیناً بہت سی ماؤں کے دل دکھی ہونے سے بچ جائیں گے اور یہ عمل سچی خوشی کا وہ احساس جاگزیں کرے گا جس کا لفظوں میں اظہار ممکن نہیں۔

MushtaqAhmed
 

اچھے نمبروں کے حصول کے لیے اکثر بچوں کو ٹیوشن یا کوچنگ سینٹر بھی بھیجا جاتا ہے۔ ٹیوشن یا کوچنگ سینٹرز میں پڑھائی کا طریقہ کار اگر سمجھا کر پڑھانے کے بہ جائے رٹا لگانے پر زور دیتا ہو تو یہ طریقہ کار بھی اکثر بچوں کے لیے ذہنی دباؤ کا سبب بنتا ہے۔
’’بچوں کی کیسی تربیت کی ہے؟‘‘
بچے کوئی بھی حرکت کریں، کوئی نقصان کر دیں، مثلا کوئی گلاس توڑ دیا، پانی گرادیا، یا کھیل کے دوران آپس میں لڑ پڑیں، تو یہ جملے اکثر ماؤں کو سننے پڑتے ہیں۔
چھوٹے بچے بے حد شرارتی ہوتے ہیں۔ سارا دن اچھل کود اور شرارتوں میں مگن رہتے ہیں۔ لہٰذا بچوں سے عموماً ایسے چھوٹے موٹے نقصان ہو جاتے ہیں۔ مائیں بچوںکو کھیل کی جانب راغب کرتی ہیں، لیکن بچہ اپنی عمر کے لحاظ سے فطری طور پر شرارتیں کرنے لگتے ہیں، ان کا فطری تجسس ان کو نئی نئی حرکتیں کرنے پر اکساتا ہے اس دوران کسی چیز کا ن

MushtaqAhmed
 

صرف ایک ہی اول پوزیش حاصل کرتا ہے، لہٰذا ماؤں کو اس کا قصوروار گرداننا کسی صورت مناسب طرز عمل نہیں۔ عموماً ایسی باتوں کا ردعمل یہ ہوتا ہے کہ مائیں پڑھائی کے معاملے میں سختی کرتی ہیں اور اکثر جسمانی سزا سے بھی گریز نہیں کرتیں۔ امتحانات کے دنوں میں طلبہ سے زیادہ ان کی مائیں ذہنی تناؤ کا شکار رہتی ہیں، جس کی وجہ سے اکثر بلند فشار خون کا شکار ہو جاتی ہیں۔
مائیں دن رات پڑھائی کے لیے زور دے کر ڈرا دھمکا کر بچوں کو بھی ذہنی تناؤ کا شکار کر دیتی ہیں۔ انھیں بس ایک ہی فکر رہتی ہے کہ اگر بچے کے نمبر کم آئے تو لوگ کیا کہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ امتحانات کے دنوں میں اکثر بچے بیمار پڑ جاتے ہیں۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ بچوں کے امتحانات میں بہترین نتیجے یعنی اچھے

MushtaqAhmed
 

ماں کو ہی اس کا مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔
’’کیا بچوں کی پڑھائی پر توجہ نہیں دیتیں؟ آج کل کی ماؤں کو موبائل سے فرصت ہی نہیں ملتی!‘‘
اور اگر ماں ملازمت پیشہ ہو یا کوئی ’آن لائن‘ کام کرتی ہو تو نمبر کم آنے کی وجہ اسی کو ٹھیرایا جاتا ہے اور فوری طور پر ایسی تمام سرگرمیاں ختم کرنے کا مطالبہ یا فیصلہ صادر کر دیا جاتا ہے، گو کہ کچھ مائیں واقعی اولاد کی پڑھائی کو اتنی توجہ نہیں دے پاتیں، کیوں کہ وہ اپنی دیگر سرگرمیوں میں مصروف رہتی ہیں۔ ان کے لئے یہ بات کہنا درست ہوسکتا ہے مگر ماؤں کی اکثریت اولاد کو کام یاب دیکھنے کی خواہاں ہوتی ہے۔
درحقیقت ہر ماں چاہتی ہے اس کی اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے اور وہ زندگی کے ہر مرحلے میں کام یاب رہے، مگر ہر بچے کی ذہنی استعداد مختلف ہوتی ہے۔ ایک ہی جماعت میں ایک ہی استاد سے پڑھنے والے دسیوں طلبہ میں سے اکثر

MushtaqAhmed
 

بھاگتے، دوڑتے باتیں کرتے ہوئے دیکھتی ہوں گی، تو ان کے دل کی کیا کیفیت ہوتی ہوگی کہ ان کا بچہ یہ سب نہیں کرسکتا، یہ کیفیات صرف وہی جانتی ہیں۔
یہی نہیں ہر جگہ مثلاً کسی پارک، تفریح گاہ کسی تقریب میں غرض ہر جگہ بن مانگے مشورے دینے والے بھی ان کو زچ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ ’’اس کو فلاں عامل کو دکھا دو۔ فلاں مزار پر چلی جاو وغیرہ وغیرہ‘‘ اکثر انھی باتوں کی وجہ سے مائیں ایسے بچوں کو کسی پارک یا تقر یب میں بھی ساتھ لے جانے سے گریز کرتی ہیں۔ یوں وہ خود بھی گھر سے نکلنا چھوڑ دیتی ہیں اور تنہائی اور یاسیت کا شکار ہونے لگتی ہیں ۔
’’اتنے کم نمبر کیوں آئے؟‘‘
پڑھائی میں بچہ کمزور ہو یا امتحان کے نتیجے میں اس کے نمبر کم آئیں تو ماں کو

MushtaqAhmed
 

اس جیسی بہت سی باتیں اور توہمات کا تذکرے بھی ضرور کیے جاتے ہیں۔ جب کہ حقیقت میں وہ ماں جو اپنے بچے کی وجہ سے اندر ہی اندر نہ جانے کس کرب سے گزر رہی ہوگی۔ ایسی باتوں کا کیا جواب دے۔ اور ستم بالائے ستم، جب کوئی یہ کہہ دے کہ ’’یہ تو تمھارے ہی کیے کی سزا ہے!‘‘ ایسی باتیں سن کر ماؤں کا دل درد سے شق ہونے لگتا ہے۔
یہ تو قدرت کی طرف سے عطا کردہ اولاد ہے۔ اگر اس میں۔کوئی کمزوری یا کمی یا خدانخواستہ کوئی معذوری ہے، تو اس میں ماں کا کیا اور کتنا دوش۔ بظاہر چہرے پر مسکان سجائے آپ سے ملنے والی یہ مائیں اپنے دل میں درد کا کیا طوفان چھپائے بیٹھی ہوتی ہیں۔ یہ صرف وہی جانتی ہیں۔ اس لیے آپ گھڑی دو گھڑی کے لیے ملنے آتے ہیں، اس دوران اچھی باتیں کیجیے، نہ کہ ان کے زخموں پر نمک چھڑکیں۔ سوچیے یہ ماں جب دوسرے بچوں کو معمول کے مطابق ہنستے، کھیلتے، بھاگتے

MushtaqAhmed
 

مشکل سے کھانا کھاتا ہے۔ یہ وہی ماں جانتی ہے لیکن کبھی کسی طبی وجوہ کی بنا پر بھی بچہ کمزور ہوسکتا ہے۔ ایک ماں کے لیے اس کا بچہ دنیا میں سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے،آپ چاہے بچے سے کوئی بھی تعلق اور ناتا رکھتے ہوں، لیکن وہ ایک ماں سے زیادہ طاقت ور تعلق نہیں ہو سکتا۔ اس لیے پہلے تولیے اور پھر بولیے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں اور کس سے کہہ رہے ہیں!
’’یہ بچہ ایسا کیوں ہے ؟‘‘
خدانخواستہ اگر بچے میں کوئی پیدائشی نقص یا بعد میں کوئی معذوری بھی پیدا ہو تو عموماً ماؤں کو اس سوال کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ مزید یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ’’تم نے شاید سورج گرہن یا چاند گرہن میں خیال نہیں رکھا ہوگا!‘‘ یا یہ کہ ’’یہ آج کل کی لڑکیاں سمجھتی کہاں ہیں!‘‘، ’’کیا سمندر پر اور باغ میں سیر کے لیے گئی تھیں؟‘‘ وغیرہ یا اس جیسی بہت سی بات

MushtaqAhmed
 

ماں اپنے کھانے پینے کا تو پورا خیال رکھتی ہے، لیکن بچے کی غذائی صورت حال کا ذرا خیال نہیں رکھتی۔ حالاں کہ بھلا کبھی یہ بھی ممکن ہوا ہے کہ ماں خود کھالے اور بچے کو بھوکا رکھے۔ یہ تو آفاقی حقیقت ہے کہ والدین اور بالخصوص ماں خود پیٹ پر پتھر باندھ سکتے ہیں، لیکن اولاد کی بنیادی ضرورتوں کو لازمی پورا کرتے ہیں۔
ہمیں سوچنا چاہیے کہ مائیں تو بچے کی ولادت سے پہلے اور پیدائش کے بعد تک اس بچے کی نشوونما کے واسطے سارا خیال رکھتی ہیں، حتیٰ کہ بڑے بچوں کو ان کی پسند کے کھانے بنا کر کھلانا پوری ذمہ داری سے کرتی ہے اور ہر ماں بچوں کو کھانا کھلانے کے لیے کتنے ہی جتن کرتی ہے۔ کبھی کھانا کھلانے کے ساتھ کہانی سناتی ہے تو کبھی کھانا کھلانے کے دوران چڑیا کبوتر کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔
بچہ کتنی مشکل سے کھانا کھاتا ہ