Damadam.pk
MushtaqAhmed's posts | Damadam

MushtaqAhmed's posts:

MushtaqAhmed
 

مکمل ملکیت کا ہونا، غیرمقبوض مال پر بھی زکوۃ فرض نہیں ۔ ۶:صاحب نصاب ہونا(جس کا ابھی ذکرہوا)۔ ۷: مال کا حاجت اصلیہ (روٹی کپڑا اورمکان وغیرہ) سے زائد ہونا۔ ۸:اتنا مقروض نہ ہو ناکہ اگر قرض اداکیا جائے تو آدمی صاحب نصاب ہی نہ رہے۔ ۹:’’مال نامی‘‘ یعنی بڑھنے والا مال ہونا،جس کی قیمت بڑھتی رہتی ہو جیسے سونا چاندی غیرہ۔۰ ۱: نصاب پر پورے سال کا گزرنا۔
زکوۃ کے صحیح ہونے کی تین شرطیں :
زکوۃ کے صحیح ہونے کے لیے علماء کرام نے تین شرطیں بتلائی ہیں ۔اگر یہ شرطیں اکٹھی پائی جائیں گی تو زکوۃ ادا ہوگی ورنہ نہیں ۔
پہلی شرط نیت کرنا: نیت کے بغیر زکوۃ ادا نہیں ہوتی،نیت دل کے ارادے کا نام ہے، زبان سے زکوۃ کہہ کردیناضروری نہیں ، زکاۃکی ادائیگی کے لیے رقم دیتے وقت یا رقم کو جدا کرکے رکھتے وقت نیت کرناضروری ہے۔ اگر رقم دینے کے بعد زکاۃکی

MushtaqAhmed
 

ہے؛چناں چہ شرعی اعتبار سے ہر اس مسلمان مردوعورت پر زکوۃ فرض ہے،جو صاحب نصاب ہو یعنی 613 گرام چاندی یا ساڑھے ستاسی (87.5)گرام سونے کا مالک ہو اور اگردونوں چیزیں اس مقدار سے کم ہوں تو ان دونوں کی قیمت 613 گرام چاندی کے برابرہوجائے یا نقد روپے یا تجارت کا سامان 613 گرام چاندی کی قیمت کے برابر ہو اور اگرسب چیز یں تھوڑی تھوڑی ہوں تو ان سب کی قیمت ملاکر 613 گرام چاندی کی قیمت کے برابر ہوجائے تو اس پر پورا ایک سال گذرجانے کے بعد (2.5%) ڈھائی فیصد زکاۃ اداکرنا واجب ہوتا ہے۔
فقہاء کرام کے مطابق زکوۃ کے فرض ہونے کے لیے دس شرائط ہیں :۱: مسلمان ہونا، کافر پر زکوۃ فر ض نہیں ۔۲: آزاد ہونا، غلام پر زکوۃ فرض نہیں ۔۳: بالغ ہونا، بچے پر زکوۃ فرض نہیں ۔ ۴: عاقل ہونا، مجنون اور دیوانے پر بھی زکوۃ فرض نہیں ۔ ۵: مکمل ملکیت کا ہونا،

MushtaqAhmed
 

مال و دولت اللہ تعالیٰ کی عطا ہے؛اس لیے اسے کلی اختیار ہے کہ وہ انسان کو اس بات کا پابند بنائے کہ کہاں سے کس طرح کما یا جائے اور کہاں کس طرح خرچ کیا جائے۔ زکوۃ ایک اہم ترین مالی عبادت اور اسلام کا بنیادی فریضہ ہے،جسے ہم دردی و غم خواری کے جذبے کو پروان چڑھانے، دولت کی منصفانہ تقسیم کو رواج دینے اور حب مال و دولت پرستی کے زہریلے اثرات سے نفس کوپاک کرنے کے لیے فرض کیا گیا ہے۔ انسانی معیشت کے استحکام و مضبوطی اور فرد و معاشرے کی ظاہری ترقی میں مال ودولت کا کلیدی کردار رہاہے، جس طرح انسان کے دوران خون میں ذرہ برابر فرق آجائے توزندگی کو خطرہ لاحق ہوتاہے، ایسے ہی اگر گردشِ دولت منصفانہ وعادلانہ نہ ہوتومعاشرتی زندگی کو خطرہ لاحق ہوسکتاہے۔ اسی خطرہ کو زائل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے زکوۃ وصدقات کا نظام قائم فرمایا ہے؛چناں چہ شرعی اعتبار سے ہر اس م

MushtaqAhmed
 

ے زیادہ امکان ہے کہ یہ روحانی نشانیاں ہیں، عالمگیر نہیں اور ہر سال نہیں ہوتیں”۔ انہوں نے زور دیا کہ "یہ سائنسی طور پر ثابت نہیں ہوا ہے کہ سورج سال کے کسی بھی دن اپنی کرنوں کے بغیر طلوع ہوتا ہے”۔ لیلۃ القدر کے تعین کے بارے میں فقہاء میں اختلاف ہے۔ علماء کے درمیان موجودہ اختلاف کے پیش نظر مسلمان کو آخری عشرہ کی طاق راتوں میں اس کی تلاش کی تجویز دی جاتی ہے۔
end

MushtaqAhmed
 

ا کہ سال کی سب سے اہم رات قرآن کریم کے نزول کی رات ہے۔ اسی لیے رب العزت نے اسے ’لیلۃ القدر‘ کہا۔ اُنہوں نے اپنے ایکس اکاونٹ پر ایک بصری کلپ بھی شیئر کیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ "روایت میں بتایا گیا ہے کہ لیلۃ القدر میں کائناتی، فلکیاتی اور موسمی علامات ہیں، جن میں اس کی شعاعوں کے بغیر طلوع آفتاب بھی شامل ہے۔ یہ ایک پرسکون رات ہو گی جو نہ بہت زیادہ گرم اور نہ ہی سرد ہوگی‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ "علماء کے درمیان یہ سب سے زیادہ امکان ہے کہ یہ روحانی نشانیاں ہیں، عالمگیر نہیں اور ہر سال نہیں ہوتیں”۔ انہوں نے زور

MushtaqAhmed
 

ماہ رمضان کے آخری عشرہ میں مسلمان ’لیلۃ القدر‘ کی تلاش شروع کر دیتے ہیں۔ لیلۃ القدر کو سب سے زیادہ فضیلت والی رات قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ مسلمان اس رات کی تلاش ذوقِ عبادت اور شوقِ قربت خداوندی کے لیے انتہائی زور شور سے کرتے ہیں۔ مسلمان اس رات کی تلاش کے لیے مختلف علامتوں پر بھی غور کرتے ہیں اور یہ مسلسل جاننے کی کوشش میں رہتے ہیں کہ لیلۃ القدر کی نشانیاں کیا ہیں؟ اس حوالے سے سعودی ماہر فلکیات خالد الزعاق نے ایک عرب ویب سائٹ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ’لیلۃ القدر‘ کے ساتھ کائناتی، فلکیاتی اور موسمی علامات بھی وابستہ ہیں۔ الزعاق نے کہا کہ گزشتہ ہفتہ کی رات دس راتوں میں سے پہلی رات تھی اور لیلۃ القدر کے لیے سب سے زیادہ امکان والی رات تھی۔ الزعاق نے کہا کہ سال کی

Beautiful People image
M  : Hi ker ahy tosa gd🙋 - 
MushtaqAhmed
 

برتری ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قائم ہوجائے گی۔‘
’بہت سے مسیحی علما اسرائیل کے قیام اور اس کی علاقے میں برتری کو ان حالات کے پیدا ہونے کا اظہار سمجھتے ہیں جن کا ذکر وہ اپنی مذہبی روایات میں دیکھتے ہیں۔ مسلمان بھی کم و بیش ان روایات سے یہی مطلب لیتے ہیں۔‘endd

MushtaqAhmed
 

(پیغمبر اسلام) فتنۂ مسیح دجال سے خود بھی خدا کی پناہ مانگتے تھے اور اپنی اُمت کو بھی پناہ مانگنے کی تلقین فرماتے تھے۔‘
نعیم بلوچ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی کثیر روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے قریب جب دجال کا ظہور ہو گا تو اسے حضرت عیسیٰ قتل کریں گے۔ یوں مسلمانوں کے نزدیک یہ تمام الہامی مذاہب پر ان کی فتح ہو گی۔‘
یہودیت کے ماننے والوں کے مطابق ’کافر‘ بادشاہ کا نظام ختم ہوگا۔
صحیفہ دانیال کی آیات ہیں: ’جو ہونا ہے اس کا فیصلہ خدا کی عدالت کرے گی اور اس (کافر) بادشاہ سے اس کی حکومت چھین لی جائے گی۔ اس کی سلطنت کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا۔ پھر خدا کے مقدس لوگ اس مملکت پر حکومت کریں گے۔‘
نعیم بلوچ کا کہنا ہے کہ ’مسیحیوں کے نزدیک ضد مسیح کے قتل سے مسیح کی برتری

MushtaqAhmed
 

کشادہ پیشانی والا، گھنگریالے بالوں والا شخص ہے، جس کی ایک آنکھ نہیں ہے۔ دوسری آنکھ ایسی ہے، جیسے وہ انگور کا ابھرا ہوا دانہ ہو۔ وہ چوڑے سینے والا ہے، اُس کی شخصیت میں کچھ بدصورتی سی ہے اور وہ سب سے بڑھ کر جھوٹا ہوگا۔‘
اور یہ کہ ’دجال اُس مشرقی علاقے سے نکلے گا، جسے خراسان (عراق سے لے کر ہندوستان کی سرحدوں تک پھیلے ہوئے وسیع علاقے کا قدیم نام، اصفہان بھی اس شامل ہے) کہا جاتا ہے۔ اُس کی پیروی ایسے لوگ کریں گے جن کے چہرے ڈھالوں کی طرح چوڑے (یاجوج و ماجوج میں سے) ہوں گے۔‘
’مسیح دجال مشرق کی طرف سے آئے گا اور اُس کا عزم مدینہ کا ہوگا۔ (وہ قریب پہنچے گا)، یہاں تک کہ احد پہاڑ کے پیچھے آکر پڑاؤ ڈال دے گا۔ پھر خدا کے فرشتے اُس کا رخ شام کی طرف پھیر دیں گے اور وہ وہیں ہلاک ہوجائے گا۔‘
اِسی بنا پر آپ (پیغمبر اسلام)

MushtaqAhmed
 

وحید الدین خان کے نزدیک دجال سے مراد ایک ایسا دھوکے باز ہے جو ذہنی وفکری گمراہی پیدا کرے گا نہ کہ انوکھی صفات کا حامل شخص جو فتنہ وفساد برپا کرے گا۔
وہ ماہنامہ الرسالہ میں لکھتے ہیں کہ دجال اپنا یہ کام تلوار کے ذریعے نہیں کرے گا۔
’دھوکا دینا، دلیل کے ذریعے ہوتا ہے، نہ کہ تلوار کے ذریعے۔ چنانچہ، دجال علم اور دلائل کے زور پر لوگوں کو بہکائے گا۔ وہ لوگوں کو ذہنی گمراہی میں مبتلا کرے گا۔‘
ڈاکٹر محمد عامر گزدر ’علاماتِ قیامت‘ کے ضمن میں پیغمبر اسلام کی بعض حدیثوں کے حوالے سے دجال کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’کوئی اور مخلوق ایسی نہیں ہے، جو اپنی فتنہ پردازی میں دجال سے بڑھ کر لوگوں پر حاوی ہو سکتی ہو۔‘
’مسیح دجال ایک کشادہ پیشانی

MushtaqAhmed
 

قیامت کی نشانیوں کے ضمن میں آیا ہے۔
اسلامی عالم اور محقق جاوید احمد غامدی اپنی کتاب 'میزان' میں لکھتے ہیں کہ لفظ دجال بڑے دغاباز، فریبی اور مکار کے معنی میں اسمِ صفت ہے۔
’اس کا ذکر’المسیح الدجال‘ کے نام سے بھی ہوا ہے۔ اس کے معانی یہ ہیں کہ قیامت سے پہلے کوئی شخص مسیح ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرے گا اور یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے اندرسیدنا مسیح علیہ السلام کی آمد کے تصورسے فائدہ اٹھا کراپنے بعض کمالات سے لوگوں کو فریب دے گا۔‘
’بعض روایتوں میں ہے کہ یہ ایک آنکھ سے اندھا ہو گا اور ایمان والوں کے لیے اس کا دَجَل (ملمع یا دھوکا) اس قدر واضح ہوگا کہ اس کی پیشانی پر گویا کفر لکھا ہوا دیکھیں گے۔‘
اسلامی عالم وحید الدین خان

MushtaqAhmed
 

ی چالوں کا مقابلہ کریں گے، اورایسی بڑی مصیبتیں آئیں گی جو دنیا کی ابتدا سے لے کر اب تک کبھی نہیں آئیں۔‘
’مختص کیے گئے ساڑھے تین سال کے اختتام پر، تاہم، دجال مسیح کی طاقت سے تباہ ہو جائے گا، جس کے بعد، بہت ہی مختصر وقفے کے بعد، آخری فیصلہ اور دنیا کا خاتمہ ہوگا۔‘
لرنر کہتے ہیں کہ بعد میں اینٹی کرائسٹ کا تصورمسیح کی مخالفت کرنے والوں کے معنوں میں بھی سامنے آیا۔ اور اس واہمے نے بھی جنم لیا کہ کریڈٹ کارڈ اور الیکٹرانک بارکوڈز معصوم لوگوں پر اینٹی کرائسٹ یا ضد مسیح کی مکاشفہ کے مطابق نشانی 666 لگانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
نعیم احمد بلوچ کے مطابق دجال کا ذکراسلامی روایات میں قرب قیامت کی نشانیوں

MushtaqAhmed
 

نے کی چمک‘ سے تباہ کر دیں گے (2:8)‘۔
اینٹی کرائسٹ کے بارے میں قرون وسطیٰ کا نظریہ ایڈسو، ریپلن، اور بہت سے دوسرے مصنفین نے اس اصول پر قائم کیا کہ وہ ہر چیز میں مسیح کے متضاد مخالف ہے۔
لرنر نے ان سے یہ اخذ کیا کہ ضد مسیح اپنی چالوں سے پیروکار حاصل کرے گا۔ اس کی بالا دستی ساڑھے تین سال رہے گی۔ مسیح کی طرح، دجال یروشلم میں آئے گا، لیکن، مسیح کے برعکس، یہودی اس کی جوش و خروش سے تعریف اور تعظیم کریں گے۔
’اپنے دور حکومت میں وہ ہیکل کو دوبارہ تعمیر کرے گا اور سلیمان کے تخت پر بیٹھے گا۔ وہ زمین کے حکمرانوں کو اپنے مقصد کی جانب بدل دے گا اور مسیحیوں کو خوفناک طریقے سے ستائے گا۔ ان تمام لوگوں کو اذیت دی جائے گی جو اس کی چالوں کا

MushtaqAhmed
 

لیکن چونکہ انٹیوکس کا نام نہیں لیا گیا تھا، بعد کے قارئین اس پیش گوئی کو کسی بھی ستانے والے پر لاگو کر سکتے تھے۔ ابتدائی مسیحیوں نے اسے رومن شہنشاہوں پر لاگو کیا، جنھوں نے چرچ کو ستایا، خاص طور پر نیرو جنھوں نے سنہ 54 سے 68 عیسوی تک حکومت کی۔
’ابتدائی مسیحی ایک بہت بڑے ضدِ مسیح کے آنے پر زور دیتے تھے۔ یوحنا کا مکاشفہ اس شخصیت کو ’پاتال سے حیوان‘ (11:7) اور ’سمندر سے حیوان‘ (13:1) سے تعبیر کرتا ہے۔‘ وہ ایک عام ارتداد کے وقت آئے گا، لوگوں کو نشانیوں اور عجائبات سے دھوکا دے گا، خدا کے گھر میں بیٹھ کر خود خدا ہونے کا دعویٰ کرے گا۔ آخر میں، وہ یسوع کے ہاتھوں شکست کھا جائے گا، جو اسے ’پھونک‘ اور ’اپنے آنے کی چمک‘ سے

MushtaqAhmed
 

طور پر عبرانی بائبل میں دانیال کی کتاب سے۔‘
’سنہ 167 قبل مسیح کے آس پاس لکھی گئی اس کتاب میں اس آخری اذیت دینے والے کے آنے کی پیش گوئی کی تھی جو ’اعلیٰ ترین کے خلاف بڑے بول کہے گا اور اعلیٰ ترین کے ماننے والوں کوکمزور کردے گا، اور وقت اور قوانین کو بدلنے کا سوچے گا۔‘
لرنر کہتے ہیں کہ سکالرز اس بات پر متفق ہیں کہ دانیال کے صحیفے میں فلسطین کے تب کے ہیلینسٹک حکمران، انٹیوکس چہارم ایپی فینس کی طرف اشارہ تھا، جس نے یہودیت کو ختم کرنے کی کوشش کی۔

MushtaqAhmed
 

قائل نہیں۔‘
یہودیت، مسیحیت اور اسلام کے ماننے والوں کے حضرت مسیح کی دوبارہ آمد کے تصورات دیکھنے کے بعد ہم چلتے ہیں ہے اینٹی کرائسٹ یا ضدِ مسیح یا دجال کے تصور کی جانب۔
اینٹی کرائسٹ، ضدِ مسیح اور مسیح کا حتمی دشمن، مسیحی روایات کے مطابق، آخری فیصلے (قیامت) سے پہلے کی مدت میں خوفناک طور پر حکومت کرے گا۔
رابرٹ ای لرنر کی تحقیق ہے کہ ضدِ مسیح کی اصطلاح پہلی بار یوحنا کے خطوط میں ظاہر ہوئی، اور ضدِ مسیح کی زندگی اور دور حکومت کی مکمل کہانی قرون وسطیٰ کے متن میں پائی جاتی ہے۔
’دجال کا مسیحی تصور یہودی روایات سے اخذ کیا گیا تھا، خاص طور پر عبرانی بائب

MushtaqAhmed
 

عہد نامہ جدید کی سب سے آخر میں لکھی جانے والی اس کتاب میں ایک اور جگہ لکھا ہے: ’دنیا کی بادشاہی ہمارے خداوند اور اس کے مسیح کی ہوگی اور وہ ابدالآباد بادشاہی کرے گا۔‘
یوں ان دونوں مذاہب کے ماننے والے قیامت سے پہلے کے عہد کو مسیحائی عہد کا نام دے کر اس کے منتظر ہیں۔
اسلام کے پیرو کاروں میں بھی حضرت عیسیٰ کے دوبارہ دنیا میں آنے کا تصور پایا جاتا ہے۔
غامدی سنٹر آف اسلامک لرننگ، ڈیلَس، امریکا سے منسلک محقق نعیم احمد بلوچ کے مطابق مسلم اہل علم کی ایک بہت بڑی اکثریت حضرت عیسیٰ کے بارے میں احادیث کی وجہ سے یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ وہ ایک امتی کی حیثیت سے قیامت کے قریب دوبارہ آئیں گے۔
’البتہ ابن خلدون سمیت بہت کم علما حضرت مسیح کی آمد ثانی کے قائل نہیں۔

MushtaqAhmed
 

(خدائے یہواہ) کے پاس آیا تھا۔ اسے اس کے سامنے لے آیا گیا تھا۔ وہ شخص جو کہ انسان کی مانند دکھائی دے رہا تھا، اس کو سلطنت، حشمت اور سارا علاقہ سونپا گیا۔ سبھی قومیں اور ہر زبان کے گروہ اس کی خدمت کریں گے۔ اس کی حکومت ہمیشہ قائم رہے گی۔‘
حضرت عیسیٰ کے مصلوب ہونے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کا عقیدہ انجیلوں اور عہدنامہ جدید کی باقی کتابوں میں بھی ملتا ہے۔
سید محمد وقاص بائبل کی آخری کتاب، یوحنا کا ’مکاشفہ‘ کا حوالہ دیتے ہیں، جس میں لکھا ہے: یسوع مسیح کی طرف سے جو سچا گواہ اور مردوں میں سے جی اٹھنے والوں میں پہلا ہے اور دنیا کے بادشاہوں پر حاکم ہے۔

MushtaqAhmed
 

یہودی عقیدے کے مطابق حضرت داؤد کی اولاد میں ایک عظیم بادشاہ نمودارہوگا جو بنی اسرائیل کے ان طاقت ور بادشاہ اور نبی کی طرح کہ جن پر زبور نازل ہوئی تھی، یہودیوں کی حکومت پھر سے دنیا پر قائم کرے گا۔
سید محمد وقاص کی تحقیق ہے کہ یہ عقیدہ جلا وطنی کے دوران آنے والے نبی حضرت دانیال سے منسوب ایک صحیفے پر مبنی ہے۔
موجودہ بائبل کے عہد نامہ قدیم کے حصہ ’انبیا‘ (عبرانی میں نیویم) میں شامل صحیفہ دانیال میں لکھا ہے: ’رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے سامنے کوئی کھڑا ہے جو انسان جیسا دکھائی دیتا ہے۔ وہ آسمان کے بادلوں پر آرہا تھا۔ وہ قدیم بادشاہ