سے بے وقت کچھ کھانے سے بچنا آسان ہوتا ہے اور جسمانی وزن میں کمی لانے میں مدد ملتی ہے۔
دل کی صحت بہتر ہوتی ہے
ہائی بلڈ پریشر سے امراض قلب اور ہارٹ اٹیک کا خطرہ بڑھتا ہے تاہم کھیروں میں موجود پوٹاشیم بلڈ پریشر کی سطح کو کم کرتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ کھیروں میں موجود نباتاتی مرکبات بھی دل کی صحت کے لیے مفید ہوتے ہیں جو شریانوں میں چربیلے مواد کو جمع ہونے سے روکتے ہیں۔اسی طرح فائبر سے بلڈ کولیسٹرول کی سطح میں کمی آتی ہے جس سے بھی امراض قلب کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
جسمانی ورم میں کمی
ورم سے متعدد دائمی امراض جیسے امراض قلب، ذیابیطس، ڈپریشن اور کینسر کا خطرہ بڑھتا ہے۔کھیرے ورم کش ہوتے ہیں اور اس کے کھانے سے جسمانی ورم کو پھیلنے سے روکنے میں مدد مل سکتی ہے، جس سے متعدد دائمی امراض سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
سے بچاتا ہے۔
بلڈ شوگر کو کنٹرول رکھنا ممکن
اگر آپ ذیابیطس کے شکار ہیں تو کھیرے کھانے کی عادت بلڈ شوگر کو کنٹرول میں رکھنے میں مدد فراہم کر سکتی ہے۔اس کو کھانے سے بلڈ شوگر کی سطح پر اثرات مرتب نہیں ہوتے اور اسی لئے ذیابیطس کے مریضوں کے لئے کھیرے فائدہ مند سمجھے جاتے ہیں۔تحقیقی رپورٹس سے معلوم ہوا ہے کہ کھیروں میں موجود اینٹی آکسائیڈنٹس ذیابیطس کے پھیلاو¿ کی رفتار سست کر دیتے ہیں۔
جسمانی وزن میں کمی
اگر آپ جسمانی وزن میں کمی لانا چاہتے ہیں تو کھیرے کھانے سے ایسا ممکن ہے۔کھیروں میں کیلوریز، کاربوہائیڈریٹس اور قدرتءمٹھاس بہت کم ہوتی ہے جبکہ وہ پانی اور فائبر سے بھرپور ہوتے ہیں جس کے باعث انہیں کھانے کے بعد پیٹ بھرنے کا احساس دیر تک برقرار رہتا ہے۔پیٹ بھرنے کا احساس دیر تک برقرار رہنے سے بے وقت کچھ کھانے سے بچنا آسان ہوتا ہے اور
ہڈیاں ٹوٹنے کا خطرہ بڑھتا ہے جبکہ وٹامن K سے ہڈیوں کا حجم بڑھتا ہے، جس سے ہڈیوں کی کمزوری کا خطرہ کم ہوتا ہے۔کھیروں میں وٹامن K کے ساتھ ساتھ کیلشیئم بھی موجود ہوتا ہے جو ہڈیوں کی صحت کے لئے اہم ہوتا ہے۔
جِلد کے لئے بھی مفید
مختلف تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا کہ کھیروں میں موجود اجزا سے جِلد کی صحت کو فائدہ ہوتا ہے۔جِلد پر کھیرے کے ٹکڑے کو رکھنے سے ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے جبکہ ورم اور خارش کم ہوتی ہے۔اس سے سورج کی روشنی سے جِلد کو پہنچنے والے نقصان کی روک تھام ہوتی ہے، آنکھوں کے نیچے ٹکڑا رکھنے سے سیاہ حلقوں کے مسئلے سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔
قبض سے تحفظ
کھیرے میں موجود پانی نظام ہاضمہ کے افعال بہتر کرتا ہے اور غذا آسانی سے ہضم ہوتی ہے۔
اسی طرح غذائی فائبر آنتوں کے افعال درست رکھ کر قبض جیسے مرض سے متاثر ہونے سے بچاتا ہ
کی عادت ڈی ہائیڈریشن سے بچنے کے لیے ایک اچھا آپشن ہے۔کھیروں کا 96 فیصد سے زیادہ حصہ پانی پر مشتمل ہوتا ہے جس سے جسم ڈی ہائیڈریشن سے بچتا ہے اور جسم کے متعدد حصوں کو فائدہ ہوتا ہے۔
ذیابیطس سے بچنے میں مددگار
کھیرے کھانے سے ذیابیطس سے بچنے میں بھی مدد ملتی ہے۔اس میں موجود اجزا سے بلڈ شوگر کی سطح کو کم رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ایک تحقیق میں دریافت ہوا کہ کھیروں کے چھلکوں سے چوہوں میں ذیابیطس کی علامات کی شدت کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔
ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں
کھیروں میں وٹامن K موجود ہوتا ہے جو ہڈیوں کی صحت کے لئے مفید ثابت ہوتا ہے۔
ایڑی اور پیر کو جوڑنے والی جگہ پر ہونے والی تکلیف کی وجہ جانتے ہیں؟
جسم میں اس وٹامن کی کمی سے ہڈیاں ٹوٹنے کا خطرہ بڑھتا ہے جبکہ وٹامن K سے ہڈیوں کا حجم بڑھتا
ایک کھیرے سے کاربوہائیڈریٹس، غذائی فائبر، پروٹین، وٹامن K، وٹامن سی، کیلشیئم اور وٹامن سی جیسے اجزا جسم کو ملتے ہیںجبکہ اس میں موجود اینٹی آکسائیڈنٹس بھی متعدد امراض سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
آپ کھیرے کو کسی بھی شکل میں کھائیں، اس سے صحت کو فائدہ ہوتا ہے۔
جسم ڈی ہائیڈریشن سے بچتا ہے
مناسب مقدار میں پانی پینا ہماری صحت کے لئے انتہائی ضروری ہوتا ہے، جس سے نظام ہاضمہ، گردوں کے افعال، یادداشت، دماغی افعال اور جسمانی درجہ حرارت کو فائدہ ہوتا ہے۔
آپ کو روزانہ کتنی بار منہ دھونا چاہئے؟
مگر اکثر افراد مناسب مقدار میں پانی نہیں پیتے تو کھیرے کھانے کی عادت
)کھیرے کا استعمال تو سلاد میں عام ہوتا ہے اور گرمیوں میں اس سے گرمی کا احساس بھی کم ہوتا ہے۔اسی طرح آنکھوں پر کھیرے کا ٹکڑا رکھنے سے سیاہ حلقوں کو ختم کرنے میں مدد ملتی ہے۔
مگر کیا اسے کھانے سے صحت کو بھی کوئی فائدہ ہوتا ہے؟
تو اس کا جواب ہے ہاں، یہ سبزی (ویسے نباتاتی ماہرین کے مطابق یہ ایک پھل ہے) صحت کے لئے مفید ہوتی ہے اور چونکہ کھیرے سستے اور آسانی سے دستیاب ہوتے ہیں، تو ہر فرد اس سے اپنی صحت کو فائدہ پہنچا سکتا ہے مگر چھلکوں کے ساتھ کھانا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔
کھیرے کے پانی پینے کے فائدے حیران کر دیں گے
ایک کھیرے سے کاربوہائیڈریٹس
اور جنگل کا ایک حصہ بخش دیا۔ مگر ملکہ اور اس کا بادشاہ بیٹا، یہ ادراک نہ کرسکے کہ مگر مچھ کے دل میں اب پورے جنگل پر بادشاہت کا سودا سمایا ہوا ہے۔
ایک دن‘ مگر مچھ نے ملکہ اور ولی عہد کو گہری جھیل کے دورے کی دعوت دی۔ ملکہ اور اس کا بادشاہ بیٹا‘ مگر مچھوں کے درمیان جھیل میں چلے گئے۔ اور مگرمچھوں کے تیار کردہ خوبصورت اوروسیع تخت پر براجمان ہو گئے۔ پھر اچانک خونخوار مگرمچھوں نے ملکہ اور بادشاہ حملہ کرکے ان کی تکہ بوٹی کر ڈالی۔ اب مگر مچھ ظلم کی بنیاد پر جنگل کے حکمران بن گئے۔ ان کے ظلم کی وجہ سے ہرا بھرا جنگل تھوڑے عرصے میں برباد ہو گیا۔ جب سب کچھ ختم ہوگیا تو مگر مچھ بھی بھوک کی وجہ سے مر گئے۔
نوٹ: اس فرضی کہانی کا پاکستان کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ایک شام کو موقع پا کر ‘ ملکہ نے گینڈے کو بلایا اور سوئے ہوئے بادشاہ اور ولی عہد کو پاؤں تلے کچلوا دیا۔ ملکہ نے چالیس دن سوگ منایا۔ پھر اپنے نالائق بیٹے کو باشاہ بنا دیا۔ اب منصوبے کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا۔ وعدے کے مطابق ‘ گینڈے نے آدھے جنگل کا مطالبہ کیا۔ ملکہ نے جواب دیا کہ ضرور‘ یہ تو ہمارے درمیان طے ہے۔ آپ ایسے کریں کہ کل صبح‘ جھیل کے کنارے آجائیں۔ وہاں اعلان کروںگی کہ آدھا ملک آپ کا ہے۔
گینڈا وقت مقررہ پر وہاں پہنچ گیا۔ ملکہ نے مگر مچھوں کو اطلاع کر رکھی تھی، گینڈا پہنچا تو مگر مچھوں کے غول نے اس پر حملہ کر دیا۔اسے زبردستی پانی میں لے جا کر مار ڈالا۔ ملکہ اور اس کے بادشاہ بیٹے نے مگر مچھ کو پورے آبی ذخائر اور
۔ ایک حصے کا حاکم وہ ہو گا اور دوسرے حصے پر تمہاری حکومت ہوگی۔ گینڈا یہ سب کچھ مان گیا۔ اس نے بادشاہ اور ولی عہد کوکچلنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔
مگر یہاں‘ ایک اور کھیل شروع کیا گیا۔ مکار ملکہ نے خاموشی سے مگر مچھ کو بلایا اور اسے کہا کہ میں تمہیں تمام جھیلوں اور آبی ذخائر کا حکمران بنانا چاہتی ہوں اور جنگل کا ایک حصہ بھی بطو ر جاگیر عطا کروںگی۔ بس تم نے میرے حکم اور میرے بتائے ہوئے وقت پر گینڈوں کے سردار پر حملہ کرنا ہے، اسے پانی میں لے جا کر ڈبو دینا ہے۔ مگر مچھ نے بھی ملکہ کو ہاں کر دی۔ اب سازش مکمل طور پر برپا ہو چکی تھی۔
بیویاں تھیں اور کثیر اولاد کا مالک تھا۔ اس کی ایک ملکہ ساتھ والے جنگل سے آئی تھی۔ اس کا رنگ بھورے کے بجائے سفید تھا۔ اس کا ایک ہی بیٹا تھا۔سفید ملکہ چاہتی تھی کہ اس کا نالائق بیٹا بادشاہ بنے۔ بوڑھے بادشاہ کو اپنا نالائق بیٹا ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔ اب سفید ملکہ نے سازش شروع کی۔
اس نے رات کی تاریکی میں گینڈوں کے سردار کو بلایا اور بادشاہ کی علالت ، حکمرانی کی خامیاں اور اپنے سوتیلے بیٹوں کی کمزوریاں بتائیں۔ گوری بندریا نے گینڈے کو کہاکہ آدھا جنگل تمہیں دے دوںگی جس پر تمہاری حکومت ہو گی۔ بس شرط صرف یہ ہے کہ تم بادشاہ اور اس کے ذہین ولی عہد کو راستے سے ہٹا دو اور میرے نالائق بیٹے کو تخت نشین کرادو۔ جیسے ہی میرا بیٹا بادشاہ بنے گا۔ وہ پہلا حکم ہی یہ کرے گا کہ جنگل کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے
درست کرتا تھا۔ اگر کسی دوسرے جنگل سے آنے والے جانور نے کوئی شرارت کرنے کی کوشش کی ہوتی‘ تو اسے عدالت میں پیش کر کے نشان عبرت بنا دیا جاتا تھا۔ گینڈوں کے حفاظتی دستوں کے علاوہ ‘ مگر مچھوں کا ایک گروپ جھیلوں اور ندیوں میں ہر دم موجود رہتا تھا تاکہ آبی نظام رواں رہے ۔ گینڈوں‘ مگر مچھوں‘ عقابوں کے حفاظتی گروہوں کی مستعدی اور فرض شناسی کے باعث جنگل میں امن قائم تھا۔
اقتدار کی طوالت کے ساتھ بادشاہ بھی بوڑھا ہوتا چلا گیا ،اب اسے فکر تھی کہ اس کے بعد جنگل کو اتنے بہتر طریقے سے کون چلائے گا۔ اس کا ایک بیٹا حد درجہ سمجھ دار اور دانا تھا۔ بوڑھے بندر کا خیال تھا کہ اسے اپنا جانشین مقرر کردے ۔ مگر ایک مسئلہ پیدا ہو گیا تھا۔ بادشاہ کی متعدد بیویاں تھیں اور
حکم کی تعمیل کی اور چیتے کو عدالت کے روبرو پیش کر دیا۔ بادشاہ بندر نے کیس کی سماعت مکمل کی۔ ہرنی کی شکایت اورفاختہ کی اطلاع درست نکلی۔ بندر رول آف لا کا ماڈل تھا۔ اس کی عدالت نے حکم دیا کہ مجرم چیتے کو اندھا کر دیا جائے اور اس کی ایک ٹانگ کاٹ دی جائے۔
عدالت کے حکم پر عقاب نے چیتے کی آنکھیں نکال دی اور ایک گرانڈیل گوریلے نے چیتے کی ٹانگ چبا کر کاٹ ڈالی۔ ہرن کو انصاف مل گیا، اس کا معصوم بچہ تو واپس نہ مل سکا۔ مگر چیتے جیسے طاقتور جانور کو اس کے ظلم کی سزا فی الفور مل گئی۔ یوں فوری‘ بروقت اور راست انصاف سے جنگل میں ہر طرف امن ہی امن تھا۔
بندر نے جنگل میں تمام حفاظتی تدابیر بھی کر رکھی تھیں۔ گینڈوں کا ایک گروہ بنایا ہوا تھا۔ جو ہر دم چوکس رہتا تھا۔ کسی بھی خطرے کی خبر ملتے ہی وہ گروہ ‘موقع پر جا کر تمام حفاظتی معاملات خود درست کرتا تھا۔ اگر
بندر دیگر ذرایع سے خبر کی ہمیشہ تصدیق کراتا تھا۔ نظام انصاف ایسا سخت کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے۔
شیروں کے گروہوں کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ وہ کسی جانور کا بلا ضرورت اور بغیر اطلاع شکار کریں۔ انھیں صرف اتنا ہی شکار کرنے کی اجازت تھی جو ان کی ضرورت کے مطابق ہو۔ ایک دن ‘ چیتے نے اپنی طاقت کے زعم میں ہرن کے ایک بچے کو مار ڈالا اور کھانے کے بجائے اسے وہیں چھوڑ دیا۔ دراصل یہ شکار نہیں تھا بلکہ چیتے کا ظلم، تکبر اور قانون شکنی تھی۔ ایک فاختہ نے اس ظلم کی اطلاع بادشاہ کو دی ۔ بندر بادشاہ نے ہرن کو طلب کرکے معلومات حاصل کیں۔ ثبوت و شواہد جمع کرائے گئے۔ پوری تحقیقات کے بعد بادشاہ نے عدالت لگائی ۔
ایک بہت بڑا جنگل تھا۔ اس میں چشمے ‘ جھیلیں اور ندیاں بہتی تھیں۔پانی کی فراوانی نے سارا جنگل ہرا بھرا کر رکھا تھا۔ چاروں اطراف اونچے ،گھنے پیڑ‘ سبز گھاس کے میدان اور پہاڑیاں‘ شاداب جھاڑیاں ، پھولدار اور پھل دار درخت تھے۔ ہر طرح کے چوپائے‘ پرندے ‘ کیڑے مکوڑے پر سکون زندگی گزار رہے تھے۔
ندیوں میں رنگ برنگی مچھلیاں اور دیگر آبی جانور موجود تھے۔ قدرت کا ایک توازن تھا‘ جس نے جنگل کو شہکار بنا ڈالا تھا۔ دور دور سے پرندے اور جانور‘ خوراک اور بہتر زندگی کے لیے وہاں منتقل ہوتے رہتے تھے۔
جنگل کا بادشاہ ایک حد درجہ سمجھدار بندر تھا۔ اس نے اپنی بے مثال ذہانت کے بل بوتے پر جنگل میں کڑا نظام نافذ کررکھا تھا۔ کبوتروں اور فاختاؤں پر مشتمل جھنڈ پورے جنگل پر محو پرواز رہتے اور پل پل کی خبر سے حاکم بندر کو آگاہ رکھتے تھے۔ بندر دیگر ذرایع س
کو جانے کی اجازت ہوگی۔
پیارے بچو! مقدمے کے فیصلے کے بعد سے آج تک انسان اور مچھروں میں طے ہے کہ جہاں گندگی ہوگی وہاں مچھر ہوں گے۔ جو لوگ پاکیزہ ماحول کی ضمانت نہیں دیں گے ان کو انوفیلز نامی مادہ مچھر ملیریا بخار کے ذریعے یاددہانی کرواتی رہے گی کہ جو اپنے ملک، گھر، اسکول اور محلے کو بھی صاف ستھرا رکھیں گے وہ مچھر کے کاٹنے ہی سے نہیں ملیریا جیسی بیماری سے بھی محفوظ ہو جائینگے۔
چھروں نے ماضی میں ملیریا بخار کے ذریعے کروڑوں انسانوں کو ہلاک کرنے کا جرم کیا ہے، لیکن شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ مچھروں کو جرم کے ارتکاب پر انسان خود اکساتا ہے۔ گھروں کا کوڑا کرکٹ، گندگی و آلودگی خود انسان کی پیدا کردہ ہے۔ غلاظت میں مچھروں کی افزائش ہوتی ہے اور انہیں انسانی بستی میں پیدا ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔ چنانچہ عدالت کا حکم ہے کہ آج کے بعد جن انسانی بستی میں پاکیزگی و صفائی کا خیال رکھا جائے گا۔ اور پیارے آقا حضرت محمدؐ کے فرمان عالی شان کے مطابق پاکیزگی کو ایمان کا نصف حصہ سمجھا جائے گا وہاں مچھروں کو جانے کی اجازت نہ ہوگی۔ جبکہ ایسی بستیاں جہاں غلاظت کے انبار لگائے جا رہے ہو، وہاں مچھروں کو جانے کی اجازت ہوگی۔
پیارے بچو! مقدمے کے فیصلے کے بعد
جس پر ہر عمر کے افراد سوئے ہوئے تھے۔ مچھر حسب عادت انسانوں کے کانوں پر راگ الاپ رہے تھے۔ اس دوران قاضی نے دیکھا کہ مچھروں نے کچھ انسانوں کو کاٹا وہ تڑپ اٹھے۔ قاضی واپس پلٹ آیا جن مچھروں نے انسان کو کاٹا تھا ان میں وہ مادہ مچھر انوفیلز (Anopheles) بھی شامل تھی۔ اس کے کاٹنے سے انسانی خون میں پلان موڈیم نامی جرثومہ شامل ہوگیا۔ جو ملیریا بخار کا ذمہ دار ہے۔ فیصلے کی گھڑی آپہنچی تھی۔ آج کمرہ عدالت میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ آخر کار انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔
قاضی نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا: مقدمے کی سماعت گواہوں کے بیانات اور تمام ثبوت دیکھنے کے بعد عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ انسان اور مچھر کا تعلق بہت پرانا ہے۔ مچھروں نے ماضی میں ملیریا
حالت بخار کی وجہ سے بہت بری تھی۔
قاضی نے اگلی پیشی پر مقدمے کا فیصلہ کرنے کا اعلان کرکے سماعت ملتوی کر دی چنانچہ تمام لوگ واپس اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ رات کافی ہوگئی تھی۔ چاند کی مدھم سی روشنی میں ایک انسانی ہیولا ایک گلی میں سے گزرتا دکھائی دے رہا تھا۔ یہ قاضی کا سایہ تھا۔ قاضی کو دو روز بعد مقدمے کا فیصلہ سنانا تھا۔ اس لئے حقائق تک پہنچنے کے لئے اس نے از خود سارے معاملے کی چھان بین شروع کر دی تھی۔ محلہ بہت گندا تھا۔ انسانوں نے سارے علاقے کو بدبو دار بنا رکھا تھا۔ قاضی کے اٹھنے والے قدموں سے شڑاپ شڑاپ کی آوازیں ابھر رہی تھیں۔ جو گندے و آلودہ پانی میں گزرنے کی وجہ سے پیدا ہو رہی تھیں۔ قاضی بمشکل ایک دیوار تک پہنچا اور دور سے سارا منظر دیکھنے لگا۔ صحن میں کئی چار پائیاں بچھی ہوئی تھیں۔ جس پر ہر
دمت میں اہم ثبوت پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ مچھر کی کارستانیوں کو آشکار کیا جاسکے۔‘‘ قاضی ہر حال میں انصاف کرنا چاہتا تھا لہٰذا اس نے ثبوت پیش کرنے کی اجازت دے دی۔ مچھر کا دل تیزی سے دھک دھک کرنے لگا۔ یکدم پانچ افراد کمرۂ عدالت میں داخل ہوئے ان میں سے تین بچے بھی شامل تھے وہ کانپ رہے تھے۔ بڑوں کی حالت بھی دیدنی تھی۔ بخار کی وجہ سے ان کے چہرے سرخ تھے۔ اور جسم بلند درجہ حرارت کے باعث تپ رہے تھے۔
’’عالی جاہ! مچھر کے کاٹنے سے یہ گھرانہ ملیریا بخار کا شکار ہوگیا ہے۔ یہ بچے اسکول نہیں جاسکتے۔ ان سب کی یہ حالت ان مچھروں نے کی ہے۔ لہٰذا ان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔‘‘ انسانی ثبوت بڑے اہم تھے۔ بچوں اور بڑوں کی حالت بخار کی وجہ سے بہت
سڑک پر پھینک رکھا تھا، شاپنگ بیگ نالیوں میں پھنسے ہوئے تھے، اس لئے گٹر بند تھا۔ بدبو سے دماغ پھٹا جا رہا تھا۔ قاضی کا وہاں ٹھہرنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ گندے پانی کی سطح پر مچھروں کے غول کے غول رقص کر رہے تھے۔
’’سرکار! ذرا غور کیجئے! یہ گندگی و غلاظت کے ڈھیر مچھروں نے قائم نہیں کئے۔ ہماری افزائش نسل کے لئے یہ اعلیٰ سہولتیں انسان نے ہی مہیا کی ہیں۔ لہٰذا انصاف کرتے ہوئے یہ مقدمہ ختم کیا جائے!‘‘ مچھر نے بڑی خوبصورتی سے قاضی کی رائے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تھی۔
قاضی نے چند روز بعد پیشی کی تاریخ مقرر کر دی اور وہاں سے رخصت ہوگیا۔ اگلی بار انسان بڑی تیاری کے ساتھ آیا تھا۔
قاضی کے آنے پر وہ بولا، ’’عالی جاہ! آپ کی خدمت میں اہم ثبوت پیش کرنا چاہتا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain