Damadam.pk
MushtaqAhmed's posts | Damadam

MushtaqAhmed's posts:

MushtaqAhmed
 

پوری انسانی تاریخ میں گدھوں کے کردار کو سمجھنے کے لیے 37 مختلف لیبارٹریوں کے 49 سائنسدانوں کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے دنیا بھر سے اس جانور کی 31 قدیم اور 207 جدید مثالوں کے جینومز کو ترتیب دیا۔ جینیاتی ماڈلنگ تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے محققین وقت کے ساتھ گدھوں کی آبادی میں تبدیلیوں کی نشاندہی میں کامیاب ہوئے۔
انھیں علم ہوا کہ غالباً سات ہزار سال پہلے کینیا اور قرنِ افریقہ کے مشرقی علاقوں میں چرواہوں نے گدھوں کو جنگلی جانور سے ایک پالتو جانور میں بدلا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ تمام جدید گدھوں کی ابتدا غالباً انھیں پالتو بنانے کے اس مخصوص واقعے سے ہوتی ہے۔
ماضی کے مطالعات کے مطابق، یمن میں بھی گدھوں کو پالنے کی کوششیں کی گئی تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مشرقی افریقہ میں ان جانوروں کو پالنے کا واقعہ اسی دور کا ہے جب

MushtaqAhmed
 

لڈووک اورلینڈو کے مطابق فرانس کے دیہی علاقوں میں پائے جانے والے دیو قامت گدھوں نے غالباً رومی سلطنت کی توسیع اور دیکھ بھال میں اہم کردار ادا کیا، ایک ایسا کردار جس کی خاطر خواہ تعریف نہیں کی گئی۔ وہ کہتے ہیں کہ 'دوسری اور پانچویں صدی عیسوی کے درمیان، رومیوں نے اس قسم کے گدھوں کو خچروں (گدھے اور گھوڑے کے ملاپ سے پیدا ہونے والا جانور) کی افزائشِ نسل کے لیے استعمال کیا جو تجارتی اور فوجی ساز و سامان کی نقل و حمل میں کلیدی کردار رکھتے تھے۔
رومی سلطنت کے زوال نے بظاہر ان بڑے گدھوں کی نسل کے معدوم ہونے میں اہم کردار ادا کیا۔ لڈووک اورلینڈو کہتے ہیں کہ 'اگر آپ کی سلطنت ہزاروں کلومیٹر پر محیط نہیں ہے، تو آپ کو طویل فاصلے تک سامان کی نقل و حمل کے لیے کسی جانور کی ضرورت نہیں ہے۔ یوں خچروں کی افزائش جاری رکھنے کی معاشی ترغیب ختم ہو گئی۔‘
پوری انسان

MushtaqAhmed
 

اورلینڈو اس پراجیکٹ کے سربراہ ہیں جس کے تحت گدھوں کے ان ڈھانچوں سے اُن کے ڈی این اے کی ترتیب سمجھنے کی کوشش کی گئی۔ یہ ایک بہت بڑی تحقیق کا حصہ ہے جس میں گدھوں کے پالنے کی ابتدا اور اس کے بعد دنیا کے دیگر حصوں میں اُن کے پھیلاؤ کا پتا لگانے کی کوشش کی گئی ہے اور اس تحقیق کی مدد سے گدھوں کے انسان سے تعلق کے بارے میں حیران کُن معلومات حاصل ہوئی ہیں۔
لڈووک اورلینڈو کا کہنا ہے کہ رومن وِلا سے ملنے والی باقیات سے پتا چلتا ہے کہ اُن گدھوں کا قد پانچ فٹ سے زیادہ تھا جبکہ آج کے دور کے گدھوں کی اوسط اونچائی سوا چار فٹ سے کچھ زیادہ ہی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ جدید گدھوں کی واحد نسل جو حجم میں ان قدیم گدھوں جیسی ہو سکتی ہے وہ امریکی میمتھ جیک ہیں۔ یہ نر گدھے غیر معمولی طور پر بہت بڑے ہوتے ہیں اور اکثر افزائشِ نسل کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
لڈووک اورلینڈو ک

MushtaqAhmed
 

میں قائم پورپی سکول آف میڈیسن کے مرکز برائے بشریات اور جینومک سٹڈیز کے ڈائریکٹر لڈووک اورلینڈو کہتے ہیں کہ ’یہ دیو قامت گدھے تھے۔ ایک نسل جس کا تعلق جینیاتی طور پر افریقی گدھوں سے ہے اور بعض صورتوں میں اُن کا سائز گھوڑوں سے بھی بڑا تھا۔‘
،تصویر کا ذریع
گدھے
،تصویر کا کیپشنمعلوم تاریخ کے مطابق گدھوں کو پہلی بار تقریباً سات ہزار سال قبل مشرقی افریقہ میں پالا گیا تھا

MushtaqAhmed
 

گدھے عام طور پر بھاری بوجھ اٹھانے کی اپنی مثالی صلاحیت، ضدی پن اور مشکل کاموں کے لیے جانے جاتے ہیں۔ تاہم پاکستان سمیت دنیا کے کچھ حصوں میں اس جانور کا نام غیر منصفانہ طور پر توہین اور تضحیک کے ساتھ منسلک ہے۔
لیکن فرانس کے دارالحکومت پیرس سے 280 کلومیٹر مشرق میں واقع ایک گاؤں سے ماہرین آثار قدیمہ کو ایک ایسا سراغ ملا ہے جو بوجھ ڈھونے والے اِس جانور کے بارے میں ہمارے تصورات کو بدل سکتا ہے۔
بون ویل این ووایور نامی گاؤں میں واقع ایک رومن دور کے مکان میں ماہرین آثار قدیمہ نے ایسے کئی گدھوں کی باقیات دریافت کی ہیں جن کا سائز آج کے گدھوں کے مقابلے میں کہیں بڑا تھا۔
فرانسیسی شہر تولوز میں قائم

MushtaqAhmed
 

سے ہونے والی عام بیماریاں ہیں۔
مٹکےکے پانی کا پرفیکٹ ٹمپریچرحلق کے لیے مناسب رہتا ہے اور کسی بھی پرانی یا دائمی کھانسی نہیں ہونے دیتا۔
قدرتی طور پر خالص اور صاف ہوتا ہے
ٹھنڈک اور قدرتی طور پر صاف اور شفافیت مٹکے کے پانی کے فوائد میں سے دو بڑے فائدے ہیں۔ اس کا پانی پینے کے لیے محفوظ ہوتا ہے۔

MushtaqAhmed
 

اسٹروک سے بچاتا ہے
گرمیوں کے مہینوں میں سن اسٹروک ایک بڑا اور سیریس ایشو ہے۔
سن اسٹروک سے لڑنے کے لیے مٹکے کا پانی پینا چاہیے۔ مٹی کا یہ برتن پانی کے منرلز اور غذائیت کو برقرار رکھتا ہے اور تیزی سے ہائیڈریٹ رکھتا ہے۔
حلق کی بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے
گلے می سوزش اور درد گرمیوں میں فریج کا ٹھنڈا پانی پینے کی وجہ سے

MushtaqAhmed
 

کے برتن میں رکھا ہوا پانی اسے قدرتی طور پر ٹھنڈا رکھنے میں مدد دیتا ہے۔
مٹکے کی سطح پرچھوٹے چھوٹے سوراخ ہوتے ہیں، جہاں سے پانی جلدی سے خارج ہو جاتا ہے۔ یہ بخارات بننے کا عمل ہوتا ہے ،جس میں ہیٹ پانی سے مٹکے میں چھوڑدیتی ہے اور پانی ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔
میٹا بولزم کو تقویت دیتا ہے
کیونکہ مٹکے کے پانی میں کوئی کیمیکل نہیں ہوتا ہے، اس لیے اسے روزانہ پینے سے آپ کا میٹا بولزتیز ہو سکتا ہے۔
پانی کو منرل کے اجزاء مہیا کرنے کے باعث، یہ ہاضمے میں بھی مدد دیتا ہے۔
سن اسٹروک سے

MushtaqAhmed
 

ریفریجریٹر کی ایجاد اور عام ہونے سے پہلے، لوگ مٹی کے گھڑے میں پانی ذخیرہ کرتے تھے، جسے مٹکا کہا جاتا ہے۔
جدید کنٹینر کی نسبت مٹکے میں پانی قدرت طور پر ٹھنڈا ہوتا تھا اور صحت بخش ہونے کی وجہ سے پہلا انتخاب ہوتا تھا۔
آج بھی کچھ گھرانوں میں فریج ہونے کے باوجود قدرتی ٹھنڈے پانی سےلطف اندوز ہونے کے لیے مٹکا ضرور موجود ہوتا ہے۔
یہاں ہم آپ کو بتائیں گے کہ گرمیوں میں مٹکے کا پانی کیوں پیناچاہیے۔
پانی قدرتی ٹھنڈا رہتا ہے
مٹکے کے برتن میں

MushtaqAhmed
 

تحقیق کے مطابق اس کے عرق میں موجود پرو بائیوٹیکس معدے میں موجود صحت کے لیے فائدہ مند بیکٹریا کی نشوونما اور صحت مند توازن کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
وزن میں کمی
ایک طبی تحقیق کے مطابق اچار کھانے سے جسمانی وزن میں کمی آتی ہے جس کی وجہ اس میں موجود سرکہ ہے۔
مدافعتی نظام مضبوط
اچار جسم کے مدافعتی نظام کو مضبوط کرتا ہے اور اس کے علاوہ اچار سے بینائی کی کمزوری بھی دور ہوتی ہے۔
end

MushtaqAhmed
 

کی صحت پر خمیر شدہ کھانوں کے اثرات پر تحقیق کی گئی۔
تحقیق سے معلوم ہوا کہ اچار سمیت خمیر شدہ کھانوں میں زندہ پروبائیوٹک بیکٹیریا شامل ہوتے ہیں جو گٹ مائکرو بائیوٹا کے تنوع اور توازن کو بڑھا کر صحت پر مثبت اثرات پیدا کر سکتے ہیں۔
اچار سے کیا فائدے حاصل ہوتے ہیں؟
نظام ہاضمہ میں بہتری
گزشتہ کچھ عرصے سے معدے کے مسائل میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اگر اچار کا عرق پیا جائے تو نظام ہاضمہ کے مسائل سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق

MushtaqAhmed
 

ثقافتوں میں ایک روایتی غذا بنایا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کچھ سبزیاں اور پھل سال بھر دستیاب نہیں ہوتے اس لیے آف سیزن میں بھی اچار ایک اچھا آپشن ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اچار میں ہونے والا خمیری عمل (فرمنٹیشن پروسیس) نہ صرف سبزیوں کو محفوظ رکھنے میں مدد کرتا ہے بلکہ یہ غذائی اجزاء کی حیاتیاتی دستیابی کو بھی بڑھاتا ہے اور فائدہ مند پروبائیوٹک بیکٹیریا کی نشوونما کو فروغ دیتا ہے۔
علاوہ ازیں کئی سائنسی مطالعات نے اچار کو باقاعدگی کے ساتھ کھانے سے صحت پر رونما ہونے والے فوائد پر روشنی ڈالی ہے۔
2018 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں گٹ مائکرو بائیوٹا اور معدے کی

MushtaqAhmed
 

اچار ایک ایسی غذا ہے جو ہر دیسی شوق سے کھاتا ہے۔ کھٹا میٹھا اچار کھانے کی رونق بڑھاتا ہے اور یہ زیادہ تر چالوں یا روٹی کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔
اچار ڈالنے کی روایت برصغیر میں قدیم زمانے سے چلی آرہی ہے۔ گاؤں دیہاتوں میں آج بھی اچار ڈالنے کا رواج برقرار ہے جبکہ شہر میں مختلف برانڈز کے اچار دستیاب ہوتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ اچار کھانے کے کئی فائدے ہیں اور اسے اپنی غذا میں ضرور شامل کرنا چاہئے۔
اچار مختلف سبزیوں، پھلوں، مصالحوں اور سرکے سے تیار کیا جاتا ہے جس کا استعمال صحت بخش فائدے فراہم کرتا ہے۔
بھارت میں کلینکل نیوٹریشنسٹ کلپنا گپتا کے مطابق اچار ذائقہ اور صحت کے فوائد کا امتزاج پیش کرتا ہے جس نے اسے بہت سی ثقافتوں میں ایک

MushtaqAhmed
 

پھر وہ پہنچا کہ تاریخ کا رخ بدل دیا۔ قدرت اپنی کائنات کا کاروبار چلانے میں بے باک ہے۔ اس کے قوانین سے ٹکرانے کا نتیجہ شکست و ریخت ہوا کرتا ہے ۔ دم توڑتی ہوئی معاشرت کے آخری لمحات ہیں، حل صرف آئین اور سچ کی حکمرانی ہے۔ مگر آئین صرف حلف اٹھانے کے لیے اور سچ صرف خود کلامی کے لیے رہ گیا شاید وہ بھی نہیں لہٰذا دم توڑتی معاشرت کے لیے آہنی ہاتھوں کے سہاروں کی ضرورت ہے۔ میڈیا بھی بس موضوع بیچتا ہے چاہے کوئی ڈان ہو یا کوئی مکار جھوٹا تاریخ مسخ کر رہا ہو۔
پڑھنا جاری رکھو

MushtaqAhmed
 

یں رائے بدل دیں، جہاں سوشل میڈیا پر چلنے جھوٹی بات زیربحث رہے، جہاں کریمنل سیاست گرگٹ کی طرح رنگ بدلے۔ ایک وقت میں ان گنت بیانیے بدلے اور ریاست کو مفلوج کر دے۔ جس کے بارے میں ڈاکٹر اسرار احمد کہیں اور کئی سال پہلے کہیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ منافق ترین لوگ وطن عزیز میں آباد ہیں۔ جہاں جھوٹ پالیسی اور رواج تہذیب کا درجہ پا جائیں وہ معاشرت دم توڑ چکی ہوتی ہے۔ ثقافت اور معاشرت اگر فتح کر لی جائے تو پھر کسی دشمن کو فوج کشی کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بہت عرصہ پہلے میں نے لکھا تھا ”اک حکمران ہلاکو خان چاہیے، جس نے اپنی قوم کا ایک قافلہ لٹنے پر جب علم ہوا کہ قافلے میں ایک خاتون نے اس کے نام کی دہائی دی تھی“ تو اس نے کہا ’آسمان لاجواب کی قسم ضرور پہنچوں گا‘۔ پھر وہ پہنچا کہ تاریخ کا رخ بدل دیا۔ ق

MushtaqAhmed
 

، پارلیمانی نظام ہائے مملکت تو الگ بات ہے ابھی ہم اس مرحلے سے نہیں نکلے کہ خاندانی نظام یا معاشرت کی بنیاد اجتماعی مشترکہ خاندانی زندگی ہے یا انفرادی زندگی۔ دیکھا گیا ہے کہ اجتماعی خاندانی زندگی میں حقوق تو خاندان سے بطور استحقاق مانگے جاتے ہیں فرائض کی نوبت آئے تو مغرب کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ ہماری معاشرت ارتقائی مراحل میں ہے آنے والی ایک دو دہائیوں میں 2011 سے پہلے کی معاشرت کے احوال لوگوں کو جھوٹ لگیں گے۔ روڈا (راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی) کے بعد راوی کی کہانی بھی افسانہ لگے گی۔ جس معاشرت اور ملک میں آئین، قانون، دین اور مذہب کے مطابق غیر مسلم قرار دیئے جانے والے ملحدین کی صورت اختیار کر جائیں اور مین سٹریم میڈیا پر تاریخ مسخ کرنے کے درپے ہوں، سٹیک ہولڈرز کی متاع بیرون ممالک ہوں جہاں بیرونی ممالک میں آباد پاکستانی وطن عزیز میں رائے بدل

MushtaqAhmed
 

شہباز شریف کی حکمرانی مجرموں، ڈاکوؤں کو محسوس ہوتی تھی۔ ان کے بعد مریم نواز سے امید ہے کہ وہ ایسے واقعات کا تدارک شہباز شریف کے انداز میں کریں گی۔ میرے ایک مہربان دوست، محبوب شاعر، معروف وکیل جناب حافظ انجم سعید نے کہا کہ غزہ پر لکھیں۔ میں نے سوچا، غزہ پر کالم کیا تاریخ لکھی جائیگی اور ڈر ہے کہ یہ دنیا کی بھیانک ترین تاریخ میں نہ بدل جائے۔
عام محکمہ میں بد عنوانی بُرائی ہے، بد ترین بُرائی ہے مگر انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر بدعنوانی (ممنوعہ رشتہ) کے ساتھ بُرائی ہے۔ لوگ انصاف کے لیے آئیں، حق پر شخص کے جو مرضی دلائل ہوں مقدمہ زاتی نوعیت کا ہو یا سرکاری خزانہ یا املاک کا اور انصاف کی کرسی پر بیٹھا شخص دباؤ (ہر قسم کا ہو سکتا ہے) میں ہو تو لعنت ہے ایسے کاروبار پر۔
ہمارے ہاں تو صدارتی، پارلیمانی نظام ہائے

MushtaqAhmed
 

باد تو اُس نے بھی کہا ہو گا، اُس ”مالک“ کو ووٹ تو وہ بھی دیتا ہو گا۔ آزادی تو اُس کو بھی ملی ہو گی۔۔۔ کل رات میرے بہت عزیز دوست کا فون آیا، بات چیت ہوتی رہی۔ میں نے کہا کہ کالم ابھی لکھنا ہے، صبح گوجرانوالہ شادی پہ جانا ہے۔ سید دانیال علی اسلام آباد میں رہتے ہیں، پوچھنے لگے کس موضوع پر۔ میں نے کہا، پتہ نہیں جب قلم پکڑتا ہوں تو قلم ہی موضوع چن لیتا ہے مگر میرے ذہن میں دیپالپور مزدور کے ساتھ زیادتی کا دکھ چل رہا تھا۔ لاکھ اختلاف کریں جب کراچی میں کوئی قیمتی گاڑی اور خوبصورت شرٹ نہیں پہن سکتا تھا، کرپشن اور بھتا بطور پالیسی رائج تھے تب پنجاب میں میاں شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ میں ڈکیتی اور خصوصاً گھروں میں ڈکیتی حکومت کی ریڈ لائن تھی۔ ڈکیتی پر ایس ایچ او کیا ڈی ایس پی معطل اگر نہیں تو کم از کم لائن حاضر ضرور کر دیئے جاتے تھے۔ شہباز شریف کی

MushtaqAhmed
 

ایک وڈیرے کے مہمان تھے اور سب صبح ناشتہ کرنے کے بعد شکار پر نکلے۔ لانگ شوز اور پوری شکاری کٹ کے ساتھ، اسلحہ اور جیپوں میں سوار، پھر آگے پیدل چلنا پڑتا تھا۔ کہتا ہے آگے چلتے ہوئے کھیتوں کو پانی دینے والا ایک کھال تھا ذرا چوڑا مگر زیادہ گہرا نہ تھا، زیادہ سے زیادہ ایک فٹ اور 4 فٹ چوڑائی ہو گی۔ عام آدمی بڑے قدم کے ساتھ تھوڑا پھلانگنے کے انداز میں ہلکی سی جست لگا کر گزر سکتا تھا۔ میزبان وڈیرے نے سب کو کہا صاحب رُکیں اور ہاری، مزدور یا کمیرے کو آواز دی اور وہ بھی گالی کے ساتھ اوئے۔۔۔ بغیر نام لیے بلایا۔ وہ سدھائے ہوئے پالتو جانور کی طرح اس کھال میں اوندھے بل لیٹ گیا، وہ صاحب لوگ اُس پر پاؤں رکھ کر چلتے پانی کا کھال عبور کرتے ہوئے گزر گئے۔ کسی کا وزن بھی 90 کلو سے کم نہ تھا‘‘۔ میں واقعہ سن رہا تھا تو سوچا پاکستان زندہ باد تو اُس نے بھی کہا

MushtaqAhmed
 

“ بے شک اس پر کارروائی ہو گی مگر یہ مقدمہ ہوا میں ایسا گم ہو گا کہ جیسے کبھی ہوا ہی نہ تھا۔ نہ جانے ایسے کتنے واقعات روزانہ ہوتے ہیں ہوں، لگتا ہے کہ قانون اور قانون نافذ کرنے والے موجود ہیں؟ ترقی یافتہ ممالک میں بھی ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں مگر وہاں اور ہمارے ہاں کا مسئلہ مختلف ہے، معاملات اوردم توڑتی ہوئی معاشرت مختلف ہے۔ یہاں فرد نہیں خاندان اکائی ہے، مظلوم مجرم بن جاتا ہے اور معاشرت اسے مسترد کر دیتی ہے کیونکہ طاقتوروں کا قانون ہے طاقتوروں کا معاشرہ ہے، کمزور تو ایسے ہی ہیں۔ ایک واقعہ یاد آ گیا، جس پر میں نے کالم لکھا تھا، ’ایک دوست‘ جس کا اعلیٰ آفیسران کی خوشنودی مقصد حیات ہے۔ شکار کا شوقین اس لیے ہے کہ بڑے لوگ شکار کے شوقین ہوتے ہیں۔ ایک دن شکار پر ایک اعلیٰ عسکری آفیسر، اعلیٰ عدالتی آفیسر اور دیگر حکمران طبقوں کے نمائندہ ایک وڈیر