م کی بہت خدمت کی لوگوں تک دین پہنچایالوگوں کے دلوں کی اصلاح کی انسانوں کوحقیقی خالق ومالک کے ساتھ جوڑا مخلوق کاتعلق خالق
کائنات کیساتھ مضبوط کیالاکھوں انسانوں نے انکی دعوت حق کوسینے سے لگایاانکی طرز زندگی سے متاثرہوکراسلام قبول کیالیکن کیاآج انکی تعلیمات پرعمل کیاجارہے یا انکے نقش قدم پرکوئی بھی چلنے کوتیارہے جن اولیاء اللہ نے ساری زندگی دین کیلئے وقف کی ہمارے پاس اس دین کیلئے وقت نہیں جن تعلیمات پرساری زندگی ان اولیاء کرام نے عمل کی اہم عمل کرنے کوتیارنہیں پھرسال کے بعد ایک دن انکی قبرپرحاضری دیکرہم کیسے مطمئن ہیں کہ ہماری عقیدت ان سے سچی ہے ہم کیسے ا پنے آپ کوانکاعقیدت مندکہتے فخرمحسوس کرتے ہیں
جبکہ انکی تعلیمات پرعمل تودورکی بات ہم انکی تعلیمات سے واقف بھی نہیں ہمیں تو اللہ کے احکامات پرعمل کرنا چاہیے رسول اکرم شفیع اعظم ﷺ کی تعلیمات
کوشعبدہ باز توکہا جائیگا دھوکہ بازبھی کہیں گے لیکن جوقرآن وسنت کی تعلیمات سے دورہو متبع سنت بھی ناہووہ ولی نہیں ہوسکتا
اگرچہ وہ پانی پرچل رہاہویاہوامیں اڑتادکھائی دے حضرت علی المرتضیٰ شیر خداحیدر کرار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اولیائاللہ رات کو جاگتے ہیں جس سے انکے چہرے زرد ہوجاتے ہیں انکی آنکھیں آنسوؤں سے ترہوتی ہیں بھوک سے انکے پیٹ سکڑجاتے ہیں پیاس سے انکے ہونٹ خشک ہوجاتے ہیں کیوں کہ جب بندہ اللہ کادوست ہوتاہے توپھروہ دنیاوآخرت کے غم وخوف سے آزاد ہوجاتاہے آج ہم اپنے اردگردحالات کاجائزہ لیں توکتنے ایسے دعوی داردرست سمت میں سامنے آئیں گے جوحضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے قول کے مطابق صحیح معنوں میں اولیاء کرام کے نقش قدم پرچلتے ہوئے نظرآئیں گے
اس بات میں بھی کوئی شک وشبہ نہیں کہ برصغیر میں اولیاء کرام رحم ہم اللہ نے دین اسلام کی ب
ایمان لانے کے بعد تقوی اختیار کریں گے خودنبی اکرم شفیع اعظمﷺنے بھی اپنے خطبہ کے اندر ارشادفرمایاکہ کسی بھی شخص کوکوئی فضیلت نہیں سوائے تقوی والے شخص کہ یعنی اسی کو فضیلت حاصل ہے جومتقی ہوگا اولیاء اللہ کی یہ بھی صفات ہیں کہ انکی محبت بھی اللہ کی رضاکیلئے ہوتی ہے حضرت سعید بن جبیر ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرمؐ سے سوال کیاگیاکہ اولیاء اللہ کون لوگ ہیں فرمایا جن کے دیکھنے سے اللہ یادآجائے
اسی طرح حضرت ابن عباس ؓ سے بھی روایت ہے اسکے لئے ولی کیلئے صحیح العقیدہ ہونابھی ضروری ہے جسکے اعمال بھی شریعت کے مطابق ہوں اگر کوئی شخص کرامات کاتودعویٰ دار ہولیکن اگر وہ دین سے دور ہے وہ متبع سنت نہیں دین اسلام کی تعلیمات سے ناواقف ہے توایسے شخص کوشعبدہ باز
اصل نہیں کرسکتے بلاشک و شبہ اولیاء اللہ برحق ہیں ان کا ہونابھی خیرسے خالی نہیں قرآن مجید میں ارشادباری تعالیٰ ہے
بیشک اولیاء اللہ کوکوئی خوف نہیں ہوگااورناہی وہ غمگین ہوں گے یہاں تک توبیان کیاجاتا ہے لیکن یہ نہیں بتایاجاتاکہ اولیاء اللہ ہیں کون لوگ ساتھ ہی دوسری جگہ آیت میں اللہ نے فرمایاوہ لوگ جو ایمان لائیں اورتقویٰ اختیارکریں گے اسی طرح قرآن مجید میں اولیاء اللہ کی صفات بیان کیں گئیں ہیں کہ وہ سب سے پہلے توصاحب ایمان ہوں گے انکے ذہن اورسوچ پختہ ہوگی اللہ کے احکامات کی پابندی کریں گے رسولِ کریم روف الرحیم کی تعلیمات پر عمل پیراہوں گے دین اسلام پر اور دینی تعلیمات پردل وجان سے ایمان ویقین سے بخوشی ایمان بھی لائیں گے
حق وسچ کیساتھ کھڑے ہوں گے اللہ ورسول اللہ کے بتائے ہوئے طریقہ پرعمل کرتے ہوئے انہیں کے طریقوں پرزندگی گزاریں گے ایمان لانے
ہمارے معاشرے میں سچ جھوٹ حق باطل صحیح اورغلط کی پہچان کرناہرکسی کے بس کی بات نہیں کیوں کہ ہر بات کی پہچان ہرصحیح راہ کی تصدیق ہرحق کی تلاش علوم و معارف کے ذریعہ سے ہی ممکن ہے چونکہ ہربندہ علم دین کو اس معنی میں حاصل نہیں کررہا جس قدر اسے حاصل کرنا چاہیے اس لئے وہ دین کے نام پر کسی بھی شخص کی بات سن کر اسکی تحقیق کئے بغیرہی اسکامریدبننے کوتیارہوجاتاہے
دوسرے لفظوں میں یوں کہاجائے توبجاہوگاکہ ہم خوددین دار نہیں بنناچاہتے لیکن دوسروں کودین داردیکھناچاہتے ہیں ہم خودنیک متقی پرہیز گارنہیں بنناچاہتے لیکن ہم دوسروں کو ان صفات کا حامل دیکھناچاہتے ہیں اسی لئے ہم صحیح اور غلط کی حق وباطل کی پہچان نہیں کرسکتے اوراسی کمزوری کافائدہ اٹھاکرسامنے والاہمیں اپنے اندازمیں بآسانی اتار میں لیتاہے پھرہم ناچاہتے بھی خلاصی حاصل نہیں
اعتدال و توازن کا نام ہے۔ لیکن وہ اعتدال جو تجدد کی حدوں کو چھو رہا ہو اس کا ہر عہد میں رد کیا گیا ہے۔ اور اگر اس تجدد سے کہیں کچھ مثبت صادر ہوا تو اس کو لینے میں بھی بخل سے کام نہیں لیا گیا۔ موجود عہد میں بھی یہ دیوبندی مزاج اسی سپرٹ کے ساتھ موجود ہے۔ لیکن کچھ تجدد پسند، کچھ Inclusivity کے احساس اور کچھ فکری پراگندگی کا شکار ارباب علم اور ان کے خیر خواہوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں اصل دیوبندی مزاج کا نمائندہ ڈکلیئر کیا جائے۔ ان کے مطالبے پر غور کرنے سے قبل ایک لمحے کے لیے غور کر لیں اگر انیسویں صدی کے آخری میں سر سید احمد خان کی مذہبی فکر کو دین کی نمائندہ فکر تسلیم کر لیا جاتا تو آج مذہب کا وجود کس قدر زخمی اور چھلنی ہو چکا ہوتا
مشورے کے بغیر انہوں نے علی گڑھ کالج کو جوائن کر لیا۔ مشہور یہ ہو گیا کہ وہ بڑوں کی اجازت اور مشورے سے علی گڑھ منتقل ہوئے ہیں۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ نے مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے نام خط لکھا: ”مولوی عبداللہ صاحب کے حالات سن کر تعجب ہوا اور افسوس کہ باوجود دعویٰ صوفیت اور بزرگ زادگی کے اس مدرسہ کے متعلق ہو گئے جس کا نام علمائے آخرت کے نزدیک دارالالحاد ہے اور جو مذہب اور مشرب کے خلاف ہے اور یہ جو آپ سے کسی نے کہا ہے کہ وہ فقیر کی اجازت سے مدرسہ نیچریہ میں ملازم ہوئے ہیں سبحانک ھذا بہتان عظیم۔“ ایک دیوبندی خانوادے کے چشم و چراغ کا اپنے عہد کے تجدد پسند کے ہمرکاب ہونا صف اول کے دیوبندی مزاج کو پسند نہیں آیا۔
یہ چند واقعات اصل دیوبندی مزاج کی تفہیم میں معاون ہو سکتے ہیں۔ اس تفہیم کا حاصل یہ ہے کہ اصل دیوبندی مزاج توسع اور اعتدال و توازن کا
ہم
ان کی تقلید کریں گے۔“ وہ معتمد مولانا قاسم نانوتویؒ کے پاس پہنچا اور مولانا گنگوہی کا جواب سنایا۔ مولانا نے کہا: ”کام کرنے والوں کی تین قسمیں ہوتی ہیں،ایک نیت اچھی مگر عقل اچھی نہیں، دو عقل اچھی مگر نیت اچھی نہیں، تین نہ نیت اچھی نہ عقل اچھی۔ سر سید کے متعلق یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ نیت اچھی نہیں مگر یہ ضرور کہیں گے کہ عقل اچھی نہیں کیونکہ وہ جس زینہ سے مسلمانوں کو ترقی کی طرف لے جانا چاہتے ہیں اور فلاح و بہبود کا سبب سمجھتے ہیں وہ مسلمانوں کی تنزل کا سبب ہو گا۔“ یہ عبارت بھی اصل دیوبندی مزاج کی تفہیم میں کارگر ہے۔ اپنے عہد کے ارباب تجدد کی نیت پر شک نہیں کیا مگر اس ممکنہ غلطی کی نشان دہی بھی کر دی جس کا ارتکاب ابھی سرسید نے نہیں کیا تھا۔
مولانا عبد اللہ انصاریؒ مولانا قاسم نانوتویؒ کے داماد تھے۔ اپنے بزرگوں اور بڑوں کی اجازت اور مشورے ک
کی طرف سے رنجیدہ خاطر ہوں“۔ یہاں سر سید احمد خان کے اعتراف عظمت کے باوجود ان کے فساد عقائد کی شکایت اصل دیوبندی مزاج کی خوبصورت عکاسی ہے۔ اعتدال یہ ہے کہ اعتراف عظمت کے باوجود اگر کہیں فساد عقائد یا خرابی دین کی صورت پیش آ رہی ہو تو اسے بھی واضح کیا جائے۔
سر سید احمد خان نے علی گڑھ میں کالج کی بنیاد رکھی تو ایک معمتد خاص کو مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کی خدمت میں بھیجا کہ و ہ مولانا کو یہ پیغام پہنچائیں کہ میں نے مسلمانو ں کی ترقی کے لیے کالج کی بنیاد ڈالی ہے لہٰذا آپ میرا ساتھ دیں۔ مولانا گنگوہیؒ نے پیغام سن کر فرمایا: ”بھئی! ہم تو آج تک مسلمانوں کی فلاح کا راستہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے سمجھتے رہے مگر آج معلوم ہوا کہ ان کی ترقی کا اور بھی کوئی راستہ ہے۔“ پھر مولانا قاسم نانوتویؒ کا نام لے کر فرمایا: ”وہ ان باتوں میں مبصر ہیں جو وہ فرمائیں
معاملہ کر لینا۔ اور اگر ہنود کی شرکت سے اور معاملہ سے بھی کوئی خلافِ شرع امر لازم آتا ہو یا مسلمانوں کی ذلت یا اہانت یا ترقی ہنود ہوتی ہو، وہ کام بھی حرام ہے“۔ یہ تجدد کے باب میں صف اول کا دیوبندی مزاج ہے۔ گو اس مؤقف میں کچھ سختی در آئی ہے لیکن اس مؤقف کا حاصل یہ ہے کہ سر سید احمد خان دین کے نام پر بے دینی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ جنت و جہنم کا انکار، معجزات کا انکار وہ میٹھا زہر تھا جسے پینے کے بعد ایمان سسک سسک کر مر جاتا تھا۔
مولانا قاسم نانوتویؒ دار العلوم کے روح رواں تھے، ان کے سامنے سر سید احمد خان کا تذکرہ ہوا تو فرمایا: ”ہاں اس میں کچھ شک نہیں کہ سنی سنائی سید صاحب کی اولولعزمی اور درمندی اہل اسلام کا معتقد ہوں اور اس وجہ سے ان کی نسبت اظہار محبت کروں تو بجا ہے۔ مگر اتنا یا اس سے زیادہ ان کی فسادِ عقائد سن سن کر ان کا شاکی اور ان کی ط
۔ توسع اور اعتدال سے متصف ہونے کے باوجود دیوبندی مزاج تجدد کے باب میں ہمیشہ حساس رہا ہے۔ ہر عہد کے دیوبندی مزاج نے تجدد کی نشان دہی کی اور اس کا علمی و عملی رد کیا ہے۔ مولانا رشید احمد گنگوہیؒ دار العلوم کے بانیان میں سے تھے۔ ان سے جب اپنے عہد کے تجدد پسند سر سید احمد خان کے بارے سوال ہوا تو ان کا جواب کچھ اس طرح تھا: ”اگر ہندو مسلمان باہم شرکت بیع و شراء اور تجارت میں کر لیویں، اس طرح کہ کوئی نقصان دین میں یا خلاف شرع معاملہ کرنا اور سود اور بیع فاسد کا قصہ پیش نہ آوے، جائز ہے اور مباح ہے۔ مگر سید احمد سے تعلق رکھنا نہیں چاہیے۔ اگرچہ وہ خیر خواہی قومی کا نام لیتا ہے یا واقع میں خیر خواہ ہو مگر اس کی شرکت مالِ کار اسلام و مسلمان کو سم قاتل ہے۔ ایسا میٹھا زہر پلاتا ہے کہ آدمی ہرگز نہیں بچتا۔ پس اس کے شریک مت ہونا اور ہنود سے شرکت معاملہ کر ل
ہیں کہ انہیں اصل دیوبندی مزاج کا مستند نمائندہ سمجھا جائے۔ کچھ وہ جن کے اپنے مزاج کا اتار چڑھاؤ غیر معتدل رہتا ہے۔ معمولی اختلاف کی خراش سے ان کے آبگینے ٹوٹ جاتے ہیں۔ کچھ ایسے جو غیر ضروری مباحث کو سوشل میڈیا کی زینت بنائے رکھتے ہیں۔ کچھ وہ جن کا لازمی مطالبہ ہے کہ اصحاب رسول کے مابین خط امتیاز کھینچا جائے۔ کچھ وہ فکری اپاہج جن کی شخصیت تاثر اور مفادات سے گندھی ہے۔ یہ سب وہ متبادل ”تراث“ ہے جس کے بارے دعویٰ اور مطالبہ ہے کہ اسے اصل دیوبندی مزاج سمجھا جائے۔
علامہ اقبال مرحومؒ سے کسی نے دریافت کیا دیوبندیت کیا ہے؟ علامہ مرحومؒ نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا: ”دیوبند نہ فرقہ ہے نہ مذہب ہر معقول پسند، دین دار آدمی کا نام دیوبندی ہے۔“ اصل دیوبندی مزاج میں توسع ضرور ہے لیکن اس حد تک نہیں کہ یہ تجدد کی حدوں کو چھو کر اس سے بغلگیر ہو جائے۔ توسع ا
اصل دیوبندی مزاج کیا ہے؟ یہ بحث وقتاً فوقتاً سوشل میڈیا پر جاری رہتی ہے۔ میں نے ”دیوبندی مزاج“ کی تعبیر تفہیم کے لیے لکھی ہے ورنہ اصل تعبیر یہ ہونی چاہیے کہ اہل روایت کا اصل مزاج کیا ہے۔ اس بحث کا پس منظر یہ ہے کہ بعض تجدد پسند یہ خلط مبحث پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ موجودہ عہد کا دیوبندی مزاج اسلاف کے مسلک سے انحراف کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اصل دیوبندی مزاج میں توسع تھا وغیرہ۔ اس ضمن میں اپنی مرضی کی عبارات منتخب کر کے ان پر اپنا مقدمہ قائم کیا جاتا ہے۔ اس مقدمہ کے بطن سے پھر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اصل دیوبندی مزاج کی نمائندگی ان تجدد پسندوں کے افکار میں نظر آتی ہے۔
ان تجدد پسندوں میں سے کچھ غامدی صاحب کے خوشہ چین اور ان کے فکری جانشین ہیں۔ انہیں خود اصرار نہیں کہ انہیں دیوبندی کہا جائے لیکن ان کے چاہنے والے البتہ بضد ہی
رنی ہے۔
منی بیک گارنٹی
سونے میں ہمیشہ ایسی سرمایہ کاری کریں کہ ضرورت پڑنے پر اسے نقد رقم میں بدلنا ممکن اور آسان ہو۔ اس مقصد کو پانے اور اپنے مالی تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ آپ ایسے ریٹیلرز یا ایکسچینجز کا انتخاب یقینی بنائیں جو سونے کی واپسی کے شفاف طریقہ کار پر عمل پیرا ہوں اور آپ کو ایسی پیشکش کریں کہ آپ بخوشی اپنے سونے کو نقد رقم یا کسی اور اثاثے میں تبدیل کرسکیں۔
یاد رکھیں! سونے کی خریداری چاہے وہ ایک چھوٹی سی انگوٹھی کیوں نہ ہو، ایک اہم مالی فیصلہ ہے جس کا تعلق آپ کی سرمایہ کاری، رشتوں اور خوشیوں سے ہے۔ آپ مذکورہ معلومات اور اصولوں کی روشنی میں ایک درست فیصلہ کرکے اپنے سرمائے اور خوشیوں کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔
کا انتخاب کریں جس کی مارکیٹ میں اچھی شہرت ہو، صارفین اس پر اعتماد کرتے ہوں اور وہ ایمانداری سے کاروبار سے کرتا ہو۔ آپ صارفین کی رائے کی بنیاد پر اس سنار کے کاروباری کردار کے بارے میں بہتر اندازہ لگا سکتے ہیں اور اطمینان سے سونے کی خریداری کرسکتے ہیں۔
سونا خریدنے کا مناسب وقت
ہر کام کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے۔ سونے کی خریداری میں بھی یہ اصول بڑی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اسی اصول کی بدولت آپ اپنی محنت سے کمائے ہوئے سرمائے کی بچت اور اسے اگلے وقتوں کے لیے محفوظ بناسکتے ہیں۔ آپ کو شادی، بیاہ یا کسی بھی موقع کے لیے سونا خریدنا ہو تو اس کے لیے مناسب وقت اور بہتر موقع کا انتظار کیا جاسکتا ہے۔ آپ مارکیٹ میں سونے کے اتار چڑھاؤ اور زمینی حقائق پر نظر رکھ کر بہتر فیصلہ کرسکتے ہیں کہ آپ کو کب سونے کی خریداری کرنی ہے۔
نا نہیں ہوتی
یہ صرف سونا خریدنے کا ہی نہیں بلکہ زندگی کا بھی اصول بنالیں اور ذہن نشین کرلیں کہ ہر چمکتی ہوئی چیز سونا نہیں ہوتی۔ بہرحال، اگر آپ سونا خریدنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو سب سے پہلے اس کے خالص ہونے کی تصدیق کرنا ضروری ہے۔ سونے کا خالص پن قیراط کے پیمانے سے جانچا جاسکتا ہے۔ 24 قیراط کا سونا خالص ترین تصور کیا جاتا ہے۔ سونا 22، 20، 18، 14 اور 10 قیراط میں بھی دستیاب ہوتا ہے۔ جیسے جیسے آپ قیراط کم کرتے جائیں گے ویسے ہی سونے کی قیمت بھی کم ہوتی جائے گی۔ ایک عام خریدار مختلف قیراط کا سونا یا اس سے بنے زیورات کا بغور جائزہ لے کر باآسانی خالص اور ملاوٹی سونے کے درمیان فرق کرسکتا ہے۔
سنار کا انتخاب
سونے کی خریداری میں دکاندار کی شہرت، اعتماد اور اس کے پیش کردہ ریٹس کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ سونا خریدنے کے لیے ہمیشہ ایسے سنار کا ا
خریدتے ہوئے کن باتوں کا خاص خیال رکھنا چاہیے؟
کراچی (ویب ڈیسک) سونا خریدتے وقت اس کے اصل اور خالص ہونے کی تصدیق وہی لوگ کرسکتے ہیں جنہیں سونے کی پہچان ہوتی ہے۔ سنار کی دکان پر سونا خریدتے وقت لوگ اکثر مخمصے کا شکار نظر آتے ہیں۔ بعض لوگ تو آرٹیفیشل جیولری کو ہی اصلی سونے سے بنے زیورات سمجھ بیٹھتے ہیں۔
گو کہ سونے کی کوالٹی کو بہتر طور پر وہی جانچ سکتے ہیں جو اس کاروبار سے وابستہ ہوں تاہم بھاری رقم کے عوض سونا خریدنے والے ایک عام خریدار کے لیے بھی ضروری ہے کہ اسے اس حوالے سے چند اہم اور بنیادی اصول پتہ ہوں۔ ذیل میں سونا خریدنے سے متعلق ایسے ہی چند سنہری اصولوں پر بات کی گئی ہے۔
مزید پڑھیں:پرنس کریم آغا خان کی صاحبزادی کی گلگت آمد، صحت و تعلیم کے شعبہ میں حکومت کے ساتھ ملکر کام کرنے کا اعلان
ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی
ئی حرکتیں کرنے پر اکساتا ہے اس دوران کسی چیز کا نقصان ہو جانا ارادتاً نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ بات خود بھی ذہن میں رکھیں اور دوسرون کو بھی باور کرائیں کہ بچوں کی فطرت میں شرارت کرنا ہے، لہٰذا ماؤں کی تربیت پر سوال اٹھانا کسی طور مناسب طرز عمل نہیں۔
ایسی بہت سی باتیں ہیں، جو سماعتوں کے ذریعے دل تک پہنچ کر دکھ کا وہ احساس پیدا کرتی ہیں کہ بے بسی آنکھوں کو نم کر دیتی ہے۔ اگرہم بہ ذات فرد واحد ان باتوں کو اپنی گفتگو کے ذخیرۂ الفاظ سے منہا کر دیں، تو یقیناً بہت سی ماؤں کے دل دکھی ہونے سے بچ جائیں گے اور یہ عمل سچی خوشی کا وہ احساس جاگزیں کرے گا جس کا لفظوں میں اظہار ممکن نہیں۔
اچھے نمبروں کے حصول کے لیے اکثر بچوں کو ٹیوشن یا کوچنگ سینٹر بھی بھیجا جاتا ہے۔ ٹیوشن یا کوچنگ سینٹرز میں پڑھائی کا طریقہ کار اگر سمجھا کر پڑھانے کے بہ جائے رٹا لگانے پر زور دیتا ہو تو یہ طریقہ کار بھی اکثر بچوں کے لیے ذہنی دباؤ کا سبب بنتا ہے۔
’’بچوں کی کیسی تربیت کی ہے؟‘‘
بچے کوئی بھی حرکت کریں، کوئی نقصان کر دیں، مثلا کوئی گلاس توڑ دیا، پانی گرادیا، یا کھیل کے دوران آپس میں لڑ پڑیں، تو یہ جملے اکثر ماؤں کو سننے پڑتے ہیں۔
چھوٹے بچے بے حد شرارتی ہوتے ہیں۔ سارا دن اچھل کود اور شرارتوں میں مگن رہتے ہیں۔ لہٰذا بچوں سے عموماً ایسے چھوٹے موٹے نقصان ہو جاتے ہیں۔ مائیں بچوںکو کھیل کی جانب راغب کرتی ہیں، لیکن بچہ اپنی عمر کے لحاظ سے فطری طور پر شرارتیں کرنے لگتے ہیں، ان کا فطری تجسس ان کو نئی نئی حرکتیں کرنے پر اکساتا ہے اس دوران کسی چیز کا ن
صرف ایک ہی اول پوزیش حاصل کرتا ہے، لہٰذا ماؤں کو اس کا قصوروار گرداننا کسی صورت مناسب طرز عمل نہیں۔ عموماً ایسی باتوں کا ردعمل یہ ہوتا ہے کہ مائیں پڑھائی کے معاملے میں سختی کرتی ہیں اور اکثر جسمانی سزا سے بھی گریز نہیں کرتیں۔ امتحانات کے دنوں میں طلبہ سے زیادہ ان کی مائیں ذہنی تناؤ کا شکار رہتی ہیں، جس کی وجہ سے اکثر بلند فشار خون کا شکار ہو جاتی ہیں۔
مائیں دن رات پڑھائی کے لیے زور دے کر ڈرا دھمکا کر بچوں کو بھی ذہنی تناؤ کا شکار کر دیتی ہیں۔ انھیں بس ایک ہی فکر رہتی ہے کہ اگر بچے کے نمبر کم آئے تو لوگ کیا کہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ امتحانات کے دنوں میں اکثر بچے بیمار پڑ جاتے ہیں۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ بچوں کے امتحانات میں بہترین نتیجے یعنی اچھے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain