Damadam.pk
MushtaqAhmed's posts | Damadam

MushtaqAhmed's posts:

MushtaqAhmed
 

میں نہ ہو تو یہ باتیں یہ رویے بے حد گراں اور تکلیف دہ ہو جاتے ہیں۔ بہ ظاہر وہ دوسروں کے سامنے اپنے آنسو ضبط بھی کرلیں، لیکن تنہائی میں یہ مائیں اپنی بے بسی پر بہت روتی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اگر ہم سب لوگ اپنے طرز عمل سے کسی کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں بکھیر سکتے، تو کسی کی آنکھوں میں آنسو بھی لانے کا سبب نہ بنیں۔ وہ بھی ایک ماں کے۔
یہاں ہم چند چھوٹی چھوٹی سی باتیں پیش کر رہے ہیں، جن سے گفتگو میں اجتناب کرنا چاہیے، تاکہ کسی بھی ماں کا دل نہ دکھے۔
’’تمھارا بچہ کتنا کمزور ہے!‘‘
بچہ چھوٹا ہو یا بڑا، یا چاہے نومولود ہی ہو، لیکن اگر بچے کا وزن کم ہو تو اس حوالے سے سب سے پہلے اس کی ماں ہی کو مورد الزام ٹھیرایا جاتا ہے۔ چوں کہ بچے کی پیدائش کے بعد اکثر ماؤں کا وزن بڑھ جاتا ہے، تو یہی وجہ سمجھی جاتی ہے کہ ماں

MushtaqAhmed
 

اپنی اولاد کے معاملے میں ماؤں کے دل نازک آبگینے کی مانند ہوتے ہیں۔ ذرا سی کسی کے سخت الفاظ یا رویے کی ٹھیس لگے، تو فوراً ٹوٹ جاتے ہیں، جب کہ کہنے والوں کو اس کا اندازہ بھی نہیں ہو پاتا کہ ان کے لفظوں سے یا رویے سے ایک ماں کی آنکھوں کے گوشے نم ہوگئے ہیں۔
ہو سکتا ہے کہنے والے کی نیت کسی ماں کا دل دکھانے کی نہ ہو وہ عام فہم انداز میں کوئی بات کررہے ہوں، مگر عورت مزاج میں کیسی بھی ہو، لیکن بطور ماں اس کا دل بہت نازک اور حساس ہوا جاتا ہے۔
اسی طرح بعض اوقات اولاد میں اگر خدانخواستہ پیدائشی کچھ کمی یا کمزوری ہو جس کو دور کرنا والدین کے اختیار میں نہ ہو

MushtaqAhmed
 

ے چنانچہ جس کے پاس روپیا ہے وہ بھی واجب التعظیم ٹھہرتا ہے۔ روپیا اعلیٰ ترین نیکی ہے چنانچہ اس کا مالک بھی نیک ٹھہرتا ہے ۔ میں کوڑھ مغز ہوں لیکن چونکہ روپیا تمام اشیا کی اصل روح ہے تو پھر بتائیے کہ اس کا مالک کیوں کر ذہانت میں کم ہوسکتا ہے؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ روپے کا مالک ذہین ترین لوگوں کو خرید سکتا ہے اور اگر ذہین ترین لوگ کسی شخص کے قبضہ قدرت میں ہیں تو کیا وہ ان سے زیادہ ذہین نہیں ہے؟ روپے کی اتنی شاعرانہ اور تخلیقی تشریح کرنا کسی عام ادیب کے بس کی بات ہے؟
اس امر سے انکار دشوار ہے کہ جدید دورکے جن فلسفیوں کے افکار نے دنیا میں سوچ اور غور و فکر کے دھارے تبدیل کیے ہیں، ان میں مارکس کا نام بہت نمایاں ہے۔ کالم کا آغاز اقبال کے جس شعر سے کیا گیا ہے، وہ اس امر کی بھرپور اکاسی کرتی ےend

MushtaqAhmed
 

’’ روپے کے ذریعے مجھے کیا حاصل ہے، روپے سے جو کچھ مجھے حاصل ہے میں بس وہی ہوں۔ میری طاقت اتنی ہی زیادہ ہے جتنی روپے کی جس کے پاس روپیا ہے اس کی صفات اور صلاحیتیں وہی ہیں جو روپے کی ( جو اس کی تحویل میں ہے) چنانچہ میں جو کچھ ہوں اور جو کچھ کرسکتا ہوں وہ میری انفرادیت سے متعین نہیں ہوتیں۔ ( اس کا مطلب یہ ہوا کہ ) میں بد صورت نہیں ہوں، کیونکہ بد صورتی کراہیت میں مبتلا کرنے والی قوت ہے، جسے روپیا ختم کردیتا ہے۔ میں اپنی انفرادی فطرت کے اعتبار سے لنگڑا ہوں لیکن روپیا مجھے 24 ٹانگیں فراہم کردیتا ہے‘ چنانچہ میں لنگڑا نہیں ہوں۔

MushtaqAhmed
 

مارکس کی اس داستان گوئی کی تصدیق پال لافارج نے بھی کی ہے اور لکھا ہے کہ جب اس کی بیٹیاں چہل قدمی کے قابل ہوئیں تو وہ انھیں ساتھ لے کر میلوں نکل جاتا اور انھیں پریوں، جادوگروں اور جل پریوں کی نو تصنیف کہانیاں برجستہ سناتا جاتا۔
ایلیزکی طرح لافارج کو بھی اس کا ملال رہا کہ یہ کہانیاں کاغذ پر محفوظ نہ ہوسکیں ورنہ وہ مارکس کے ادبی وفور اور ذہن کی خلاقی کے ایک دوسرے پہلو کو اجاگرکرتیں۔ وہ معیشت کی گتھیاں سلجھاتے ہوئے ادب پاروں کو جس طرح دلیل کے طور پر ٹانکتاچلا جاتا تھا، اس کا اندازہ اس کی تحریرکے اس ٹکڑے سے کیا جاسکتا ہے جس میں روپے کی طاقت کو بیان کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے۔

MushtaqAhmed
 

کاٹی‘‘ کسی خط میں وہ ایک ہی سانس میں وشوامتر، ولیم تھیکرے اور چاسرکی ’’کینٹربری ٹیلز‘‘ کا ذکر کرتا چلا جاتا ہے۔ پال لافارج کو بہ یک وقت فرانسیسی اور انگریزی میں خط لکھتا ہے تو ہائنے اور وکٹر ہیوگوکے اشعار اور جملے اس خط میں دریا کی موجوں کی طرح لہریں لیتے ہیں۔
مارکس کی بیٹی ایلیز نے لکھا ہے کہ شیکسپیئر کے ڈرامے ہمارے گھر میں بائبل کی حیثیت رکھتے تھے۔ 6 برس کی عمر میں شیکسپیئر کے کئی ڈراموں کے مکالمے مجھے ازبر تھے ۔ پاپا نے ہم بہنوں کو ہومرکا سارا کلام سنایا تھا، اس کے علاوہ بھی بہت سی کتابیں انھوں نے ہمیں سنائی تھیں جن میں سروانٹس کی ڈون کہوٹے اور الف لیلہ سر فہرست ہیں۔

MushtaqAhmed
 

موازنہ کرتے ہوئے وہ شیلے کو ایک مکمل انقلابی ٹھہراتا ہے اورکہتا ہے کہ اگر وہ30 برس کی عمر میں ختم نہ ہوگیا ہوتا تو سوشلسٹ تحریک کا رہنما اور مشعل بردار ہوتا جب کہ بائرن کے بار ے میں ا س نے یہ رائے دی کہ36 برس میں دنیا سے اگرکوچ نہ کر جاتا تو ایک رجعت پسند بورژوا کے طور پر سامنے آتا۔
شیکسپیئر کے مشہور کردار شائیلاک کا ذکر اس کی تحریروں میں کئی بار آیا ہے۔ ہائنے کی شاعری اسے ازبر تھی، گوئٹے کی ’’فائوسٹ‘‘ اور ’’دیوان مشرق و مغرب‘‘ کے حوالے سے اس کے خطوط ملتے ہیں۔ کہیں وہ ہائنے کی اس سطر کو دہراتا ہے کہ ’’ میں نے اژدھے کاشت کیے تھے لیکن پسوئوں کی فصل کاٹی‘‘

MushtaqAhmed
 

اس کو جلد ہی اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ شاعری اس کے اضطراب کا اظہار تو تھی لیکن درحقیقت وہ اس میدان میں کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں دے سکتا تھا۔ شاعری ترک کر کے فلسفے سے اپنی دائمی رفاقت کا فیصلہ کارل مارکس نے یقینا کشف کی کسی ایسی گھڑی میں کیا تھا جس نے اسے تاریخ کی ایک نادر روزگار شخصیت بنادیا۔ اس نے آنے والی انسانی نسلوں کی تقدیر کا دھارا موڑ دیا۔ وہ عظیم جرمن شاعروں اور یونان و روما کے کلاسیکی شعراء کے کلام کا والہ وشیدا تھا، اس کی خود نگری نے اسے سمجھا دیا تھا کہ اگر وہ ان جیسی یا ان سے بہتر شاعری نہیں کرسکتا تو اسے کسی اور میدان میں اپنا جوہر آزمانے کی ضرورت ہے۔
مارکس کا کہنا تھا کہ افراد کی ذہانت اور ان کی دانشورانہ گہرائی کو جانچنے کی سب سے بڑی کسوٹی یہ ہے کہ وہ عظیم ادب کا کتنا فہم رکھتے ہیں۔ ایک جگہ شیلے اور بائرن کا موازنہ کرتے ہ

MushtaqAhmed
 

تو اس نے قانون اور فلسفے کا انتخاب کیا لیکن اس کے اندر ایک ایسا نوجوان سانس لیتا تھا جو یونان اور روما کی قدیم تاریخ اور ہومر کے رزمیوں کا عاشق تھا۔ ارسطو، افلاطون، دیو جانس کلبی، ایپی کیوریس، پلوٹارک، سنیکا اور سسرو کو وہ پندرہ سولہ برس کی عمر میں پڑھ چکا تھا۔ شیکسپیئر، اسکائی لس اورگوئٹے اس کے محبوب شاعر تھے۔ اسپارٹکس اور کپلر اس کے ہیروتھے۔ اسکائی لس کی شاعری کا دلدادہ ہونے کی بنا پر وہ پرومی تھیس ایسے بے مثال باغی کردار کے بارے میں اسکائی لس کے شاندارکلام کو اپنے وجود میں جذب کرچکا تھا۔

MushtaqAhmed
 

نظام کو قائم رکھتے ہوئے اس کے اندر نئے پہلو تلاش کرتے ہیں۔
کمیٹی نے پہلی مرتبہ ایک ایسے معاشی محقق کو نوبل انعام دیا جو نظام میں بنیادی اور انقلابی تبدیلی لانے کے حوالے سے تحقیق کررہا تھا۔ مارکس کی ہمہ جہت زندگی کا یہ پہلو بھی دلچسپ ہے کہ اس کے ماں اور باپ دونوں کے خاندان صدیوں پرانی مذہبی روایات رکھتے تھے اور ان میں پشت در پشت ربّی گزرے تھے لیکن کارل کے باپ کو ٹرائر کے سماج میں بیروزگاری کے عفریت سے بچنے کے لیے اپنا مذہب تبدیل کرنا پڑا، اس کے باوجود اپنے قدیم یہودی پس منظرکی وجہ سے مارکس خاندان ٹرائر کے سماج میں سماجی اعتبار سے بے اعتنائی اور بیگانگی کا شکار رہا۔
کارل بورن یونیورسٹی میں داخل ہوا تو ا

MushtaqAhmed
 

م شامل کیا ہے۔ اپنے افکارکی وجہ سے مارکس کا اپنے وطن جرمنی میں رہنا ممکن نہ ہوسکا اور اس نے اپنی زندگی فرانس، بیلجیم اور برطانیہ میں ایک جلاوطن کے طور پرگزاری۔ مشکل ترین مالی مشکلات کے باوجود اس نے تحقیقی اور تخلیقی کام جاری رکھا۔ ایک دن ایسا بھی آیا جب اس نے اپنے دوست اینگلزکو ایک خط میں لکھا ’’اتنی مشکل اور عذابناک زندگی میں جینا ممکن نہیں۔‘‘
مغرب کی ترقی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ وہ اپنے نظریاتی اور سیاسی مخالفین کی صلاحیتوں کا اعتراف کرنے میں ہماری طرح زیادہ کنجوسی سے کام نہیں لیتے۔ بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ کارل مارکس کو اس کی کتاب’’ داس کیپٹل‘‘ پر 2016میں بعد از مرگ معاشیات کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔ یہ انعام 1968 میں تخلیق کیا گیا تھا ۔ نوبل انعام کمیٹی کے ترجمان نے اس موقع پر کہا کہ یہ انعام ان اسکالرزکو دیا جاتا رہا ہے جو نظام ک

MushtaqAhmed
 

۔ مارکس کو کئی علوم پر دسترس تھی وہ فلسفی، سماجی سائنسدان، صحافی، شاعر اور معیشت دان تھا۔ مارکس کی شخصیت ہمہ جہت تھی، اس کی تخلیقی صلاحیتوں کے معترف وہ کھلے ذہن کے لوگ بھی تھے جو اس کے فلسفے سے اتفاق نہیں کرتے تھے۔ اس کے بارے میں علامہ اقبال کا یہ شعر اب ضرب المثل بن چکا ہے:
وہ کلیم بے تجلی، وہ مسیح بے صلیب
نیست پیغمبر و لیکن دربغل دارد کتاب
مارکس 5 مئی 1818 میں پیدا ہوا۔ 38 سال کی عمر میں ا س نے اپنے دوست اینگلز کے ساتھ مل کر کمیونسٹ مینی فیسٹو تحریر کیا، بعد ازاں اس کی تحقیقی کتاب ’’ داس کیپٹل‘‘ نے دنیا میں تہلکہ برپا کردیا۔ کمیونسٹ مینی فیسٹو کی پچاس کروڑکاپیاں فروخت ہوئیں۔ اس کا شمار دنیا کی سب سے زیادہ بِکنے والی کتابوں میں کیا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے مارکس کی کتابوں کو ورلڈ ہیریٹیج ڈاکومنٹس میں

MushtaqAhmed
 

اٹھارویں صدی کی اختتامی دہائیوں میں صنعتی دورکا آغاز ہوا اور انیسویں صدی کے وسط میں صنعتی انقلاب برپا ہوا جس نے اس طرز معیشت کو یکسر تبدیل کردیا جس کی بنیاد انسان اور جانورکی مشقت پر قائم تھی۔
صنعتی انقلاب کے بعد مشین اور ٹیکنالوجی کے ذریعے پیداواری عمل شروع ہوا جس کے نتیجے میں پورا سماجی نظام تبدیل ہوگیا۔ صنعتی انقلاب کے ابتدائی دور میں مشینی پیداوار کے باعث شدید بیروزگاری پیدا ہوئی، نئے طبقات وجود میں آگئے جنھوں نے زیادہ سے زیادہ منافع کے لیے بد ترین انسانی استحصال کیا، بعد ازاں نو آبادیاتی نظام کے ذریعے چند مغربی ملکوں نے تین چوتھائی دنیا پر قبضہ کر لیا۔
صنعتی دور میں جن سائنس دانوں اور مفکرین کو غیر معمولی شہرت ملی، ان میں جرمنی کے فلسفی کارل مارکس کا نام بہت نمایاں ہے

MushtaqAhmed
 

Good morning 🌅 g🙋

Sfdzfgdf
M  : Sfdzfgdf - 
Ad as gdggd so
M  : Ad as gdggd so - 
MushtaqAhmed
 

سے ایک جس کے بارے میں محققین اپنے مستقبل کے مطالعے میں حل کرنے کی امید کرتے ہیں، جنگل میں پالتو گدھوں کے قریبی رشتہ داروں کی تلاش ہے۔ اورلینڈو، ٹوڈ اور ان کے ساتھی اس سلسلے میں تین مثالوں کی نشاندہی کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
ٹوڈ کے مطابق ’ہم جانتے ہیں کہ آج کے گدھے افریقی جنگلی گدھوں کی نسل سے ہیں۔ ہم نے تین ذیلی انواع کی نشاندہی کی ہے: پہلی رومن سلطنت کے دوران دو سو قبل مسیح میں معدوم ہو گئی تھی، دوسری ممکنہ طور پر جنگل میں ناپید ہے اور تیسری شدید خطرے سے دوچار ہے۔‘
تاہم، یہ جاننے کے لیے مزید مطالعات کی ضرورت ہے کہ آیا افریقی جنگلی گدھوں کی مزید نامعلوم ذیلی نسلیں موجود ہیں یا نہیں۔ جو بات یقینی ہے وہ یہ ہے کہ مزید ذیلی انواع کی دریافت سے ان جانوروں کی جینیاتی تاریخ اور انسانی زندگی میں ان کے کردار کے بارے میں سمجھنے میں مدد ملے گی۔

MushtaqAhmed
 

ان تمام لازوال فوائد کے باوجود، گدھے انسانوں میں اتنے مقبول نہیں ہیں جتنے گھوڑے اور کتے۔ لیکن جہاں دنیا کے کچھ حصوں میں گدھوں کو بڑی حد تک نظر انداز کیا جاتا ہے، وہیں دیگر علاقوں میں وہ اب بھی اہم ہیں۔
گدھے
،تصویر کا ذریعہ
ٹوڈ کا کہنا ہے کہ ’گدھے دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کی روزمرہ زندگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’اگرچہ ترقی یافتہ ممالک میں روزمرہ کی زندگی میں گدھوں کا استعمال نہیں کیا جاتا وہیں بہت سے ترقی پذیر معاشروں بشمول افریقہ اور جزیرہ نما عرب کے علاقوں میں، لوگ اب بھی باربرداری اور انسانی سفر کے لیے ان پر انحصار کرتے ہیں۔'
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ گدھوں کی جینیاتی ساخت کو جاننا مستقبل میں اس جانور کی افزائش کے طریقوں اور اس کے انتظام کو بہتر بنانے میں کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔
ان کلیدی مسائل میں سے ایک

MushtaqAhmed
 

اورلینڈو اور ان کے ساتھیوں کے زیر مطالعہ ان جانوروں کی قدیم ترین مثالیں ترکی میں کانسی کے دور کے تین گدھے ہیں۔ ٹوڈ کا کہنا ہے کہ ’کاربن ڈیٹنگ کے مطابق وہ 4,500 سال قدیم ہیں اور ان کی جینیاتی شکل وہی ہے جو ایشیا میں اس جانور کی اس دور کی ذیلی نسلوں کی ہے۔‘
اس تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ گدھے اپنے چار ٹانگوں والے رشتہ دار یعنی گھوڑوں کے مقابلے میں انسان کے زیادہ مستحکم ساتھی رہے ہیں۔
اورلینڈو کا کہنا ہے کہ ’پالتو گھوڑوں نے جو تقریباً 4,200 سال قبل پہلی بار پالے گئے تھے، انسانی تاریخ پر نمایاں اثرات مرتب کیے ہیں۔ اب ہماری تحقیق سے علم ہوتا ہے کہ گدھوں کا اثر ان سے بھی زیادہ تھا۔‘

MushtaqAhmed
 

لیکن اس کے علاوہ گدھوں اور دیگر چوپایوں کی موجودگی نے اس دور کی جنگوں کو بھی تبدیل کیا۔ ریخت کے مطابق ’یہ جانور جنگوں میں پہیوں والی گاڑیاں کھینچنے اور حملہ کرنے والی فوج کو رسد پہنچانے کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔‘
اس دور میں گدھے اتنے اہم تھے کہ وہ اہم رسومات کا حصہ بھی بنائے گئے۔ ریخیت کہتی ہیں کہ ’مصر اور میسوپوٹیمیا میں گدھوں کی اتنی قدر کی جاتی تھی کہ انھیں انسانوں کے ساتھ اور بعض صورتوں میں بادشاہوں اور حکمرانوں کے ساتھ بھی دفن کیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ کچھ واقعات میں گدھوں کو انفرادی طور پر دفن کیا گیا۔‘
ان کے مطابق دوسری صدی قبل مسیح میں، معاہدوں پر دستخط کے موقع یا عمارتوں کی بنیاد رکھتے ہوئے بھی گدھوں کی قربانی دی جاتی