سنٹر فار اینتھروپولوجی اینڈ جینوم سٹڈیز کی جینیاتی ماہر ایولین ٹوڈ کا کہنا ہے کہ ’یہ پالتو بنائے جانے کی ایک خصوصیت ہے جو تقریباً تمام پالتو جانوروں میں دیکھی گئی ہے۔‘
ان کے مطابق آبادی میں یہ کمی پالنے کے لیے گدھوں کے ایک مخصوص نسب کا انتخاب کرنے اور اس کے نتیجے میں اس پالتو نمونے کی پیداوار اور افزائش کا نتیجہ ہے، جس سے ان کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔
محققین کے تجزیوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان گدھوں کو بظاہر مشرقی افریقہ سے براعظم کے دیگر حصوں بشمول شمال مغرب میں سوڈان اور وہاں سے مصر لے جایا گیا تھا جہاں ماہرین آثار قدیمہ نے پالتو گدھوں کی ساڑھے چھ ہزار برس پرانی باقیات دریافت کیں۔ اس کے بعد آنے والے ڈھائی ہزار برسوں کے دوران گدھوں کی یہ نئی پالتو نسل یورپ اور ایشیا تک پہنچی اور ان کی نسل چلتی چلتی ان گدھوں تک پہنچی جنھیں ہم آج دیکھت
ہے جب اس افریقی صحارا میں صحرائی صورتحال پیدا ہوئی جو کبھی سرسبز علاقہ تھا۔
تقریباً 8,200 سال پہلے سے مون سون کے اچانک کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ پودوں کے جانوروں کی خوراک کے لیے استعمال اور درختوں کو آگ لگانے جیسی انسانی سرگرمیوں میں اضافے کا نتیجہ بارشوں میں کمی اور صحرا کے بتدریج پھیلاؤ کی شکل میں نکلا۔ یہ وہ سخت ماحول تھا جس نے گدھے پالنے کے عمل میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔
اورلینڈو کا کہنا ہے کہ 'ہم سمجھتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں نے مقامی آبادیوں کو اپنے طور طریقے بدلنے پر مجبور کیا اور گدھے ایسے حالات میں طویل فاصلوں تک اور دشوار گزار راستوں پر سامان کی نقل و حمل کے لیے بنیادی سہولت فراہم کر سکتے تھے۔‘
محققین نے دیکھا کہ پالتو بنائے جانے کے بعد گدھوں کی آبادی ڈرامائی طور پر پہلے کم ہوئی اور پھر تیزی سے بڑھی۔ تولوز سنٹر
پوری انسانی تاریخ میں گدھوں کے کردار کو سمجھنے کے لیے 37 مختلف لیبارٹریوں کے 49 سائنسدانوں کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے دنیا بھر سے اس جانور کی 31 قدیم اور 207 جدید مثالوں کے جینومز کو ترتیب دیا۔ جینیاتی ماڈلنگ تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے محققین وقت کے ساتھ گدھوں کی آبادی میں تبدیلیوں کی نشاندہی میں کامیاب ہوئے۔
انھیں علم ہوا کہ غالباً سات ہزار سال پہلے کینیا اور قرنِ افریقہ کے مشرقی علاقوں میں چرواہوں نے گدھوں کو جنگلی جانور سے ایک پالتو جانور میں بدلا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ تمام جدید گدھوں کی ابتدا غالباً انھیں پالتو بنانے کے اس مخصوص واقعے سے ہوتی ہے۔
ماضی کے مطالعات کے مطابق، یمن میں بھی گدھوں کو پالنے کی کوششیں کی گئی تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مشرقی افریقہ میں ان جانوروں کو پالنے کا واقعہ اسی دور کا ہے جب
لڈووک اورلینڈو کے مطابق فرانس کے دیہی علاقوں میں پائے جانے والے دیو قامت گدھوں نے غالباً رومی سلطنت کی توسیع اور دیکھ بھال میں اہم کردار ادا کیا، ایک ایسا کردار جس کی خاطر خواہ تعریف نہیں کی گئی۔ وہ کہتے ہیں کہ 'دوسری اور پانچویں صدی عیسوی کے درمیان، رومیوں نے اس قسم کے گدھوں کو خچروں (گدھے اور گھوڑے کے ملاپ سے پیدا ہونے والا جانور) کی افزائشِ نسل کے لیے استعمال کیا جو تجارتی اور فوجی ساز و سامان کی نقل و حمل میں کلیدی کردار رکھتے تھے۔
رومی سلطنت کے زوال نے بظاہر ان بڑے گدھوں کی نسل کے معدوم ہونے میں اہم کردار ادا کیا۔ لڈووک اورلینڈو کہتے ہیں کہ 'اگر آپ کی سلطنت ہزاروں کلومیٹر پر محیط نہیں ہے، تو آپ کو طویل فاصلے تک سامان کی نقل و حمل کے لیے کسی جانور کی ضرورت نہیں ہے۔ یوں خچروں کی افزائش جاری رکھنے کی معاشی ترغیب ختم ہو گئی۔‘
پوری انسان
اورلینڈو اس پراجیکٹ کے سربراہ ہیں جس کے تحت گدھوں کے ان ڈھانچوں سے اُن کے ڈی این اے کی ترتیب سمجھنے کی کوشش کی گئی۔ یہ ایک بہت بڑی تحقیق کا حصہ ہے جس میں گدھوں کے پالنے کی ابتدا اور اس کے بعد دنیا کے دیگر حصوں میں اُن کے پھیلاؤ کا پتا لگانے کی کوشش کی گئی ہے اور اس تحقیق کی مدد سے گدھوں کے انسان سے تعلق کے بارے میں حیران کُن معلومات حاصل ہوئی ہیں۔
لڈووک اورلینڈو کا کہنا ہے کہ رومن وِلا سے ملنے والی باقیات سے پتا چلتا ہے کہ اُن گدھوں کا قد پانچ فٹ سے زیادہ تھا جبکہ آج کے دور کے گدھوں کی اوسط اونچائی سوا چار فٹ سے کچھ زیادہ ہی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ جدید گدھوں کی واحد نسل جو حجم میں ان قدیم گدھوں جیسی ہو سکتی ہے وہ امریکی میمتھ جیک ہیں۔ یہ نر گدھے غیر معمولی طور پر بہت بڑے ہوتے ہیں اور اکثر افزائشِ نسل کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
لڈووک اورلینڈو ک
میں قائم پورپی سکول آف میڈیسن کے مرکز برائے بشریات اور جینومک سٹڈیز کے ڈائریکٹر لڈووک اورلینڈو کہتے ہیں کہ ’یہ دیو قامت گدھے تھے۔ ایک نسل جس کا تعلق جینیاتی طور پر افریقی گدھوں سے ہے اور بعض صورتوں میں اُن کا سائز گھوڑوں سے بھی بڑا تھا۔‘
،تصویر کا ذریع
گدھے
،تصویر کا کیپشنمعلوم تاریخ کے مطابق گدھوں کو پہلی بار تقریباً سات ہزار سال قبل مشرقی افریقہ میں پالا گیا تھا
گدھے عام طور پر بھاری بوجھ اٹھانے کی اپنی مثالی صلاحیت، ضدی پن اور مشکل کاموں کے لیے جانے جاتے ہیں۔ تاہم پاکستان سمیت دنیا کے کچھ حصوں میں اس جانور کا نام غیر منصفانہ طور پر توہین اور تضحیک کے ساتھ منسلک ہے۔
لیکن فرانس کے دارالحکومت پیرس سے 280 کلومیٹر مشرق میں واقع ایک گاؤں سے ماہرین آثار قدیمہ کو ایک ایسا سراغ ملا ہے جو بوجھ ڈھونے والے اِس جانور کے بارے میں ہمارے تصورات کو بدل سکتا ہے۔
بون ویل این ووایور نامی گاؤں میں واقع ایک رومن دور کے مکان میں ماہرین آثار قدیمہ نے ایسے کئی گدھوں کی باقیات دریافت کی ہیں جن کا سائز آج کے گدھوں کے مقابلے میں کہیں بڑا تھا۔
فرانسیسی شہر تولوز میں قائم
سے ہونے والی عام بیماریاں ہیں۔
مٹکےکے پانی کا پرفیکٹ ٹمپریچرحلق کے لیے مناسب رہتا ہے اور کسی بھی پرانی یا دائمی کھانسی نہیں ہونے دیتا۔
قدرتی طور پر خالص اور صاف ہوتا ہے
ٹھنڈک اور قدرتی طور پر صاف اور شفافیت مٹکے کے پانی کے فوائد میں سے دو بڑے فائدے ہیں۔ اس کا پانی پینے کے لیے محفوظ ہوتا ہے۔
اسٹروک سے بچاتا ہے
گرمیوں کے مہینوں میں سن اسٹروک ایک بڑا اور سیریس ایشو ہے۔
سن اسٹروک سے لڑنے کے لیے مٹکے کا پانی پینا چاہیے۔ مٹی کا یہ برتن پانی کے منرلز اور غذائیت کو برقرار رکھتا ہے اور تیزی سے ہائیڈریٹ رکھتا ہے۔
حلق کی بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے
گلے می سوزش اور درد گرمیوں میں فریج کا ٹھنڈا پانی پینے کی وجہ سے
کے برتن میں رکھا ہوا پانی اسے قدرتی طور پر ٹھنڈا رکھنے میں مدد دیتا ہے۔
مٹکے کی سطح پرچھوٹے چھوٹے سوراخ ہوتے ہیں، جہاں سے پانی جلدی سے خارج ہو جاتا ہے۔ یہ بخارات بننے کا عمل ہوتا ہے ،جس میں ہیٹ پانی سے مٹکے میں چھوڑدیتی ہے اور پانی ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔
میٹا بولزم کو تقویت دیتا ہے
کیونکہ مٹکے کے پانی میں کوئی کیمیکل نہیں ہوتا ہے، اس لیے اسے روزانہ پینے سے آپ کا میٹا بولزتیز ہو سکتا ہے۔
پانی کو منرل کے اجزاء مہیا کرنے کے باعث، یہ ہاضمے میں بھی مدد دیتا ہے۔
سن اسٹروک سے
ریفریجریٹر کی ایجاد اور عام ہونے سے پہلے، لوگ مٹی کے گھڑے میں پانی ذخیرہ کرتے تھے، جسے مٹکا کہا جاتا ہے۔
جدید کنٹینر کی نسبت مٹکے میں پانی قدرت طور پر ٹھنڈا ہوتا تھا اور صحت بخش ہونے کی وجہ سے پہلا انتخاب ہوتا تھا۔
آج بھی کچھ گھرانوں میں فریج ہونے کے باوجود قدرتی ٹھنڈے پانی سےلطف اندوز ہونے کے لیے مٹکا ضرور موجود ہوتا ہے۔
یہاں ہم آپ کو بتائیں گے کہ گرمیوں میں مٹکے کا پانی کیوں پیناچاہیے۔
پانی قدرتی ٹھنڈا رہتا ہے
مٹکے کے برتن میں
تحقیق کے مطابق اس کے عرق میں موجود پرو بائیوٹیکس معدے میں موجود صحت کے لیے فائدہ مند بیکٹریا کی نشوونما اور صحت مند توازن کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
وزن میں کمی
ایک طبی تحقیق کے مطابق اچار کھانے سے جسمانی وزن میں کمی آتی ہے جس کی وجہ اس میں موجود سرکہ ہے۔
مدافعتی نظام مضبوط
اچار جسم کے مدافعتی نظام کو مضبوط کرتا ہے اور اس کے علاوہ اچار سے بینائی کی کمزوری بھی دور ہوتی ہے۔
end
کی صحت پر خمیر شدہ کھانوں کے اثرات پر تحقیق کی گئی۔
تحقیق سے معلوم ہوا کہ اچار سمیت خمیر شدہ کھانوں میں زندہ پروبائیوٹک بیکٹیریا شامل ہوتے ہیں جو گٹ مائکرو بائیوٹا کے تنوع اور توازن کو بڑھا کر صحت پر مثبت اثرات پیدا کر سکتے ہیں۔
اچار سے کیا فائدے حاصل ہوتے ہیں؟
نظام ہاضمہ میں بہتری
گزشتہ کچھ عرصے سے معدے کے مسائل میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اگر اچار کا عرق پیا جائے تو نظام ہاضمہ کے مسائل سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق
ثقافتوں میں ایک روایتی غذا بنایا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کچھ سبزیاں اور پھل سال بھر دستیاب نہیں ہوتے اس لیے آف سیزن میں بھی اچار ایک اچھا آپشن ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اچار میں ہونے والا خمیری عمل (فرمنٹیشن پروسیس) نہ صرف سبزیوں کو محفوظ رکھنے میں مدد کرتا ہے بلکہ یہ غذائی اجزاء کی حیاتیاتی دستیابی کو بھی بڑھاتا ہے اور فائدہ مند پروبائیوٹک بیکٹیریا کی نشوونما کو فروغ دیتا ہے۔
علاوہ ازیں کئی سائنسی مطالعات نے اچار کو باقاعدگی کے ساتھ کھانے سے صحت پر رونما ہونے والے فوائد پر روشنی ڈالی ہے۔
2018 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں گٹ مائکرو بائیوٹا اور معدے کی
اچار ایک ایسی غذا ہے جو ہر دیسی شوق سے کھاتا ہے۔ کھٹا میٹھا اچار کھانے کی رونق بڑھاتا ہے اور یہ زیادہ تر چالوں یا روٹی کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔
اچار ڈالنے کی روایت برصغیر میں قدیم زمانے سے چلی آرہی ہے۔ گاؤں دیہاتوں میں آج بھی اچار ڈالنے کا رواج برقرار ہے جبکہ شہر میں مختلف برانڈز کے اچار دستیاب ہوتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ اچار کھانے کے کئی فائدے ہیں اور اسے اپنی غذا میں ضرور شامل کرنا چاہئے۔
اچار مختلف سبزیوں، پھلوں، مصالحوں اور سرکے سے تیار کیا جاتا ہے جس کا استعمال صحت بخش فائدے فراہم کرتا ہے۔
بھارت میں کلینکل نیوٹریشنسٹ کلپنا گپتا کے مطابق اچار ذائقہ اور صحت کے فوائد کا امتزاج پیش کرتا ہے جس نے اسے بہت سی ثقافتوں میں ایک
پھر وہ پہنچا کہ تاریخ کا رخ بدل دیا۔ قدرت اپنی کائنات کا کاروبار چلانے میں بے باک ہے۔ اس کے قوانین سے ٹکرانے کا نتیجہ شکست و ریخت ہوا کرتا ہے ۔ دم توڑتی ہوئی معاشرت کے آخری لمحات ہیں، حل صرف آئین اور سچ کی حکمرانی ہے۔ مگر آئین صرف حلف اٹھانے کے لیے اور سچ صرف خود کلامی کے لیے رہ گیا شاید وہ بھی نہیں لہٰذا دم توڑتی معاشرت کے لیے آہنی ہاتھوں کے سہاروں کی ضرورت ہے۔ میڈیا بھی بس موضوع بیچتا ہے چاہے کوئی ڈان ہو یا کوئی مکار جھوٹا تاریخ مسخ کر رہا ہو۔
پڑھنا جاری رکھو
یں رائے بدل دیں، جہاں سوشل میڈیا پر چلنے جھوٹی بات زیربحث رہے، جہاں کریمنل سیاست گرگٹ کی طرح رنگ بدلے۔ ایک وقت میں ان گنت بیانیے بدلے اور ریاست کو مفلوج کر دے۔ جس کے بارے میں ڈاکٹر اسرار احمد کہیں اور کئی سال پہلے کہیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ منافق ترین لوگ وطن عزیز میں آباد ہیں۔ جہاں جھوٹ پالیسی اور رواج تہذیب کا درجہ پا جائیں وہ معاشرت دم توڑ چکی ہوتی ہے۔ ثقافت اور معاشرت اگر فتح کر لی جائے تو پھر کسی دشمن کو فوج کشی کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بہت عرصہ پہلے میں نے لکھا تھا ”اک حکمران ہلاکو خان چاہیے، جس نے اپنی قوم کا ایک قافلہ لٹنے پر جب علم ہوا کہ قافلے میں ایک خاتون نے اس کے نام کی دہائی دی تھی“ تو اس نے کہا ’آسمان لاجواب کی قسم ضرور پہنچوں گا‘۔ پھر وہ پہنچا کہ تاریخ کا رخ بدل دیا۔ ق
، پارلیمانی نظام ہائے مملکت تو الگ بات ہے ابھی ہم اس مرحلے سے نہیں نکلے کہ خاندانی نظام یا معاشرت کی بنیاد اجتماعی مشترکہ خاندانی زندگی ہے یا انفرادی زندگی۔ دیکھا گیا ہے کہ اجتماعی خاندانی زندگی میں حقوق تو خاندان سے بطور استحقاق مانگے جاتے ہیں فرائض کی نوبت آئے تو مغرب کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ ہماری معاشرت ارتقائی مراحل میں ہے آنے والی ایک دو دہائیوں میں 2011 سے پہلے کی معاشرت کے احوال لوگوں کو جھوٹ لگیں گے۔ روڈا (راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی) کے بعد راوی کی کہانی بھی افسانہ لگے گی۔ جس معاشرت اور ملک میں آئین، قانون، دین اور مذہب کے مطابق غیر مسلم قرار دیئے جانے والے ملحدین کی صورت اختیار کر جائیں اور مین سٹریم میڈیا پر تاریخ مسخ کرنے کے درپے ہوں، سٹیک ہولڈرز کی متاع بیرون ممالک ہوں جہاں بیرونی ممالک میں آباد پاکستانی وطن عزیز میں رائے بدل
شہباز شریف کی حکمرانی مجرموں، ڈاکوؤں کو محسوس ہوتی تھی۔ ان کے بعد مریم نواز سے امید ہے کہ وہ ایسے واقعات کا تدارک شہباز شریف کے انداز میں کریں گی۔ میرے ایک مہربان دوست، محبوب شاعر، معروف وکیل جناب حافظ انجم سعید نے کہا کہ غزہ پر لکھیں۔ میں نے سوچا، غزہ پر کالم کیا تاریخ لکھی جائیگی اور ڈر ہے کہ یہ دنیا کی بھیانک ترین تاریخ میں نہ بدل جائے۔
عام محکمہ میں بد عنوانی بُرائی ہے، بد ترین بُرائی ہے مگر انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر بدعنوانی (ممنوعہ رشتہ) کے ساتھ بُرائی ہے۔ لوگ انصاف کے لیے آئیں، حق پر شخص کے جو مرضی دلائل ہوں مقدمہ زاتی نوعیت کا ہو یا سرکاری خزانہ یا املاک کا اور انصاف کی کرسی پر بیٹھا شخص دباؤ (ہر قسم کا ہو سکتا ہے) میں ہو تو لعنت ہے ایسے کاروبار پر۔
ہمارے ہاں تو صدارتی، پارلیمانی نظام ہائے
باد تو اُس نے بھی کہا ہو گا، اُس ”مالک“ کو ووٹ تو وہ بھی دیتا ہو گا۔ آزادی تو اُس کو بھی ملی ہو گی۔۔۔ کل رات میرے بہت عزیز دوست کا فون آیا، بات چیت ہوتی رہی۔ میں نے کہا کہ کالم ابھی لکھنا ہے، صبح گوجرانوالہ شادی پہ جانا ہے۔ سید دانیال علی اسلام آباد میں رہتے ہیں، پوچھنے لگے کس موضوع پر۔ میں نے کہا، پتہ نہیں جب قلم پکڑتا ہوں تو قلم ہی موضوع چن لیتا ہے مگر میرے ذہن میں دیپالپور مزدور کے ساتھ زیادتی کا دکھ چل رہا تھا۔ لاکھ اختلاف کریں جب کراچی میں کوئی قیمتی گاڑی اور خوبصورت شرٹ نہیں پہن سکتا تھا، کرپشن اور بھتا بطور پالیسی رائج تھے تب پنجاب میں میاں شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ میں ڈکیتی اور خصوصاً گھروں میں ڈکیتی حکومت کی ریڈ لائن تھی۔ ڈکیتی پر ایس ایچ او کیا ڈی ایس پی معطل اگر نہیں تو کم از کم لائن حاضر ضرور کر دیئے جاتے تھے۔ شہباز شریف کی
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain