Damadam.pk
MushtaqAhmed's posts | Damadam

MushtaqAhmed's posts:

MushtaqAhmed
 

اور جنگل کا ایک حصہ بخش دیا۔ مگر ملکہ اور اس کا بادشاہ بیٹا، یہ ادراک نہ کرسکے کہ مگر مچھ کے دل میں اب پورے جنگل پر بادشاہت کا سودا سمایا ہوا ہے۔
ایک دن‘ مگر مچھ نے ملکہ اور ولی عہد کو گہری جھیل کے دورے کی دعوت دی۔ ملکہ اور اس کا بادشاہ بیٹا‘ مگر مچھوں کے درمیان جھیل میں چلے گئے۔ اور مگرمچھوں کے تیار کردہ خوبصورت اوروسیع تخت پر براجمان ہو گئے۔ پھر اچانک خونخوار مگرمچھوں نے ملکہ اور بادشاہ حملہ کرکے ان کی تکہ بوٹی کر ڈالی۔ اب مگر مچھ ظلم کی بنیاد پر جنگل کے حکمران بن گئے۔ ان کے ظلم کی وجہ سے ہرا بھرا جنگل تھوڑے عرصے میں برباد ہو گیا۔ جب سب کچھ ختم ہوگیا تو مگر مچھ بھی بھوک کی وجہ سے مر گئے۔
نوٹ: اس فرضی کہانی کا پاکستان کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

MushtaqAhmed
 

ایک شام کو موقع پا کر ‘ ملکہ نے گینڈے کو بلایا اور سوئے ہوئے بادشاہ اور ولی عہد کو پاؤں تلے کچلوا دیا۔ ملکہ نے چالیس دن سوگ منایا۔ پھر اپنے نالائق بیٹے کو باشاہ بنا دیا۔ اب منصوبے کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا۔ وعدے کے مطابق ‘ گینڈے نے آدھے جنگل کا مطالبہ کیا۔ ملکہ نے جواب دیا کہ ضرور‘ یہ تو ہمارے درمیان طے ہے۔ آپ ایسے کریں کہ کل صبح‘ جھیل کے کنارے آجائیں۔ وہاں اعلان کروںگی کہ آدھا ملک آپ کا ہے۔
گینڈا وقت مقررہ پر وہاں پہنچ گیا۔ ملکہ نے مگر مچھوں کو اطلاع کر رکھی تھی، گینڈا پہنچا تو مگر مچھوں کے غول نے اس پر حملہ کر دیا۔اسے زبردستی پانی میں لے جا کر مار ڈالا۔ ملکہ اور اس کے بادشاہ بیٹے نے مگر مچھ کو پورے آبی ذخائر اور

MushtaqAhmed
 

۔ ایک حصے کا حاکم وہ ہو گا اور دوسرے حصے پر تمہاری حکومت ہوگی۔ گینڈا یہ سب کچھ مان گیا۔ اس نے بادشاہ اور ولی عہد کوکچلنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔
مگر یہاں‘ ایک اور کھیل شروع کیا گیا۔ مکار ملکہ نے خاموشی سے مگر مچھ کو بلایا اور اسے کہا کہ میں تمہیں تمام جھیلوں اور آبی ذخائر کا حکمران بنانا چاہتی ہوں اور جنگل کا ایک حصہ بھی بطو ر جاگیر عطا کروںگی۔ بس تم نے میرے حکم اور میرے بتائے ہوئے وقت پر گینڈوں کے سردار پر حملہ کرنا ہے، اسے پانی میں لے جا کر ڈبو دینا ہے۔ مگر مچھ نے بھی ملکہ کو ہاں کر دی۔ اب سازش مکمل طور پر برپا ہو چکی تھی۔

MushtaqAhmed
 

بیویاں تھیں اور کثیر اولاد کا مالک تھا۔ اس کی ایک ملکہ ساتھ والے جنگل سے آئی تھی۔ اس کا رنگ بھورے کے بجائے سفید تھا۔ اس کا ایک ہی بیٹا تھا۔سفید ملکہ چاہتی تھی کہ اس کا نالائق بیٹا بادشاہ بنے۔ بوڑھے بادشاہ کو اپنا نالائق بیٹا ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔ اب سفید ملکہ نے سازش شروع کی۔
اس نے رات کی تاریکی میں گینڈوں کے سردار کو بلایا اور بادشاہ کی علالت ، حکمرانی کی خامیاں اور اپنے سوتیلے بیٹوں کی کمزوریاں بتائیں۔ گوری بندریا نے گینڈے کو کہاکہ آدھا جنگل تمہیں دے دوںگی جس پر تمہاری حکومت ہو گی۔ بس شرط صرف یہ ہے کہ تم بادشاہ اور اس کے ذہین ولی عہد کو راستے سے ہٹا دو اور میرے نالائق بیٹے کو تخت نشین کرادو۔ جیسے ہی میرا بیٹا بادشاہ بنے گا۔ وہ پہلا حکم ہی یہ کرے گا کہ جنگل کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے

MushtaqAhmed
 

درست کرتا تھا۔ اگر کسی دوسرے جنگل سے آنے والے جانور نے کوئی شرارت کرنے کی کوشش کی ہوتی‘ تو اسے عدالت میں پیش کر کے نشان عبرت بنا دیا جاتا تھا۔ گینڈوں کے حفاظتی دستوں کے علاوہ ‘ مگر مچھوں کا ایک گروپ جھیلوں اور ندیوں میں ہر دم موجود رہتا تھا تاکہ آبی نظام رواں رہے ۔ گینڈوں‘ مگر مچھوں‘ عقابوں کے حفاظتی گروہوں کی مستعدی اور فرض شناسی کے باعث جنگل میں امن قائم تھا۔
اقتدار کی طوالت کے ساتھ بادشاہ بھی بوڑھا ہوتا چلا گیا ،اب اسے فکر تھی کہ اس کے بعد جنگل کو اتنے بہتر طریقے سے کون چلائے گا۔ اس کا ایک بیٹا حد درجہ سمجھ دار اور دانا تھا۔ بوڑھے بندر کا خیال تھا کہ اسے اپنا جانشین مقرر کردے ۔ مگر ایک مسئلہ پیدا ہو گیا تھا۔ بادشاہ کی متعدد بیویاں تھیں اور

MushtaqAhmed
 

حکم کی تعمیل کی اور چیتے کو عدالت کے روبرو پیش کر دیا۔ بادشاہ بندر نے کیس کی سماعت مکمل کی۔ ہرنی کی شکایت اورفاختہ کی اطلاع درست نکلی۔ بندر رول آف لا کا ماڈل تھا۔ اس کی عدالت نے حکم دیا کہ مجرم چیتے کو اندھا کر دیا جائے اور اس کی ایک ٹانگ کاٹ دی جائے۔
عدالت کے حکم پر عقاب نے چیتے کی آنکھیں نکال دی اور ایک گرانڈیل گوریلے نے چیتے کی ٹانگ چبا کر کاٹ ڈالی۔ ہرن کو انصاف مل گیا، اس کا معصوم بچہ تو واپس نہ مل سکا۔ مگر چیتے جیسے طاقتور جانور کو اس کے ظلم کی سزا فی الفور مل گئی۔ یوں فوری‘ بروقت اور راست انصاف سے جنگل میں ہر طرف امن ہی امن تھا۔
بندر نے جنگل میں تمام حفاظتی تدابیر بھی کر رکھی تھیں۔ گینڈوں کا ایک گروہ بنایا ہوا تھا۔ جو ہر دم چوکس رہتا تھا۔ کسی بھی خطرے کی خبر ملتے ہی وہ گروہ ‘موقع پر جا کر تمام حفاظتی معاملات خود درست کرتا تھا۔ اگر

MushtaqAhmed
 

بندر دیگر ذرایع سے خبر کی ہمیشہ تصدیق کراتا تھا۔ نظام انصاف ایسا سخت کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے۔
شیروں کے گروہوں کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ وہ کسی جانور کا بلا ضرورت اور بغیر اطلاع شکار کریں۔ انھیں صرف اتنا ہی شکار کرنے کی اجازت تھی جو ان کی ضرورت کے مطابق ہو۔ ایک دن ‘ چیتے نے اپنی طاقت کے زعم میں ہرن کے ایک بچے کو مار ڈالا اور کھانے کے بجائے اسے وہیں چھوڑ دیا۔ دراصل یہ شکار نہیں تھا بلکہ چیتے کا ظلم، تکبر اور قانون شکنی تھی۔ ایک فاختہ نے اس ظلم کی اطلاع بادشاہ کو دی ۔ بندر بادشاہ نے ہرن کو طلب کرکے معلومات حاصل کیں۔ ثبوت و شواہد جمع کرائے گئے۔ پوری تحقیقات کے بعد بادشاہ نے عدالت لگائی ۔

MushtaqAhmed
 

ایک بہت بڑا جنگل تھا۔ اس میں چشمے ‘ جھیلیں اور ندیاں بہتی تھیں۔پانی کی فراوانی نے سارا جنگل ہرا بھرا کر رکھا تھا۔ چاروں اطراف اونچے ،گھنے پیڑ‘ سبز گھاس کے میدان اور پہاڑیاں‘ شاداب جھاڑیاں ، پھولدار اور پھل دار درخت تھے۔ ہر طرح کے چوپائے‘ پرندے ‘ کیڑے مکوڑے پر سکون زندگی گزار رہے تھے۔
ندیوں میں رنگ برنگی مچھلیاں اور دیگر آبی جانور موجود تھے۔ قدرت کا ایک توازن تھا‘ جس نے جنگل کو شہکار بنا ڈالا تھا۔ دور دور سے پرندے اور جانور‘ خوراک اور بہتر زندگی کے لیے وہاں منتقل ہوتے رہتے تھے۔
جنگل کا بادشاہ ایک حد درجہ سمجھدار بندر تھا۔ اس نے اپنی بے مثال ذہانت کے بل بوتے پر جنگل میں کڑا نظام نافذ کررکھا تھا۔ کبوتروں اور فاختاؤں پر مشتمل جھنڈ پورے جنگل پر محو پرواز رہتے اور پل پل کی خبر سے حاکم بندر کو آگاہ رکھتے تھے۔ بندر دیگر ذرایع س

MushtaqAhmed
 

کو جانے کی اجازت ہوگی۔
پیارے بچو! مقدمے کے فیصلے کے بعد سے آج تک انسان اور مچھروں میں طے ہے کہ جہاں گندگی ہوگی وہاں مچھر ہوں گے۔ جو لوگ پاکیزہ ماحول کی ضمانت نہیں دیں گے ان کو انوفیلز نامی مادہ مچھر ملیریا بخار کے ذریعے یاددہانی کرواتی رہے گی کہ جو اپنے ملک، گھر، اسکول اور محلے کو بھی صاف ستھرا رکھیں گے وہ مچھر کے کاٹنے ہی سے نہیں ملیریا جیسی بیماری سے بھی محفوظ ہو جائینگے۔

MushtaqAhmed
 

چھروں نے ماضی میں ملیریا بخار کے ذریعے کروڑوں انسانوں کو ہلاک کرنے کا جرم کیا ہے، لیکن شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ مچھروں کو جرم کے ارتکاب پر انسان خود اکساتا ہے۔ گھروں کا کوڑا کرکٹ، گندگی و آلودگی خود انسان کی پیدا کردہ ہے۔ غلاظت میں مچھروں کی افزائش ہوتی ہے اور انہیں انسانی بستی میں پیدا ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔ چنانچہ عدالت کا حکم ہے کہ آج کے بعد جن انسانی بستی میں پاکیزگی و صفائی کا خیال رکھا جائے گا۔ اور پیارے آقا حضرت محمدؐ کے فرمان عالی شان کے مطابق پاکیزگی کو ایمان کا نصف حصہ سمجھا جائے گا وہاں مچھروں کو جانے کی اجازت نہ ہوگی۔ جبکہ ایسی بستیاں جہاں غلاظت کے انبار لگائے جا رہے ہو، وہاں مچھروں کو جانے کی اجازت ہوگی۔
پیارے بچو! مقدمے کے فیصلے کے بعد

MushtaqAhmed
 

جس پر ہر عمر کے افراد سوئے ہوئے تھے۔ مچھر حسب عادت انسانوں کے کانوں پر راگ الاپ رہے تھے۔ اس دوران قاضی نے دیکھا کہ مچھروں نے کچھ انسانوں کو کاٹا وہ تڑپ اٹھے۔ قاضی واپس پلٹ آیا جن مچھروں نے انسان کو کاٹا تھا ان میں وہ مادہ مچھر انوفیلز (Anopheles) بھی شامل تھی۔ اس کے کاٹنے سے انسانی خون میں پلان موڈیم نامی جرثومہ شامل ہوگیا۔ جو ملیریا بخار کا ذمہ دار ہے۔ فیصلے کی گھڑی آپہنچی تھی۔ آج کمرہ عدالت میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ آخر کار انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔
قاضی نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا: مقدمے کی سماعت گواہوں کے بیانات اور تمام ثبوت دیکھنے کے بعد عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ انسان اور مچھر کا تعلق بہت پرانا ہے۔ مچھروں نے ماضی میں ملیریا

MushtaqAhmed
 

حالت بخار کی وجہ سے بہت بری تھی۔
قاضی نے اگلی پیشی پر مقدمے کا فیصلہ کرنے کا اعلان کرکے سماعت ملتوی کر دی چنانچہ تمام لوگ واپس اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ رات کافی ہوگئی تھی۔ چاند کی مدھم سی روشنی میں ایک انسانی ہیولا ایک گلی میں سے گزرتا دکھائی دے رہا تھا۔ یہ قاضی کا سایہ تھا۔ قاضی کو دو روز بعد مقدمے کا فیصلہ سنانا تھا۔ اس لئے حقائق تک پہنچنے کے لئے اس نے از خود سارے معاملے کی چھان بین شروع کر دی تھی۔ محلہ بہت گندا تھا۔ انسانوں نے سارے علاقے کو بدبو دار بنا رکھا تھا۔ قاضی کے اٹھنے والے قدموں سے شڑاپ شڑاپ کی آوازیں ابھر رہی تھیں۔ جو گندے و آلودہ پانی میں گزرنے کی وجہ سے پیدا ہو رہی تھیں۔ قاضی بمشکل ایک دیوار تک پہنچا اور دور سے سارا منظر دیکھنے لگا۔ صحن میں کئی چار پائیاں بچھی ہوئی تھیں۔ جس پر ہر

MushtaqAhmed
 

دمت میں اہم ثبوت پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ مچھر کی کارستانیوں کو آشکار کیا جاسکے۔‘‘ قاضی ہر حال میں انصاف کرنا چاہتا تھا لہٰذا اس نے ثبوت پیش کرنے کی اجازت دے دی۔ مچھر کا دل تیزی سے دھک دھک کرنے لگا۔ یکدم پانچ افراد کمرۂ عدالت میں داخل ہوئے ان میں سے تین بچے بھی شامل تھے وہ کانپ رہے تھے۔ بڑوں کی حالت بھی دیدنی تھی۔ بخار کی وجہ سے ان کے چہرے سرخ تھے۔ اور جسم بلند درجہ حرارت کے باعث تپ رہے تھے۔
’’عالی جاہ! مچھر کے کاٹنے سے یہ گھرانہ ملیریا بخار کا شکار ہوگیا ہے۔ یہ بچے اسکول نہیں جاسکتے۔ ان سب کی یہ حالت ان مچھروں نے کی ہے۔ لہٰذا ان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔‘‘ انسانی ثبوت بڑے اہم تھے۔ بچوں اور بڑوں کی حالت بخار کی وجہ سے بہت

MushtaqAhmed
 

سڑک پر پھینک رکھا تھا، شاپنگ بیگ نالیوں میں پھنسے ہوئے تھے، اس لئے گٹر بند تھا۔ بدبو سے دماغ پھٹا جا رہا تھا۔ قاضی کا وہاں ٹھہرنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ گندے پانی کی سطح پر مچھروں کے غول کے غول رقص کر رہے تھے۔
’’سرکار! ذرا غور کیجئے! یہ گندگی و غلاظت کے ڈھیر مچھروں نے قائم نہیں کئے۔ ہماری افزائش نسل کے لئے یہ اعلیٰ سہولتیں انسان نے ہی مہیا کی ہیں۔ لہٰذا انصاف کرتے ہوئے یہ مقدمہ ختم کیا جائے!‘‘ مچھر نے بڑی خوبصورتی سے قاضی کی رائے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تھی۔
قاضی نے چند روز بعد پیشی کی تاریخ مقرر کر دی اور وہاں سے رخصت ہوگیا۔ اگلی بار انسان بڑی تیاری کے ساتھ آیا تھا۔
قاضی کے آنے پر وہ بولا، ’’عالی جاہ! آپ کی خدمت میں اہم ثبوت پیش کرنا چاہتا

MushtaqAhmed
 

کی دعوت خود حضرت انسان دیتا ہے۔ اگر یقین نہ آئے تو چل کر اصل صورتحال دیکھ لیجئے۔‘‘ مچھر نے اہم ثبوت دکھانے کا اعلان کر دیا تھا۔ یہ سن کر انسان کے پسینے چھوٹ گئے، اسے خطرہ پڑ گیا کہ اس کی مقدمے پر گرفت کمزور ہو رہی ہے لیکن اب کیا ہوسکتا تھا۔ قاضی نے مچھر کے ساتھ جا کر اصل مقدمے کی تہہ تک پہنچنے کی حامی بھر لی۔ قاضی اور مچھر سمیت تمام لوگ تیز تیز قدم اٹھاتے انسانی بستی کی طرف جا رہے تھے۔ آخرکار ایک محلے کے سامنے آکر مچھر رک گیا، ’’حضور! ذرا اس محلے پر نظر ڈالئے!‘‘ وہ مؤدب انداز میں بولا۔ اب جو قاضی نے سر گھما کر گلی کا جائزہ لیا تو بہت برا حال تھا۔ گڑھوں کا گندا پانی ابل کر گلی میں کھڑا تھا۔ کوڑے کرکٹ کے انبار سڑک پر پھ

MushtaqAhmed
 

سنی تو تڑپ اٹھا، بولا: ’’خدا کی پناہ! قاضی صاحب! یہ سب جھوٹ و فریب کا پلندہ ہے۔ میں قطعاً ان کے آرام میں مخل نہیں ہوتا۔ لہٰذا یہ مقدمہ بے بنیاد ہے اور اسے پہلی پیشی پر خارج کر دیا جائے۔‘‘
’’دہائی ہے قاضی جی! یہ بدبخت باز نہیں آرہا، ہر روز کان کھانے آجاتا ہے۔ اسے میرے گھر میں داخل ہونے سے باز رہنے کے احکامات جاری کئے جائیں۔‘‘ انسان نے واویلا شروع کر دیا تھا۔ قاضی کو اندازہ ہوگیا تھا کہ انسان روزمرہ کے امور مکمل کرنے کے بعد بستر پر آرام کرتا ہے۔ آرام و سکون کے لئے یہ لمحے رات کو میسر آتے ہیں۔ ادھر آنکھ لگے ادھر مچھر کان میں آکر راگ الاپنا شروع کر دیتا ہے۔ اب بھلا انسان آرام کب کرے۔ انسان کا موقف مضبوط تھا۔
’’نہیں سرکار!‘‘ مچھر بولا، ’’یہ غلط ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے مَیں جان بوجھ کر ان کے گھر داخل نہیں ہوتا، بلکہ اس کی

MushtaqAhmed
 

کرا دی گئی۔ تمام گواہان کو بھی عدالت میں طلب کر لیا گیا تھا۔ جوں جوں مقدمہ کی تاریخ قریب آرہی تھی، ویسے ویسے فریقین کی تیاریوں میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔ دونوں طرف سے دلائل اکٹھے کئے جا رہے تھے۔ ثبوت تلاش کئے جا رہے تھے۔ آخر کار پیشی کا پہلا روز آن پہنچا ہر طرف اس کی دھوم مچ گئی۔
’’عالی جاہ! سارا دن زندگی کی بھاگ دوڑ سے فراغت کے بعد آرام کے چند لمحات میسر آتے ہیں۔ ابھی بمشکل آنکھ لگتی ہے کہ یہ کمبخت آکر کان میں شور مچاتا ہے اور کاٹنا شروع کر دیتا ہے۔‘‘ انسان نے مچھر کو کوستے ہوئے قاضی کی عدالت میں اپنے بیان سے مقدمے کی کارروائی شروع کرتے ہوئے کہا۔ قاضی بڑا سمجھدار آدمی تھا۔ اس کا منشی تمام باتیں لکھ رہا تھا تاکہ ہر فریق کے موقف کا تحریری ریکارڈ تیار رہے۔ مچھر نے اپنے بارے میں انسانی رائے سنی تو تڑپ اٹھا، بولا:

MushtaqAhmed
 

’’عالی جاہ....! مچھر کے کاٹنے سے یہ گھرانہ ملیریا بخار کا شکار ہوگیا ہے۔ یہ بچے اسکول نہیں جاسکتے۔ ان سب کی یہ حالت ان مچھروں نے کی ہے۔ لہٰذا ان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔‘‘ انسانی ثبوت بڑے اہم تھے۔ : آئی این این
قاضی کی عدالت میں بڑا دلچسپ مقدمہ دائر کیا گیا۔ جو سنتا حیرت زدہ رہ جاتا۔ یہ مقدمہ ایک انسان نے مچھر کیخلاف کیا تھا۔ پہلے تو قاضی نے سماعت سے صاف انکار کر دیا تھا۔ لیکن پھر اہم معاملہ سمجھتے ہوئے اس نے مقدمے کی پیشی کا اعلان کر دیا۔ اس سلسلے میں باقاعدہ منادی کرا دی گئی۔ تمام

MushtaqAhmed
 

ورپ میں بیٹھے ہنس رہے ہوں گے کہ عمران خان حکومت گرانے کے لیے پنڈی آیا تھا لیکن وہاں پہنچ کر اپنی ہی دو حکومتیں گرانے کا اعلان کرکے واپس چلا گیا ۔اب ملک میں خلائی مخلوق بھی نیوٹرل ہوگئی ہے اور محکمہ زراعت کا دفتر بھی بند ہوگیا ہے ۔میں انہیں الفاظ پر اکتفاکرنا چاہتاہوں ۔آپ جب یورپ کی سیر سے واپس لندن تشریف لائیںگے تو یہ خط آپ کو مل چکا ہوگا۔مجھے امید ہے کہ آپ خط کا جواب دے کرمجھے پکے پٹواری ہونے کا احساس لازمی دلوائیں گے۔
آپ کا پکا جانثار
گلوپٹواری ،پراناکباڑخانہ،اندرون موچی گیٹ لاہور

MushtaqAhmed
 

د رکھ سکے ۔ وہ حالات اور تھے اب دیکھیں کس طرح مریم بیٹی بری ہوئی ہیں ۔اسحاق ڈار کا مقدمہ بھی تو ختم ہوگیا ہے اس لیے آپ تو آتے ہی بری ہوجائیں گے ۔رہی بات آپ کی تاحیات نااہلی کی تو وہ دن بھی اب دور نہیں ہے۔پاکستان کے سیاسی حالات تیزی سے بدل رہے ہیں اور یہ حالات تقاضا کرتے ہیں کہ عمران خان کو ٹکر دینے والا کوئی تگڑابندہ ہونا چاہئے اور آپ کے علاوہ کوئی ایسا تگڑا بندہ نہیں ہے جو عمران خان کو ٹکردے سکے۔
میاں صاحب مجھے پکا یقین ہے کہ آپ یورپ میں بیٹھے ہنس رہے ہوں گے ک