Damadam.pk
MushtaqAhmed's posts | Damadam

MushtaqAhmed's posts:

MushtaqAhmed
 

ماں کو ہی اس کا مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔
’’کیا بچوں کی پڑھائی پر توجہ نہیں دیتیں؟ آج کل کی ماؤں کو موبائل سے فرصت ہی نہیں ملتی!‘‘
اور اگر ماں ملازمت پیشہ ہو یا کوئی ’آن لائن‘ کام کرتی ہو تو نمبر کم آنے کی وجہ اسی کو ٹھیرایا جاتا ہے اور فوری طور پر ایسی تمام سرگرمیاں ختم کرنے کا مطالبہ یا فیصلہ صادر کر دیا جاتا ہے، گو کہ کچھ مائیں واقعی اولاد کی پڑھائی کو اتنی توجہ نہیں دے پاتیں، کیوں کہ وہ اپنی دیگر سرگرمیوں میں مصروف رہتی ہیں۔ ان کے لئے یہ بات کہنا درست ہوسکتا ہے مگر ماؤں کی اکثریت اولاد کو کام یاب دیکھنے کی خواہاں ہوتی ہے۔
درحقیقت ہر ماں چاہتی ہے اس کی اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے اور وہ زندگی کے ہر مرحلے میں کام یاب رہے، مگر ہر بچے کی ذہنی استعداد مختلف ہوتی ہے۔ ایک ہی جماعت میں ایک ہی استاد سے پڑھنے والے دسیوں طلبہ میں سے اکثر

MushtaqAhmed
 

بھاگتے، دوڑتے باتیں کرتے ہوئے دیکھتی ہوں گی، تو ان کے دل کی کیا کیفیت ہوتی ہوگی کہ ان کا بچہ یہ سب نہیں کرسکتا، یہ کیفیات صرف وہی جانتی ہیں۔
یہی نہیں ہر جگہ مثلاً کسی پارک، تفریح گاہ کسی تقریب میں غرض ہر جگہ بن مانگے مشورے دینے والے بھی ان کو زچ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ ’’اس کو فلاں عامل کو دکھا دو۔ فلاں مزار پر چلی جاو وغیرہ وغیرہ‘‘ اکثر انھی باتوں کی وجہ سے مائیں ایسے بچوں کو کسی پارک یا تقر یب میں بھی ساتھ لے جانے سے گریز کرتی ہیں۔ یوں وہ خود بھی گھر سے نکلنا چھوڑ دیتی ہیں اور تنہائی اور یاسیت کا شکار ہونے لگتی ہیں ۔
’’اتنے کم نمبر کیوں آئے؟‘‘
پڑھائی میں بچہ کمزور ہو یا امتحان کے نتیجے میں اس کے نمبر کم آئیں تو ماں کو

MushtaqAhmed
 

اس جیسی بہت سی باتیں اور توہمات کا تذکرے بھی ضرور کیے جاتے ہیں۔ جب کہ حقیقت میں وہ ماں جو اپنے بچے کی وجہ سے اندر ہی اندر نہ جانے کس کرب سے گزر رہی ہوگی۔ ایسی باتوں کا کیا جواب دے۔ اور ستم بالائے ستم، جب کوئی یہ کہہ دے کہ ’’یہ تو تمھارے ہی کیے کی سزا ہے!‘‘ ایسی باتیں سن کر ماؤں کا دل درد سے شق ہونے لگتا ہے۔
یہ تو قدرت کی طرف سے عطا کردہ اولاد ہے۔ اگر اس میں۔کوئی کمزوری یا کمی یا خدانخواستہ کوئی معذوری ہے، تو اس میں ماں کا کیا اور کتنا دوش۔ بظاہر چہرے پر مسکان سجائے آپ سے ملنے والی یہ مائیں اپنے دل میں درد کا کیا طوفان چھپائے بیٹھی ہوتی ہیں۔ یہ صرف وہی جانتی ہیں۔ اس لیے آپ گھڑی دو گھڑی کے لیے ملنے آتے ہیں، اس دوران اچھی باتیں کیجیے، نہ کہ ان کے زخموں پر نمک چھڑکیں۔ سوچیے یہ ماں جب دوسرے بچوں کو معمول کے مطابق ہنستے، کھیلتے، بھاگتے

MushtaqAhmed
 

مشکل سے کھانا کھاتا ہے۔ یہ وہی ماں جانتی ہے لیکن کبھی کسی طبی وجوہ کی بنا پر بھی بچہ کمزور ہوسکتا ہے۔ ایک ماں کے لیے اس کا بچہ دنیا میں سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے،آپ چاہے بچے سے کوئی بھی تعلق اور ناتا رکھتے ہوں، لیکن وہ ایک ماں سے زیادہ طاقت ور تعلق نہیں ہو سکتا۔ اس لیے پہلے تولیے اور پھر بولیے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں اور کس سے کہہ رہے ہیں!
’’یہ بچہ ایسا کیوں ہے ؟‘‘
خدانخواستہ اگر بچے میں کوئی پیدائشی نقص یا بعد میں کوئی معذوری بھی پیدا ہو تو عموماً ماؤں کو اس سوال کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ مزید یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ’’تم نے شاید سورج گرہن یا چاند گرہن میں خیال نہیں رکھا ہوگا!‘‘ یا یہ کہ ’’یہ آج کل کی لڑکیاں سمجھتی کہاں ہیں!‘‘، ’’کیا سمندر پر اور باغ میں سیر کے لیے گئی تھیں؟‘‘ وغیرہ یا اس جیسی بہت سی بات

MushtaqAhmed
 

ماں اپنے کھانے پینے کا تو پورا خیال رکھتی ہے، لیکن بچے کی غذائی صورت حال کا ذرا خیال نہیں رکھتی۔ حالاں کہ بھلا کبھی یہ بھی ممکن ہوا ہے کہ ماں خود کھالے اور بچے کو بھوکا رکھے۔ یہ تو آفاقی حقیقت ہے کہ والدین اور بالخصوص ماں خود پیٹ پر پتھر باندھ سکتے ہیں، لیکن اولاد کی بنیادی ضرورتوں کو لازمی پورا کرتے ہیں۔
ہمیں سوچنا چاہیے کہ مائیں تو بچے کی ولادت سے پہلے اور پیدائش کے بعد تک اس بچے کی نشوونما کے واسطے سارا خیال رکھتی ہیں، حتیٰ کہ بڑے بچوں کو ان کی پسند کے کھانے بنا کر کھلانا پوری ذمہ داری سے کرتی ہے اور ہر ماں بچوں کو کھانا کھلانے کے لیے کتنے ہی جتن کرتی ہے۔ کبھی کھانا کھلانے کے ساتھ کہانی سناتی ہے تو کبھی کھانا کھلانے کے دوران چڑیا کبوتر کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔
بچہ کتنی مشکل سے کھانا کھاتا ہ

MushtaqAhmed
 

میں نہ ہو تو یہ باتیں یہ رویے بے حد گراں اور تکلیف دہ ہو جاتے ہیں۔ بہ ظاہر وہ دوسروں کے سامنے اپنے آنسو ضبط بھی کرلیں، لیکن تنہائی میں یہ مائیں اپنی بے بسی پر بہت روتی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اگر ہم سب لوگ اپنے طرز عمل سے کسی کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں بکھیر سکتے، تو کسی کی آنکھوں میں آنسو بھی لانے کا سبب نہ بنیں۔ وہ بھی ایک ماں کے۔
یہاں ہم چند چھوٹی چھوٹی سی باتیں پیش کر رہے ہیں، جن سے گفتگو میں اجتناب کرنا چاہیے، تاکہ کسی بھی ماں کا دل نہ دکھے۔
’’تمھارا بچہ کتنا کمزور ہے!‘‘
بچہ چھوٹا ہو یا بڑا، یا چاہے نومولود ہی ہو، لیکن اگر بچے کا وزن کم ہو تو اس حوالے سے سب سے پہلے اس کی ماں ہی کو مورد الزام ٹھیرایا جاتا ہے۔ چوں کہ بچے کی پیدائش کے بعد اکثر ماؤں کا وزن بڑھ جاتا ہے، تو یہی وجہ سمجھی جاتی ہے کہ ماں

MushtaqAhmed
 

اپنی اولاد کے معاملے میں ماؤں کے دل نازک آبگینے کی مانند ہوتے ہیں۔ ذرا سی کسی کے سخت الفاظ یا رویے کی ٹھیس لگے، تو فوراً ٹوٹ جاتے ہیں، جب کہ کہنے والوں کو اس کا اندازہ بھی نہیں ہو پاتا کہ ان کے لفظوں سے یا رویے سے ایک ماں کی آنکھوں کے گوشے نم ہوگئے ہیں۔
ہو سکتا ہے کہنے والے کی نیت کسی ماں کا دل دکھانے کی نہ ہو وہ عام فہم انداز میں کوئی بات کررہے ہوں، مگر عورت مزاج میں کیسی بھی ہو، لیکن بطور ماں اس کا دل بہت نازک اور حساس ہوا جاتا ہے۔
اسی طرح بعض اوقات اولاد میں اگر خدانخواستہ پیدائشی کچھ کمی یا کمزوری ہو جس کو دور کرنا والدین کے اختیار میں نہ ہو

MushtaqAhmed
 

ے چنانچہ جس کے پاس روپیا ہے وہ بھی واجب التعظیم ٹھہرتا ہے۔ روپیا اعلیٰ ترین نیکی ہے چنانچہ اس کا مالک بھی نیک ٹھہرتا ہے ۔ میں کوڑھ مغز ہوں لیکن چونکہ روپیا تمام اشیا کی اصل روح ہے تو پھر بتائیے کہ اس کا مالک کیوں کر ذہانت میں کم ہوسکتا ہے؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ روپے کا مالک ذہین ترین لوگوں کو خرید سکتا ہے اور اگر ذہین ترین لوگ کسی شخص کے قبضہ قدرت میں ہیں تو کیا وہ ان سے زیادہ ذہین نہیں ہے؟ روپے کی اتنی شاعرانہ اور تخلیقی تشریح کرنا کسی عام ادیب کے بس کی بات ہے؟
اس امر سے انکار دشوار ہے کہ جدید دورکے جن فلسفیوں کے افکار نے دنیا میں سوچ اور غور و فکر کے دھارے تبدیل کیے ہیں، ان میں مارکس کا نام بہت نمایاں ہے۔ کالم کا آغاز اقبال کے جس شعر سے کیا گیا ہے، وہ اس امر کی بھرپور اکاسی کرتی ےend

MushtaqAhmed
 

’’ روپے کے ذریعے مجھے کیا حاصل ہے، روپے سے جو کچھ مجھے حاصل ہے میں بس وہی ہوں۔ میری طاقت اتنی ہی زیادہ ہے جتنی روپے کی جس کے پاس روپیا ہے اس کی صفات اور صلاحیتیں وہی ہیں جو روپے کی ( جو اس کی تحویل میں ہے) چنانچہ میں جو کچھ ہوں اور جو کچھ کرسکتا ہوں وہ میری انفرادیت سے متعین نہیں ہوتیں۔ ( اس کا مطلب یہ ہوا کہ ) میں بد صورت نہیں ہوں، کیونکہ بد صورتی کراہیت میں مبتلا کرنے والی قوت ہے، جسے روپیا ختم کردیتا ہے۔ میں اپنی انفرادی فطرت کے اعتبار سے لنگڑا ہوں لیکن روپیا مجھے 24 ٹانگیں فراہم کردیتا ہے‘ چنانچہ میں لنگڑا نہیں ہوں۔

MushtaqAhmed
 

مارکس کی اس داستان گوئی کی تصدیق پال لافارج نے بھی کی ہے اور لکھا ہے کہ جب اس کی بیٹیاں چہل قدمی کے قابل ہوئیں تو وہ انھیں ساتھ لے کر میلوں نکل جاتا اور انھیں پریوں، جادوگروں اور جل پریوں کی نو تصنیف کہانیاں برجستہ سناتا جاتا۔
ایلیزکی طرح لافارج کو بھی اس کا ملال رہا کہ یہ کہانیاں کاغذ پر محفوظ نہ ہوسکیں ورنہ وہ مارکس کے ادبی وفور اور ذہن کی خلاقی کے ایک دوسرے پہلو کو اجاگرکرتیں۔ وہ معیشت کی گتھیاں سلجھاتے ہوئے ادب پاروں کو جس طرح دلیل کے طور پر ٹانکتاچلا جاتا تھا، اس کا اندازہ اس کی تحریرکے اس ٹکڑے سے کیا جاسکتا ہے جس میں روپے کی طاقت کو بیان کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے۔

MushtaqAhmed
 

کاٹی‘‘ کسی خط میں وہ ایک ہی سانس میں وشوامتر، ولیم تھیکرے اور چاسرکی ’’کینٹربری ٹیلز‘‘ کا ذکر کرتا چلا جاتا ہے۔ پال لافارج کو بہ یک وقت فرانسیسی اور انگریزی میں خط لکھتا ہے تو ہائنے اور وکٹر ہیوگوکے اشعار اور جملے اس خط میں دریا کی موجوں کی طرح لہریں لیتے ہیں۔
مارکس کی بیٹی ایلیز نے لکھا ہے کہ شیکسپیئر کے ڈرامے ہمارے گھر میں بائبل کی حیثیت رکھتے تھے۔ 6 برس کی عمر میں شیکسپیئر کے کئی ڈراموں کے مکالمے مجھے ازبر تھے ۔ پاپا نے ہم بہنوں کو ہومرکا سارا کلام سنایا تھا، اس کے علاوہ بھی بہت سی کتابیں انھوں نے ہمیں سنائی تھیں جن میں سروانٹس کی ڈون کہوٹے اور الف لیلہ سر فہرست ہیں۔

MushtaqAhmed
 

موازنہ کرتے ہوئے وہ شیلے کو ایک مکمل انقلابی ٹھہراتا ہے اورکہتا ہے کہ اگر وہ30 برس کی عمر میں ختم نہ ہوگیا ہوتا تو سوشلسٹ تحریک کا رہنما اور مشعل بردار ہوتا جب کہ بائرن کے بار ے میں ا س نے یہ رائے دی کہ36 برس میں دنیا سے اگرکوچ نہ کر جاتا تو ایک رجعت پسند بورژوا کے طور پر سامنے آتا۔
شیکسپیئر کے مشہور کردار شائیلاک کا ذکر اس کی تحریروں میں کئی بار آیا ہے۔ ہائنے کی شاعری اسے ازبر تھی، گوئٹے کی ’’فائوسٹ‘‘ اور ’’دیوان مشرق و مغرب‘‘ کے حوالے سے اس کے خطوط ملتے ہیں۔ کہیں وہ ہائنے کی اس سطر کو دہراتا ہے کہ ’’ میں نے اژدھے کاشت کیے تھے لیکن پسوئوں کی فصل کاٹی‘‘

MushtaqAhmed
 

اس کو جلد ہی اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ شاعری اس کے اضطراب کا اظہار تو تھی لیکن درحقیقت وہ اس میدان میں کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں دے سکتا تھا۔ شاعری ترک کر کے فلسفے سے اپنی دائمی رفاقت کا فیصلہ کارل مارکس نے یقینا کشف کی کسی ایسی گھڑی میں کیا تھا جس نے اسے تاریخ کی ایک نادر روزگار شخصیت بنادیا۔ اس نے آنے والی انسانی نسلوں کی تقدیر کا دھارا موڑ دیا۔ وہ عظیم جرمن شاعروں اور یونان و روما کے کلاسیکی شعراء کے کلام کا والہ وشیدا تھا، اس کی خود نگری نے اسے سمجھا دیا تھا کہ اگر وہ ان جیسی یا ان سے بہتر شاعری نہیں کرسکتا تو اسے کسی اور میدان میں اپنا جوہر آزمانے کی ضرورت ہے۔
مارکس کا کہنا تھا کہ افراد کی ذہانت اور ان کی دانشورانہ گہرائی کو جانچنے کی سب سے بڑی کسوٹی یہ ہے کہ وہ عظیم ادب کا کتنا فہم رکھتے ہیں۔ ایک جگہ شیلے اور بائرن کا موازنہ کرتے ہ

MushtaqAhmed
 

تو اس نے قانون اور فلسفے کا انتخاب کیا لیکن اس کے اندر ایک ایسا نوجوان سانس لیتا تھا جو یونان اور روما کی قدیم تاریخ اور ہومر کے رزمیوں کا عاشق تھا۔ ارسطو، افلاطون، دیو جانس کلبی، ایپی کیوریس، پلوٹارک، سنیکا اور سسرو کو وہ پندرہ سولہ برس کی عمر میں پڑھ چکا تھا۔ شیکسپیئر، اسکائی لس اورگوئٹے اس کے محبوب شاعر تھے۔ اسپارٹکس اور کپلر اس کے ہیروتھے۔ اسکائی لس کی شاعری کا دلدادہ ہونے کی بنا پر وہ پرومی تھیس ایسے بے مثال باغی کردار کے بارے میں اسکائی لس کے شاندارکلام کو اپنے وجود میں جذب کرچکا تھا۔

MushtaqAhmed
 

نظام کو قائم رکھتے ہوئے اس کے اندر نئے پہلو تلاش کرتے ہیں۔
کمیٹی نے پہلی مرتبہ ایک ایسے معاشی محقق کو نوبل انعام دیا جو نظام میں بنیادی اور انقلابی تبدیلی لانے کے حوالے سے تحقیق کررہا تھا۔ مارکس کی ہمہ جہت زندگی کا یہ پہلو بھی دلچسپ ہے کہ اس کے ماں اور باپ دونوں کے خاندان صدیوں پرانی مذہبی روایات رکھتے تھے اور ان میں پشت در پشت ربّی گزرے تھے لیکن کارل کے باپ کو ٹرائر کے سماج میں بیروزگاری کے عفریت سے بچنے کے لیے اپنا مذہب تبدیل کرنا پڑا، اس کے باوجود اپنے قدیم یہودی پس منظرکی وجہ سے مارکس خاندان ٹرائر کے سماج میں سماجی اعتبار سے بے اعتنائی اور بیگانگی کا شکار رہا۔
کارل بورن یونیورسٹی میں داخل ہوا تو ا

MushtaqAhmed
 

م شامل کیا ہے۔ اپنے افکارکی وجہ سے مارکس کا اپنے وطن جرمنی میں رہنا ممکن نہ ہوسکا اور اس نے اپنی زندگی فرانس، بیلجیم اور برطانیہ میں ایک جلاوطن کے طور پرگزاری۔ مشکل ترین مالی مشکلات کے باوجود اس نے تحقیقی اور تخلیقی کام جاری رکھا۔ ایک دن ایسا بھی آیا جب اس نے اپنے دوست اینگلزکو ایک خط میں لکھا ’’اتنی مشکل اور عذابناک زندگی میں جینا ممکن نہیں۔‘‘
مغرب کی ترقی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ وہ اپنے نظریاتی اور سیاسی مخالفین کی صلاحیتوں کا اعتراف کرنے میں ہماری طرح زیادہ کنجوسی سے کام نہیں لیتے۔ بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ کارل مارکس کو اس کی کتاب’’ داس کیپٹل‘‘ پر 2016میں بعد از مرگ معاشیات کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔ یہ انعام 1968 میں تخلیق کیا گیا تھا ۔ نوبل انعام کمیٹی کے ترجمان نے اس موقع پر کہا کہ یہ انعام ان اسکالرزکو دیا جاتا رہا ہے جو نظام ک

MushtaqAhmed
 

۔ مارکس کو کئی علوم پر دسترس تھی وہ فلسفی، سماجی سائنسدان، صحافی، شاعر اور معیشت دان تھا۔ مارکس کی شخصیت ہمہ جہت تھی، اس کی تخلیقی صلاحیتوں کے معترف وہ کھلے ذہن کے لوگ بھی تھے جو اس کے فلسفے سے اتفاق نہیں کرتے تھے۔ اس کے بارے میں علامہ اقبال کا یہ شعر اب ضرب المثل بن چکا ہے:
وہ کلیم بے تجلی، وہ مسیح بے صلیب
نیست پیغمبر و لیکن دربغل دارد کتاب
مارکس 5 مئی 1818 میں پیدا ہوا۔ 38 سال کی عمر میں ا س نے اپنے دوست اینگلز کے ساتھ مل کر کمیونسٹ مینی فیسٹو تحریر کیا، بعد ازاں اس کی تحقیقی کتاب ’’ داس کیپٹل‘‘ نے دنیا میں تہلکہ برپا کردیا۔ کمیونسٹ مینی فیسٹو کی پچاس کروڑکاپیاں فروخت ہوئیں۔ اس کا شمار دنیا کی سب سے زیادہ بِکنے والی کتابوں میں کیا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے مارکس کی کتابوں کو ورلڈ ہیریٹیج ڈاکومنٹس میں

MushtaqAhmed
 

اٹھارویں صدی کی اختتامی دہائیوں میں صنعتی دورکا آغاز ہوا اور انیسویں صدی کے وسط میں صنعتی انقلاب برپا ہوا جس نے اس طرز معیشت کو یکسر تبدیل کردیا جس کی بنیاد انسان اور جانورکی مشقت پر قائم تھی۔
صنعتی انقلاب کے بعد مشین اور ٹیکنالوجی کے ذریعے پیداواری عمل شروع ہوا جس کے نتیجے میں پورا سماجی نظام تبدیل ہوگیا۔ صنعتی انقلاب کے ابتدائی دور میں مشینی پیداوار کے باعث شدید بیروزگاری پیدا ہوئی، نئے طبقات وجود میں آگئے جنھوں نے زیادہ سے زیادہ منافع کے لیے بد ترین انسانی استحصال کیا، بعد ازاں نو آبادیاتی نظام کے ذریعے چند مغربی ملکوں نے تین چوتھائی دنیا پر قبضہ کر لیا۔
صنعتی دور میں جن سائنس دانوں اور مفکرین کو غیر معمولی شہرت ملی، ان میں جرمنی کے فلسفی کارل مارکس کا نام بہت نمایاں ہے

MushtaqAhmed
 

Good morning 🌅 g🙋

Sfdzfgdf
M  : Sfdzfgdf -