Damadam.pk
MushtaqAhmed's posts | Damadam

MushtaqAhmed's posts:

MushtaqAhmed
 

ہوتی ہے"
جہاں تک تفصیلی جواب کی بات ہے تو یہ سادہ عمل کافی پیچیدہ ہو جاتا ہے۔
ہر پرسن اپنی جِلد کو ہی مدنظر رکھ کر فیصلہ کر سکتا ہے کہ انہیں دن بھر میں کتنی بار منہ دھونا چاہیے۔
آئلی سکِن اور پسینہ
مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر فرد کو صبح اور رات کو اپنا لازماً منہ دھونا چاہیے یا یوں کہہ لیں کہ روزانہ کم از کم 2 بار تو ضرور چہرے کو دھو لینا چاہیے۔
جن کی سکن آئلی ہو ہا ہو تو پھر دن کے دوران کام کی نوعیت کے سبب پسینہ زیادہ آتا ہو تو چہرے کو تیسری بلکہ چوتھی بار بھی دھونے سے گریز مت کیجئے۔

MushtaqAhmed
 

"منہ دھو رکھیئے!" محض محاورہ نہیں دراصل یہ آپ کی اہم جسمانی ضرورت ہے۔لیکن آپ کو روزانہ کتنی بار منہ دھونا چاہیے، اس سوال کا جواب آسان نہیں۔
چہرہ یا منہ دھونا بظاہر آسان اور سادہ کام ہے مگر ہم میں سے بیشتر یہ نہیں جانتے کہ روزانہ صرف ایک مرتبہ صبح اٹھ کر منہ دھو لینا کافی نہیں۔ لیکن منہ کب کب دھونا چاہئے اس کو سمجھنا ضروری ہے اور اس کے لیے وقت نکالنا بھی ضروری ہے۔
آخر ایک فرد کو روزانہ کتنی بار چہرہ دھونا چاہیے؟
اس کا آسان جواب یہ ہے کہ" اس کا کوئی حتمی جواب نہیں کیونکہ ہر فرد کی جِلد مختلف ہوتی ہے"

MushtaqAhmed
 

موقع پر ہم سب پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں جن کا پورا کرنا ضروری ہے سب سے پہلے تو اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں کہ کوئی ضرورت مند ایسا تو نہیں جس کے پاس عید کی خریداری اور کھانے پینے کے پیسے نہیں ان کی مدد کر کے انہیں بھی عید کی خوشیوں میں شامل کریں جس سے آپ کو بھی یقینا راحت ملے گی۔ ا ٓخر میں تمام اہل وطن کو دل اتھاہ گہرائیوں سے عید مبارک۔
❣️

MushtaqAhmed
 

اختتام پذیر ہوجاتی ہے البتہ شہروں میں رات کو تفریحی مقامات ،سینماوں اور تھیٹرز وغیرہ میں کافی رش ہوتا ہے اور خوب جشن منایا جاتا ہے۔ اسی طرح عید کے دوسرے اور تیسرے دن فیملیز وغیربھی تفریح کے لیئے باہر نکلتی ہیں، لوگ قریبی عزیزوں کے گھر بھی عید ملنے جاتے ہیں۔ دوست احباب کے درمیان عید ملن پارٹیاں ہوتی ہیں اور یوں یہ رنگ بکھیرتا خوبصورت اور شاندار اسلامی تہوار اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔ اب خوشی کے اس موقع پر ہم سب پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں جن کا

MushtaqAhmed
 

ہے لیکن کم از کم یہ بھرم تو قائم رہنا چاہیئے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی انا اور ضد کے خول سے باہر آکر اپنے پیاروں کے ساتھ رشتوں کو جوڑا جائے تاکہ پیارومحبت کی ایک خوبصورت فضا قائم ہو سکے۔ بہرحال عید کے دن کے معمولات مختلف عمر کے لوگوں کے الگ الگ ہوتے ہیں بچے عیدی کی رقم بڑے شوق سے اکٹھی کرتے ہیں جو تقریبا شام تک ختم ہو جاتی ہے،بڑی عمر کے افراد آپس میں اور خاندان کے دوسرے لوگوں سے گپ شپ کر کے محظوظ ہوتے ہیں، نو جوان گیمز وغیرہ کھیلنے اور سیروسیاحت کی غرض سے پارکس اور پبلک مقامات پر سارا دن گزارتے ہیں جبکہ عورتیں عموماََ گھر میں ہی کوکنگ وغیرہ کرکے دن گزارتی ہیں۔اسی طرح دن گزر جاتا ہے اور جونہی شام کے سائے لمبے ہوتے ہیں دیہاتوں میں تو سب کچھ روٹین پر آجاتا ہے لوگ تھک ہار کر اپنے کام ختم کر کے سو جاتے ہیں اور یوں ان کے لیئے عید تقریبا اختت

MushtaqAhmed
 

اور کدورتوں کو ختم کر کے خوشی خوشی ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں اور بھائی چارے کو فروغ دیتے ہیں جبکہ دور دراز کے دوست احباب کو بھی نیک تمناؤں کے پیغامات بھیجے جاتے ہیں پہلے تو یہ اظہار رنگ برنگے اور خوبصورت عید کارڈز کے ذریعے ہوتا تھا لیکن اب یہ قصہ پارینہ ہو چکا ہے۔لوگ اپنے پیاروں کی طرف سے ملنے والے ان کارڈز کو سال بھر سنبھال کر رکھتے تھے جو دراصل باہمی محبتوں،سچے اور کھرے جذبات کی عکاسی کرتے تھے لیکن ٹیکنا لوجی کو فروغ کیا ملا کہ ہماری دوریاں بڑھتی گئیں، بے لوث محبتیں نہ جانے کہاں کھو گئیں،پر خلوص چاہتیں یاد ماضی بن گئیں اورزمانے کے ساتھ ساتھ تعلقات میں بھی کمرشلزم کا عنصر نمایاں ہونے لگا۔ اب ان عید کارڈز کی جگہ موبائل فون کے smsلے چکے ہیں بس ایک میسج کرو اور جان چھڑا لو۔ہمارے خیال میں یہ تعلقات کے جڑے رہنے کا کمزور ترین ذریعہ ہی ہے لیکن

MushtaqAhmed
 

گئے تک خوب رش دیکھنے کو ملتا ہے۔لوگ شاپنگ کے لئے بازاروں کا رخ کرتے ہیں جب کہ عورتیں اور لڑکیاں چوڑیوں کی خریداری کے ساتھ ساتھ ہاتھوں پر مہندی کے خوبصورت نقش و نگار بھی بنواتی ہیں۔اس کے بعد سب مسلمان صبح و سویرے اٹھتے ہی کوئی میٹھی چیز (عموما سویاں وغیرہ) کھا کر، نہا دھو کر،نئے یا دھلے ہوئے صاف اجلے کپڑے پہن کر عید کی نما ادا کرنے کے لیئے گھروں سے نکلتے ہیں۔عید کی نماز مساجد میں بھی ادا کی جاتی ہے لیکن عموما کھلے میدانوں میں اس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔عید کی نماز ادا کرنے کے بعد فضا عید مبارک عید مبارک کے الفاظ سے گونج اٹھتی ہے اور تمام اطراف سے ہمارے کانوں کی سماعتوں سے یہی الفاط بار بار ٹکرا رہے ہوتے ہیں۔اس دن مسلمان بھائی تمام نفرتوں اور کدورتوں

MushtaqAhmed
 

۔خیر یہاں ہم عیدالفطر کے حوالے سے بات کریں گے۔جہاں تک عیدالفطر کا تعلق ہے تو یہ عید صرف ایک ہی دن پر مشتمل ہوتی ہے۔ لیکن اگلے دو روز بھی اسی سلسلہ میں منائے جاتے ہیں جنہیں عید ٹرو او ر عید مرو کا نام دیا جاتا ہے۔اب پوری دنیا کے مسلمان اس مذہبی تہوار کو تقریبا ایک ہی طرح سے مناتے ہیں مثال کے طور پر عید کی نمازپڑھنا،ایک دوسرے کو مبارک باد دینا اور پھر اپنے ملکی اور علاقائی رسم و رواج کے مطابق خوشیاں منانا۔جہاں تک وطن عزیز کی بات ہے تو ہمارے یہاں بھی عیدالفطر نہائت ہی جوش و جذبے سے منائی جاتی ہے۔عید سے چند دن قبل تمام لوگ اپنی اپنی بساط کے مطابق خریداری کر لیتے ہیں اور دور دراز کے لوگ گھروں کو واپس لوٹ آتے ہیں۔ عید کا چاند نظر آتے ہی ہر طرف خوشیوں کے شادیانے بجنا شروع ہو جاتے ہیں، چاند رات کو شہروں میں رات گئے تک خوب رش دیکھنے کو ملت

MushtaqAhmed
 

روئے زمین پر آبادتمام قومیں اپنے اپنے تہوار مخصوص رسم و رواج اورپورے جوش و خروش سے مناتی ہیں۔ کیونکہ انہی تہواروں کے ذریعے ہی کوئی بھی قوم اپنے کلچر اور مخصوص ر وایات کو دنیا کے سامنے اجاگرکر سکتی ہے۔پوری دنیا کے مسلمان بھی سال میں دو مشہور اسلامی تہوار نہائیت تزک و احتشام سے مناتے ہیں جنہیں عیدین کا نام دیا جاتا ہے۔ان میں سے ایک عیدالفطر اور دوسری عیدالضحٰی ہے۔ عید الفطر کو ہمارے یہا ں چھوٹی عید،میٹھی عید یا روزوں والی عید کا نام بھی دیا جاتا ہے۔پوری دنیا کے مسلمان عیدالفطر ہر سال رمضان مقدس کے روزے رکھنے کے بعد یکم شوال کو مناتے ہیں جبکہ دوسری عید عید الضحیٰ ہے جسے عید قربان یا بڑی عید کا نام بھی دیا جاتا ہے یہ عید اسلامی مہینے کی دس ذوالحج کو سنت ابراہیمی ؑ کی یاد میں پوری اسلامی دنیا میں منائی جاتی ہے۔خیر یہاں ہم عیدالفطر ک

MushtaqAhmed
 

عید الفطر مبارک 🙂🙋🙋🙋🙋

MushtaqAhmed
 

اچانک روئی کی طرح نرم و ملائم لگنے لگتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے اُس کا رشتہ عروج کی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے۔ جہاں اُسے ماضی کی سختیاں یاد رہتی ہیں نہ ہی اپنی بے بسی بس جو یاد رہتا ہے وہ اپنے اور اللہ تعالیٰ کے رشتے کی معراج اور عشقِ حقیقی میں ڈوبا ہوا اپنا پورا وجود۔
endd

MushtaqAhmed
 

ی اللہ تعالیٰ اُس کے لاشعور میں اپنے اشارے بھیجنا شروع کر دیتا ہے۔
اُس کے ساتھ ہی اُن اشاروں کو سمجھنے اور اُن کو ڈی-کوڈ کرنے کی عقل بھی عطا کرتا ہے۔ یہ اشارے انسان کی زندگی پر چھائی دھنددھلاہٹ کو ختم کرتے ہیں۔ جب وہ اپنے لاشعور میں خداوند کریم کے اُن اشاروں کے نزول کو محسوس کرنے لگ جاتا ہے اور اُن کی تشریح کرنا سیکھ جاتا ہے تو اُس کی اُن مشکل مسافتوں کی ساری تھکن منٹوں میں ختم ہو جاتی ہے، سر سجدہ شکر میں جھک جاتا ہے اور زبان سے صرف اور صرف الحمد اللہ ادا ہورہا ہوتا ہے۔
انسان کو اپنی خوش قسمتی پر یقین نہیں آرہا ہوتا ہے کہ اُس ربِ کائنات نے پورے عالم میں مجھ ناچیز کو عشقِ حقیقی کے قابل سمجھا اور جب بالآخر اُس کا یقین سے سامنا ہوتا ہے تو وہ راستہ جو آغاز میں اُسے کنکروں اور کانٹوں سے لیس معلوم ہورہا تھا اچانک روئی کی

MushtaqAhmed
 

غار سے باہر آنے کے لیے قدم بڑھاتا ہے لڑکھڑا کر گر پڑتا ہے۔ ایک بار، دو بار، تین بار اور لاتعداد بار پر ہر بار گِرنے پر کوئی غیبی طاقت اُس کا ہاتھ پکڑ کر کھڑا کر دیتی ہے اور وہ اُس وقت سمجھ نہیں پارہا ہوتا ہے کہ ان سب کے پیچھے کون کارفرما ہے۔ دماغ مکمل طور پر سن ہوجاتا ہے اور زندگی پہاڑ جیسی طویل معلوم ہو رہی ہوتی ہے۔
خالق کی جانب سے عشق حقیقی کے لیے منتخب کردہ تخلیق افضل کو اُس وقت اپنی ہر سانس کے بعد دوسری سانس لینا بھاری لگ رہا ہوتا ہے۔ تب وہ اپنے خالق سے سوال کرنا شروع کر دیتی ہے۔ اُس ذاتِ کبریائی کے سامنے روتی ہے گِڑگڑاتی ہے اور اپنی بے بسی کا اظہار کرتی ہے۔ زندگی کے اُس وہشت ناک موڑ سے آگے بڑھنے کو بے چین رہتی ہے اور اپنے حصے کی روشن صبح حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہوتی ہے تب ہی اللہ

MushtaqAhmed
 

بلکہ وقتاً فوقتاً اُسے اپنے اشارے دیتی رہتی ہے جو اُس سخت راہوں کو آسان بنانے میں اُن کو مدد فراہم کرتے ہیں۔
جس طرح ایک بچہ کورا اس دنیا میں آتا ہے بالکل اُسی طرح عشقِ حقیقی کی ڈگر پر بھی ہم اپنا پہلا قدم خواہ عمر کے جس بھی حصے میں رکھیں ہمارے دماغ کی سلیٹ ایک دم صاف اور کوری ہوتی ہے۔ دنیا انجان لگتی ہے، دنیا والے اجنبی اور اپنا آپ اس جہان کی سب سے بیکار شے۔ اللہ تعالیٰ کی پاک ذات پر بھروسہ تو پورا ہوتا ہے لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ آپ بے یقینی کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔ آپ کے چاروں جانب تاریکی پھیلی ہوئی ہوتی ہے اور آپ ڈرے سہمے بدلے ہوئے حالات کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔
عشق حقیقی کی دہلیز پر قدم رکھنے سے قبل انسان کو کچھ سجھائی دیتا ہے نہ آگے کا کچھ دیکھاء بس اپنا وجود ایک غار میں پھنسا محسوس ہوتا ہے۔ جب جب وہ اُس غار

MushtaqAhmed
 

۔ یہاں سکون خوشی پاکر نہیں اذیت سہہ کر ملتا ہے۔ انسان ان راہوں پر خود چل کر نہیں آتا بلکہ ہاتھ پکڑ کر لایا جاتا ہے۔ قرآنِ پاک میں سورۃ البقرہ کی آیت نمبر ۵۵۱ میں اللہ ربالعزت ارشاد فرماتے ہیں ’’اور ضرور ہم تمہیں کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے اور خوشخبری سنادو صبر کرنے والوں کو۔‘‘
پیغمبر اسلامﷺ کا بھی فرمان ہے ’’جب اللہ کسی بندے کو پسند کرتا ہے تو اُس پر آزمائش ڈالتا ہے۔‘‘ ہم مسلمانوں کا یہ ایمان ہے کہ سزا، جزا، خوشی، غم اور آزمائش اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہیں۔ وہی پاک ذات اپنے بندوں کو آزمانے اور اُن کے ایمان کو جانچنے کے لیے اُنھیں مشکل راستوں پر ڈال کر دُور بیٹھے اُن کے حوصلے، ہمت اور صبر کا امتحان لیتی ہے پر وہ اپنی مخلوق کو اُس مشکل راستے پر تن تنہا نہیں چھوڑتی بلکہ وقتاً فوقتاً اُسے اپ

MushtaqAhmed
 

دی بوٹی‘ مرشد من وچ لاندا ہوا
جس گت اتے سوہنا راضی‘ اوہ گت سدا سکھاندا ہو
ہر دم یاد رکھے ہر ویلے‘ سوہنا اٹھدا بہاندا ہو
آپ سمجھ سمجھیندا باہو‘ آپے آپ ہو جاندا ہو
الف اللہ چنبے دی بو ٹی مرشد من وچ لائی ہوئی
نفی اثبات دا پانی ملیا ہر رگے ہر جائی ہوئی
اندر بوٹی مشک مچایا جان پھلن تے آئی ہو
جیوے مرشد کامل باہو رح حیں ایہ بوٹی لائی ہو
یہیں سے ہمارے عشق ِ حقیقی کے سفر کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے۔ یہ سفر مشکل سہی پر لطف ہوتا ہے۔ اس راستے کے تمام قاعدے قانون نرالے ہیں۔ یہاں سکون

MushtaqAhmed
 

در ہی ہے۔ اپنے خالق کی خلق سے محبت درحقیقت عشقِ حقیقی کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے۔
ہم انسان اس جہان فانی میں پیدا ہوتے ہیں۔ اپنی منشا کے مطابق یہاں زندگی گزارتے ہیں، دنیا کی چکاچوند کا مزا لیتے ہیں۔ اپنے لیے مسرت کا سامان اکٹھا کرتے ہیں۔ لڑکپن میں ہی بڑھاپے تک کی منصوبہ بندی کرلیتے ہیں اور اُس پر عملی جامہ پہنانے کے لیے محنت بھی شروع کردیتے ہیں۔
ہماری زندگی کی گاڑی خوشیوں کی ڈگر پر اپنی پوری آن، بان اور شان کے ساتھ رواں ہوتی ہے کہ اچانک کوئی حادثہ پیش آجاتا ہے جو ہمارے وجود اور اُس کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ ہم عرش سے سیدھا فرش پر گر پڑتے ہیں اُس کے بعد ہم پہلے جیسے رہتے ہیں نہ ہماری زندگی۔عشق حقیقی پر صوفی شعراکا کلام بھی دل کی گہرائیوں میں اتر جاتا ہے۔
الف اللہ چنبے دی بوٹی‘

MushtaqAhmed
 

اللہ تعالیٰ کا نام اپنی زبان پر لاتے ہی اُس خداوند پاک سے عشق کرنے والی ہر ذات سکون کی جس کیفیت سے سرشار ہوتی ہے اُس کو الفاظ میں بیان کرنا اس دنیا کی کسی بھی زبان میں ممکن نہیں ہے۔
عشق ربِ کائنات سے ہو یا اُس کی تخلیق سے اچانک یا بیٹھے بیٹھائے کبھی بھی رونما نہیں ہوتا جب تک کہ عاشق آزمائشوں کی بھٹی میں جل جل کر تپ تپ کر ایک معمولی دھات سے کندن میں تبدیل نہیں ہوجاتا ہے۔خدا تعالیٰ کو ماننے والا ہر انسان اس عظیم ہستی سے محبت کرنے کا دعویدار ہے پر محبت اور عشق میں بڑا فرق ہوتا ہے۔
محبت میں انسان محبوب کو مانتا ہے جبکہ عشق کے رموز ذرا مختلف ہوتے ہیں اس میں عاشق اپنی محبوب ہستی کی مانتا ہے۔ عشق اگر سمندر ہے تو محبت ایک دریا ہے جس کا پانی کئی مراحل طے کرکے گرتا آخر میں سمندر کے اندر ہی ہے۔ اپنے خالق

MushtaqAhmed
 

آس پاس کے لوگوں نے لڑائی ختم کروائی اور زخمی عدنان کو فوری طور پر رورل ہیلتھ سنٹر منتقل کیا، تاہم زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہری عدنان دم توڑ گیا ۔دوسری جانب واقع کی اطلاع ملتے ہی ڈی ایس پی سرکل ایس ایچ او سمیت پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی۔ پولیس نے قتل میں ملوث شہباز اور اسامہ کو موقع سے گرفتار کرلیا جبکہ عبدالرحمٰن فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ پولیس نے مقتول عدنان کے بھائی امیر حمزہ کی مدعیت میں 3 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا، اور لاش کو تحویل میں لے کر پوسٹ مارٹم کیلئے بھیج دیا۔
eng
d

MushtaqAhmed
 

گوجرانوالہ (ڈیلی پاکستان آن لائن) قلعہ دیدار سنگھ کے علاقے میں سحری کے وقت چائے خانہ سے ادھار سیگریٹ مانگنے پر دکاندار نے چھریوں کے وار کرکے شہری کو قتل کردیا۔
سٹی 42 نیوز کے مطابق افسوسناک واقعہ تھانہ قلعہ دیدار سنگھ کے علاقہ خرم مارکیٹ میں پیش آیا جہاں محلہ قصوریاں کے رہائشی عدنان نے سہری کے وقت چائے خانہ کےدکاندار شہباز سے ادھار سیگریٹ مانگا، دکاندار نے ادھار سیگریٹ دینے سے منع کردیا، جس پر دونوں میں توں تکرار ہوئی، دکاندار شہباز نے طیش میں آکر اپنےبیٹے عبدالرحمٰن اور ساتھی اسامہ سے مل کر شہری عدنان پر حملہ کردیا، انہوں نے ڈنڈوں سوٹوں اور چھریوں کے وار کرکے عدنان کو شدید زخمی کردیا۔ آس پاس کے لوگوں نے لڑائی ختم کروائی اور زخمی