’’ روپے کے ذریعے مجھے کیا حاصل ہے، روپے سے جو کچھ مجھے حاصل ہے میں بس وہی ہوں۔ میری طاقت اتنی ہی زیادہ ہے جتنی روپے کی جس کے پاس روپیا ہے اس کی صفات اور صلاحیتیں وہی ہیں جو روپے کی ( جو اس کی تحویل میں ہے) چنانچہ میں جو کچھ ہوں اور جو کچھ کرسکتا ہوں وہ میری انفرادیت سے متعین نہیں ہوتیں۔ ( اس کا مطلب یہ ہوا کہ ) میں بد صورت نہیں ہوں، کیونکہ بد صورتی کراہیت میں مبتلا کرنے والی قوت ہے، جسے روپیا ختم کردیتا ہے۔ میں اپنی انفرادی فطرت کے اعتبار سے لنگڑا ہوں لیکن روپیا مجھے 24 ٹانگیں فراہم کردیتا ہے‘ چنانچہ میں لنگڑا نہیں ہوں۔
مارکس کی اس داستان گوئی کی تصدیق پال لافارج نے بھی کی ہے اور لکھا ہے کہ جب اس کی بیٹیاں چہل قدمی کے قابل ہوئیں تو وہ انھیں ساتھ لے کر میلوں نکل جاتا اور انھیں پریوں، جادوگروں اور جل پریوں کی نو تصنیف کہانیاں برجستہ سناتا جاتا۔
ایلیزکی طرح لافارج کو بھی اس کا ملال رہا کہ یہ کہانیاں کاغذ پر محفوظ نہ ہوسکیں ورنہ وہ مارکس کے ادبی وفور اور ذہن کی خلاقی کے ایک دوسرے پہلو کو اجاگرکرتیں۔ وہ معیشت کی گتھیاں سلجھاتے ہوئے ادب پاروں کو جس طرح دلیل کے طور پر ٹانکتاچلا جاتا تھا، اس کا اندازہ اس کی تحریرکے اس ٹکڑے سے کیا جاسکتا ہے جس میں روپے کی طاقت کو بیان کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے۔
کاٹی‘‘ کسی خط میں وہ ایک ہی سانس میں وشوامتر، ولیم تھیکرے اور چاسرکی ’’کینٹربری ٹیلز‘‘ کا ذکر کرتا چلا جاتا ہے۔ پال لافارج کو بہ یک وقت فرانسیسی اور انگریزی میں خط لکھتا ہے تو ہائنے اور وکٹر ہیوگوکے اشعار اور جملے اس خط میں دریا کی موجوں کی طرح لہریں لیتے ہیں۔
مارکس کی بیٹی ایلیز نے لکھا ہے کہ شیکسپیئر کے ڈرامے ہمارے گھر میں بائبل کی حیثیت رکھتے تھے۔ 6 برس کی عمر میں شیکسپیئر کے کئی ڈراموں کے مکالمے مجھے ازبر تھے ۔ پاپا نے ہم بہنوں کو ہومرکا سارا کلام سنایا تھا، اس کے علاوہ بھی بہت سی کتابیں انھوں نے ہمیں سنائی تھیں جن میں سروانٹس کی ڈون کہوٹے اور الف لیلہ سر فہرست ہیں۔
موازنہ کرتے ہوئے وہ شیلے کو ایک مکمل انقلابی ٹھہراتا ہے اورکہتا ہے کہ اگر وہ30 برس کی عمر میں ختم نہ ہوگیا ہوتا تو سوشلسٹ تحریک کا رہنما اور مشعل بردار ہوتا جب کہ بائرن کے بار ے میں ا س نے یہ رائے دی کہ36 برس میں دنیا سے اگرکوچ نہ کر جاتا تو ایک رجعت پسند بورژوا کے طور پر سامنے آتا۔
شیکسپیئر کے مشہور کردار شائیلاک کا ذکر اس کی تحریروں میں کئی بار آیا ہے۔ ہائنے کی شاعری اسے ازبر تھی، گوئٹے کی ’’فائوسٹ‘‘ اور ’’دیوان مشرق و مغرب‘‘ کے حوالے سے اس کے خطوط ملتے ہیں۔ کہیں وہ ہائنے کی اس سطر کو دہراتا ہے کہ ’’ میں نے اژدھے کاشت کیے تھے لیکن پسوئوں کی فصل کاٹی‘‘
اس کو جلد ہی اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ شاعری اس کے اضطراب کا اظہار تو تھی لیکن درحقیقت وہ اس میدان میں کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں دے سکتا تھا۔ شاعری ترک کر کے فلسفے سے اپنی دائمی رفاقت کا فیصلہ کارل مارکس نے یقینا کشف کی کسی ایسی گھڑی میں کیا تھا جس نے اسے تاریخ کی ایک نادر روزگار شخصیت بنادیا۔ اس نے آنے والی انسانی نسلوں کی تقدیر کا دھارا موڑ دیا۔ وہ عظیم جرمن شاعروں اور یونان و روما کے کلاسیکی شعراء کے کلام کا والہ وشیدا تھا، اس کی خود نگری نے اسے سمجھا دیا تھا کہ اگر وہ ان جیسی یا ان سے بہتر شاعری نہیں کرسکتا تو اسے کسی اور میدان میں اپنا جوہر آزمانے کی ضرورت ہے۔
مارکس کا کہنا تھا کہ افراد کی ذہانت اور ان کی دانشورانہ گہرائی کو جانچنے کی سب سے بڑی کسوٹی یہ ہے کہ وہ عظیم ادب کا کتنا فہم رکھتے ہیں۔ ایک جگہ شیلے اور بائرن کا موازنہ کرتے ہ
تو اس نے قانون اور فلسفے کا انتخاب کیا لیکن اس کے اندر ایک ایسا نوجوان سانس لیتا تھا جو یونان اور روما کی قدیم تاریخ اور ہومر کے رزمیوں کا عاشق تھا۔ ارسطو، افلاطون، دیو جانس کلبی، ایپی کیوریس، پلوٹارک، سنیکا اور سسرو کو وہ پندرہ سولہ برس کی عمر میں پڑھ چکا تھا۔ شیکسپیئر، اسکائی لس اورگوئٹے اس کے محبوب شاعر تھے۔ اسپارٹکس اور کپلر اس کے ہیروتھے۔ اسکائی لس کی شاعری کا دلدادہ ہونے کی بنا پر وہ پرومی تھیس ایسے بے مثال باغی کردار کے بارے میں اسکائی لس کے شاندارکلام کو اپنے وجود میں جذب کرچکا تھا۔
نظام کو قائم رکھتے ہوئے اس کے اندر نئے پہلو تلاش کرتے ہیں۔
کمیٹی نے پہلی مرتبہ ایک ایسے معاشی محقق کو نوبل انعام دیا جو نظام میں بنیادی اور انقلابی تبدیلی لانے کے حوالے سے تحقیق کررہا تھا۔ مارکس کی ہمہ جہت زندگی کا یہ پہلو بھی دلچسپ ہے کہ اس کے ماں اور باپ دونوں کے خاندان صدیوں پرانی مذہبی روایات رکھتے تھے اور ان میں پشت در پشت ربّی گزرے تھے لیکن کارل کے باپ کو ٹرائر کے سماج میں بیروزگاری کے عفریت سے بچنے کے لیے اپنا مذہب تبدیل کرنا پڑا، اس کے باوجود اپنے قدیم یہودی پس منظرکی وجہ سے مارکس خاندان ٹرائر کے سماج میں سماجی اعتبار سے بے اعتنائی اور بیگانگی کا شکار رہا۔
کارل بورن یونیورسٹی میں داخل ہوا تو ا
م شامل کیا ہے۔ اپنے افکارکی وجہ سے مارکس کا اپنے وطن جرمنی میں رہنا ممکن نہ ہوسکا اور اس نے اپنی زندگی فرانس، بیلجیم اور برطانیہ میں ایک جلاوطن کے طور پرگزاری۔ مشکل ترین مالی مشکلات کے باوجود اس نے تحقیقی اور تخلیقی کام جاری رکھا۔ ایک دن ایسا بھی آیا جب اس نے اپنے دوست اینگلزکو ایک خط میں لکھا ’’اتنی مشکل اور عذابناک زندگی میں جینا ممکن نہیں۔‘‘
مغرب کی ترقی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ وہ اپنے نظریاتی اور سیاسی مخالفین کی صلاحیتوں کا اعتراف کرنے میں ہماری طرح زیادہ کنجوسی سے کام نہیں لیتے۔ بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ کارل مارکس کو اس کی کتاب’’ داس کیپٹل‘‘ پر 2016میں بعد از مرگ معاشیات کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔ یہ انعام 1968 میں تخلیق کیا گیا تھا ۔ نوبل انعام کمیٹی کے ترجمان نے اس موقع پر کہا کہ یہ انعام ان اسکالرزکو دیا جاتا رہا ہے جو نظام ک
۔ مارکس کو کئی علوم پر دسترس تھی وہ فلسفی، سماجی سائنسدان، صحافی، شاعر اور معیشت دان تھا۔ مارکس کی شخصیت ہمہ جہت تھی، اس کی تخلیقی صلاحیتوں کے معترف وہ کھلے ذہن کے لوگ بھی تھے جو اس کے فلسفے سے اتفاق نہیں کرتے تھے۔ اس کے بارے میں علامہ اقبال کا یہ شعر اب ضرب المثل بن چکا ہے:
وہ کلیم بے تجلی، وہ مسیح بے صلیب
نیست پیغمبر و لیکن دربغل دارد کتاب
مارکس 5 مئی 1818 میں پیدا ہوا۔ 38 سال کی عمر میں ا س نے اپنے دوست اینگلز کے ساتھ مل کر کمیونسٹ مینی فیسٹو تحریر کیا، بعد ازاں اس کی تحقیقی کتاب ’’ داس کیپٹل‘‘ نے دنیا میں تہلکہ برپا کردیا۔ کمیونسٹ مینی فیسٹو کی پچاس کروڑکاپیاں فروخت ہوئیں۔ اس کا شمار دنیا کی سب سے زیادہ بِکنے والی کتابوں میں کیا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے مارکس کی کتابوں کو ورلڈ ہیریٹیج ڈاکومنٹس میں
اٹھارویں صدی کی اختتامی دہائیوں میں صنعتی دورکا آغاز ہوا اور انیسویں صدی کے وسط میں صنعتی انقلاب برپا ہوا جس نے اس طرز معیشت کو یکسر تبدیل کردیا جس کی بنیاد انسان اور جانورکی مشقت پر قائم تھی۔
صنعتی انقلاب کے بعد مشین اور ٹیکنالوجی کے ذریعے پیداواری عمل شروع ہوا جس کے نتیجے میں پورا سماجی نظام تبدیل ہوگیا۔ صنعتی انقلاب کے ابتدائی دور میں مشینی پیداوار کے باعث شدید بیروزگاری پیدا ہوئی، نئے طبقات وجود میں آگئے جنھوں نے زیادہ سے زیادہ منافع کے لیے بد ترین انسانی استحصال کیا، بعد ازاں نو آبادیاتی نظام کے ذریعے چند مغربی ملکوں نے تین چوتھائی دنیا پر قبضہ کر لیا۔
صنعتی دور میں جن سائنس دانوں اور مفکرین کو غیر معمولی شہرت ملی، ان میں جرمنی کے فلسفی کارل مارکس کا نام بہت نمایاں ہے
Good morning 🌅 g🙋


سے ایک جس کے بارے میں محققین اپنے مستقبل کے مطالعے میں حل کرنے کی امید کرتے ہیں، جنگل میں پالتو گدھوں کے قریبی رشتہ داروں کی تلاش ہے۔ اورلینڈو، ٹوڈ اور ان کے ساتھی اس سلسلے میں تین مثالوں کی نشاندہی کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
ٹوڈ کے مطابق ’ہم جانتے ہیں کہ آج کے گدھے افریقی جنگلی گدھوں کی نسل سے ہیں۔ ہم نے تین ذیلی انواع کی نشاندہی کی ہے: پہلی رومن سلطنت کے دوران دو سو قبل مسیح میں معدوم ہو گئی تھی، دوسری ممکنہ طور پر جنگل میں ناپید ہے اور تیسری شدید خطرے سے دوچار ہے۔‘
تاہم، یہ جاننے کے لیے مزید مطالعات کی ضرورت ہے کہ آیا افریقی جنگلی گدھوں کی مزید نامعلوم ذیلی نسلیں موجود ہیں یا نہیں۔ جو بات یقینی ہے وہ یہ ہے کہ مزید ذیلی انواع کی دریافت سے ان جانوروں کی جینیاتی تاریخ اور انسانی زندگی میں ان کے کردار کے بارے میں سمجھنے میں مدد ملے گی۔
ان تمام لازوال فوائد کے باوجود، گدھے انسانوں میں اتنے مقبول نہیں ہیں جتنے گھوڑے اور کتے۔ لیکن جہاں دنیا کے کچھ حصوں میں گدھوں کو بڑی حد تک نظر انداز کیا جاتا ہے، وہیں دیگر علاقوں میں وہ اب بھی اہم ہیں۔
گدھے
،تصویر کا ذریعہ
ٹوڈ کا کہنا ہے کہ ’گدھے دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کی روزمرہ زندگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’اگرچہ ترقی یافتہ ممالک میں روزمرہ کی زندگی میں گدھوں کا استعمال نہیں کیا جاتا وہیں بہت سے ترقی پذیر معاشروں بشمول افریقہ اور جزیرہ نما عرب کے علاقوں میں، لوگ اب بھی باربرداری اور انسانی سفر کے لیے ان پر انحصار کرتے ہیں۔'
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ گدھوں کی جینیاتی ساخت کو جاننا مستقبل میں اس جانور کی افزائش کے طریقوں اور اس کے انتظام کو بہتر بنانے میں کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔
ان کلیدی مسائل میں سے ایک
اورلینڈو اور ان کے ساتھیوں کے زیر مطالعہ ان جانوروں کی قدیم ترین مثالیں ترکی میں کانسی کے دور کے تین گدھے ہیں۔ ٹوڈ کا کہنا ہے کہ ’کاربن ڈیٹنگ کے مطابق وہ 4,500 سال قدیم ہیں اور ان کی جینیاتی شکل وہی ہے جو ایشیا میں اس جانور کی اس دور کی ذیلی نسلوں کی ہے۔‘
اس تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ گدھے اپنے چار ٹانگوں والے رشتہ دار یعنی گھوڑوں کے مقابلے میں انسان کے زیادہ مستحکم ساتھی رہے ہیں۔
اورلینڈو کا کہنا ہے کہ ’پالتو گھوڑوں نے جو تقریباً 4,200 سال قبل پہلی بار پالے گئے تھے، انسانی تاریخ پر نمایاں اثرات مرتب کیے ہیں۔ اب ہماری تحقیق سے علم ہوتا ہے کہ گدھوں کا اثر ان سے بھی زیادہ تھا۔‘
لیکن اس کے علاوہ گدھوں اور دیگر چوپایوں کی موجودگی نے اس دور کی جنگوں کو بھی تبدیل کیا۔ ریخت کے مطابق ’یہ جانور جنگوں میں پہیوں والی گاڑیاں کھینچنے اور حملہ کرنے والی فوج کو رسد پہنچانے کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔‘
اس دور میں گدھے اتنے اہم تھے کہ وہ اہم رسومات کا حصہ بھی بنائے گئے۔ ریخیت کہتی ہیں کہ ’مصر اور میسوپوٹیمیا میں گدھوں کی اتنی قدر کی جاتی تھی کہ انھیں انسانوں کے ساتھ اور بعض صورتوں میں بادشاہوں اور حکمرانوں کے ساتھ بھی دفن کیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ کچھ واقعات میں گدھوں کو انفرادی طور پر دفن کیا گیا۔‘
ان کے مطابق دوسری صدی قبل مسیح میں، معاہدوں پر دستخط کے موقع یا عمارتوں کی بنیاد رکھتے ہوئے بھی گدھوں کی قربانی دی جاتی
آسٹریا کی گراز یونیورسٹی کے ماہر آثار قدیمہ لیرک ریخت کا کہنا ہے کہ گدھوں نے اپنی زیادہ قوتِ برداشت اور بھاری بوجھ اٹھانے کی صلاحیت کے باعث انسان کی زمین پر سامان کو دور دراز علاقوں تک پہنچانے کی صلاحیت کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’جب کہ میسوپوٹیمیا میں دجلہ اور فرات اور مصر میں دریائے نیل کو بھاری سامان یا بڑی تعداد میں سامان کی نقل و حمل کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا، گدھوں کی وجہ سے خشکی پر رابطوں کو بڑھانے اور تیز کرنے کا موقع ملا۔‘
ان کے مطابق، یہ ایسا ہی ہے کہ جیسا تیسری صدی قبل مسیح کے دوران کانسی کے استعمال میں اضافے کے ساتھ ہوا تھا۔ ’گدھے تانبے کو طویل فاصلے تک لے جانے کے قابل تھے اور اسے میسوپوٹیمیا سمیت ان علاقوں تک پہنچا سکتے تھے، جہاں یہ دھات قدرتی طور پر یا زیادہ مقدار میں نہیں پائی جاتی تھی۔‘
سنٹر فار اینتھروپولوجی اینڈ جینوم سٹڈیز کی جینیاتی ماہر ایولین ٹوڈ کا کہنا ہے کہ ’یہ پالتو بنائے جانے کی ایک خصوصیت ہے جو تقریباً تمام پالتو جانوروں میں دیکھی گئی ہے۔‘
ان کے مطابق آبادی میں یہ کمی پالنے کے لیے گدھوں کے ایک مخصوص نسب کا انتخاب کرنے اور اس کے نتیجے میں اس پالتو نمونے کی پیداوار اور افزائش کا نتیجہ ہے، جس سے ان کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔
محققین کے تجزیوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان گدھوں کو بظاہر مشرقی افریقہ سے براعظم کے دیگر حصوں بشمول شمال مغرب میں سوڈان اور وہاں سے مصر لے جایا گیا تھا جہاں ماہرین آثار قدیمہ نے پالتو گدھوں کی ساڑھے چھ ہزار برس پرانی باقیات دریافت کیں۔ اس کے بعد آنے والے ڈھائی ہزار برسوں کے دوران گدھوں کی یہ نئی پالتو نسل یورپ اور ایشیا تک پہنچی اور ان کی نسل چلتی چلتی ان گدھوں تک پہنچی جنھیں ہم آج دیکھت
ہے جب اس افریقی صحارا میں صحرائی صورتحال پیدا ہوئی جو کبھی سرسبز علاقہ تھا۔
تقریباً 8,200 سال پہلے سے مون سون کے اچانک کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ پودوں کے جانوروں کی خوراک کے لیے استعمال اور درختوں کو آگ لگانے جیسی انسانی سرگرمیوں میں اضافے کا نتیجہ بارشوں میں کمی اور صحرا کے بتدریج پھیلاؤ کی شکل میں نکلا۔ یہ وہ سخت ماحول تھا جس نے گدھے پالنے کے عمل میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔
اورلینڈو کا کہنا ہے کہ 'ہم سمجھتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں نے مقامی آبادیوں کو اپنے طور طریقے بدلنے پر مجبور کیا اور گدھے ایسے حالات میں طویل فاصلوں تک اور دشوار گزار راستوں پر سامان کی نقل و حمل کے لیے بنیادی سہولت فراہم کر سکتے تھے۔‘
محققین نے دیکھا کہ پالتو بنائے جانے کے بعد گدھوں کی آبادی ڈرامائی طور پر پہلے کم ہوئی اور پھر تیزی سے بڑھی۔ تولوز سنٹر
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain