Damadam.pk
MushtaqAhmed's posts | Damadam

MushtaqAhmed's posts:

MushtaqAhmed
 

ہو گئے۔
مسجد میں داخل ہوتے ہی ہمارے پاس دو تین فوٹوگرافر آ گئے۔ ہم ابھی مسجد کا صحن دیکھ رہے تھے، وہ ہمارے سروں پر سوار ہو کر تصاویر بنوانے کی پیشکش کرنے لگے۔ اتنے میں عصر کی اذان شروع ہو گئی۔ میں نے انہیں کہا: ’بھائی، یہاں جس کام سے آئے ہیں، پہلے وہ کر لیں؟‘
وہ جی جی کرتے ہوئے ایک طرف تو ہو گئے لیکن صاف لگ رہا تھا کہ انہیں میرا ایسا کہنا برا لگا تھا۔ ہم وضو کر کے نماز پڑھنے چلے گئے۔
نماز پڑھ کر نکلے تو مسجد کی دونوں اطراف میں بنی راہداریوں کی طرف چلے گئے۔
فرش تپ رہا تھا۔ انتظامیہ نے فرش پر کچھ چٹائیوں کے ذریعے ایک حصے سے دوسرے حصے تک جانے کے لیے رستہ بنایا ہوا ہے۔ لوگ انہی پر چل کر مسجد کے ایک حصے سے دوسرے حصے کی طرف جاتے ہیں۔

MushtaqAhmed
 

مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی تعمیر کردہ بادشاہی مسجد سرخ پتھروں اور خوبصورت میناروں کی وجہ سے لاہور کی پہچان کے ساتھ ساتھ ایک سیاحتی مرکز بھی بن چکی ہے۔ لاہور آنے والا سیاح اگر یہاں نہ جائے تو اس کی سیر ادھوری رہتی ہے۔
میں بھی اس عید اپنے ایک غیر ملکی مسلمان دوست کو بادشاہی مسجد لے گئی۔ انہوں نے مسجد دیکھنے کے علاوہ وہاں نماز کی ادائیگی بھی کرنی تھی۔
ہم نے مسجد کے باہر کچھ تصاویر لیں، پھر مسجد کی طرف بڑھ گئے۔ مسجد میں داخل ہونے سے پہلے جوتے اتارنے تھے جن کی رکھوالی کے لیے کئی لوگ اپنی اپنی دکانیں سجائے ہوئے بیٹھے تھے۔ فی جوتا غالباً 50 روپے وصول کیے جا رہے تھے۔ ہم پانچ لوگ تھے، کچھ منٹ ان کے ساتھ ریٹ طے کرنے میں لگے، پھر انہیں جوتے پکڑا کر ہم مسجد میں داخل ہو

MushtaqAhmed
 

۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے حیرانگی سے فرمایا کہ تو تو سب کچھ کھا گئی ہے، اب بھی تیرا پیٹ نہیں بھرا؟؟؟ یہ جواب سن کرمچھلی بولی! کیا مہمان کیلئے میزبان کا ایسا جواب ہوتا ہے ۔ اے سلیمان! آپ خوب جان لیں کہ میرے لئے جتنا آپ نے پکایا، اتنا کھانا میرا اللہ مجھے دن میں تین مرتبہ دیتا ہے۔ جبکہ تو آج میرے کھانے میں کمی کی وجہ بن گیا ہے اور تو نے میرے کھانے میں کمی کر دی۔
یہ سننا تھا کہ اسی وقت اسی لمحے حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ رب العزت کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے اور کہنے لگے، پاک ہے وہ ذات جو مخلوقات کی روزیوں کے ساتھ کفالت کرنے والی ہے، کہ جہاں سے مخلوق جانتی بھی نہیں کہ آتا کہاں سے ہے۔beshak

MushtaqAhmed
 

رمایا کہ میں سمندر کے جانوروں سےشروع کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے بحر محیط کی ایک مچھلی کو حکم دیا کہ وہ سلیمان علیہ السلام کی ضیافت میں سے کھائے۔ چنانچہ وہ مچھلی آگئی اور حضرت سلیمان علیہ السلام سے کہنے لگی کہ میں نے سنا ہے کہ تو نے ضیافت کا دروازہ کھول دیا ہے اور آج میری ضیافت تو کرے گا؟
حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا، ہاں ایسا ہی ہے اور کھانا شروع کر۔ چنانچہ وہ مچھلی آگے بڑھی اور دسترخوان کے شروع سے کھانے لگی، مچھلی نے اس قدر کھایا کہ کچھ دیر میں جتنا بھی کھانا تھا سب کچھ اکیلے کھا گئی۔ سب کھا کر مچھلی نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو آواز لگا کر کہا، اے سلیمان! مجھے اور کھانا کھلاؤ۔
حضرت سلیمان علیہ

MushtaqAhmed
 

حضرت سلیمان علیہ السلام نے تمام جنات اور انسانوں کو حکم دیا کہ وہ تمام کے تمام ان چیزوں کو جو زمین پر حلال ہیں یعنی گائے، بیل، بکریاں، دنبے وغیرہ اور ان تمام چیزوں کو جو جنس حیوان میں سے ہیں، یعنی پرندے وغیرہ، ان کو جمع کریں۔ چنانچہ جن و انس نے ان تمام کو جمع کرلیا اور بڑی بڑی دیگیں تیار کی گئی اور پھر ان تمام جانوروں کو ذبح کر کے ان کو پکایا گیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہوا کو حکم دیا کہ کھانے پر چلے تاکہ خراب نہ ہو۔ پھر کھانوں کو جنگل میں پھیلا دیا گیا،
اس کھانے کی دعوت کی لمبائی ایک مہینے کی مسافت کے برابر تھی اور اس کی چوڑائی بھی اتنی ہی تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ سے حضرت سلیمان علیہ السلام سے دعا فرمائی تو اللہ رب العزت نے وحی نازل فرمائی۔ اے سلیمان! تو مخلوقات میں سے کس سے دعوت شروع کرے گا؟؟
حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا کہ میں

MushtaqAhmed
 

حضرت سلیمان علیہ السلام نے جب دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے دنیا کو وسیع کردیا ہے اور دنیا کی طاقت ان کے ہاتھ میں ہو گئی تو کہنے لگے۔ اے میرے معبود !! اگر آپ مجھے اجازت دیں کہ میں آپ کی تمام مخلوقات کو پورے سال کھلاؤں، تو بہترہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے پاس وحی بھیجی کہ تو اس پر ہرگز قدرت نہیں رکھتا۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے پھر درخواست کی، یا الہیٰ!! ایک ہفتہ کے لیے ایسا ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب ملا کہ تو اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے پھر درخواست کی کہ یاللہ!! ایک دن کے لیے اجازت دے دیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ملی کہ تو اس کی بھی قدرت نہیں رکھتا لیکن ایک دن کی ضیافت کی اللہ تعالیٰ نے اجازت دے دی۔
اجازت ملنے کے بعد حضرت

MushtaqAhmed
 

ہلاک کر دیے گئے‘‘۔
’’سنو! جو لوگ یہاں موجود ہیں انہیں چاہیے کہ یہ احکام اور یہ باتیں ان لوگوں کو بتادیں جو یہاں نہیں ہیں، ہو سکتا ہے کہ کوئی غیرموجود تم سب سے زیادہ سمجھنے اور محفوظ رکھنے والا ہو‘‘۔’’اور لوگو! تم سے میرے بارے میں (اﷲ کے ہاں) سوال کیا جائے گا۔ بتاؤ تم کیا جواب دو گے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ ’’ہم اس بات کی شہادت دیں گے کہ آپ نے امانت ’دین‘ پہنچا دی اور آپ ﷺ نے حق رسالت ادا فرما دیا اور ہماری خیر خواہی فرمائی‘‘۔
end

MushtaqAhmed
 

یہ حق ہے کہ وہ اپنے پاس کسی ایسے شخص کو نہ بلائیں جسے تم پسند نہیں کرتے اور وہ کوئی خیانت نہ کریں، کوئی کام کھلی بے حیائی کا نہ کریں اور اگر وہ ایسا کریں تو اﷲ کی جانب سے اس کی اجازت ہے کہ تم انہیں معمولی جسمانی سزا دو اور وہ باز آجائیں تو انہیں اچھی طرح کھلاؤ پہناؤ۔
’’عورتوں سے بہتر سلوک کرو، کیوں کہ وہ تمہاری پابند ہیں اور خود اپنے لیے وہ کچھ نہیں کرسکتیں چناںچہ ان کے بارے میں اﷲ کا لحاظ رکھو کہ تم نے انہیں اﷲ کے نام پر حاصل کیا اور اسی کے نام پر وہ تمہارے لیے حلال ہوئیں۔ لوگو! میری بات سمجھ لو، میں نے حق تبلیغ ادا کر دیا ہے‘‘۔’’میں تمہارے درمیان ایک ایسی چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ تم کبھی گم راہ نہ ہو سکو گے۔ اگر اس پر قائم رہے اور وہ اﷲ کی کتاب ہے اور ہاں دیکھو دینی معاملات میں غلو سے بچنا کہ تم سے پہلے کے لوگ انہی باتوں کے سبب ہلاک کر دیے

MushtaqAhmed
 

ئی کسی وارث کے حق کے لیے وصیت نہ کرے‘‘۔ بچہ اسی کی طرف منسوب کیا جائے گا جس کے بستر پر پیدا ہوا، جس پر حرام کاری ثابت ہو، اس کی سزا پتھر ہے، حساب کتاب اﷲ کے ہاں ہوگا۔
’’جو کوئی اپنا نسب بدلے گا یا کوئی اپنے آقا کے مقابلے میں کسی کو اپنا آقا ظاہر کرے گا اس پر اﷲ کی لعنت‘‘۔ ’’قرض قابل ادائیگی ہے، عاریتاً دی ہوئی چیز واپس کرنی چاہیے، تحفے کا بدلہ دینا چاہیے اور جو کسی کا ضامن ہے وہ تاوان ادا کرے‘‘۔ کسی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے کچھ لے۔ سوائے اس کے جس پر اس کا بھائی راضی ہو اور خوشی خوشی دے، خود پر اور ایک دوسرے پر زیادتی نہ کرو۔’’عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کا مال اس کی اجازت کے بغیر کسی کو دے‘‘۔
دیکھو! تمہارے اوپر تمہاری عورتوں کے کچھ حقوق ہیں۔ اسی طرح ان پر تمہارے حقوق واجب ہیں، عورتوں پر تمہارا یہ حق ہے کہ

MushtaqAhmed
 

امانت رکھوائی جائے تو وہ اس کا پابند ہے کہ امانت رکھوانے والے کو امانت پہنچا دے‘‘۔
’’لوگو! ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اپنے غلاموں کا خیال رکھو، ہاں غلاموں کا خیال رکھو، انہیں وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو، ایسا ہی پہناؤ جیسا تم پہنتے ہو‘‘۔دور جاہلیت کا سب کچھ میں نے اپنے پیروں سے روند دیا ہے، زمانہ جاہلیت کے خون کے سارے انتقام اب کالعدم ہیں۔ پہلا انتقام جسے کالعدم قرار دیتا ہوں۔ میرے اپنے خاندان کا ہے۔ ربیعہ بن حارث کے دودھ پیتے بیٹے کا خون جسے بنو ہذیل نے مار ڈالا تھا اب میں معاف کرتا ہوں۔
دور جاہلیت کا سود اب کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ پہلا سود جسے میں چھوڑتا ہوں، عباس بن عبدالمطلب کے خاندان کا سود ہے اب یہ ختم ہوگیا ہے۔’’لوگو! اﷲ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا، اب کوئی کسی وارث کے حق کے لیے و

MushtaqAhmed
 

چناںچہ اس آیت کی روشنی میں نہ کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت حاصل ہے نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر، نہ کالا گورے سے افضل ہے، نہ گورا کالے سے، ہاں بزرگی اور فضیلت کا کوئی معیار ہے تو وہ تقویٰ ہے۔ ’’سب انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدمؑ کی حقیقت اس کے سوا کیا ہے کہ مٹی سے بنائے گئے۔ اب فضیلت و برتری کے سارے دعوے، خون و مال کے سارے مطالبے اور سارے انتقام میرے پاؤں تلے روندے جا چکے ہیں۔
بس بیت اﷲ کی تولیت اور حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمات بدستور باقی رہیں گی۔’’اے قریش! ایسا نہ ہو کہ اﷲ کے حضور تم اس طرح آؤ کہ تمہاری گردنوں پر تو دنیا کا بوجھ لدا ہوا ہو اور دوسرے لوگ سامان آخرت لے کر پہنچیں اور اگر ایسا ہوا تو میں اﷲ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہ آ سکوں گا‘‘۔’’دیکھو میرے بعد گم راہ نہ ہو جانا کہ آپس میں کشت و خون کرنے لگو، اگر کسی کے پاس امانت رک

MushtaqAhmed
 

و آرام اور تعیش ہمارا مقصود و مطلوب نہیں ہے۔ اگر ہم ایسی سو چ لے کر جائیں تو پھر ہر بڑی تکلیف ہمیں چھوٹی نظر آئے اور ہمیں یہ احساس ہو کہ حج کے لیے اتنا بڑا اجر اسی تکلیف و مشقت کا انعام ہے۔
منشورانسانیت
حضور نبیٔ کریم ﷺ نے فرمایا:
’’لوگو! میری بات سنو، میں نہیں سمجھتا کہ آئندہ کبھی ہم اس طرح کسی مجلس میں یک جا ہو سکیں گے۔
لوگو! اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ انسانو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہیں جماعتوں اور قبیلوں میں بانٹ دیا تاکہ تم الگ الگ پہچانے جاسکو، تم میں زیادہ عزت و کرامت والا اﷲ کی نظروں میں وہی ہے جو اﷲ سے زیادہ ڈرنے والا ہے‘‘۔

MushtaqAhmed
 

صعوبتیں، زاد راہ کی دشواریاں، موسم کی ناگواریاں، نکیلے پتھروں اور کانٹوں پر چلنا، پانی کی عدم دست یابی، وسائل کی کمی وغیرہ تھی، جب کہ آ ج مادی لحاظ سے زیادہ راحتیں، بلکہ تعیشات موجود ہیں، لیکن مشقت کی روح آج بھی موجود ہے۔ اس مشقت کا سب سے بڑا سبب انسانوں کا ہجوم، ان کی آسائشوں اور تعیشات کا دل دادہ ہونا، محنت ومشقت کا عادی نہ ہونا، جذبۂ ایثار و قربانی کا فقدان، صرف اپنی ذات اور اپنے مفادات کا اسیر ہونا وغیرہ ہیں۔ چناں چہ آ ج طواف، سعی اور رمی جمرات اور منیٰ میں حادثات پہلے سے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ حاجی جب حج سے واپس آتا ہے تو اس کی زبان پر شکایات ہوتی ہیں۔
یہ طرز فکر وعمل اس لیے ہے کہ ہم ذہنی طور پر اس عمل کے لیے تیار ہو کر نہیں جاتے کہ ہم ایک سپاہی کی طر ح ’کیمپ لائف‘ میں جارہے ہیں اور ہمیں ایک بڑی مشقت کے عمل سے گزر نا ہے۔ راحت و آ

MushtaqAhmed
 

اور اس دوران نہ تو شہوت رانی کی اور نہ ہی گنا ہ کیا تو وہ گنا ہوں سے ایسا پاک وصاف ہوکر لوٹے گا جیسے اپنی پیدایش کے دن گناہوں سے پا ک تھا۔‘‘
ایسے ہی کامل و مکمل حج کو تاج دار انبیاء ؐ نے ’حج مبرور‘ قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’حج مبرور کی جزا جنت کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔‘‘اگر ہم نے حج سے یہ مقصد حاصل نہ کیا تو گویا ہم نے حج کی حقیقت کو سمجھا ہی نہیں، ایسی بے رخ عبادات صرف صورتاً عبادات ہوتی ہیں، حقیقتاً نہیں۔
حج: مشقت کی عبادت ہے
حج بنیا دی طور پر مشقت کی عبا دت ہے۔ اس کی یہ کیفیت آج سے ہزار سال پہلے بھی تھی اور آج بھی ہے۔ ما ضی میں سفر کی صعوبتیں

MushtaqAhmed
 

طور پر ایک عہدوپیمان اور تجدید وفا کا عزم کرکے، صرف سلا ہوا لباس ہی نہ اتارے، بلکہ گناہ کا وہ لباس بھی اتار پھینکے جس میں وہ سر تا پا جکڑا ہوا ہے۔ صر ف دو سفید چادروں پر مشتمل اجلا لباس ہی نہ پہنے، بلکہ ایمان و ایقان اور کردار کو بھی اتنا ہی صاف اور پاکیزہ بنا دے۔ اپنے آپ کو، اپنی رو ح اور جسم کو بھی اسی فطرت سلیم کے سانچے میں ڈھا ل لے جس پر خالق نے اسے پہلے روز تخلیق فر مایا تھا۔
رسول کریم ؐ کا فرمان ہے:’’ہر بچہ دین فطرت پر پیدا ہو تا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔‘‘
یعنی حج کا لباس بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ انسان اپنے آ پ کو گناہوں کی ان آلودگیوں سے دور کرکے جو معاشرے نے اس پر تھوپ دی ہیں، فطرت سے قریب تر، بلکہ اس کے عین مطابق ہوجائے۔
رسول عربیؐ نے ارشاد فرمایا:’’جس نے خالص اﷲ کی رضا کے لیے حج کیا اور اس

MushtaqAhmed
 

اور اس کے گرد طواف کرنے کا حکم دیا، تاکہ ہم پر کعبے کی برکات کے طفیل اس کی رحمتوں، برکتوں اور انوار و تجلیات کا نزول ہو۔
دوسری حکمت یہ ہے کہ ہماری عبا دت کے لیے مرکزیت، ایک نقطۂ ارتکاز تو جہ ہو، تاکہ ہم مختلف سمتوں کی جا نب بھٹکنے سے محفوظ رہیں۔ اطراف عالم کے مسلمانوں میں ایک مثالی وحدت اور یک رنگی پیدا ہوجائے۔ حضور نبی پاکﷺ نے اسی قبلے کو مومن کی شناخت اور پہچان کا وسیلہ قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’جس نے ہماری طرح نماز پڑھی، ہمارے قبلے کی جانب عبا دت میں رخ کیا اور ہمارا ذبیحہ کھایا تو وہ ظاہری علامات کے اعتبار سے مسلم ہے۔‘‘
حج: زندگی میں تبدیلی کا فیصلہ کن موڑ
اسلام چا ہتا ہے کہ حج مومن کی زندگی میں تبدیلی لا ئے، بلکہ ایک فیصلہ کن موڑ بن جائے،گناہوں کو ترک کرکے پاکیزہ زندگی گزارنے کا نقطۂ آغاز ہو۔ بند ہ اپنے رب سے شعوری طور پر ایک

MushtaqAhmed
 

بھرپور مظاہرے کا نام ہے ، اور اس عزم کے عملی اظہار کا نام ہے کہ اگر اﷲ تعالیٰ کے دین کا تقاضا ہوا تو ہم حضرت ابراہیمؑ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنا سب کچھ اﷲ کی را ہ میں لٹانے کا عزم رکھتے ہیں اور حج اسی عزم مصمم کے اظہار کا نام ہے۔ اگر یہ ’’روح حج‘‘ ہما رے قلب وقالب میں صحیح معنیٰ میں اتر گئی تو ہم نے مقصد حیات پالیا، ورنہ محض مشقت سفر کے سوا اور حکم الٰہی کی ظاہری تعمیل کے سوا ہمارے ہاتھ کچھ نہ آیا۔
کعبہ معبود نہیں، جہت عبادت ہے
جب ہم عین بیت اﷲ کی چوکھٹ کے سامنے سجدہ کررہے ہوں تب بھی بیت اﷲ ہمارا مسجود و معبود نہیں ہوتا، مسجود و معبود تو صرف اﷲ کی ذات ہوتی ہے، بیت اﷲ تو صرف ’جہتِ سجدہ ‘ ہوتا ہے اور اﷲ تعالیٰ نے غالباً اس میں حکمت یہ مستور رکھی ہے کہ کعبے کو اپنے انوار و تجلیات کا مرکز بناکر ہمیں اس کی جانب رخ کرکے نماز پڑھنے اور اس کے

MushtaqAhmed
 

کاٹ رہے ہیں؟ دو پہاڑیوں کے درمیان دوڑ رہے ہیں؟ ایک خاص دن اور تا ریخ کو ایک خاص مقام پر پو را شہر آباد ہوتا ہے اور شام کو اجڑ جاتا ہے۔ لاکھوں لو گ پتھروں کے علامتی ستون پر کنکریاں برسا رہے ہیں، ایک خاص مقام پر ایک ہی دن لا کھوں لوگ جمع ہو کر لاکھو ں جانوروں کی قربانی پیش کر تے ہیں،آخر کیوں؟
یہ سارے انداز یہ بتاتے ہیں کہ حج معمول کے شب و روز کا نام نہیں، بلکہ معمول کی زندگی کو تر ک کر کے مجاہدانہ انداز سے کیمپ لائف گزارنے کا نام ہے، ایک محدود عرصے کے لیے لباس، رنگ، علاقائیت، زبان اور نسب و نسل کے تمام امتیازات کو کلی طور پر ترک کردینے کا نام ہے، یہ سب کچھ دراصل امام الانبیاء حضرت ابراہیمؑ، ان کے صاحب زادے حضرت اسمٰعیلؑ اور ان کی اہلیہ حضرت ہاجرہ کی اداؤں کو اپنانے کا نام ہے۔
عالمی اسلامی اخوت، وحدت و اتحاد اور نظریاتی ہم آہنگی کے بھرپ

MushtaqAhmed
 

حج کے معنیٰ ہیں، کسی قابل تعظیم چیز کا قصد کرنا اور اصطلاح شریعت میں عبادت کی غرض سے بیت اﷲ کے قصد کو حج کہتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’بیت اﷲ کا حج کرنا لوگوں پر اﷲ کا حق ہے، جو بھی وہاں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔‘‘
رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جو شخص سفر خر چ اور سواری پر قادر ہو، جس کے ذریعے وہ بیت اﷲ تک پہنچ سکے اور اس کے باوجود وہ حج نہ کر ے تو عملاً اس سے کو ئی فر ق نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مر ے یا نصرانی ہوکر مر ے۔‘‘
حج: ایک کیفیت جذب و جنوں
یہ سوال ہر ذہن میں اٹھ سکتا ہے کہ طویل اور تکلیف دہ سفر کرکے مسلمانوں کو ایک مقام پر جمع کرنے میں آ خر کیا راز پنہاں ہے؟ سب لوگوں کو ان کا روایتی لباس اتروا کر دو چا دریں پہنا دینے میں کیا مصلحت ہے؟ آخر اس میں کیا حکمت ہے کہ لاکھو ں انسان دیوانہ وار پتھر کی ایک عمارت کے گرد چکر کاٹ

MushtaqAhmed
 

مربوط نظام بھی عطا کیا جن کا حقیقی مقصد مومن کے قلب میں اس جامع تصور عبادت کو ابھارنا ہے۔ یہ عبادات تین اقسام پر مشتمل ہیں۔
(1) خالص بدنی عبادات: جیسے نماز اور روزہ، یہ بہرصورت ہر بندے کو خود ادا کرنی ہوتی ہیں اور ان میں نیابت کا کوئی تصور نہیں۔
(2) خالص مالی عبادت: جیسے زکوٰۃ اور فطرہ وغیرہ، ان میں نیابت چل جاتی ہے، یعنی کوئی فرد دوسرے کا وکیل یا نمائندہ بن کی بھی ادا کرسکتا ہے۔
(3) مخلوط عبادات: یعنی جو بدنی بھی ہوں اور مالی بھی، اس میں بھی اصل رو ح تو یہی ہے کہ بندہ خود ادا کر ے، لیکن اگر مجبوری کے باعث خود ادا نہ کرسکتا ہو تو اس کی نیابت میں اس کے مصارف پر دوسرا قابل اعتماد آدمی بھی کرسکتا ہے، اسے ’’حج بدل‘‘ کہتے ہیں۔
حج کے معنیٰ و مفہوم
لغت میں حج کے