Damadam.pk
MushtaqAhmed's posts | Damadam

MushtaqAhmed's posts:

MushtaqAhmed
 

جائے۔اسی طرح کسی خاتون کا بیوہ ہونا اس کو مصارف زکوۃ کی فہرست میں نہیں داخل کرتا۔بہت سی بیوائیں سونے چاندی کے زیورات کی مالک ہونے کے سبب خود صاحب نصاب ہوتی ہیں ،ان کو زکوۃ دینے سے زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔
رشتے داروں کا حق مقدم ہے!
عام طور پر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ مال وثروت رکھنے والے احباب ملی اور رفاہی اداروں کے تعاون میں تو بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے ہیں ،جو اچھی بات ہے؛مگر اپنے ہی خاندان اور قریبی رشتہ داروں کی خبرگیری نہیں کرتے،جب کہ تعاون و امداد کے اولین حق دار یہی لوگ ہیں ۔ارشاد باری ہے: بے شک اللہ تعالی عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کو دینے کاحکم دیتا ہے۔(النحل)آیت کریمہ سے پتہ چلتاہے کہ رشتے داروں کے ساتھ امداد وتعاون کا معاملہ کرنا ان پراحسان نہیں ہے؛ بلکہ یہ وہ حق ہے جو اللہ نے اصحاب حیثیت پر ان کے رشتے داروں کے سلسلے میں عائد کیا ہ

MushtaqAhmed
 

نہیں ہے تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔اسی طرح پیشہ ور گداگروں کو زکوۃدینے سے بچنا چاہیے؛کیوں کہ جس آدمی کے پاس ایک دن کا کھانا ہو اور ستر ڈھانکنے کے لیے کپڑا ہو اس کے لیے لوگوں سے مانگناجائز نہیں ہے، اسی طرح جو آدمی کمانے پر قادر ہو اس کے لیے بھی سوال کرنا جائز نہیں ؛ البتہ اگر کسی آدمی پر فاقہ ہو یا واقعی کوئی سخت ضرورت پیش آگئی ہو جس کی وجہ سے وہ انتہائی مجبوری کی بنا پر سوال کرے تو اس کی گنجائش ہے؛ لیکن مانگنے کو عادت اور پیشہ بنالیناحرام ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص بلا ضرورت مانگتا ہے تو قیامت کے دن اس کا یہ مانگنا اس کے چہرے پر زخم بن کر ظاہر ہوگا۔لہٰذاجن کے بارے میں علم ہو کہ یہ پیشہ ور بھکاری ہیں تو ایسے افراد کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے؛ تاہم اس میں متکبرانہ انداز اختیار نہ کیا جائے، انھیں جھڑکا نہ جائے؛ بلکہ طریقے سے معذرت کرلی ج

MushtaqAhmed
 

خواہ ایک پر صرف کرے خواہ دو پر خواہ زیادہ پر یہ اس کے اپنے اختیار میں ہے۔
تیسری شرط مالک بنانا: مستحق کو مالک بنانا بھی ضروری ہے،مالک نہیں بنایا، صرف اباحت کردی تو زکوۃ ادا نہیں ہوگی؛ مثلاً کسی غریب کو گھرپہ بلا کر کہا جتنا چاہے کھانا کھالو تو یہ مالک بنانا نہیں ہے؛ بلکہ اباحت ہے اس سے زکوۃ ادا نہ ہوگی۔
حقیقی مستحق تک زکوۃ پہنچائیے!
زکوٰۃ دینے والوں کو ادائیگی زکوٰۃسے قبل اچھی طرح تحقیق کرلینی چاہیے کہ کیایہ شخص واقعی زکوٰۃ کا مستحق ہے؟ کیا یہ ادارہ اپنا خارجی وجودد رکھتاہے؟ ان کے یہاں زکوٰۃ کے مصارف ہیں بھی یا نہیں ؟ اگر کسی وجہ سے خود تحقیق نہ کرسکیں تو معتبرعلماء اور اداروں کی تحقیق پر اعتماد کرسکتے ہیں ؛ لیکن بہتر یہی ہے کہ خود تحقیق کرکے مطمئن ہوجائیں ، اگر بلا تحقیق زکوٰۃ دے دی؛ حالاں کہ وہ شخص یا ادارہ زکوٰۃ کا مستحق نہیں ہے تو زک

MushtaqAhmed
 

کی نوبت آتی ہے۔
6:غارم سے مراد مَدیون (مقروض) ہے یعنی اس پر اتنا قرض ہو کہ اسے نکالنے کے بعد صاحب نصاب باقی نہ رہے۔
7:فی سبیل اللہ کے معنی ہیں راہِ خدا میں خرچ کرنا، یہ ایک و سیع ا لمعنیٰ لفظ ہے، دین کی خا طر اور اللہ تعا لیٰ کی ر ضا کے لیے جو محنت و مشقت کی جا ئے وہ اس کے مفہوم میں دا خل ہے، لہٰذا دین کے تما م شعبوں میں کا م کر نے وا لے ضرورت مند افر اد (غازی،حاجی،طالب علم)اس کا مصد اق ہیں ۔
8:ابن سبیل سے مراد وہ مسافر شخص ہے، جس کے پاس چاہے اپنے وطن میں نصاب کے برابرمال موجود ہو؛ لیکن سفر میں اس کے پاس اتنے پیسے نہ رہے ہوں ، جن سے وہ اپنی سفر کی ضروریات پوری کر کے واپس وطن جاسکے۔(مستفاد از معارف القرآن)
احناف کے نزدیک ان میں سے کسی بھی مصرف میں زکوٰۃ دینے سے ادائیگی ہوجائے گی اور دینے والا دینی فریضہ سے سبک دوش ہوجائے گا، خواہ ایک پ

MushtaqAhmed
 

عامل کے لیے فقیر ہوناشرط نہیں ہے۔
4:مؤلفۃالقلوب یعنی وہ لوگ جن کی دل جوئی کے لیے ان کو صدقات دیئے جاتے تھے، ان میں مسلم اور غیر مسلم دونوں طرح کے لوگ تھے، غیرمسلموں کی دل جوئی اور اسلام کی ترغیب کے لیے اور نومسلموں کی دل جوئی اور اسلام پر پختہ کرنے کے لیے زکوۃ دی جاتی تھی۔رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد جب اسلام کو مادی قوت بھی حاصل ہوگئی اور کفار کے شر سے بچنے اور نومسلموں کو اسلام پر پختہ کرنے کے لیے اس طرح کی تدبیروں کی ضرورت نہ رہی تو وہ علت اور مصلحت بھی ختم ہوگئی، اس لیے اب ان کا حصہ بھی ختم ہوگیا۔
5:رِقاب سے مراد وہ غلام ہے،جس کو آقا نے مال کی کوئی مقدار مقرر کرکے کہہ دیا کہ اتنامال کماکر ہمیں دو تو تم آزد ہو، اس کو فقہاء کی اصطلاح میں مکاتب غلام کہا جاتا ہے؛ لیکن واضح رہے کہ اب نہ غلام ہیں اور نہ اس مدّ میں اس رقم کے صرف کرنے کی نو

MushtaqAhmed
 

نیت کی گئی تو ایسی نیت شرعاً معتبر نہیں ، اور نہ ہی اس طرح سے زکاۃادا ہوتی ہے۔
دوسری شرط ضرورت مند کو ددینا:سورۃالتوبہ کی آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے آٹھ (8) ایسے لوگ بتائے ہیں جن کوزکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔ یہ مصارف زکوٰۃ کہلاتے ہیں ، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
1: فقیریعنی وہ شخص جس کے پاس کچھ مال ہے؛ مگر اتنا نہیں کہ نصاب کوپہنچ جائے یا مال تو بقدرِ نصاب ہے؛ مگر ضروریات اصلیہ کے علاوہ نہیں ہے، اور ضروریات میں رہنے کا مکان، پہننے کے کپڑے، استعمال کے برتن وغیرہ سب داخل ہیں ۔
2:مسکین یعنی وہ شخص جس کے پاس کچھ نہ ہو، یہاں تک کہ وہ کھانے اوربدن چھپانے کے لیے اس کا محتاج ہے کہ لوگوں سے سوال کرے۔
3:عامل یعنی وہ شخص جو اسلامی حکومت کی طرف سے صدقات، زکوٰۃ اور عشرلوگوں سے وصول کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہو، واضح رہے کہ

MushtaqAhmed
 

مکمل ملکیت کا ہونا، غیرمقبوض مال پر بھی زکوۃ فرض نہیں ۔ ۶:صاحب نصاب ہونا(جس کا ابھی ذکرہوا)۔ ۷: مال کا حاجت اصلیہ (روٹی کپڑا اورمکان وغیرہ) سے زائد ہونا۔ ۸:اتنا مقروض نہ ہو ناکہ اگر قرض اداکیا جائے تو آدمی صاحب نصاب ہی نہ رہے۔ ۹:’’مال نامی‘‘ یعنی بڑھنے والا مال ہونا،جس کی قیمت بڑھتی رہتی ہو جیسے سونا چاندی غیرہ۔۰ ۱: نصاب پر پورے سال کا گزرنا۔
زکوۃ کے صحیح ہونے کی تین شرطیں :
زکوۃ کے صحیح ہونے کے لیے علماء کرام نے تین شرطیں بتلائی ہیں ۔اگر یہ شرطیں اکٹھی پائی جائیں گی تو زکوۃ ادا ہوگی ورنہ نہیں ۔
پہلی شرط نیت کرنا: نیت کے بغیر زکوۃ ادا نہیں ہوتی،نیت دل کے ارادے کا نام ہے، زبان سے زکوۃ کہہ کردیناضروری نہیں ، زکاۃکی ادائیگی کے لیے رقم دیتے وقت یا رقم کو جدا کرکے رکھتے وقت نیت کرناضروری ہے۔ اگر رقم دینے کے بعد زکاۃکی

MushtaqAhmed
 

ہے؛چناں چہ شرعی اعتبار سے ہر اس مسلمان مردوعورت پر زکوۃ فرض ہے،جو صاحب نصاب ہو یعنی 613 گرام چاندی یا ساڑھے ستاسی (87.5)گرام سونے کا مالک ہو اور اگردونوں چیزیں اس مقدار سے کم ہوں تو ان دونوں کی قیمت 613 گرام چاندی کے برابرہوجائے یا نقد روپے یا تجارت کا سامان 613 گرام چاندی کی قیمت کے برابر ہو اور اگرسب چیز یں تھوڑی تھوڑی ہوں تو ان سب کی قیمت ملاکر 613 گرام چاندی کی قیمت کے برابر ہوجائے تو اس پر پورا ایک سال گذرجانے کے بعد (2.5%) ڈھائی فیصد زکاۃ اداکرنا واجب ہوتا ہے۔
فقہاء کرام کے مطابق زکوۃ کے فرض ہونے کے لیے دس شرائط ہیں :۱: مسلمان ہونا، کافر پر زکوۃ فر ض نہیں ۔۲: آزاد ہونا، غلام پر زکوۃ فرض نہیں ۔۳: بالغ ہونا، بچے پر زکوۃ فرض نہیں ۔ ۴: عاقل ہونا، مجنون اور دیوانے پر بھی زکوۃ فرض نہیں ۔ ۵: مکمل ملکیت کا ہونا،

MushtaqAhmed
 

مال و دولت اللہ تعالیٰ کی عطا ہے؛اس لیے اسے کلی اختیار ہے کہ وہ انسان کو اس بات کا پابند بنائے کہ کہاں سے کس طرح کما یا جائے اور کہاں کس طرح خرچ کیا جائے۔ زکوۃ ایک اہم ترین مالی عبادت اور اسلام کا بنیادی فریضہ ہے،جسے ہم دردی و غم خواری کے جذبے کو پروان چڑھانے، دولت کی منصفانہ تقسیم کو رواج دینے اور حب مال و دولت پرستی کے زہریلے اثرات سے نفس کوپاک کرنے کے لیے فرض کیا گیا ہے۔ انسانی معیشت کے استحکام و مضبوطی اور فرد و معاشرے کی ظاہری ترقی میں مال ودولت کا کلیدی کردار رہاہے، جس طرح انسان کے دوران خون میں ذرہ برابر فرق آجائے توزندگی کو خطرہ لاحق ہوتاہے، ایسے ہی اگر گردشِ دولت منصفانہ وعادلانہ نہ ہوتومعاشرتی زندگی کو خطرہ لاحق ہوسکتاہے۔ اسی خطرہ کو زائل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے زکوۃ وصدقات کا نظام قائم فرمایا ہے؛چناں چہ شرعی اعتبار سے ہر اس م

MushtaqAhmed
 

ے زیادہ امکان ہے کہ یہ روحانی نشانیاں ہیں، عالمگیر نہیں اور ہر سال نہیں ہوتیں”۔ انہوں نے زور دیا کہ "یہ سائنسی طور پر ثابت نہیں ہوا ہے کہ سورج سال کے کسی بھی دن اپنی کرنوں کے بغیر طلوع ہوتا ہے”۔ لیلۃ القدر کے تعین کے بارے میں فقہاء میں اختلاف ہے۔ علماء کے درمیان موجودہ اختلاف کے پیش نظر مسلمان کو آخری عشرہ کی طاق راتوں میں اس کی تلاش کی تجویز دی جاتی ہے۔
end

MushtaqAhmed
 

ا کہ سال کی سب سے اہم رات قرآن کریم کے نزول کی رات ہے۔ اسی لیے رب العزت نے اسے ’لیلۃ القدر‘ کہا۔ اُنہوں نے اپنے ایکس اکاونٹ پر ایک بصری کلپ بھی شیئر کیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ "روایت میں بتایا گیا ہے کہ لیلۃ القدر میں کائناتی، فلکیاتی اور موسمی علامات ہیں، جن میں اس کی شعاعوں کے بغیر طلوع آفتاب بھی شامل ہے۔ یہ ایک پرسکون رات ہو گی جو نہ بہت زیادہ گرم اور نہ ہی سرد ہوگی‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ "علماء کے درمیان یہ سب سے زیادہ امکان ہے کہ یہ روحانی نشانیاں ہیں، عالمگیر نہیں اور ہر سال نہیں ہوتیں”۔ انہوں نے زور

MushtaqAhmed
 

ماہ رمضان کے آخری عشرہ میں مسلمان ’لیلۃ القدر‘ کی تلاش شروع کر دیتے ہیں۔ لیلۃ القدر کو سب سے زیادہ فضیلت والی رات قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ مسلمان اس رات کی تلاش ذوقِ عبادت اور شوقِ قربت خداوندی کے لیے انتہائی زور شور سے کرتے ہیں۔ مسلمان اس رات کی تلاش کے لیے مختلف علامتوں پر بھی غور کرتے ہیں اور یہ مسلسل جاننے کی کوشش میں رہتے ہیں کہ لیلۃ القدر کی نشانیاں کیا ہیں؟ اس حوالے سے سعودی ماہر فلکیات خالد الزعاق نے ایک عرب ویب سائٹ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ’لیلۃ القدر‘ کے ساتھ کائناتی، فلکیاتی اور موسمی علامات بھی وابستہ ہیں۔ الزعاق نے کہا کہ گزشتہ ہفتہ کی رات دس راتوں میں سے پہلی رات تھی اور لیلۃ القدر کے لیے سب سے زیادہ امکان والی رات تھی۔ الزعاق نے کہا کہ سال کی

Beautiful People image
M  : Hi ker ahy tosa gd🙋 - 
MushtaqAhmed
 

برتری ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قائم ہوجائے گی۔‘
’بہت سے مسیحی علما اسرائیل کے قیام اور اس کی علاقے میں برتری کو ان حالات کے پیدا ہونے کا اظہار سمجھتے ہیں جن کا ذکر وہ اپنی مذہبی روایات میں دیکھتے ہیں۔ مسلمان بھی کم و بیش ان روایات سے یہی مطلب لیتے ہیں۔‘endd

MushtaqAhmed
 

(پیغمبر اسلام) فتنۂ مسیح دجال سے خود بھی خدا کی پناہ مانگتے تھے اور اپنی اُمت کو بھی پناہ مانگنے کی تلقین فرماتے تھے۔‘
نعیم بلوچ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی کثیر روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے قریب جب دجال کا ظہور ہو گا تو اسے حضرت عیسیٰ قتل کریں گے۔ یوں مسلمانوں کے نزدیک یہ تمام الہامی مذاہب پر ان کی فتح ہو گی۔‘
یہودیت کے ماننے والوں کے مطابق ’کافر‘ بادشاہ کا نظام ختم ہوگا۔
صحیفہ دانیال کی آیات ہیں: ’جو ہونا ہے اس کا فیصلہ خدا کی عدالت کرے گی اور اس (کافر) بادشاہ سے اس کی حکومت چھین لی جائے گی۔ اس کی سلطنت کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا۔ پھر خدا کے مقدس لوگ اس مملکت پر حکومت کریں گے۔‘
نعیم بلوچ کا کہنا ہے کہ ’مسیحیوں کے نزدیک ضد مسیح کے قتل سے مسیح کی برتری

MushtaqAhmed
 

کشادہ پیشانی والا، گھنگریالے بالوں والا شخص ہے، جس کی ایک آنکھ نہیں ہے۔ دوسری آنکھ ایسی ہے، جیسے وہ انگور کا ابھرا ہوا دانہ ہو۔ وہ چوڑے سینے والا ہے، اُس کی شخصیت میں کچھ بدصورتی سی ہے اور وہ سب سے بڑھ کر جھوٹا ہوگا۔‘
اور یہ کہ ’دجال اُس مشرقی علاقے سے نکلے گا، جسے خراسان (عراق سے لے کر ہندوستان کی سرحدوں تک پھیلے ہوئے وسیع علاقے کا قدیم نام، اصفہان بھی اس شامل ہے) کہا جاتا ہے۔ اُس کی پیروی ایسے لوگ کریں گے جن کے چہرے ڈھالوں کی طرح چوڑے (یاجوج و ماجوج میں سے) ہوں گے۔‘
’مسیح دجال مشرق کی طرف سے آئے گا اور اُس کا عزم مدینہ کا ہوگا۔ (وہ قریب پہنچے گا)، یہاں تک کہ احد پہاڑ کے پیچھے آکر پڑاؤ ڈال دے گا۔ پھر خدا کے فرشتے اُس کا رخ شام کی طرف پھیر دیں گے اور وہ وہیں ہلاک ہوجائے گا۔‘
اِسی بنا پر آپ (پیغمبر اسلام)

MushtaqAhmed
 

وحید الدین خان کے نزدیک دجال سے مراد ایک ایسا دھوکے باز ہے جو ذہنی وفکری گمراہی پیدا کرے گا نہ کہ انوکھی صفات کا حامل شخص جو فتنہ وفساد برپا کرے گا۔
وہ ماہنامہ الرسالہ میں لکھتے ہیں کہ دجال اپنا یہ کام تلوار کے ذریعے نہیں کرے گا۔
’دھوکا دینا، دلیل کے ذریعے ہوتا ہے، نہ کہ تلوار کے ذریعے۔ چنانچہ، دجال علم اور دلائل کے زور پر لوگوں کو بہکائے گا۔ وہ لوگوں کو ذہنی گمراہی میں مبتلا کرے گا۔‘
ڈاکٹر محمد عامر گزدر ’علاماتِ قیامت‘ کے ضمن میں پیغمبر اسلام کی بعض حدیثوں کے حوالے سے دجال کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’کوئی اور مخلوق ایسی نہیں ہے، جو اپنی فتنہ پردازی میں دجال سے بڑھ کر لوگوں پر حاوی ہو سکتی ہو۔‘
’مسیح دجال ایک کشادہ پیشانی

MushtaqAhmed
 

قیامت کی نشانیوں کے ضمن میں آیا ہے۔
اسلامی عالم اور محقق جاوید احمد غامدی اپنی کتاب 'میزان' میں لکھتے ہیں کہ لفظ دجال بڑے دغاباز، فریبی اور مکار کے معنی میں اسمِ صفت ہے۔
’اس کا ذکر’المسیح الدجال‘ کے نام سے بھی ہوا ہے۔ اس کے معانی یہ ہیں کہ قیامت سے پہلے کوئی شخص مسیح ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرے گا اور یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے اندرسیدنا مسیح علیہ السلام کی آمد کے تصورسے فائدہ اٹھا کراپنے بعض کمالات سے لوگوں کو فریب دے گا۔‘
’بعض روایتوں میں ہے کہ یہ ایک آنکھ سے اندھا ہو گا اور ایمان والوں کے لیے اس کا دَجَل (ملمع یا دھوکا) اس قدر واضح ہوگا کہ اس کی پیشانی پر گویا کفر لکھا ہوا دیکھیں گے۔‘
اسلامی عالم وحید الدین خان

MushtaqAhmed
 

ی چالوں کا مقابلہ کریں گے، اورایسی بڑی مصیبتیں آئیں گی جو دنیا کی ابتدا سے لے کر اب تک کبھی نہیں آئیں۔‘
’مختص کیے گئے ساڑھے تین سال کے اختتام پر، تاہم، دجال مسیح کی طاقت سے تباہ ہو جائے گا، جس کے بعد، بہت ہی مختصر وقفے کے بعد، آخری فیصلہ اور دنیا کا خاتمہ ہوگا۔‘
لرنر کہتے ہیں کہ بعد میں اینٹی کرائسٹ کا تصورمسیح کی مخالفت کرنے والوں کے معنوں میں بھی سامنے آیا۔ اور اس واہمے نے بھی جنم لیا کہ کریڈٹ کارڈ اور الیکٹرانک بارکوڈز معصوم لوگوں پر اینٹی کرائسٹ یا ضد مسیح کی مکاشفہ کے مطابق نشانی 666 لگانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
نعیم احمد بلوچ کے مطابق دجال کا ذکراسلامی روایات میں قرب قیامت کی نشانیوں

MushtaqAhmed
 

نے کی چمک‘ سے تباہ کر دیں گے (2:8)‘۔
اینٹی کرائسٹ کے بارے میں قرون وسطیٰ کا نظریہ ایڈسو، ریپلن، اور بہت سے دوسرے مصنفین نے اس اصول پر قائم کیا کہ وہ ہر چیز میں مسیح کے متضاد مخالف ہے۔
لرنر نے ان سے یہ اخذ کیا کہ ضد مسیح اپنی چالوں سے پیروکار حاصل کرے گا۔ اس کی بالا دستی ساڑھے تین سال رہے گی۔ مسیح کی طرح، دجال یروشلم میں آئے گا، لیکن، مسیح کے برعکس، یہودی اس کی جوش و خروش سے تعریف اور تعظیم کریں گے۔
’اپنے دور حکومت میں وہ ہیکل کو دوبارہ تعمیر کرے گا اور سلیمان کے تخت پر بیٹھے گا۔ وہ زمین کے حکمرانوں کو اپنے مقصد کی جانب بدل دے گا اور مسیحیوں کو خوفناک طریقے سے ستائے گا۔ ان تمام لوگوں کو اذیت دی جائے گی جو اس کی چالوں کا