لگے کہ خدائے بنی اسرائیل ’یہواہ‘ نے ان سے منھ موڑ لیا ہے اور ان کا مقدس ترین عبادت خانہ تباہ ہونا اور ارضِ موعودہ (پرامِزڈ لینڈ) سے نکلنا سزا ہے۔
اس فکر کے جواب میں یہ سوچ پنپی کہ یہواہ بنی اسرائیل سے ہمیشہ کے لیے ناراض نہیں ہوئے بلکہ وہ وقتی سزا کے بعد ایک طاقت ور بادشاہ ’مسیح‘ کے ذریعے انھیں دوبارہ عروج عطا کریں گے۔
سوشل میڈیا پریہودی اور مسیحی روایات کے مطابق اینٹی کرائسٹ یا ضدِ مسیح اور اسلامی روایات کی رو سے مسیح الدجال مختصراً دجال کے آنے پر بحث کی جا رہی ہے۔ اب ہر کوئی دجال کے بارے میں روایات اور اقوال شیئر کر ہا ہے۔ ہم نے سوچا کہ کیوں نہ اس بحث کا پس منظر جان لیا جائے۔
دجال پر تاریخی حوالہ جات، علما اور ماہرین کی رائے جاننے سے قبل ایک نظر اس پر دوڑاتے ہیں کہ آخر دجال کا قصہ شروع کہاں سے ہوتا ہے؟
چھٹی صدی قبلِ مسیح کے اواخر میں بنی اسرائیل (یہودی مذہب کے ماننے والے) بابل کے حکم ران بخت نصر سے شکست، ہیکلِ سلیمانی کی تباہی اور جلا وطنی سے ایسے مایوس ہوئے کہ ماننے لگے کہ خدائے بنی اسرائیل
سودا سلف لینے والے گاہک بیزارہوتے ہے دوسری جانب مسجدوں کے سامنے لائنوں میں کھڑے یا بیٹھ کر بھیک مانگی جارہی ہے۔ سینکڑوں بھکاریوں کے ہاتھوں شہریوں کاجینا حرام ہے اندرون سندھ اور پنجاب سے آئے ہوئے پیشہ وارانہ بھکاریوں میں خواتین اور زیادہ تر بچے اوربچیاں شامل ہیں جوکہ اپنے آپ کو معذور ثابت کرکے بھیک مانگتے ہیں عوامی حلقوں نے گورنر سندھ ،وزیراعلیٰ سندھ ،ڈی آئی جی سمیت اعلیٰ حکام ، اور انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر پیشہ وارانہ بھکاریوں کے خلاف سخت کارروائی کرکے انہیں واپس ان کے اپنے علاقوں میں بھیجا جائے اور کراچی کے عوام کو ان کے شر سے نجات دلائی جائے تاکہ شہری سکھ کاسانس لے سکیں۔
🤣
شہر قائدمیں بھکاریوں ، گداگروں ، کی بھرمار، شہری سخت پریشان حکام نوٹس لیں۔ شہر میں ماہ رمضان کے موقع پر پیشہ ورانہ بھکاریوں، گداگروں کی یلغار نے شہریوں کا جینا حرام کردیا ہے سارادن بازار میں گداگروں بھکاریوں نے مختلف روپ اپناکرخیرات کے بہانے ،اگر دکانوں میں بچے ہو تو چکما دیں کر ان سے اپنے ضرورت کے مطابق چیزیں اٹھا لیتے ہیں۔اندرون سندھ اور پنجاب سے آئے ہوئے اور کچھ مقامی منشیات کے عادی افراد بھکاریوں نے ماہ رمضان کے پہلے دن ہی بازارکو ٹھیکے پرلے رکھے ہیں جنکی پیشہ ہمیشہ بھیک مانگنا ہے ان سے لوگوں کا جینا محال ہوگیا ہے بھکاریوں میں بیشتر خواتین اوربچے شامل ہیں۔ شہرقائد میں سالوں سال سے پیشہ وارانہ بھکاریوں اورگداگروں کی تعداد میں اضافہ ہوتاجارہا ہے انکی وجہ سے سودا
اس قتل کا انکشاف اس وقت ہوا جب ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ملزم فیصل کو تکیے سے ماریہ کا سانس روکتے دیکھا جا سکتا ہے جبکہ عبدالستار ان کے پاس ہی بیٹھا ہے اور قتل کے بعد فیصل کو پانی پیش کرتا ہے۔
ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس نے دونوں ملزمان کو گرفتار کر لیا جبکہ قبر کشائی کے ذریعے ماریہ کی لاش سے نمونے حاصل کیے گئے۔
گزشتہ روز عدالت نے ملزمان کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا۔
گزشتہ روز ہی ماریہ کی ابتدائی میڈیکل رپورٹ آج نیوز کو موصول ہوئی تھی
اطلاعات کے مطابق پولیس نے شہباز اور اس کی اہلیہ سمیرا کو بھی گرفتار کرلیا ہے۔ شہباز اور سمیرا کے ڈی این اے نمونے بھی حاصل کرلئے گئے ہیں۔
تاہم پولیس نے گرفتاری کی تصدیق نہیں کی جب کہ ماریہ کے والدین نے تھانہ کے سامنے احتجاج کیا۔ ماریہ کی والدہ کا کہنا تھا کہ پچھلی شب ایک بجے وہ دونوں کو تھانے میں مل کے گئی تھیں۔
شہباز کے وکیل ایڈووکیٹ ظفر چوہدری کا کہنا ہے کہ دوران تفتیش انکشاف ہوا ہے کہ دونوں ملزمان ماریہ کے قتل میں برابر کے شریک ہیں۔
شہباز کے وکیل نے کیس کی پیروی نہ کرنے کا اعلان بھی کردیا اور کہا کہ ایسے درندوں کی وکالت نہیں کرسکتا۔
یاد رہے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں 17 اور 18 مارچ کی درمیانی شب مبینہ طور پر بھائی اور والد نے ماریہ کو قتل کرکے خاموشی سے رات کے وقت تدفین کردی تھی
ٹوبہ ٹیک سنگھ میں قتل ہونے والی ماریہ کے بھائی فیصل نے اعتراف جرم کرلیا، پولیس کے مطابق ملزم نے ناصرف قتل بلکہ زیادتی کا بھی اعتراف کیا ہے۔
پولیس کی جانب سے ماریہ کے والد عبدالستار اور بھائی فیصل کو علاقہ مجسٹریٹ طلعت جاوید کی عدالت میں پیش کیا گیا۔
عدالت نے دونوں ملزمان کا مزید چار روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا ہے۔
پولیس کے مطابق ملزم فیصل سے ماریہ سے زیادتی اور اس کے قتل کا اعتراف کر لیا ہے۔ ملزم کا ایک ویڈیو بیان آج نیوز نے حاصل کیا ہے۔
اس سے قبل ماریہ کے دوسرے بھائی شہباز نے انکشاف کیا تھا کہ فیصل اور عبدالستار ماریہ سے زیادتی کرتے تھے۔ ۔
ہفتہ کو اطلاعات کے مطابق
پڑے گی اور اِن دہشتگردوں کے سامنے برہنہ کھڑا ہونا پڑے گا ورنہ آپ کی ساری طاقت اور ہمارے شہداء کی ساری قربایناں رائیگاں ہو جائیں گی۔ پاکستان کی سیاسی اور معاشی حالت ایک دوسرے میں پیوست ہے اور دنیا کی کوئی معیشت امن کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی بہتر معیشت کیلئے امن کی ضرورت ہے اور امن کیلئے بہترین سیاسی فیصلوں کی طرف جانا ہوگا جس کی طرف ہم گامزن بھی ہو چکے ہیں لیکن ابھی بہت کچھ کرنے کو باقی ہے ورنہ شہیدوں کی تعداد اوریزیدوں کا اختیار بڑھتا رہے گا۔
end
کو لمبے عرصے تک بند کیے رکھا اور کیوں؟ کس نے پاکستان کو مطلوب طالبان، پاکستان میں لاکر بسائے؟ کیا اس مکالمے کو پاکستانی معاشرے میں رواج دینے کی ضرورت نہیں کہ جب چین افغانستان میں ترقیاتی کاموں میں پیش پیش ہے اور ریل گاڑی جو افغانیوں کا خواب تھی اُسے بچھانے میں دن رات ایک کر رہا ہے تو وہی افغان حکومت اُن طالبان کو کیوں پناہ دے رہی ہے جو پاکستان میں چینی انجنیئروں پر حملہ آور ہو رہے ہیں؟ چین کیلئے طالبان کا افغانستان اور پاکستان میں دوستی اور دشمنی کا دوہرا معیار کیوں ہے؟ چینی انجینئروں پر ہونے والے حملے سے دل بھی دکھا ہے اور مستقبل کے حوالے سے پھر منظر دھندلا ہونا شروع ہو گیا ہے۔ ہم نے ایک ہاتھ سے شلوار اور دوسرے سے تلوار پکڑ رکھی ہے جو ہماری ریاستی جنگی حکمت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہمیں تلوار اور شلوار میں سے ایک تو چھوڑنی پڑے گی او
و بھتہ دے کر اپنی وزارتیں چلاتے رہے۔ جس نے 9 مئی کو وہی کیا جو اُس سے پہلے طالبان کر تے رہے ہیں۔اب وہ جیل میں ہے تو اُس کے طالبانی ساتھیوں نے اودھم مچانا شروع کردیا ہے۔
بشام میں چینی انجینئروں کی گاڑی پر ہونے والے خود کش حملے نے یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ وہ کون ہے جو چاہتا ہے کہ چینی پاکستان میں کام نہ کریں۔ وہ کون ہے جو بھاشا اور داسو ڈیم کا مخالف ہے۔ وہ کون ہے جو چینیوں کے قتل عام اور بلوچستان میں بدامنی کا ذمہ دار ہے؟ یہ انتہائی خوش آئند ہے کہ پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی نے چینی انجینئروں کے جاں بحق ہونے کے بعد فوری طور پر چینی سفارت کار سے رابطہ کرکے انہیں تمام حقائق سے نہ صرف آگاہ کیا بلکہ ہمارے قومی سلامتی کے اداروں نے مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا عزم بھی دہرایا لیکن کیا اِس پر بات نہیں ہونی چاہیے کہ کس نے سی پیک کو لم
جس دن ضربِ عضب کا آغاز ہوا اللہ نے مجھے بیٹی سے نوازا تو میں نے اُس کا نام عضب جمشید رکھ دیا۔ عضب کے حوالے سے میں جانتا تھا کہ یہ رسول اللہ کی تلوار کا نام ہے جبکہ بیٹی کانام رکھنے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ جب ہم دنیا میں نہیں ہوں گے تو میری بیٹی دنیا کو بتائے گی کہ جس دن وہ پیدا ہوئی تھی ہماری بہادر افواج نے اُن دہشتگردوں کو ختم کرنے کا آغاز کیا تھا جو ہمارے قومی سلامتی کے اداروں اور عام شہریو ں پر تاتاریوں کی طرح حملہ آور تھے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے طالبان کا سب سے بڑا پاکستانی حمایتی، پاکستان کا وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ ایک ایسا شخص جو ریاست کو دہشتگردوں سے برابری کی بنیاد پر مذاکرات کرنے کی ترویج کرتا رہا۔ جس کے خیبر پختون خوا کے 10 سالہ دورِ اقتدار میں افغانستان میں چھپے ہوئے بھگوڑے پاکستان واپس آگئے۔ جس کے وزیر مشیر طالبان کو بھتہ دے کر
عقلی فیصلے کرنے کی قسم کھا رکھی ہے اور آج بھی اپنے بچوں کے ہاتھ سے فلسطین کا جھنڈا چھین رہے ہوتے ہیں۔ لوگوں کی آستینوں میں سانپ پلتے ہیں ہم نے سانپوں کے محل بنا رکھے ہیں جبکہ ان کا جان لیوا زہر ہمارے اداروں اور نوجوانوں کی رگوں میں بھی اتر چکا ہے اور ہم اُسے دیسی مرغوں اور بہترین گائیوں کا دودھ پلا رہے ہیں۔ممکن ہے کہ عنقریب خواتین سے ملنے کی اجازت بھی دے دی جائے حالانکہ اُس کا مردوں سے ملنا بھی مشکوک ہے۔یہ غیر ریاستی رویہ ہے اور ہم اِس کی قیمت ادا بھی کر چکے ہیں اور ہمیں اس کی مزید قیمت بھی ادا کرنی ہو گی جس کے اشارے ہمیں ملنا شروع ہو چکے ہیں۔
غزہ کی عورتوں، بچوں، جوانوں اور بزرگوں کے قتلِ عام اور خواتین کی بے حرمتی سمیت ہر جرم میں معاون و مدد گار ہے۔ امریکی دہشتگردوں کی کارروائیوں سے کوئی بھی براعظم محفوظ نہیں ہے لیکن اِس کے باوجود وہ امن کا بڑا داعی ہے۔پاکستان ایک چو مکھی لڑائی میں پھنس چکا ہے جہاں ایک طرف امریکہ کا بظاہر دوستانہ خون آلود ہاتھ ہے تو دوسری طرف بھارت ہے جس نے افغانستان میں بیٹھ کر ہمارے خلاف پراکسی وار شروع کر رکھی ہے۔ ریاستوں پر بُرے وقت آ جاتے ہیں لیکن ان ریاستوں پر آتے ہیں جو اچھے وقت گزار رہی ہوں ہم دنیا کی شاید پہلی ریاست ہیں جنہوں نے بُرے حالات سے بدترین حالات کی طرف سفر کیا ہے۔ ریاستیں عقیدوں کے نام پر بن سکتی ہیں لیکن چلتی عقل کی بنیاد پر ہی ہیں جس کی زندہ مثال اسرائیل آپ کے سامنے سانپ کی طرح کھڑا ہے اور جس کی بری مثال ہم خود ہیں جنہوں نے غیر عقلی فیصلے
ریاستوں کے ساتھ ملکر ان گنت ظاہری و باطنی دشمن پیدا کیے ہیں جن کے ساتھ ہمارے اپنوں نے مل کر بھی پاکستان کو بارود کے ڈھیر پر رکھ چھوڑا ہے۔ ہماری افواج نے ایک دونہیں ہزاروں چھوٹے بڑے معلوم اور نہ معلوم آپریشن کیے جن میں ہزاروں دہشتگرد جہنم رسید ہوئے لیکن جب دہشتگرد قتل ہو تا ہے تو صرف اُس کی جان جاتی ہے جب کہ ہمارے جوان شہید ہوتے ہیں تو اُس کے ساتھ ہی ہماری ریاست پر بھی امن کے حوالے سے سوالیہ نشان لگ جاتا ہے اور وہی قوتیں جو اِس دہشتگردی کی یا تو وجہ ہوتی ہیں یا سبب، ہمارے خلاف بیان داغنا شروع ہو جاتی ہیں۔اب کوئی امریکہ سے پوچھے کہ کیا اُسے زیب دیتا ہے کہ وہ دنیا میں امن کی بات کرے جب کہ دنیا میں ہونے والی ہر دہشتگردی کا ”کُھرا“ اُس کی جاسوس ایجنسیوں سے جا ملتا ہے۔ جو کل ہیرو شما اور ناگا ساکی پر ایٹمی حملوں کا ملزم تھا تو آج غزہ کی عورتوں،
پاس اپنے حکمرانو ں اور اداروں پر اعتماد کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے کیونکہ مہذب شہری اپنے اداروں پر ہی اعتماد کرتے ہیں اور کبھی کسی اجنبی لشکر کے حمایتی یا سپاہی نہیں بنتے۔ بلاشبہ یہ درست ہے کہ ہم زندگی کے بہت سے اہم معاملات میں عالمی ریٹنگ میں کسی اچھے مقام پر فائز نہیں ہیں لیکن ایک فہرست اِن اداروں نے کبھی جاری نہیں کی جو دنیا میں ہمارے مقام و مرتبے کو پہلے نمبر پر لا کھڑا کرتی ہے۔جس سے ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے سر فخر سے بلند ہو جاتے ہیں۔ جو قوموں کی حقیقی حیات کی رگوں میں خونِ تازہ کا سا کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستان دنیا بھر میں شہیدوں کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہے اور یہ شہادتیں ہم نے کسی ایسی جنگ میں حاصل نہیں کیں جو ہمیں کسی ازلی اور ابدی دشمن کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے نصیب ہوئی ہوں بلکہ اِس کیلئے ہم نے دنیا بھر کی ریاستوں
دنیا بھر کے ریسرچ اداروں سے جاری ہونے والی فہرستوں کوغور سے دیکھنے کے بعد یہی معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان معاشی حوالے سے کون سے نمبر پر ہے یا پھر عدل فراہم کرنے والے عالمی انصاف کے اداروں کی دوڑ میں کس مقام پر کھڑے ہیں۔ یہ تحقیقی مراکز خطِ افلاس سے لے کر ہماری تعلیمی اہلیت اور پاکستان میں کرپشن کے حوالے سے ہمارے مقام و فضیلت کے علاوہ امن کے وکٹری سٹینڈ پر ہماری عدم موجودگی کی نشاندہی کرتے ہوئے ہمیں کسی بے امن و بے اماں سرزمین کے حوالے سے یاد کرتا ہے۔ اِن اداروں سے ہرگز یہ گلے نہیں کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں کہ یہ اُن کی ذمہ داری ہے جسے وہ خوش اسلوبی سے سرانجام دے رہے ہیں اس سے ہمیں اپنے حکمرانوں کی کارکردگی کے ارتقائی عمل کا گراف سمجھنے میں مد د مل جاتی ہے۔ گو کہ اُس کو سمجھنے کے بعد بھی پاکستانی عوام کے پاس اپنے حکمرانو ں اور اداروں پر اعتماد ک
جائز نہیں ہے۔
افطار کی دعا
افطار کے وقت جو نیک اور جائز دعا بھی آپ مانگیں گے،اللہ قبول فرمائے گا۔قرآنی اور مسنون دعائیں اللہ کو زیادہ محبوب ہیں۔ روزہ کھلنے کے وقت کی ایک مسنون دعا ہے۔”اَللّٰھُمَّ اِنِّی لَکَ صُمتُ وَ عَلٰی رِزقِکَ اَفطَرتُ“ یعنی اے اللہ،میں نے تیری ہی رضا کی خاطر روزہ رکھا اور تیری ہی عطا کردہ روزی سے افطار کیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم افطار کے بعد یہ کلمات پڑھا کرتے تھے۔ ”ذَھَبَ الظَّمَاُ وَابتَلَّتِ العُرُوقُ وَ ثَبَتَ الاَجرُ اِن شَاءَ اللّٰہُ“ یعنی پیاس بجھ گئی، رگیں تروتازہ ہوگئیں اور اللہ نے چاہا تو اجر و ثواب ضرور ملے گا۔
end
ثواب ہے۔
امام بیہقی کی ایک روایت کے مطابق ”کسی روزے دار کا روزہ کھلوانے والے یا کسی مجاہد فی سبیل اللہ کو سامان جہاد فراہم کرنے والے کو روزے دار اور مجاہد کے برابر اجروثواب ملتا ہے جبکہ ان کے اجروثواب میں کوئی کمی نہیں کی جاتی۔“
افطار کا وقت خصوصی طور پر قبولیت دعا کا وقت ہے۔افطار سے پہلے انتظار کے لمحات میں تلاوت،ذکرالٰہی اور دعا کا اہتمام بڑی سعادت ہے۔جو خواتین اپنے کام اور سامانِ افطار تیار کرنے میں لگی ہوتی ہیں وہ اسی دوران اللہ کی حمد و تسبیح اور تکبیر پڑھتی رہیں تو انہیں بڑا اجر ملے گا۔
بہترین افطار وہ ہے، جس میں غربا و مساکین کو روزہ کھلوایا جائے۔ اسراف، نمائش اور ریاکاری نیز کھاتے پیتے لوگوں تک افطاریوں کو محدود کردینا اسلام کے بنیادی فلسفے اور روح کے منافی ہے۔افطار کی وجہ سے نماز مغرب باجماعت میں تساہل یا قیام اللّیل میں سستی
ھایا کرو کیونکہ اس میں بڑی برکت ہے“ (بروایت ابن ماجہ)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے ”سحری کھانے والوں پر اللہ رحمت فرماتا ہے اور فرشتے ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں“ (بحوالہ مسند احمد)۔ سحری آدھی رات کو کھانے کے بجائے صبح صادق سے قبل متصل وقت کھانا زیادہ افضل ہے۔یہی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا معمول تھا۔
افطار
افطار کا لفظی معنٰی روزہ کھولنا یا کھلوانا ہے۔ افطار میں تاخیر کرنا غلط ہے۔ سورج غروب ہوتے ہی فوراً افطار آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور یہی اللہ کو محبوب ہے۔ایک متفق علیہ روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”میری امت کے لوگ خیر کی حالت میں رہیں گے جب تک افطار میں جلدی کیا کریں گے“۔ افطار کرانا یعنی کسی روزے دار کا روزہ کھلوانا بہت بڑا ثواب
قیام کرے گا،اس کے بھی سارے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ جو شخص لیلۃ القدر کو ایمان و احتساب کے ساتھ قیام کرے گا اس کے سب پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ احتساب کا مطلب یہ ہے کہ صیام و قیام میں خالص اللہ کی رضا اور اجرِ آخرت مطلوب ہو اور ان تمام غلط کاموں سے صیام و قیام کو پاک رکھا جائے، جو اللہ کو نا پسند اور قیام و صیام کی روح کے منافی ہیں۔گویا جس صیام و قیام کے بدلے اتنا بڑا انعام بتایا گیا ہے وہ پوری روح کے ساتھ جلوہ گر ہو گا تو بندہ اس بشارت کا مستحق قرار پائے گا۔ محض مشقت اور چند حرکات اس کے لیے کافی نہیں۔
سحری کی فضیلت
روزہ آیت قرآنی کے مطابق تمام امتوں پر فرض رہا ہے۔یہودیوں نے روزے کے دوران سحری کو ممنوع قرار دے دیا تھا۔آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”سحری کھایا کرو کیونکہ اس
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain