ان کا ہندو مسلم تنازعات سے متعلق کہنا تھا کہ کیا ہوا اگر میں ہندو ہوں! میں مسجد کے لیے کام کرتا رہوں گا، اس کے علاوہ میں کیا کر سکتا ہوں؟
جبکہ غیر ملکی میڈیا کے مطابق بیچن بابا کی خواہش ہے کہ ان کی آخری سانس بھی اسی مسجد میں نکلے۔
وہ کہتے ہیں کہ میں گھر نہیں جاتتا ہوں، میرے بچے صبح کھانا لے آتے ہیں۔ میں پورا دن یہی گزارتا ہوں، مجھے یہاں سکون ملتا ہے۔ میرے بچے گھر پر ہی رہتے ہیں۔
نمازیوں سے متعلق بیچن کا کہنا تھا کہ اس مسجد میں 5 وقت کی نماز پڑھائی جاتی ہے، میرے والد کے وقت میں یہاں نمازیوں کی تعداد کم تھی، تاہم اب کئی گھر بن چکے ہیں اور نمازیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے
بیچن بابا مسجد کی دیکھ بھال میں اپنا پورا دن بھی لگا دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ میں یہاں گزشتہ 45 سال سے مسجد کی دیکھ بھال کر رہا ہوں۔ ہندو اور مسلم دونوں یہاں آتے ہیں اور عبادت کرتے ہیں۔
تصویر بذریعہ: جیوتی ٹھاکر
انہوں نے مزید بتایا کہ میرے والد یہاں ہوتے تھے اور ان کے بعد اب میں یہ ذمہ داری نبھا رہا ہوں۔میں یہاں بچپن سے موجود ہوں۔
انار والی مسجد کی حفاظت کا معاملہ ہو یا پھر صاف صفائی ہو، بیچن بابا کسی دوسرے پر انحصار کرنے کے بجائے کام خود سرانجام دیتے ہیں۔
ان کا
پاکستان اور بھارت میں ایسے کئی لوگ موجود ہیں، جو کہ مذہب سے بالاتر ہو کر انسانیت کی خدمت کرتے دکھائی دیتے ہیں، پاکستان میں مسلمان برادری جہاں اقلیتی برادری کے شانہ بشانہ کھڑی دکھائی دیتی ہے، بھارت میں ایسا بہت کم دکھائی دیتا ہے۔
البتہ بھارت سے تعلق رکھنے والے بیچن بابا بٹوارے سے قبل کی محبت کو آج بھی قائم رکھے ہوئے ہیں اور عام بھارتی انتہا پسندوں سے کہی گناہ بہتر ثابت ہو رہے ہیں۔
بھارتی ریاست وراناسی میں موجود مقامی مسجد اناروالی مسجد جہاں ہندو اور مسلمان ایک ساتھ عبادت کرتے ہیں، اس مسجد کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ایک ہندو شخص کر رہا ہے۔
72 سالہ ہندو کئیر ٹیکر بیچن بابا
rozó rkho uthó momño rózo rkhó
رجوع ہوکر اس کو پکارتا ہے پھر جب اس کو نعمتیں مل جاتی ہیں تب وہ اس مصیبت کو فراموش کردیتا ہے جس کے لئے وہ اس سے پہلے پکار رہا تھا اور اللہ کے لئے شریک ٹھہرانے لگتا ہے۔
اس کے بعد فرمایا: اے اہل ایمان بندو! اپنے رب سے ڈرو، جن لوگوں نے اس دنیا میں اچھے کام کئے ان کے لئے اجر ہے اور اللہ کی زمین بڑی وسیع ہے، صبر کرنے والوں کو ان کا اجر پورا ملے گا اسی طرح کی ہدایتوں اورنصیحتوں پر یہ پارہ ختم ہوتا ہے۔
تر کفار قریش ہیں، کہیں کہیں اہل ایمان سے بھی خطاب کیا گیا ہے، فرمایا: یاد رکھو خالص عبادت اللہ ہی کے لئے ہے، جن لوگوں نے اللہ کے سوا دوسرے معبود بنا رکھے ہیں (اور وہ یہ کہتے ہیں کہ) ہم اللہ تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ان کی پرستش کرتے ہیں (وہ غلط کہتے ہیں ) اللہ ایسے شخص کو ہدایت سے نہیں نوازتا جو جھوٹا ہو۔ آگے فرمایا اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حکمت سے پیدا کیا وہ رات کو دن پر اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے اور اس نے سورج چاند کو مسخر کیا ہے، ہر ایک مقررہ مدت کیلئے چلا جارہا ہے۔ پھر فرمایا کہ اگر تم کفر کرو تو اللہ تم سے بے نیاز ہے اور اللہ اپنے بندوں کے لئے کفر پسند نہیں کرتا اور اگر تم شکر کرو تو وہ تم سے راضی رہے گا اور کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ پھرفرمایا انسان پر جب کوئی آفت آتی ہے تو وہ اپنے رب کی طرف رجوع ہوکر اس کو پکارت
کی بات سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھی اور کہا کہ اگر تم اس بات پر اتفاق کرلو تو میرے جیتے جی یہ جھگڑا ختم ہوجائے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تو ان کے سامنے ایک ایسی بات رکھ رہا ہوں کہ اگر وہ اسے تسلیم کرلیں توعرب وعجم ان کے تابع فرمان ہوجائیں۔ اس کے بعد سرداران قریش مجلس سے اٹھ کر یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ چلو اور اپنے معبودوں کی پرستش کرو، یہ بات تو کسی اور ہی غرض سے کہی جارہی ہے، یہ بات تو ہم نے پچھلی ملت میں بھی نہیں سنی، یہ تو من گھڑت بات ہے، کیا ہمارے درمیان یہی ایک شخص ایسا ہے جس پر اللہ کا ذکر (قرآن) نازل کیا گیا ہے۔ اس کے بعد کچھ انبیاء کا مثلاً حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔
اگلی سورہ الزمر ہے، یہ ایک مؤثر اور بلیغ تقریرپر مشتمل ہے۔ اس کے مخاطب زیادہ تر کفا
ہم نے ایک بڑی قربانی فدیئے میں دے کر اس بچے کو چھڑا لیا تھا اور اس (واقعے کا ذکر) ہم نے بعد والوں میں چھوڑ دیا( رہتی دنیا تک اس واقعے کی یاد تازہ کی جاتی رہے گی)۔ کچھ اور انبیاء کے واقعات بھی اس سورہ میں بیان کئے گئے ہیں جو پہلے بھی گزر چکے ہیں۔
سورۂ صٓ ایک خاص واقعے کے بعد نازل کی گئی۔ جب آپؐ کے چچا ابو طالب مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو سرداران قریش نے محسوس کیا کہ اب یہ ان کا آخری وقت ہے، بہتر یہ ہے کہ ان سے چل کر بات کی جائے اور ان کے بھتیجے کا معاملہ حل کرلیا جائے۔ تقریباً پچیس سرداران قریش حضرت ابوطالب کے پاس پہنچے اور ان سے کہا کہ ہم آپ کے پاس ایک درخواست لے کر آئے ہیں، اور وہ یہ ہے کہ آپ اپنے بھتیجے سے کہیں کہ وہ ہمیں ہمارے دین پر چھوڑ دے اور وہ خود جس کی عبادت کرنا چاہے کرے، ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ حضرت ابوطالب نے قریش کی بات
کچھ واقعات مختلف پاروں میں گزر چکے ہیں، یہاں اس قصے کا یہ حصہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے اپنے رب سے دُعا کی کہ اے اللہ مجھے ایک بیٹا عطا فرما جو نیک لوگوں میں سے ہو۔ ہم نے ان کو ایک حلیم الطبع فرزند کی خوش خبری سنائی۔ جب وہ بچہ اپنے والد کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا تو ابراہیمؑ نے فرمایا کہ اے بیٹے میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تمہیں ذبح کررہا ہوں، تمہارا اس سلسلے میں کیا مشورہ ہے؟ بیٹے نے کہا اباجان آپ کو جو حکم دیا گیا ہے آپ اس کو انجام دیجئے، آپ مجھے ان شاء اللہ صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے، جب ان دونوں نے سر تسلیم خم کردیا اور ابراہیمؑ نے بیٹے کو کروٹ کے بل (ذبح کرنے کے لئے) لٹا دیا تو ہم نے ان کو آواز دی کہ اے ابراہیم تم نے خواب سچ کردکھلا یا ہے، ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں، بلاشبہ یہ سخت امتحان تھا ہم
بات لے اُڑے تو ایک تیز شعلہ ان کا پیچھا کرتا ہے۔ اس کے بعد کفار کا ذکر ہے کہ یہ تعجب کرتے ہیں اور مذاق اڑاتے ہیں اور جب ان کو نصیحت کی جاتی ہے تو نصیحت نہیں پکڑتے، اور جب ہماری کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو اس کا مضحکہ اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔ اس کے بعد کچھ انبیائے کرام کے واقعات مذکور ہیں۔ ان میں سے کچھ واقعات گزشتہ پاروں میں بھی آچکے ہیں۔ اس سورہ کا سب سے اہم اور نیا واقعہ حضرت ابراہیم ؑ کا ہے، یہ واقعہ اس لئے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ مخاطب قریش مکہ ہیں اور انہیں اپنے حسب نسب پر بڑا فخر تھا اور وہ خود کو ابراہیمی کہا کرتے تھے، اس واقعے سے مسلمانوں کو بھی یہ سبق دیا گیا کہ اسلام کی حقیقت اور روح در اصل اپنی محبوب چیزوں کو اللہ کی رضا کے لئے قربان کردینا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ابتدائی زندگی کے کچھ واقعات
کہی جارہی ہے جب مکہ میں مسلمان نہایت کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے، ان کی بڑی تعداد وطن چھوڑ کر جا چکی تھی، گنے چنے لوگ رہ گئے تھے اور ہر طرح کی تکلیفیں جھیل رہے تھے، اس وقت قرآن نے غلبے اور فتح کا اعلان کیا، جب کہ دشمنوں کو یہ اندازہ ہورہا تھا کہ یہ نیا دین ختم ہوچکا ہے۔ کچھ ہی برسوں کے بعد انہوں نے دیکھ لیا کہ یہ کمزور اور بے بس مسلمان محض اللہ کی مدد اور نصرت سے فاتحانہ مکہ میں داخل ہوئے۔ سورہ کا آغاز فرشتوں کے ذکر سے ہوا ہے، فرمایا: قسم ہے ان فرشتوں کی جو قطار در قطار صف بستہ رہتے ہیں، پھر ان فرشتوں کی جو ڈانٹتے پھٹکارتے ہیں، پھر ان فرشتوں کی جو ذکر الٰہی کرنے والے ہیں۔ آگے شیاطین کا تذکرہ ہے کہ وہ (شیاطین) عالمِ بالا کی طرف کان نہیں لگا سکتے اور اُن پر ہر طرف سے (انگارے) پھینکے جاتے ہیں، تاہم اگر ان میں سے کوئی بات لے اُڑے تو ایک تی
غرق کردیں تب، نہ کوئی فریاد سننے والا ہوگا اور نہ کوئی انہیں بچاپائے گا بہ جز ہماری رحمت کے اسی سے یہ پار لگتے ہیں اور ایک خاص مدت تک (دنیا میں زندہ) رہتے ہیں۔ آگے قیامت کا ذکر ہے کہ ایک صور پھونکا جائے گا تو سب کے سب قبروں سے اٹھ کھڑے ہونگے اور کہیں گے ہائے ہماری بدقسمتی ہمیں کس نے قبروں سے اٹھا کر کھڑا کردیا ہے (اس وقت ان سے کہا جائے گا) اس کا وعدہ خدائے رحمٰن نے کیا تھا اور پیغمبروں نے جو بھی کہا تھا سچ کہا تھا۔ اس طرح کے مضامین پرسورۂ یٰسین ختم ہوئی۔
سورہ الصفٰت کے مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مکی دور کے بالکل آخر میں نازل ہوئی۔ اس سورہ کے ذریعے کفار کو آگاہ کیا گیا کہ تم ہمارے پیغمبر کا مذاق نہ اڑاؤ۔ عن قریب وہ تم پر غالب آجائیں گے اور تم خود اپنے گھروں کے اندر اللہ کے لشکر کو اترتا ہوا دیکھو گے۔ یہ بات اس وقت کہی جارہی ہے جب
پیدا کئے خواہ وہ زمین کی نباتات سے تعلق رکھتے ہوں یا خود ان کی اپنی ذات سے، یا ان چیزوں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں ہیں، ان کے لئے ایک نشانی رات ہے، ہم اس کے اوپر سے دن ہٹا دیتے ہیں تو تاریکی چھا جاتی ہے اور ایک نشانی سورج ہے جو اپنے ٹھکانے کی طرف رواں ہے، یہ اندازہ ایک زبردست ہستی کا باندھا ہوا ہے اور ایک نشانی چاند ہے اس کیلئے ہم نے منزلیں مقرر کردی ہیں، یہاں تک کہ وہ ان منزلوں میں گزرتا ہے اور (پھر) کھجور کی شاخ کی مانند (پتلاسا) رہ جاتا ہے، نہ سورج چاند کو پکڑ سکتا ہے اور نہ رات دن سے آگے بڑھ سکتی ہے، یہ سب اپنے اپنے دائرے میں گھوم رہے ہیں، ان کے لئے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ ہم نے ان کی ذریت کو ایک بھری ہوئی کشتی میں سوار کردیا اور کشتی جیسی اور بھی چیزیں ہم نے پیدا کی ہیں جن پر وہ سوار ہوتے ہیں اگر ہم چاہیں تو ان کو غرق کردیں تب، نہ کوئی
بستی کا مصداق مشہور شہر انطاکیہ کو قررا دیا ہے) کہ اس میں کئی رسول آئے (پہلے) ہم نے ان کے پاس دو رسول بھیجے اور انہوں نے دونوں کو جھٹلادیا، پھر ہم نے تیسرا رسول مدد کے لئے بھیجا، انہوں نے کہا ہم تمہارے پاس رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں انہوں نے کہا کہ تم تو ہمارے ہی جیسے انسان ہو، اللہ نے (تمہارے ساتھ تمہاری شناخت کیلئے ) کوئی چیز نازل بھی نہیں کی ہے تم تو جھوٹے معلوم ہوتے ہو۔
آگے قدرت کی کچھ نشانیاں بیان کی جارہی ہیں، فرمایا: ان لوگوں کے لئے ایک نشانی مردہ زمین ہے، ہم نے اس کو زندگی بخشی اور اس سے غلہ نکالا جس سے لوگ کھاتے ہیں، اسی زمین میں کھجوروں اور انگوروں کے باغات لگائے اور اس کے اندر چشمے جاری کئے، تاکہ لوگ ان (باغوں ) کے پھل کھائیں، یہ سب کچھ ان کے ہاتھوں کا پیدا کیا ہوا نہیں ہے، پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کئے خواہ
قرآن حکیم کی یقیناً آپ رسولوں میں سے ہیں، سیدھے راستے پر ہیں، یہ قرآن اللہ کا نازل کردہ ہے جو زبردست بھی ہے اور مہربان بھی ہے، تاکہ آپ ایسے لوگوں کو ڈرائیں جن کے آباءو اجداد خبر دار نہیں کئے گئے تھے، اسی لئے وہ اس سے غفلت میں ہیں، پھر فرمایا کہ ان کا حال تو اب یہ ہوگیا ہے کہ ان کے حق میں آپ کا ڈرانا اور نہ ڈرانا دونوں برابر ہیں، آپ تو صرف ایسے شخص کو ڈرا سکتے ہیں جو نصیحت پر عمل کرے، بے دیکھے خدائے رحمٰن سے ڈرے، ایسے شخص کو آپ مغفرت اور اجر کریم کی خوش خبری سنا دیجئے، ہم یقیناً ایک روز مردوں کو زندہ کرنے والے ہیں اور ہم وہ سب اعمال لکھتے جارہے ہیں جو لوگ آگے بھیج رہے ہیں اور جو پیچھے چھوڑ رہے ہیں، ہم نے ہر چیز کا احاطہ ایک کھلی کتاب میں کررکھا ہے، آپ انہیں مثال کے طور پر اسی بستی کے لوگوں کا قصہ سنائیں (اکثر مفسرین نے اس بستی کا م
یٰسین کو قرآن کریم کا دل کہا گیا ہے کیوں کہ اس میں اسلام کی دعوت پرُزور طریقے پر پیش کی گئی ہے اور اس میں پورے قرآن کریم کا خلاصہ بھی آگیا ہے اس سورہ میں قریش سے کہا گیا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئیں اور ان کے ساتھ استہزاء وتمسخر نہ کریں، ورنہ دردناک انجام سے دو چار ہونا پڑے گا، اس تہدید کے ساتھ ساتھ عقلی دلائل کے ذریعے سمجھا یا بھی گیا ہے، مثلاً توحید پر کائنات کے آثار سے استدلال کیا گیا ہے، انسان کے وجود سے آخرت کے وجود کا ثبوت پیش کیا گیا ہے اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی صداقت پر اس امر سے استدلال کیا گیا ہے کہ اللہ کے رسول تمہیں راہ راست پر لانا چاہتے ہیں اس میں ان کی کوئی غرض یا مفاد تو ہے نہیں، جو بھی کررہے ہیں بے غرضی کے ساتھ کررہے ہیں۔ سورہ کے شروع میں فرمایا گیا کہ قسم ہے قرآن حکی
ہر صاحب نصاب کی ذمہ داری ہے کہ وہ خوش دلی سے سال بہ سال اپنی زکاۃادا کرے،زکاۃ ادا کرنے میں ٹال مٹول نہ کرے،اپنے مستحق رشتے داروں سے تعاون کا آغاز کرے اور اچھے سے اچھا مال راہ خدامیں صرف کرے۔شہرت و ریا کاری اور احسان جتلانے کے ذریعہ اپنی اس عبادت کو باطل نہ کرے؛بل کہ لینے والے کو اپنا محسن سمجھے اور نبی پاک ﷺ کا یہ فرمان ملحوظ خاطررکھے: صدقہ دیا کرو !ایک ایسا زمانہ بھی تم پر آنے والا ہے جب ایک شخص اپنے مال کا صدقہ لے کر نکلے گا اور کوئی اسے قبو ل کرنے والا نہیں پائے گا۔ (جس کے پاس صدقہ لے کر جائے گا) وہ یہ جواب دے گاکہ اگرتم کل اسے لائے ہو تے تو میں اسے قبول کرلیتا آج تو مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔(بخاری)
قرآن کریم میں عمدہ مال سے صدقہ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور گھٹیا مال سے صدقہ کرنے کو ناپسندکیاگیاہے؛ چنانچہ ایک جگہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے : ’’تم نیکی کے مقام تک اس وقت تک ہرگز نہیں پہنچو گے، جب تک ان چیزوں میں سے (اللہ کے لیے) خرچ نہ کرو، جو تمہیں محبوب ہیں ‘‘۔(آل عمران)اور دوسری جگہ ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو! جو کچھ تم نے کمایا ہو اورجو پیداوار ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالی ہو اس کی اچھی چیزوں کا ایک حصہ (اللہ کے راستے میں ) خرچ کیا کرو، اور یہ نیت نہ رکھو کہ بس ایسی خراب قسم کی چیزیں (اللہ کے نام پر) دیا کرو گے، جو (اگر کوئی دوسرا تمہیں دے، تو نفرت کے مارے) تم اسے آنکھیں میچے بغیر نہ لے سکو۔‘‘(بقرۃ)
رحمی کا، جیساکہ اس مفہوم کی متعدد روایتیں حضور اکرم ﷺ سے منقول ہیں ۔نیز کسی تحفے یا ہدیے کے شکل میں بھی مذکورہ رشتہ داروں کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے،بس ادائیگی کے وقت زکوٰۃ کی نیت ہونی چاہیے۔
حاجت مندوں کی حاجت کا خیال کیجیے!
زکوۃ کے حوالے سے ایک کوتاہی یہ بھی چلی آرہی ہے کہ کچھ زکوۃ ادا کرنے والے ضرورت مندوں کی ضرورت کوپیش نظر رکھنے کے بجائے اپنی خواہش کو ترجیح دیتے ہیں اور بڑی مقدار میں بازار سے سستے کپڑے اور دیگر(کم ضروری)چیزیں ہول سیل میں خریدلاتے ہیں ،پھر انھیں اعلان کے ذریعہ مستحقین اور غیرمستحقین سب کے درمیان تقسیم کردیتے ہیں اور بہ زعم خویش فریضۂ زکوۃ سے عہدہ بر آہوجاتے ہیں ؛حالانکہ فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق زکوۃ و صدقات کے سلسلے میں فقرا ء ومساکین کی منفعت ملحوظ رکھنی چاہیے۔نیزقرآن کریم میں عمدہ مال
کیا ہے۔اکثرلوگ یہاں کوتاہی کاارتکاب کرتے ہیں : یاتو رشتے داروں کا بالکل تعاون نہیں کرتے یا رشتے داروں کا حق ادا کرکے ان پر احسان جتاتے اور ان کی عزت نفس کو مجروح کرتے ہیں ، ا س طرح اپنی نیکی کو بھی برباد کرلیتے ہیں ؛اسی لیے ایک رشتے دار باوجود غریب اور ضرورتمند ہونے کے اپنے کسی مال دار رشتے دار کا مالی تعاون لینے سے بالعموم گریز کرتا ہے۔یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ آج کل خاندان کے بعض افراد توعیاشی سے زندگی بسر کرتے ہیں اور انہی کے کئی رشتہ دار روٹی، کپڑے اور چھت کو ترستے ہیں ۔لہذاسب سے پہلے رشتہ داروں مثلاًبھائی، بہن، بھتیجا، بھتیجی، بھانجا، بھانجی، چچا، پھوپھی، خالہ، ماموں ، ساس، سسر،داماد وغیرہ میں سے جو حاجت مند اور مستحق زکوٰۃ ہوں ، انھیں زکوٰۃ دینی چاہیے؛ اس لیے کہ ان کو دینے میں دوہرا ثواب ملتاہے، ایک ثواب زکوٰۃ کا اور دوسرا صلہ رح
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain