۔اب اس کی سیاست تو دم توڑرہی ہے ۔مستقبل آپ کا ہی ہے اس لیے آپ آئیں گے تو لاکھوں لوگ ایئرپورٹ کے باہر موجود ہوں گے۔مجھے معلوم ہے آپ کو پچھلی باربھی یقین دلایا گیا تھا کہ ایئرپورٹ پر لاکھوں لوگ جمع ہوں گے ۔یقین کریں میاں صاحب اس دن لاہور میں واقعی لاکھوں لوگ نکل آئے تھے میں خود اپنے محلے سے دس لوگوں کو لے کر آیا تھا لیکن شہبازشریف ایئرپورٹ کیوں نہیں پہنچے اس بات کا جواب آج تک نہیں مل سکا۔خیر وہ بات پرانی ہوگئی اب آپ آئیں گے تو ایسانہیں ہوگا۔
میاں صاحب! شادا یہ بھی کہتا ہے کہ آپ جب بھی پاکستان آئیں گے سیدھا جیل جانا پڑے گا۔آپ اس بات کو دل سے بالکل نکال دیں میاں صاحب ایسی کوئی جیل بنی ہی نہیں جو آپ کو قید رکھ سکے ۔
۔وہ کہتا ہے میاں صاحب جیل جانے سے ڈرتے ہیں ۔اب اس کو اس بات کا کیا جواب دوں ۔اس کو میں نے یہ کہہ رکھا تھا کہ میاں صاحب اس لیے لندن گئے ہیں کیونکہ یہاں عمران خان ان کی جان کے پیچھے پڑاہوا تھا اور جان بچانا تو ہمارے اسلام میں بھی فرض ہے ۔اب وہ مجھے روز طعنے مارتا ہے کہ اب تو ملک میں عمران خان کی حکومت نہیں ہے ۔سات ماہ سے آپ کے اپنے بھائی کی حکومت ہے تو پھر بھی میاں صاحب واپس کیوں نہیں آتے؟یہاں آکر میں بھی ڈگمگاسا جاتا ہوں اس لیے ڈرتے ڈرتے پوچھنے کی ہمت کررہا ہوں کہ میاں صاحب آپ اب واپس کیوں نہیں آرہے؟
یہاں ہرایک کارکن آپ کی راہ دیکھ رہا ہے۔ہر کوئی آپ کے بے مثال استقبال کے لیے تیار بیٹھا ہے۔عمران خان نے تو لاکھوں لوگ لانگ مارچ میں لانے کاصرف دعویٰ ہی کیا تھا دیکھا وہ پنڈی کے جلسے میں کس طرح لوگوں کو باہر نکالنے میں ناکام ہوا ہے ۔اب اس
ہیں وہ بھی اپنی مثال آپ ہے ۔آپ نے جس طرح لندن میں بیٹھ کرآرمی چیف کی تعیناتی والا معاملہ سنبھالا ہے اس کو دیکھ کرچھاتی چوڑی ہوگئی ہے۔مجھے یقین ہے جس طرح آپ نے میرٹ پر سمجھوتا نہ کرکے اور سینئرترین افسروں کو ہی تعینات کرکے سب کو پیغام دیا ہے کہ آپ اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرتے اسی طرح آپ چوتھی بار بھی اس ملک کے وزیراعظم بن کرملک کو درست کریں گے۔اورایک بات اور ہے جس سے کارکن پریشان ہیں وہ حمزہ شہبازہیں۔وہ جب سے وزیراعلیٰ کے عہدے سے ہٹے ہیں پتہ نہیں کہاں گم ہوگئے ہیں۔باقی پارٹی توایک طرف اپنے حلقے کے لوگوں سے بھی رابطے میں نہیں ہیں۔ ان کے بھی کان کھینچیں ۔
میاں صاحب !باقی سب تو ٹھیک ہے لیکن ’’شادے میراثی‘‘ کی ایک بات مجھے بھی پریشان کررہی ہے وہ دن رات پوچھتا رہتا ہے کہ میاں صاحب تو دوائی لینے گئے تھے وہ اب واپس کیوں نہیں آرہے
شہباز کے بس کی بات نہیں ہے۔ویسے تو حکومت چلانا بھی اس کے لیے آسان نہیں ہے ۔ لیکن جیسے تیسے ہوچلا رہا ہے۔آپ نے جس طرح عدم اعتماد کے فوری بعد حکومت لینے سے انکارکرکے الیکشن میں جانے کی مشورہ شہبازکو دیا تھا اگر وہ آپ کی سیاسی بصیرت کی قدر کرکے اس پر عمل کرلیتا تو آج پارٹی کے حالات مختلف ہوتے ۔میں تو حالات دیکھ کر آپ کی سیاسی بصیرت کا مزید قائل ہوگیاہوں ۔ آج شہباز کی حکومت تو ہے لیکن وہ مزہ نہیں ہے جو آپ کے یہاں وزیر اعظم ہوتے تھا۔آپ تھے تو مہنگائی نہیں تھی لیکن پچھلے سات ماہ میں جب سے شہبازنے حکومت سنبھالی ہے مہنگائی کا نہ رکنے والاطوفان آچکا ہے۔لگتا نہیں کہ وہ عام آدمی کی مہنگائی سے جان چھڑاسکیں گے۔ملک کے حالات کو درست کرنے کے لیے آپ کو پاکستان واپس آنا ہی پڑے گا۔ویسے تو آپ وہاں بیٹھ کر بھی جس طرح شہبازکی حکومت چلانے میں مدد کرر
پیارے میاں صاحب! مجھے تو یہ سب کچھ جھوٹ اور آپ کے خلاف ایک اور سازش ہی لگتی ہے ۔کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ آپ کو حکومت سے بھی ایک سازش سے ہی نکالاگیا تھا۔آپ پر کرپشن کے الزامات بھی جھوٹ ہیں ۔لیکن یہ ’’شادامیراثی‘‘ان الزامات کو سچ بنانے کے لیے یہاں لوگوں کو اکساتا رہتا ہے۔لیکن آپ فکر نہ کریں ہم بھی اس کا برابر مقابلہ کرتے ہیں اور اس کے لیڈر کو کرپٹ ثابت کرنے کی کوشش برابر کرتے ہیں آج کل تو ویسے بھی وہ گھڑی چوری کے الزام میں پھنسا ہوا ہے اسی خفت مٹانے کی کوشش میں ہی اس نے آپ کے یورپ جانے کو اس طرح کا ایشوبنانے کی بات کی ہے ۔اس لیے میں نے سوچا کہ اب وقت آگیا ہے کہ میں خط لکھ کر آپ کے حالات سے براہ راست آگاہی حاصل کرلوں۔
بڑ ے میاں صاحب !یہاں پاکستان میں ویسے تو خیریت ہے لیکن آپ کی کمی بہت شدت سے ہر کارکن محسوس کررہاہے ۔پارٹی چلانا شہباز
تو آپ کو یورپ کی سیرکرتے دیکھ کربہت خوش ہوگیا تھا کہ آپ نے آب وہوا کی تبدیلی کے لیے یورپ کی سیرکرنے کا اچھا فیصلہ کیا لیکن میرے محلے کا ’’شادامیراثی‘‘ میری جان کو آگیا ہے ۔آپ کو بتاتاچلوں کہ میں اس کی باتوں پرزیادہ دھیان نہیں دیتا کیونکہ اس کا تعلق وہ کرکٹ والی پارٹی سے ہے اور یہ دن رات بے پر کی اڑاتا رہتا ہے ۔یہ دو تین دن سے روز میرے پاس اور ہر آتے جاتے کو کہہ رہاہے کہ بڑے میاں صاحب کے لندن چھوڑکر یورپ جانے کی وجہ کوئی سیرو تفریح نہیں بلکہ وہ ڈرکرلندن سے فرار ہوچکے ہیں کیونکہ ان پرصحافی ارشد شریف کو قتل کرنے کی پلاننگ کا الزام ہے اور ہماری ہی پارٹی کے ایک بندے نے لندن میں پریس کانفرنس کرکے یہ سب کچھ بتایا ہے اور اسی نے ہی لندن میں آپ پر مقدمہ بھی درج کروادیا ہے ۔اس مقدمے میں گرفتاری کے ڈر سے آپ لندن چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
میرے
!
بڑے میاں صاحب آپ کومعلوم ہے کہ آپ سے راہ ورسم رکھنے،رابطے اورتعلق کوبڑھانے کے لیے ہمیں یہ خط وکتابت ،ای میلز یا واٹس ایپ جیسے دنیاوی ذرائع کی قطعا ضرورت نہیں ہے ۔کیونکہ ہمارا آپ سے رشتہ روحانی نوعیت کا ہے۔بھلے پاکستان میں حکومتیں بدلتی رہیں۔وزیراعظم آتے جاتے رہیں لیکن ہمارے دِلوں کے وزیراعظم تو آپ ہی ہیں اور رہتی دنیا تک آپ ہی رہیں گے۔ویسے تو آپ یہاں بھی رہیں یقینی طورپرآپ پاکستان کے لیے ہی پریشان اورفکر مند رہتے ہیں ۔مجھے معلوم ہے کہ آپ سے پاکستان کے لوگوں کی مالی اور معاشی مشکلات دیکھی نہیں جاتیں لیکن جب سے آپ کے لندن چھوڑکریورپ جانے کی خبرسنی ہے ہے دل بے چین سا ہوگیا ہے اس لیے آپ کو خط لکھ کر تسلی کرنا چاہتا ہوں۔
ویسے میں تو آپ کو یورپ

ش کررہا ہو.
دعا ہےکہ اللہ پاک آپ کی مسکراہٹ اور تندرستی ہمیشہ برقرار رکھے۔
آپ کواور آپ کے اہلِ خانہ کو ناگہانی آفات,دکھ اور پریشانیوں سے ہمیشہ محفوظ رکھے۔
آپ کو ہمیشہ اپنی رحمتوں کے سائے میں رکھےاوراپنے سواکسی کابھی محتاج نہ کرے۔
آمین
بات سہل کرنے کی ہی ہےکہ وہ کیسے بہادری اور یقینِ کامل کے ساتھ جدوجہد کررہے ہیں.
فرق صرف سوچ کا ہے یا رویوں کا.
کسی کو اپنی تکلیف سب سے زیادہ لگتی ہےاور کوئی دنیا کے غم دیکھ کر اپنا دکھ بھول جاتا ہے.
پر ہم یہ گمان نہیں کرسکتے کہ سامنے والے کی ہنسی دیکھ کر کہ وہ مکمل طور پر خوش ہے
ہوسکتا ہے وہ اپنے قہقہوں میں اپنے دکھ چھپانے کی کوشش کررہا ہو.
زندگی ایک جہد مسلسل کا نام ہے.
ہر کوئی کسی نہ کسی طرح کی جدوجہد کررہا ہے.
کوئی بیماری سے جنگ لڑ رہا, کوئی غربت, کوئی بے بسی, کوئی ناگہانی پریشانی,
ہر کسی کے حصے میں ایک جدوجہد ہے.
کسی کے حصے کی تکلیف کم ہے کسی کی زیادہ،
پر سب سے زیادہ مشکل میں وہ ہیں جو بےبس ہیں حالتِ جنگ میں ہیں
یا وہ جو زندگی کے لیے سانسوں کے محتاج ہیں.
کسی ایسی تکلیف کا شکار ہے جو انہیں اعصابی اور ذہنی طور پر مفلوج کر رہی ہے.
پھر بھی بات سہل
والی ہر سرگرمی کے بعد منہ کو دھونے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ پسینے اور گرد کی صفائی ہو سکے۔
بہت زیادہ یا کم منہ دھونے سے کیا ہوتا ہے؟
چہرہ بہت کم دھونے سے مسام بلاک ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں بلیک ہیڈ، کیل مہاسوں اور جِلد کے دیگر مسائل کا خطرہ بڑھتا ہے۔
اسی طرح منہ کو بہت زیادہ دھونے سے خارش، جِلد کے کھچاؤ یا خشکی جیسے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
end
اور پیر کو جوڑنے والی جگہ پر ہونے والی تکلیف کی وجہ جانتے ہیں؟
چہرے کو بہت زیادہ دھونے سے جِلد خشک ہو جاتی ہے جس کی روک تھام کے لیے غدود زیادہ چکنائی بنانے لگتے ہیں، جس کے باعث چہرے کی جِلد زیادہ چکنی ہو جاتی ہے یا کیل مہاسے زیاہ ابھرنے لگتے ہیں۔
میک اپ کے استعمال پر کتنی بار منہ دھونا چاہیے؟
چہرے سے میک اپ کو درست طریقے ہٹایا نہ جائے تو مسام بند ہو سکتے ہیں جس سے دانے نکلتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق میک اپ استعمال کرنے والی خواتین کو صبح اچھی طرح منہ دھونا چاہیے اور رات کو بھی وائپس سے چہرے کی صفائی کرنا چاہیے۔
ورزش کرنے والوں کو کتنی بار منہ دھونا چاہیے؟
پسینے کا باعث بننے والی ہر سرگرمی کے بعد منہ کو دھونے کی ضرورت ہوتی
کیجئے۔
اگر آپ عادتاً دن بھر میں صرف دو بار منہ دھوتے ہیں تو یہ کام سونے سے پہلے ضرور کرنا چاہیے تاکہ دن بھر میں جِلد پر اکٹھی ہونے والی گرد اور چکنائی کی صفائی ہو سکے۔
خشک یا حساس جِلد ہونے پر کتنی بار منہ دھونا چاہیے؟
خشک یا حساس جِلد کے مالک افراد کو روزانہ 2 بار منہ دھونے سے خارش کے مسئلے کا سامنا ہو سکتا ہے۔
تو انہیں دن بھر میں کم از کم ایک بار منہ دھونا چاہیے جبکہ رات کو اچھے وائپس کا استعمال کرنا چاہیے تاکہ جِلد کی صفائی ہو سکے۔
چکنی یا کیل مہاسوں سے متاثر جِلد کو کتنی بار دھونا چاہیے؟
ماہرین کے مطابق چکنی یا کیل مہاسوں سے متاثر جِلد کے مالک افراد کو دن میں 2 بار سے زیادہ منہ دھونے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
ایڑی اور پیر کو جوڑنے والی ج
ہوتی ہے"
جہاں تک تفصیلی جواب کی بات ہے تو یہ سادہ عمل کافی پیچیدہ ہو جاتا ہے۔
ہر پرسن اپنی جِلد کو ہی مدنظر رکھ کر فیصلہ کر سکتا ہے کہ انہیں دن بھر میں کتنی بار منہ دھونا چاہیے۔
آئلی سکِن اور پسینہ
مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر فرد کو صبح اور رات کو اپنا لازماً منہ دھونا چاہیے یا یوں کہہ لیں کہ روزانہ کم از کم 2 بار تو ضرور چہرے کو دھو لینا چاہیے۔
جن کی سکن آئلی ہو ہا ہو تو پھر دن کے دوران کام کی نوعیت کے سبب پسینہ زیادہ آتا ہو تو چہرے کو تیسری بلکہ چوتھی بار بھی دھونے سے گریز مت کیجئے۔
"منہ دھو رکھیئے!" محض محاورہ نہیں دراصل یہ آپ کی اہم جسمانی ضرورت ہے۔لیکن آپ کو روزانہ کتنی بار منہ دھونا چاہیے، اس سوال کا جواب آسان نہیں۔
چہرہ یا منہ دھونا بظاہر آسان اور سادہ کام ہے مگر ہم میں سے بیشتر یہ نہیں جانتے کہ روزانہ صرف ایک مرتبہ صبح اٹھ کر منہ دھو لینا کافی نہیں۔ لیکن منہ کب کب دھونا چاہئے اس کو سمجھنا ضروری ہے اور اس کے لیے وقت نکالنا بھی ضروری ہے۔
آخر ایک فرد کو روزانہ کتنی بار چہرہ دھونا چاہیے؟
اس کا آسان جواب یہ ہے کہ" اس کا کوئی حتمی جواب نہیں کیونکہ ہر فرد کی جِلد مختلف ہوتی ہے"
موقع پر ہم سب پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں جن کا پورا کرنا ضروری ہے سب سے پہلے تو اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں کہ کوئی ضرورت مند ایسا تو نہیں جس کے پاس عید کی خریداری اور کھانے پینے کے پیسے نہیں ان کی مدد کر کے انہیں بھی عید کی خوشیوں میں شامل کریں جس سے آپ کو بھی یقینا راحت ملے گی۔ ا ٓخر میں تمام اہل وطن کو دل اتھاہ گہرائیوں سے عید مبارک۔
❣️
اختتام پذیر ہوجاتی ہے البتہ شہروں میں رات کو تفریحی مقامات ،سینماوں اور تھیٹرز وغیرہ میں کافی رش ہوتا ہے اور خوب جشن منایا جاتا ہے۔ اسی طرح عید کے دوسرے اور تیسرے دن فیملیز وغیربھی تفریح کے لیئے باہر نکلتی ہیں، لوگ قریبی عزیزوں کے گھر بھی عید ملنے جاتے ہیں۔ دوست احباب کے درمیان عید ملن پارٹیاں ہوتی ہیں اور یوں یہ رنگ بکھیرتا خوبصورت اور شاندار اسلامی تہوار اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔ اب خوشی کے اس موقع پر ہم سب پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں جن کا
ہے لیکن کم از کم یہ بھرم تو قائم رہنا چاہیئے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی انا اور ضد کے خول سے باہر آکر اپنے پیاروں کے ساتھ رشتوں کو جوڑا جائے تاکہ پیارومحبت کی ایک خوبصورت فضا قائم ہو سکے۔ بہرحال عید کے دن کے معمولات مختلف عمر کے لوگوں کے الگ الگ ہوتے ہیں بچے عیدی کی رقم بڑے شوق سے اکٹھی کرتے ہیں جو تقریبا شام تک ختم ہو جاتی ہے،بڑی عمر کے افراد آپس میں اور خاندان کے دوسرے لوگوں سے گپ شپ کر کے محظوظ ہوتے ہیں، نو جوان گیمز وغیرہ کھیلنے اور سیروسیاحت کی غرض سے پارکس اور پبلک مقامات پر سارا دن گزارتے ہیں جبکہ عورتیں عموماََ گھر میں ہی کوکنگ وغیرہ کرکے دن گزارتی ہیں۔اسی طرح دن گزر جاتا ہے اور جونہی شام کے سائے لمبے ہوتے ہیں دیہاتوں میں تو سب کچھ روٹین پر آجاتا ہے لوگ تھک ہار کر اپنے کام ختم کر کے سو جاتے ہیں اور یوں ان کے لیئے عید تقریبا اختت
اور کدورتوں کو ختم کر کے خوشی خوشی ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں اور بھائی چارے کو فروغ دیتے ہیں جبکہ دور دراز کے دوست احباب کو بھی نیک تمناؤں کے پیغامات بھیجے جاتے ہیں پہلے تو یہ اظہار رنگ برنگے اور خوبصورت عید کارڈز کے ذریعے ہوتا تھا لیکن اب یہ قصہ پارینہ ہو چکا ہے۔لوگ اپنے پیاروں کی طرف سے ملنے والے ان کارڈز کو سال بھر سنبھال کر رکھتے تھے جو دراصل باہمی محبتوں،سچے اور کھرے جذبات کی عکاسی کرتے تھے لیکن ٹیکنا لوجی کو فروغ کیا ملا کہ ہماری دوریاں بڑھتی گئیں، بے لوث محبتیں نہ جانے کہاں کھو گئیں،پر خلوص چاہتیں یاد ماضی بن گئیں اورزمانے کے ساتھ ساتھ تعلقات میں بھی کمرشلزم کا عنصر نمایاں ہونے لگا۔ اب ان عید کارڈز کی جگہ موبائل فون کے smsلے چکے ہیں بس ایک میسج کرو اور جان چھڑا لو۔ہمارے خیال میں یہ تعلقات کے جڑے رہنے کا کمزور ترین ذریعہ ہی ہے لیکن
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain