Damadam.pk
MushtaqAhmed's posts | Damadam

MushtaqAhmed's posts:

MushtaqAhmed
 

اچار ایک ایسی غذا ہے جو ہر دیسی شوق سے کھاتا ہے۔ کھٹا میٹھا اچار کھانے کی رونق بڑھاتا ہے اور یہ زیادہ تر چالوں یا روٹی کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔
اچار ڈالنے کی روایت برصغیر میں قدیم زمانے سے چلی آرہی ہے۔ گاؤں دیہاتوں میں آج بھی اچار ڈالنے کا رواج برقرار ہے جبکہ شہر میں مختلف برانڈز کے اچار دستیاب ہوتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ اچار کھانے کے کئی فائدے ہیں اور اسے اپنی غذا میں ضرور شامل کرنا چاہئے۔
اچار مختلف سبزیوں، پھلوں، مصالحوں اور سرکے سے تیار کیا جاتا ہے جس کا استعمال صحت بخش فائدے فراہم کرتا ہے۔
بھارت میں کلینکل نیوٹریشنسٹ کلپنا گپتا کے مطابق اچار ذائقہ اور صحت کے فوائد کا امتزاج پیش کرتا ہے جس نے اسے بہت سی ثقافتوں میں ایک

MushtaqAhmed
 

پھر وہ پہنچا کہ تاریخ کا رخ بدل دیا۔ قدرت اپنی کائنات کا کاروبار چلانے میں بے باک ہے۔ اس کے قوانین سے ٹکرانے کا نتیجہ شکست و ریخت ہوا کرتا ہے ۔ دم توڑتی ہوئی معاشرت کے آخری لمحات ہیں، حل صرف آئین اور سچ کی حکمرانی ہے۔ مگر آئین صرف حلف اٹھانے کے لیے اور سچ صرف خود کلامی کے لیے رہ گیا شاید وہ بھی نہیں لہٰذا دم توڑتی معاشرت کے لیے آہنی ہاتھوں کے سہاروں کی ضرورت ہے۔ میڈیا بھی بس موضوع بیچتا ہے چاہے کوئی ڈان ہو یا کوئی مکار جھوٹا تاریخ مسخ کر رہا ہو۔
پڑھنا جاری رکھو

MushtaqAhmed
 

یں رائے بدل دیں، جہاں سوشل میڈیا پر چلنے جھوٹی بات زیربحث رہے، جہاں کریمنل سیاست گرگٹ کی طرح رنگ بدلے۔ ایک وقت میں ان گنت بیانیے بدلے اور ریاست کو مفلوج کر دے۔ جس کے بارے میں ڈاکٹر اسرار احمد کہیں اور کئی سال پہلے کہیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ منافق ترین لوگ وطن عزیز میں آباد ہیں۔ جہاں جھوٹ پالیسی اور رواج تہذیب کا درجہ پا جائیں وہ معاشرت دم توڑ چکی ہوتی ہے۔ ثقافت اور معاشرت اگر فتح کر لی جائے تو پھر کسی دشمن کو فوج کشی کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بہت عرصہ پہلے میں نے لکھا تھا ”اک حکمران ہلاکو خان چاہیے، جس نے اپنی قوم کا ایک قافلہ لٹنے پر جب علم ہوا کہ قافلے میں ایک خاتون نے اس کے نام کی دہائی دی تھی“ تو اس نے کہا ’آسمان لاجواب کی قسم ضرور پہنچوں گا‘۔ پھر وہ پہنچا کہ تاریخ کا رخ بدل دیا۔ ق

MushtaqAhmed
 

، پارلیمانی نظام ہائے مملکت تو الگ بات ہے ابھی ہم اس مرحلے سے نہیں نکلے کہ خاندانی نظام یا معاشرت کی بنیاد اجتماعی مشترکہ خاندانی زندگی ہے یا انفرادی زندگی۔ دیکھا گیا ہے کہ اجتماعی خاندانی زندگی میں حقوق تو خاندان سے بطور استحقاق مانگے جاتے ہیں فرائض کی نوبت آئے تو مغرب کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ ہماری معاشرت ارتقائی مراحل میں ہے آنے والی ایک دو دہائیوں میں 2011 سے پہلے کی معاشرت کے احوال لوگوں کو جھوٹ لگیں گے۔ روڈا (راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی) کے بعد راوی کی کہانی بھی افسانہ لگے گی۔ جس معاشرت اور ملک میں آئین، قانون، دین اور مذہب کے مطابق غیر مسلم قرار دیئے جانے والے ملحدین کی صورت اختیار کر جائیں اور مین سٹریم میڈیا پر تاریخ مسخ کرنے کے درپے ہوں، سٹیک ہولڈرز کی متاع بیرون ممالک ہوں جہاں بیرونی ممالک میں آباد پاکستانی وطن عزیز میں رائے بدل

MushtaqAhmed
 

شہباز شریف کی حکمرانی مجرموں، ڈاکوؤں کو محسوس ہوتی تھی۔ ان کے بعد مریم نواز سے امید ہے کہ وہ ایسے واقعات کا تدارک شہباز شریف کے انداز میں کریں گی۔ میرے ایک مہربان دوست، محبوب شاعر، معروف وکیل جناب حافظ انجم سعید نے کہا کہ غزہ پر لکھیں۔ میں نے سوچا، غزہ پر کالم کیا تاریخ لکھی جائیگی اور ڈر ہے کہ یہ دنیا کی بھیانک ترین تاریخ میں نہ بدل جائے۔
عام محکمہ میں بد عنوانی بُرائی ہے، بد ترین بُرائی ہے مگر انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر بدعنوانی (ممنوعہ رشتہ) کے ساتھ بُرائی ہے۔ لوگ انصاف کے لیے آئیں، حق پر شخص کے جو مرضی دلائل ہوں مقدمہ زاتی نوعیت کا ہو یا سرکاری خزانہ یا املاک کا اور انصاف کی کرسی پر بیٹھا شخص دباؤ (ہر قسم کا ہو سکتا ہے) میں ہو تو لعنت ہے ایسے کاروبار پر۔
ہمارے ہاں تو صدارتی، پارلیمانی نظام ہائے

MushtaqAhmed
 

باد تو اُس نے بھی کہا ہو گا، اُس ”مالک“ کو ووٹ تو وہ بھی دیتا ہو گا۔ آزادی تو اُس کو بھی ملی ہو گی۔۔۔ کل رات میرے بہت عزیز دوست کا فون آیا، بات چیت ہوتی رہی۔ میں نے کہا کہ کالم ابھی لکھنا ہے، صبح گوجرانوالہ شادی پہ جانا ہے۔ سید دانیال علی اسلام آباد میں رہتے ہیں، پوچھنے لگے کس موضوع پر۔ میں نے کہا، پتہ نہیں جب قلم پکڑتا ہوں تو قلم ہی موضوع چن لیتا ہے مگر میرے ذہن میں دیپالپور مزدور کے ساتھ زیادتی کا دکھ چل رہا تھا۔ لاکھ اختلاف کریں جب کراچی میں کوئی قیمتی گاڑی اور خوبصورت شرٹ نہیں پہن سکتا تھا، کرپشن اور بھتا بطور پالیسی رائج تھے تب پنجاب میں میاں شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ میں ڈکیتی اور خصوصاً گھروں میں ڈکیتی حکومت کی ریڈ لائن تھی۔ ڈکیتی پر ایس ایچ او کیا ڈی ایس پی معطل اگر نہیں تو کم از کم لائن حاضر ضرور کر دیئے جاتے تھے۔ شہباز شریف کی

MushtaqAhmed
 

ایک وڈیرے کے مہمان تھے اور سب صبح ناشتہ کرنے کے بعد شکار پر نکلے۔ لانگ شوز اور پوری شکاری کٹ کے ساتھ، اسلحہ اور جیپوں میں سوار، پھر آگے پیدل چلنا پڑتا تھا۔ کہتا ہے آگے چلتے ہوئے کھیتوں کو پانی دینے والا ایک کھال تھا ذرا چوڑا مگر زیادہ گہرا نہ تھا، زیادہ سے زیادہ ایک فٹ اور 4 فٹ چوڑائی ہو گی۔ عام آدمی بڑے قدم کے ساتھ تھوڑا پھلانگنے کے انداز میں ہلکی سی جست لگا کر گزر سکتا تھا۔ میزبان وڈیرے نے سب کو کہا صاحب رُکیں اور ہاری، مزدور یا کمیرے کو آواز دی اور وہ بھی گالی کے ساتھ اوئے۔۔۔ بغیر نام لیے بلایا۔ وہ سدھائے ہوئے پالتو جانور کی طرح اس کھال میں اوندھے بل لیٹ گیا، وہ صاحب لوگ اُس پر پاؤں رکھ کر چلتے پانی کا کھال عبور کرتے ہوئے گزر گئے۔ کسی کا وزن بھی 90 کلو سے کم نہ تھا‘‘۔ میں واقعہ سن رہا تھا تو سوچا پاکستان زندہ باد تو اُس نے بھی کہا

MushtaqAhmed
 

“ بے شک اس پر کارروائی ہو گی مگر یہ مقدمہ ہوا میں ایسا گم ہو گا کہ جیسے کبھی ہوا ہی نہ تھا۔ نہ جانے ایسے کتنے واقعات روزانہ ہوتے ہیں ہوں، لگتا ہے کہ قانون اور قانون نافذ کرنے والے موجود ہیں؟ ترقی یافتہ ممالک میں بھی ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں مگر وہاں اور ہمارے ہاں کا مسئلہ مختلف ہے، معاملات اوردم توڑتی ہوئی معاشرت مختلف ہے۔ یہاں فرد نہیں خاندان اکائی ہے، مظلوم مجرم بن جاتا ہے اور معاشرت اسے مسترد کر دیتی ہے کیونکہ طاقتوروں کا قانون ہے طاقتوروں کا معاشرہ ہے، کمزور تو ایسے ہی ہیں۔ ایک واقعہ یاد آ گیا، جس پر میں نے کالم لکھا تھا، ’ایک دوست‘ جس کا اعلیٰ آفیسران کی خوشنودی مقصد حیات ہے۔ شکار کا شوقین اس لیے ہے کہ بڑے لوگ شکار کے شوقین ہوتے ہیں۔ ایک دن شکار پر ایک اعلیٰ عسکری آفیسر، اعلیٰ عدالتی آفیسر اور دیگر حکمران طبقوں کے نمائندہ ایک وڈیر

MushtaqAhmed
 

نانا چاہیں تو حقائق جانے بغیر کوئی قوم ملک معاشرہ فرد ترقی نہیں کر سکتا، تنزلی اس کا لکھا جا چکا مقدر ٹھہرتی ہے۔ جھنجھلاہٹ میں مبتلا جج، رعونت میں مبتلا کوتوال، خوشامد میں مبتلا حاکم ، سراب کی تلاش میں سرگرداں عوام، دلدل سے نکلنے کے لیے دھنسے ہوئے پاؤں پر زور لگا کر آگے بڑھنے کی تدبیر کتنی دیر اور کتنی دور تک لے جا سکتی ہے۔ جہاں دانشور جانبدار، تجزیہ کار برائے فروخت، رہبر نرگسیت پسند مکار اور کاذب ہو وہ گلہ کریں کہ ہم پر دوسرے راج کرتے ہیں۔
بڑی خبریں، بڑے واقعات دراصل میڈیا ہاؤسز میں پڑا سودا سلف ہے۔ بظاہر ایسے بڑے واقعات جو چھوٹے (غریب) لوگوں کے ساتھ پیش آئیں بڑی بڑی قوموں کی بربادی کا سامان ٹھہرتے ہیں۔ ایسے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ ابھی کل کی بات ہے خبر پڑھی ”دیپال پور، ڈاکوؤں کی مزدور کا گھر لوٹ کر بیوی سے اجتماعی زیادتی“ بے شک

MushtaqAhmed
 

یادداشت کا گم ہو جانا کیا کسی معاشرت کا معدوم ہونا، مدفن نابود ہونا کبھی ہوا ہے مگر یہ سانحہ ہماری معاشرت کے ساتھ قومی سطح سے خاندانی اور انفرادی سطح پر ہو گیا۔ کون سا نظام درست ہے صدارتی، پارلیمانی جمہوریت یا آمریت اس پر بحث کی ضرورت نہیں یہ روپ بدل کر ہمارے ہاں نافذ رہا ہے اور رہے گا۔ آئین کی حکمرانی قانون کی حکمرانی بہت عمدہ نعرے ہیں لیکن اہل قوت و اقتدار کے دل و نظر مقفل ہو چکے ہیں ایک میگا تھیٹر اور مہنگی نوٹنکی ہے جس کے مناظر ہم سب (عوام) دیکھ رہے ہیں یہ بھول کر کہ ہم بھی اس تھیٹر اور نوٹنکی کے اداکار ہی ہیں، ایسے اہم اداکار جن کے بغیر کوئی نوٹنکی اور کوئی تھیٹر کامیاب نہیں ہو سکتا۔ جب قومی سطح سے انفرادی سطح تک ہم خود فریبی میں مبتلا ہیں تو کسی کو ہمیں فریب دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جب محافظ ڈاکو بن جائیں، خواہش کو ہم خبر بنانا چا

MushtaqAhmed
 

اور اللہ سے مغفرت طلب کرتے اور آپؐ بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا فرماتے وہ ضرور اللہ کو معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا پاتے۔ اللہ کا کلام زمان و مکان سے ماوراء ہے، اس کی ہر آیت کا اطلاق ہمیشہ کے لیے ہے۔ شفاعت صرف ماضی میں نہیں، بلکہ حال اور مستقبل کے لیے بھی ہے۔ کلمہ بھی ہمہ حال ہے، کلمے والے کی شفاعت بھی ہمہ حال ہے۔۔۔’’نہیں‘‘ سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا…
آسماں خوان، زمیں خوان، زمانہ مہمان
صاحبِ خانہ لقب کس کا ہے، تیراؐ تیراؐ

MushtaqAhmed
 

راز ہے کہ مہمان کی ضیافت پر خرچ کی گئی رقم اسراف میں شمار نہیں ہوتی۔ سبحان اللہ! یہ ہے مہمان کی تکریم، کہ دینِ فطرت گھر آئے مہمان کے لیے اپنے اصول میں ترمیم کر دیتا ہے۔ یہیں سے زائرِ حرم کی معصیت کو مغفرت میں بدلنے کے اصول کو سمجھا جا سکتا ہے… اور یہیں سے شفاعت کے تصور کا ادراک کیا جا سکتا ہے۔ ایک حاجی دعا کر رہا تھا: ”یااللہ! ہمارے ہاں دستور ہے کہ دشمن اگر چل کر گھر آجائے تو اسے معاف کر دیا جاتا ہے، میں بھی ساری عمر تیرے احکام کے ساتھ دشمنی کر تا رہا ہوں، تیرے دشمن کے ساتھ دوستی کرتا رہا ہوں ، لیکن اب میں چل کر تیرے گھر آ گیا ہوں، تو مجھے معاف کر دے“۔
قرآن کریم میں بھی اس اصول کی تصریح موجود ہے۔ سورۃ مائدہ میں اس مفہوم کی آیت ہے کہ جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ( یعنی گناہ کیے) اور وہ اگر آپؐ کے پاس حاضر ہو جاتے اور اللہ

MushtaqAhmed
 

کو پہنچ جائیں تو اِن سے اف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا، اور اِن سے خوبصورت ، نرم بات کہنا۔ اور اِن کے لیے نرم دلی سے عاجزی کا کندھا جھکا کر رکھ اور دعا کر کہ اے میرے رب! تو اِن دونوں پر رحم فرما جیسا اِن دونوں نے مجھے بچپن میں پالا‘‘۔ یہاں کندھا جھکا کر رکھنے سے مراد اپنی اناکو جھکا کر رکھنا ہے۔ بلاشبہ اخلاق اپنی عاجزی کے اظہار کو کہتے ہیں۔ اخلاق کا مظاہرہ اس وقت نہیں ہو سکتا جب تک ہم مہمان کی عزت کرنا نہ سیکھیں۔ دراصل ہماری شناسائی کے دائرے میں آنے والا ہر شخص ہمارامہمان ہے۔ اخلاق دوسروں کی عزتِ نفس کا خیال کرنے کا نام ہے اور دوسروں کی عزتِ نفس کا خیال اس وقت تک نہیں کیا جا سکتا جب تک اپنی عزتِ نفس کے خیال کو پسِ پشت نہ ڈالا جائے۔
دین میں اسراف ( فضول خرچی) کی ممانعت ہے ، لیکن عجب راز ہے کہ مہمان کی ضیافت پر

MushtaqAhmed
 

سرو کرنا کہتے ہیں، جملہ از تکریماتِ مہمان میں شامل ہے۔ بوڑھے والدین بھی اللہ کے مہمان ہوتے ہیں۔ ان کی ذاتی خدمت کرنا دو گنا فرض ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے: ’’ جب والدین تمہارے گھر آیا کریں تو ان کی خدمت میں اس طرح مصروف ہو جاؤ جیسے تمہارے گھر میں کوئی بزرگ آ گیا ہے‘‘۔ کسی نے محفل میں سوال کیا: ’’والدین کو راضی رکھنا خاصا مشکل کام ہے، انہیں کیسے راضی رکھا جائے؟‘‘ آپؒ نے ایک مختصر سے جملے میں ایک انتہائی بلیغ جواب دے دیا۔ فرمایا: ’’ہاں! مشکل کام ہے، کیونکہ اِس میں اپنی اَنا کو جھکانا پڑتا ہے‘‘۔ یہ بظاہرمختصر بات قرآن کریم میں درج اس ہدایت کی خوبصورت تشریح ہے: ’’اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر تیرے سامنے ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو

MushtaqAhmed
 

ذرا سا تکلف ضرور ہونا چاہیے‘‘۔ میں نے پوچھا: ’’وہ کیسے؟‘‘کہنے لگے:’’ جو کچھ آپ ہر روز کھاتے ہیں، اس سے ذرا سے مختلف ہونا چاہیے، مثلاً اگر آپ ہر روز روٹی اور سالن کھاتے ہیں تو مہمان کے آنے پر چاول کی ڈش بھی شامل کر لیں، مہمان کا دسترخوان کباب، سلاد اور رائتہ کے ساتھ سجا دیں، مہمان کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کی آمد پر ایک گونہ اہتمام کیا گیا ہے، وگرنہ مہمان نہ ہوا ، نوکر ہو گیا ، کہ جو آپ نے روزانہ کھایا ، ایک کھانا ٹرے میں رکھ کر اسے بھی بھجوا دیا‘‘۔ انسان ساری عمر سیکھتا رہتا ہے۔ اللہ غریقِ رحمت کرے، ان سے بھی بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔
مہمان کی تکریم کے حوالے سے حدیثِ پاک میں واضح حکم موجود ہے کہ مہمان کا استقبال گھر کے دروازے سے کیا جائے اور اسے گھر کے دروازے تک رخصت کیا جائے۔ مہمان کو اپنے ہاتھ سے کھانا ڈال کر دینا، جسے آج کے زمان

MushtaqAhmed
 

وچ رہا تھا، یقیناً خاندانی آدمی ہیں، مہمان کی تکریم کر رہے ہیں۔ کل رات ان کے ساتھ مہماندداری کے حوالے سے گفتگو اس کالم کا محرک ٹھہری۔ کہنے لگے: ’’مجھے گھر سے پورا تعاون حاصل ہوتا ہے، میری بیگم صاحبہ مجھ سے زیادہ میرے مہمانوں کا خیال رکھتی ہیں‘‘۔ گمان غالب ہے، ان کی بیگم صاحبہ ان ہی کے خاندان سے تعلق رکھتی ہوں گی۔
ایک سچے درویش، دانشور اور نفیس شاعر، سیّد سرفراز علی رضوی میرے والد کے ہم عمرتھے، اللہ ان کے درجات بلند کرے، ان کے ساتھ میری دوستی ایسی گہری تھی کہ بالعموم ہم عمروں کے درمیان ہوا کرتی ہے۔ پچیس تیس برس قبل ایک دَور تھا کہ تقریباً روزانہ ملاقات ہوتی اور فلسفہ ، تصوف، نفسیات اور دینیات سمیت دنیا کے ہر موضوع پر گھنٹوں ان سے گفتگو رہتی۔ ایک دن مہمان داری کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہنے لگے: ’’مہمان کی ضیافت میں ذرا سا

MushtaqAhmed
 

عید کے دیگر حال احوال میں بتا رہے تھے، عید پر رشتہ داروں کی خوب دعوتیں ہوئیں، ایک رشتہ دار کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ دیسی گھی میں کھانا پسند کرتے ہیں اور مٹن ہی کھاتے ہیںِ، چنانچہ ان کے لیے دیسی گھی اور مٹن کا بندوبست کیا گیا۔ شکیل صاحب پانچ مرلے کے گھر میں رہنے والے ایک درمیانے درجے کے تنخواہ دار ملازم ہیں، وہ اپنے لیے شاید کم ہی مٹن کا سالن بنا پاتے ہوں، لیکن انتہائی خوش دلی سے مزے لے لے کر خود کلامی کے انداز میں بتانے لگے:’’ میں پھر صبح ہی گوالمنڈی سے کھیر کی ٹھوٹھیاں لینے چلا گیا، واپسی پر ایک جگہ سے چکن کڑاہی بھی بنوا لی، کہیں سالن کم نہ پڑ جائے ، گھر ہی میں کباب بنا لیے تھے، روغنی نان بنوانے کے لیے نانبائی کو ایک کلو دودھ اور گھی بھی دے دیا تاکہ اچھے نان لگائے۔۔۔‘‘ وہ ضیافت کی تفصیل بتا رہے تھے اور میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا، یقی

MushtaqAhmed
 

وہ ایک معاشرتی مجبوری ہے۔ اپنے بچے بچیوں کے ممکنہ سسرال کی ضیافت، اپنے بزنس پارٹنر کی دعوت یا اپنے دفتر کے اعلیٰ حکام کی دعوتیں ہر شخص کرتا ہے، اس سے اس کا مفاد وابستہ ہوتا ہے۔ اس میں کچھ کمال نہیں۔ کمال اس مہمان کی ضیافت میں ہے جو آپ کا غریب رشتہ دار ہے، جو آپ کا جونیئر کولیگ ہے، جو غریب محلے دار ہے۔ مہمان دسترخوان پر ہو اور میزبان اچھی چیزیں اپنے لیے ، کل کے لیے،الگ رکھ لے، تو یہ بدترین درجے کی بخیلی ہے۔۔۔ ایسے میزبان پر لعنت برستی ہے۔ امت ِ محمدیہؐ کے دستورِ عمل میں یہ نظیر ملتی ہے کہ چراغ بجھا کر مہمان کو کھا نا کھلا دیا جاتا ہے، اور خود بھوکا بھی رہ لیا جاتا ہے۔
عید کی چھٹیوں کے بعد کلینک کھلا، لوگوں کی آمدو رفت شروع ہوئی۔ اس آمد ورفت ہمارے محلے میں مقیم ایک دیرینہ شناسا ، شکیل صاحب بھی کلینک وزٹ کرنے والوں میں شامل تھے۔ عید کے دی

MushtaqAhmed
 

مہمان نوازی اعلیٰ ظرف لوگوں کو دستور ہوتا ہے۔ کم ظرف، دنیا دار، تنگ دل اور تنگ ذہن لوگ مہمان کی آمد پر تنگ پڑ جاتے ہیں۔ عالی ظرف لوگ مہمان کا چہرہ دیکھ کھل اٹھتے ہیں۔ مہمان کی آمد اللہ کا انعام ہوتا ہے۔ اللہ جس پر مہربان ہوتا ہے، اس کے ہاں مہمان بھیجتا ہے۔ مہمان کو اللہ کی رحمت کہا جاتا ہے۔ میزبان نہیں جانتا کہ اسے مہمان کے مقدر کا رزق دیا جاتا ہے۔ یہ رزق دسترخوان پر طرح طرح کے خوان بھی ہو سکتے ہیں اور شعور کے آسمان سے نازل ہونے والا مایدہِ خیال بھی!
کسی کی خاندانی شرافت و نجابت کا اندازہ اس کا اپنے مہمان کے ساتھ سلوک سے ہوتا ہے۔۔۔ بالخصوص وہ مہمان جس سے اسے کسی فائدے کی امّید نہ ہو۔ جس مہمان سے کچھ توقعات وابستہ ہوں، اس کی دیکھ بھال ہر کس و ناکس کرتا ہے، وہ ایک معاشرتی

MushtaqAhmed
 

پیغمبرِ اخلاق رسولِ کریمؐ کا فرمان ِ عالی شان ہے: ’’جو شخص اللہ اور یومِ آخر پر یقین رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ مہمان کی عزت کرے‘‘۔ روایات میں ہے کہ حضرت ابراہیمؑ جو رسولِ کریمؐ کے جدِ امجد ہیں، کبھی مہمان کا انتظار کیے بغیر کھانا نہیں کھاتے تھے۔ سچی بات ہے، اچھی روایات خون میں گردش کرتی ہیں۔ آج بھی سادات گھرانوں میں مہمان نوازی کی اعلیٰ مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ تمام جنّتی عورتوں کی سردار، سیّدۃ النساء حضرت فاطمۃ الزہرہؓ کا قول معروف ہے: ’’کوئی مہمان کسی کے گھر آیا اور کچھ کھائے پیے بغیر چلا گیا تو وہ گویا کسی قبرستان میں آیا اور چلا گیا‘‘۔