Damadam.pk
MushtaqAhmed's posts | Damadam

MushtaqAhmed's posts:

MushtaqAhmed
 

اسلام کی کامل روح تو یہ ہے کہ بندۂ مومن کی زندگی مجسم عبادت بن جائے، اس کی چال ڈھال، رفتار و گفتار، نشست و برخاست، انفرادی و اجتماعی معاملات، حتیٰ کہ ہر شعبۂ زندگی اور ہر لمحۂ حیات میں اﷲ تعالیٰ کی مکمل بندگی اور اس کے رسول ﷺ کی کامل اطاعت کی جھلک نظر آئے۔
ہم نے اپنی زندگی کو دین اور دنیا کے نام سے جن دو خانوں میں تقسیم کردیا ہے، اس کا خاتمہ ہوجائے۔ اگر ہر مسلمان اپنی زندگی کو اﷲ اور اس کے رسول ﷺکی رضا اور اطاعت کے قالب میں ڈھال لے اور اس کا وجود اﷲ کے بندوں کے لیے وسیلۂ رحمت بن جائے تو اس کی معیشت، تجارت اور سیاست، سب عبادت بن جائے گی اور خوف خدا اور اخلاقی گرفت سے عاری زندگی جو انسانیت کے لیے باعث آزار بن گئی ہے، اس سے نجا ت مل جائے گی۔ لیکن اس عمومی اور جا مع و کامل تصور عبادت کے ساتھ اسلام نے رسمی عبادات کا ایک حکیمانہ اور مربوط

MushtaqAhmed
 

و؟حالانکہ اللہ توآسمان اورزمین میں، جوکچھ بھی ہے اُس سب سے خوب واقف ہے بلاشبہ اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے یہ لوگ آپ ﷺ پر احسان جتاتے ہیںکہ اِنہوں نے اسلام قبول کر لیااِن کو بتا دیں کہ تُم اپنے اِسلام لانے کا اِحسان مجھ پر نہ جتاﺅ بلکہ اللہ نے تُم پراِحسان کیا ہے کہ اُس نے تُمھیں ایمان کی توفیق بخشی اگرتم سچے ہو تو تمھارا دل بھی اس بات کی گواہی دے گا۔بے شک !اللہ آسمانوں اورزمین کی سب پوشیدہ چیزوںکوجانتاہے اورجوکچھ بھی تُم کررہے ہو اللہ اُسے مسلسل دیکھ رہاہے“۔ آئیں آج سے ہم سورة الحجرات کے اللہ کے احکامات کو اپنی زندگی میں شامل کریں اور ایک فلاحی اسلامی ریاست کی بنیاد رکھیںend۔

MushtaqAhmed
 

زیادہ عزت والا تو وہ ہے جو بُرائیوںسے دُور رہ کر اللہ کی ناراضگی سے بچتارہا بلاشبہ اللہ کو ہر چیز کا علم ہے اور وہ سب سے باخبر ہے“۔پھر سورة کے آخر میںاللہ فرماتاہے” یہ دیہاتی لوگ کہتے ہیںکہ ہم ایمان لے آئے ہیں اِن کو بتا دو تم ایمان نہیںلائے ہو بلکہ یہ یوںکہیں،کہ ہم نے اِسلام قبول کرلیاہے کیونکہ ایمان تو تمھارے دِلوں میں داخل ہی نہیں ہوالیکن اگر تم اللہ اوراُس کے رسول ﷺ کی فرمانبرداری کرﺅ تواللہ تُمھارے اعمال کے اجر میںذرابھی کمی نہیںکرئے گابے شک اللہ بڑا معاف کرنے والا اوررحم کرنے والاہے ۔ مومن تو بس وہی ہیںجو اللہ اوراُس کے رسولﷺ پرایمان لائیں،پھر کسی شک میںنہ پڑیںاوراپنی جانوں اورمالوں سے اللہ کی راہ میںجدوجہد کریں یہی لوگ اپنے ایمان کے دعویٰ میںسچے ہیں۔اِن دیہاتی لوگوں سے پوچھئے! کیا تُم اللہ کواپنے دین دار ہونے کی اطلاع دے رہے ہو؟حالان

MushtaqAhmed
 

رہتے ہیں اور دُوسروں کی پیٹھ پیچھے بُرائی کرتے ہیں ۔اللہ فرماتے ہیں”اور نہ ہی لوگوں کی بُرائیوں کاکھوج لگاتے پھرو اور نہ ہی تُم میں سے کوئی کسی کی پیٹھ پیچھے بُرائی کرئے۔کیا تُم میں سے کوئی یہ چاہے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے؟یقیناََ تُمھیں اِس سے کراہت آئے گی لہذا اللہ کی ناراضگی سے ڈروبے شک اللہ تو بہت ہی توبہ قبول کرنے والا اوررحم کرنے والاہے“۔پھر ایک اور اہم معاشرتی بیماری کی طرف اللہ نے ہماری توجہ دلائی ہے ہم قوم ،خاندان ونسل ،علاقہ کی بنیاد پر اپنے آپ کو بلنددرجات دیتے ہیںکہ ہم ان سے افضل ہیں مگر اللہ کے ہاں بلند ترین فضیلت رکھنے والا صرف وہ ہے جوتقوی کے بلندمقام پر ہو ۔اللہ تعالی ٰ نے کچھ یوں اس سورة میںہی فرمایا ہے”پھر تُمھیں مختلف قوموں اور خاندانوں میںتقسیم کیا تاکہ تُم ایک دُوسرے کی پہچان کرسکوتُم میں سے اللہ کے ہاںزی

MushtaqAhmed
 

نکالنے اور ایک دُوسرے کو بُرے بُرے ناموں سے پکارنے والوںکے لیے اللہ اس سورة میں فرماتاہے”اور نہ ہی ایک دُوسرے میںعیب نکالواورنہ ایک دُوسرے کو بُرے ناموں سے پکارو۔ایمان لانے کے بعدبُرائی کانام لینابھی بہت بُری عادت ہے اب جو بھی ایسے کاموںسے توبہ نہیں کرئےگا وہی ظالموں میں شمار ہوگا“۔پس ظالموں کی نشانیوں میں سے ایک یہ کہ دُوسروں کی ذات میں عیب نکالنا اور بُرے ناموں سے اپنے مسلمان بھائی کو پکار کر چھیڑنا اس کی دل آزاری کرنا ہے۔اللہ کے نزدیک یہ سخت گناہ ہے اوراللہ اس کو ناپسندید ہ قرار دیتاہے۔ہمارے معاشرے میں یہ بیماریاں تو عام ہیں۔بہت زیادہ گمان کرنے والوں کے بارے میںاللہ فرماتے ہیں”اے لوگو جو ایمان لائے ہوبہت زیادہ گمان کرنے سے بچوبلاشبہ بعض گمان تو صرف گناہ ہیں “۔اور ان مسلمانوں کے بارے میں حکم دیا جو لوگوںکی بُرائیوںکا کھوج کرتے رہتے ہیں او

MushtaqAhmed
 

کہ وہ اللہ کے فیصلے کی طرف لوٹ آئے پھر اگر وہ لوٹ آئے تو اِن کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کروادو اور ہرمعاملے میں انصاف سے کام لیا کرﺅ کیونکہ انصاف کرنے والے اللہ کو نہایت پیارے ہیں۔سب مسلمان تو آپس میں بھائی بھائی ہیں لہٰذا اپنے بھائیوںکے درمیان صلح کروادیا کرﺅ اوراللہ کی ناراضگی سے ڈرو تاکہ تُم پر رحم کیا جائے“ ۔اورایمان والوں کے لیے ہی کہا ہے کہاکہ ایک قوم دُوسری قوم کامذاق نہ اُڑائے ۔اللہ فرماتے ہیں”اے لوگوں جو ایمان لائے ہو! ایک قوم دُوسری قوم کا مذاق نہ اُڑائے ہو سکتاہے جس قوم کا مذاق اُڑایا جارہاہو وہ اُن سے بہتر ہوں۔ہو سکتاہے جس قوم کا مذاق اُڑایا جارہاہو وہ اُن سے بہتر ہوں“ اور عورتوں کے بارے میں کہا کہ”اور نہ ہی عورتیں دُوسری عورتوں کا مذاق اُڑایں ہوسکتاہے جن کا مذاق اُڑایا جارہاہو وہ اُن سے بہتر ہوں“۔اور دُوسروں کے عیب نکالنے اور ا

MushtaqAhmed
 

جاﺅ۔اچھی طرح سمجھ لو کہ تمھارے درمیان اللہ کے رسول ﷺ موجود ہیں۔اگر وہ بہت سے معاملات می تہمھارامشورہ مان جائیں تو تُم خودہی مشکل میں پڑجاﺅ مگر کیونکہ اللہ نے تمھیں ایمان کی محبت عطا کی ہے اورتُمھارے دلوں کو اِس سے مزین کردیا ہے جس کی وجہ سے کفر،گناہ اورنافرمانی کے کام تمھاری نگاہوں میں ناپسندیدہ بنا دیے گئے ہیں۔ یقین جانو!یہی وہ لوگ ہیں جو سیدھی راہ پرہیں جوکہ صرف اللہ کے فضل اور نعمت کا نتیجہ ہے اوراللہ ہی ہر چیز کا جاننے والا،کمال حکمت والاہے“۔ ایک ہی معاشرہ میں مسلمانوں کے دوگروہ کے درمیان اختلاف بھی ہو سکتاہے اوراِن کے درمیان جھگڑا بھی ہوجاتاہے ۔اللہ اسی سورة میں رماتے ہیں”اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو اُن کے درمیان صلح کروا دیا کرﺅ پھر اگر ایک گروہ دُوسرے سے زیادتی کرئے تو اُس گروہ سے لڑﺅ جو زیادتی کررہا ہے یہاں تک کہ وہ ا

MushtaqAhmed
 

صبر کرلیتے یہاں تک کہ آپ رسول اللہ خود نکل کر ان کے پاس آجاتے تو یہ اِن کے لیے بہت بہتر ہوتا۔بہر حال اللہ بہت ہی درگزر رکرنے والااورمسلسل رحم کرنے والا ہے“۔ پھر ایک اورمعاشرتی بُرائی کا ذکر کیا ہے جو معاشرے میں نفرت ،انتشار اور بے چینی کی فضا قائم کرتی ہے وہ یہ کہ ہم ہر سُنی سُنائی بات پر تحقیق کیے بغیر نہ صرف خود یقین کرلیتے ہیں بلکہ اس کو اور بڑھا چڑھا کر آگے پھیلانے میں اہم کردار ادا کررہے ہوتے ہیں جس سے سارا معاشرہ معاشرتی طور پر متاثر ہوتاہے۔ صراط مستقیم پر کون سے لوگ ہیں تو یہ آیت آپ کو ایسے انسانوں کا پتہ دے رہی ہے۔اللہ فرماتے ہیں”اے ایمان والو!اگرکوئی ایسا شخص جو اعتماد کے لائق نہ ہو اورتمھارے پاس کوئی خبر لے آئے تو اسکی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرﺅ کہ کہیں تُم نادانی میں لوگوں و نقصان نہ پہنچا بیٹھو اورپھر اپنے کیے پر پچھتاتے رہ جاﺅ۔ا

MushtaqAhmed
 

انوں پر لازم قرار دیا اور فرمایا” اے لوگوجو ایمان لائے ہو۔اللہ اور اُس کے رسول ﷺ سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرﺅاوراللہ کی ناراضگی سے ڈرو یقینا اللہ ہر بات کاسُننے والا اورخوب اچھی طرح جاننے والا ہے۔اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ہرگز اپنی آوازوں کو نبی ﷺ کی آواز سے بلند نہ کیا کرﺅ اورنہ ہی اُن سے اِس طرح اُونچی آواز میں بات کرﺅ جیسا کہ تُم آپس میں ایکد دُوسرےے بات کرتے ہو۔کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھارے سارے اعمال برباد ہو جائیں اور تُمھیں پتہ بھی نہ چلے۔یقین جانو! جو لوگ بھی اللہ کے رسُول کے پاس اپنی آوازیں نیچی رکھتے ہیں یہی تو وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے خُوب جانچ کر پرہیز گاری کے لیے چُن لیا ہے اُنہی کے لیے مغفرت ہے اور اجر عظیم بھی۔جو لوگ بھی رسول اللہ کو حُجروں کے باہر سے اُونچی آواز میں پُکارتے ہیں۔اِن میں سے اکثر بے عقل ہیں اوراگر یہ لوگ صبر کرلیتے

MushtaqAhmed
 

آج ہمارا معاشرہ اخلاقی پستیوں کے آخری درجے پر ہے،الزام تراشی ،غیبت ،بُرے ناموں سے ایک دُوسرے کو پکار کر تذلیل کرنا اِن سب بُڑائیوں نے معاشرہ کا اخلاقی طور پر تنزلی کے آخری مقام پر لاکھڑا کیا ہے۔عدم برداشت اور دُوسرے کی رائے کو نہ احترام دینا پاکستانی معاشرے کی پہچان بن گیا ہے۔منافقت نے ہماری اخلاقی اقداروںکو کھوکھلا کردیاہے۔ہم جب تک اخلاقی بُرائیوںکے حصار سے نکل کر مثبت فکر کے ساتھ آگے نہیں بڑھیں گے ہم بحیثیت قوم کیسے ترقی کرسکتے ہیں ۔سورة الحجرات مدنی سورة ہے اور یہ 9 ہجری فتح مکہ کے بعد ناز ل ہوئی ۔یہ سورة نازل کرنے کامقصد یہ تھا کہ مسلم اُمہ کو بنیادی اخلاقیات کا درس دیا جائے کہ ایک اسلامی معاشرے میں ایک مسلمان کا کردار کیسا ہوناضروری ہے۔پہلی پانچ آیات میں اللہ اور اُس کے نبی ﷺ کے احترام سب مسلمانوں پر

MushtaqAhmed
 

میں باریابی سے انکار سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ہوا، اِس لیے کہ ہینڈ بیگ اندر لے جانے کی اجازت نہیں۔ اِس پر میری بھابھی نے جو خیر سے پولیٹکل سائنس پڑھاتی ہیں، باوردی گارڈ کو باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ مذکورہ تھیلے ہینڈ بیگ کی بجائے پرس کے زمرے میں آتے ہیں، پھر بھی تلاشی لے لو۔ بیگم نے یہ دلیل بھی دی کہ چلیں، ہمارے پاس تو کار ہے جس میں سامان رکھا جا سکتا ہے، لیکن جو عورتیں موٹر سائیکل یا رکشے پہ بیٹھ کر آتی ہیں وہ کیا کریں۔ گارڈ نے انکار میں سر ہلا دیا تھا۔ اِس پر بندہ ء عاجز کی آنکھوں میں قائد کی شبیہ ابھری جنہوں نے لندن میں اُس مسجد میں جمعہ پڑھنے کی خواہش کی تھی جہاں عام مسلمان نماز ادا کرتے ہیں۔ end

MushtaqAhmed
 

راستہ نہ بھول جاؤں۔
جوتے تلاش کر کے کامیابی سے باہر تو نکل آئے، لیکن میرے مولا، ہم دونوں کی بیویاں معینہ جگہ سے غائب تھیں۔ دراصل مسجد کے احاطے میں پہنچ کر یہ پیشگی سوچ لیا تھا کہ عمارت کے زنانہ اور مردانہ حصوں میں نماز سے فارغ ہو کر ایک طے شدہ مقام پر ملاقات ہو گی۔ پریشانی ہوئی کہ کئی منٹ کے انتطار کے باوجود دور و نزدیک بیگمات کا کوئی نام و نشان نہ ملا۔ موبائل فون خاموش تھے جس کا سبب مسجد کا احترام تھا یا یہ امکان کہ دونوں فی الوقت کسی پُر شور جگہ پر ہیں۔ بالآخر دوسرا اندازہ درست ثابت ہوا اور خواتین مسجد کی ملحقہ کیفے ٹیریا سے باہر نکلیں، مگر مُوڈ آف تھا۔ پوچھا کہ نماز پڑھ لی؟ ”پڑھی مگر لان میں، مسجد کے اندر نہیں۔“ مَیں سمجھ گیا کہ کوئی گھمبیر سمسیا ہے۔
معلوم ہوا کہ مسجد میں باریابی سے ا

MushtaqAhmed
 

والد کے بچپن میں چالیس دن قبر میں چلہ کاٹ کر شہر بھر پہ روحانی دہشت طاری کر دی تھی۔ ہم نے اپنے زمانے میں باقاعدہ نمازی کم ہی دیکھے مگر اِس کا حساب کوئی نہ رکھتا کہ کون مسجد میں گیا اور کون نہیں۔
آزاد پاکستان کی پہلی نسل کی یہ یادیں اُن مسجدوں کی ہیں جہاں عام مسلمان نماز ادا کیا کرتے تھے۔ اب اللہ کے پرانے گھر نئی آبادی کی گرینڈ مساجد سے بہت دُور رہ گئے ہیں۔ وجہ یہ کہ گرینڈ مسجد کے قریب پہنچتے ہی خوفِ خدا کی بجائے دلوں پر کار پارک کی کشادگی، لان کی شادابی اور فنِ تعمیر کی ہیبت طاری ہونے لگتی ہے۔ دو سال ہوئے ایک جمہور مسلمان نے اپنے نیک سیرت ماموں زاد بھائی کی دعوت پر ایک جدید خانہء خدا کے ایئر کنڈیشنرز کے سائے میں عشا کی نماز ادا تو کی، لیکن اُس نیم تکونے ہال میں جس کا مشرق مغرب سمجھنا آسان نہیں، یہ ڈر بھی رہا کہ کِہیں واپسی کا راستہ نہ

MushtaqAhmed
 

اور ان کے نائب ’بھا لمبڑ‘ یا بھائی نمبردار سے ہلکی پھلکی گپ شپ بھی ہو جایا کرتی۔ زیاد ہ تر یہ کہ عید میلاد ؐالنبی سجاوٹ کے لیے کتنی جھنڈیاں تیار ہوں گی اور قرآنی قاعدہ ختم کرکے پہلا سیپارہ شروع ہونے پر کون چینی کی ریوڑیاں لائے گا اور کون گُڑ کی۔
یہ تھا ہماری گلی کا لوک اسلام۔ مغرب کی طرف بڑھیں تو اراضی یعقوب کی سبز ٹیوب لائٹ والی مسجد، سو ڈیڑھ سو گز پر پاپڑاں والی خانقاہ اور اُس سے آگے امام علی الحق کا سفید گنبد والا مزار جس کے میدان میں ہر جمعرات کو میلہ لگتا۔ مشرق میں پہلے ٹبہ جالیاں اور پھر سیڑھیاں اتر کر محلہ ککے زئیاں کی مسجد۔ ذرا شمال کو اقبال روڈ کے کونے میں نبئیے ٹُنڈے کی مسیت، ذرا آگے کچی مسجد، پھر اڈہ پسروریاں کا امام باڑہ۔ بھائی حنیف مہتہ کی دکان کے بالمقابل موٹے موٹے منکوں کی مالا والے سائیں شِیدا ڈیرہ جماتے جنہوں نے میرے وا

MushtaqAhmed
 

اِسی طرح ذات برادری اور خاندانی پس منظر سے ہٹ کر ایک ایک کر کے سبھی لڑکے اذان کہنے کے اعزاز کا بے چینی سے انتظار کرتے۔ ساٹھ کی دہائی کے وسط میں مسجد میں لاؤڈ اسپیکر نصب ہو ا تو حمد و نعت کی محفل میں جمعہ کی پہلی اذان سے پیشتر صوفی تبسم، اسماعیل میرٹھی اور حامد اللہ افسر کی نظمیں بھی ترنم سے نشر ہونے لگیں۔
میرا مقصد اُن نیک روحوں سے چھیڑ خوانی نہیں جنہیں ہر تمدنی سرگرمی میں بدعت کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ پر شہرِ اقبال میں، جس کی قدیم مساجد میں جنات کی بورڈنگ لاجنگ کی روایات روزمرہ کہانیوں کا حصہ تھیں، اپنی مسجد کے ساتھ ہمارا رشتہ خوف کا نہیں، پیار محبت کا رہا۔ جب دل چاہتا، بچے یوں بے تابی سے بھاگتے ہوئے مسجد کے صحن میں داخل ہو جاتے جیسے کھیل کے میدان کا ر خ کرتے ہیں۔ یہاں دین و اخلاق کی باتیں سننے کو ملتیں، لیکن ناظرہ قرآن کے استاد لطیف او

MushtaqAhmed
 

وسیجرل غلطی نکلوا کر ہی لوٹے۔ اکثریت اُن کمزور ایمان والوں کی ہوتی ہے جنہیں محض عید بقرعید پر حاضری کی بنا پر والد مرحوم ’فصلی بٹیرے‘ کہا کرتے تھے۔ فصلی اور اصلی کا حقیقی فرق اُس دن نمازِ عصر کے وقت سمجھ میں آیا جب پہلی صف میں ’قبضہ گروپ‘ کے ایک معزز آدمی نے مجھے کُہنی رسید کرتے ہوئے پیچھے دھکیل دیا تھا۔ سلام پھیرتے ہی البتہ میرے پاس آئے اور وضعداری سے کہنے لگے ”معاف کیجیے، مَیں نماز کے لیے ہمیشہ یہیں کھڑا ہوتا ہوں۔“
اُس مرحلے پر مجھے آبائی شہر میں ٹبہ سیداں کی وہ چھوٹی سی مسجد بہت یاد آئی جہاں اہلِ محلہ میں سے کسی کے نجی سیکٹر میں امامت کرنے پر کوئی پابندی نہ تھی۔ پروفیسر مجید اور مستری عبدل تو تھے ہی باشرع بزرگ، لیکن میرا دوست افتخار بٹ گواہی دے گا کہ مسجد بابا اعظم میں لوگوں نے لالہ اسلم کو بھی ماڈرن چہرے کے ساتھ نماز پڑھاتے دیکھا۔ اِ

MushtaqAhmed
 

آئیے جہاں مَیں پھولوں سے لدی پھندی ایک مسجد کے نواح میں جنٹری میں پھنسا ہوا ہوں۔ یعنی وہ بزنس مین، ریٹائرڈ افسر اور خوشحال تاجر جو ڈونکی پمپ لگا کر ہر صبح ہمسایوں کے حصے کا پانی کھینچ لیتے ہیں، لیکن اِس سے فارغ ہوتے ہی ’تزئینِ در و بامِ ِ حرم‘ پر توجہ دینے سے بھی نہیں چو کتے۔ ایک مرتبہ اِس بندہء عاجز نے عدالت عظمی میں ایکسٹینشن لینے والے ایک معمر دوست کو اُس جرگے میں شامل دیکھا جو مسجد کمیٹی کے صدر کو منانے کے لیے اُن کے گھر کی طرف تیز تیز جا رہا تھا۔ پتا چلا کہ مذکورہ حاجی صاحب نے ہماری مسجد میں ائر کنڈیشنر لگوانے والوں میں فرسٹ پوزیشن حاصل کی ہے، اِس لیے اُن کی ناراضی افورڈ نہیں کی جا سکتی۔
کلب کلاس کے اِن نمازیوں سے بھلا عام مسلمانوں کا کیا موازنہ جو سال میں اگر دس دفعہ اللہ کے گھر گئے تو پانچ موقعوں پر کوئی نہ کوئی پروسیجرل غلطی نک

MushtaqAhmed
 

مسجد اللہ کا گھر ہے، مگر اللہ کے بندوں کا گھر بھی ہے۔ قائد ِ اعظم محمد علی جناح کا خیال تو یہی تھا۔ چنانچہ پاکستان بننے سے ایک سال پہلے جب دیگر رہنماؤں کے ساتھ برطانوی وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی سے ملاقات کے لیے لندن گئے تو انہوں نے جمعہ کی نماز کسی ایسی مسجد میں نماز ادا کرنی چاہی جہاں عام مسلمان نماز پڑھتے ہوں۔ اب قائد کے بنائے ہوئے ملک میں نئی صدی کے دوران خالق و مخلوق کے باہم مِلنے کے راستے مسدود ہوتے جا رہے ہیں۔ آپ سوچیں گے کہ میرا اشارہ مسالک کی تقسیم در تقسیم کی طرف ہے۔ اِس زاویے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا مگر نجی، سرکاری اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ والی بستیوں میں پیچیدگی کے بعض اور اسباب بھی ہیں۔ سب سے نمایاں ہے نو دولتیاپن اور اُس سے جُڑے ہوئے رویّے۔
بات سمجھ میں نہ آئے تو کسی دن لاہور کے اُس رہائشی علاقے میں تشریف لے آئیے جہاں

MushtaqAhmed
 

ضروری نہیں کیونکہ بہت سارے اولیاء کرام ایسے ہیں جن سے کبھی کوئی کرامت ظاہر نہیں ہوئی اسکایہ مطلب توہرگز نہیں لیاجاسکتاکہ انکی شان میں اس وجہ سے کوئی کمی ہوئی بلکہ یہ توان کے اختیارمیں بھی نہیں ہے یہ تو اللہ کے اختیارمیں ہے جب چاہے جس وقت چاہے جسکے ہاتھ پر ظاہرکردے اس لئے ہمیں اولیاء کرام رحمہم اللہ کی زندگی پڑھنے کی سمجھنے کی اور انکے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت ہے کیونکہ زندگی صرف دعویٰ سے نہیں بلکہ عمل سے بنتی ہے۔

MushtaqAhmed
 

ت کوزندگی کامقصدبناناچاہیے لیکن ہم غفلت وکوتاہی کی زندگی بسرکررہے ہیں ہم میں سے ہرمسلمان ولی اللہ بن سکتاہے کیوں کہ ولی اللہ کے لئے رنگ ونسل کنبہ قبیلہ شرط نہیں بلکہ حق وسچ، مومن، نیک، متقی، پرہیزگار،تقوی طہارت، حلال طیب روزگارکماناشرط ہے ہے جوہم میں سے ہرمسلمان بآسانی ان شرائط پراترسکتاہے لیکن ہم خودبننانہیں چاہتے ہم صرف دوسروں کو دیکھنا چاہتے ہیں ہمارے ہاں یہ بھی دیکھاجاتاہے کہ ہم سمجھتے ہیں جس سے کرامات ظاہر ہوں وہ اللہ کا ولی ہے
جبکہ کرامات کوظاہرہوناضروری نہیں