Damadam.pk
MushtaqAhmed's posts | Damadam

MushtaqAhmed's posts:

MushtaqAhmed
 

ے۔ وہ بھی چپ سادھ کر بیٹھ گئے۔
"فقیر اس لڑکی کو اپنے باپ کے پاس لے گئے۔ اس کے عقلمند باپ نے اس لڑکی کو ان چھ بھائیوں کی بہن بنا دیا۔"
اس کے باپ بادشاہ کے آنکھوں سے جھل جھل آنسو بہہ رہے تھے۔ دونوں بادشاہوں نے ہیرے جواہرات کے ڈھیر ان کے سامنے لگا دئیے کہ خدارا داستان کو جاری رکھو۔
" لڑکی کو کسی طرح پتا چلا کہ یہ اس کے باپ بادشاہ کا ملک ہے۔ اسے پتا تھا کہ اس کے باپ کو داستان سننے کا بہت شوق ہے۔ اس نے اپنے بھائیوں کے ذریعے بادشاہ کو کہلوا بھیجا کہ اگر اسے منظور ہو تو آ کے اسے داستان سنائے۔"
یہاں پہنچ کر اس کے باپ بادشاہ کا دل چُور چُور ہو گیا۔ وہ ایک فریاد مار کر اٹھ کھڑا ہو گیا۔ شہزادی نے بھی اپنے چہرے سے نقاب اٹھا دی تو اس کے شوہر بادشاہ نے بھی شہزادی کو پہچان لیا۔ باپ، بیٹی کو اور شوہر، بیوی کو پا کر بے طرح خوش ہو گئے۔

MushtaqAhmed
 

وں گیا اور یوں آیا۔"
بادشاہ نے وکیل پر آنکھیں نکالا۔" بس کر بد ذات، اور خاموشی سے بیٹھ۔ جب حقیقت ظاہر ہو رہی ہے تو تم لوگوں کو حاجت پیش آ رہی ہے۔" وکیل بھی خاموشی سے بیٹھ گیا۔
"تیسرے منزل پر قاضی بھی اللہ رسول کو بھول کر بدی کے لیے لڑکی کو تنگ کرنے لگا اور اس ظالم نے اس کے تیسرے بیٹے کا سر قلم کیا۔ لڑکی نے پھر اپنی عزت بچائی۔ اور بھاگ کر ایک بڑے دریا میں کود گئی۔"
قاضی نے بھی کوئی بہانہ بنانے کی کوشش کی لیکن بادشاہ نے اسے بھی ڈانٹ کر چپ کرا دیا۔
"دریا نے لڑکی کو کہیں دور لے جا کر دوسری طرف پھینک دیا جہاں اسے چھ فقیروں نے دیکھا اور اسے دریا سے نکالا۔" اب فقیر بھائیوں کی گھگھی بند ہو گئی کہ ہو نہ ہو یہ ہماری بہن کا قصہ ہے۔ وہ بھی چپ سادھ کر بیٹھ گئے۔
"فقیر اس لڑکی کو اپنے باپ کے

MushtaqAhmed
 

جا رہی تھیں۔
"پہلی منزل پر بادشاہ کا وزیر ناپاک ارادے سے اس کی طرف بڑھا اور اسے بدی کے لیے تنگ کیا۔ اس کے بڑے بیٹے کا سر تن سے جدا کیا۔ لیکن لڑکی کسی طرح اپنی عزت بچا کے بھاگ نکلی۔"
وزیر منمنایا۔" مجھے بہت زور کا پیشاب لگا ہے۔ میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔"
بادشاہ نے اسے ڈانٹ دیا۔" خاموشی سے بیٹھ بد ذات کہیں کے۔ اسی وقت تمہیں کیوں پیشاب آ رہا ہے؟" وزیر چپ کر کے بیٹھ گیا۔
"دوسرے منزل پر اسی طرح وکیل بھی اپنے ناپاک ارادوں کے ساتھ لڑکی کو بدی کے لیے تنگ کیا اور اپنے ناپاک عزائم پورا کرنے کے لیے اس کے دوسرے بیٹے کا سر تن سے جدا کرنے سے بھی باز نہ آیا۔ پر پاک دامن لڑکی نے یہاں بھی اپنی عزت بچائی اور بھاگ کر کہیں چھپ گئی۔"
اب وکیل ہکلایا۔" بادشاہ سلامت ! مجھے زور کی حاجت پیش آئی ہے۔ بس میں یوں گیا اور یوں آیا۔"

MushtaqAhmed
 

سے داستان سن رہا تھا، چونک پڑا کہ یہ تو میرا اور میری بیوی کا قصہ لگ رہا ہے۔ اس نے بھی بہت سے ہیرے جواہرات نکال کر شہزادی کی طرف پھینک دئیے اور کہا کہ دیکھنا داستان آخیر تک سنانا۔ مجھے اس داستان کو پورا سننا ہے۔ فقیر بھائیوں کے تو پیر خوشی سے زمین پر نہیں پڑ رہے تھے۔
شہزادی نے داستان جاری رکھی۔" بادشاہ نے اس لڑکی سے شادی کی۔ اس سے اسے تین بیٹے ہوئے۔ ایک دن بادشاہ نے اسے ان کے بیٹوں کے ساتھ اپنے وزیر، وکیل اور قاضی کے ہمراہ اس کے سسرال روانہ کیا۔"
اب وزیر، وکیل اور قاضی کے اوسان خطا ہو گئے اور ایک دوسرے کی طرف سراسیمگی سے دیکھنے لگے کہ یہ تو ہمارا قصہ ہے۔ بادشاہ نے کچھ اور ہیرے جواہرات شہزادی کی طرف پھینک دئیے۔فقیر بھائیوں کی باچھیں خوشی سے کھلی جا رہی تھیں۔
"

MushtaqAhmed
 

و گیا تھا۔ اسے پہلے ہی سے اپنے بیٹی کے ساتھ کیے گئے ظلم و ستم سے بہت پشیمانی اور پچھتاوا تھا۔ جب اسے داستان کے ذریعے اپنی بیٹی کے متعلق پتا چلا اس کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔شہزادے کو بھی احساس ہوا کہ یہ تو میری بہن کا قصہ ہے۔ اس نے بے چین ہو کر کچھ اور ہیرے جواہرات شہزادی کے طرف پھینک دئیے اور کہا کہ داستان جاری رکھنا، روکنا مت۔ فقیر بھائیوں کے تو اتنے انعامات دیکھ کر باچھیں کِھل اٹھیں۔
شہزادی نے کہا۔" ایک دن ایک بادشاہ کا گزر اسی جنگل سے ہوا۔ لڑکی کو دیکھا اور اسے اپنے ساتھ اپنے ملک لے جا کر اس سے بیاہ رچایا۔" شہزادی کا شوہر بادشاہ جو پہلے بڑی دلچسپی اور انہماک سے داستان سن رہا تھا، چونک پڑا کہ یہ تو میرا اور میری بیوی کا قصہ لگ رہا ہے۔ ا

MushtaqAhmed
 

ہ وہ لڑکی اسی بادشاہ کی بیٹی ہے۔"
بادشاہ حیران ہوا کہ یہ تو میرا قصہ ہے جو یہ خاتون سنا رہی ہے۔ بادشاہ نے بہت سے ہیرے جواہرات شہزادی کی طرف پھینک کر کہا کہ دیکھنا داستان کو بند مت کرنا۔ شہزادی نے ہیرے جواہرات فقیروں کی طرف پھینک دئیے جواسے پا کر بہت خوش ہوئے۔
شہزادی نے داستان جاری رکھتے ہوئے کہا۔" بادشاہ نے بیٹی کو اپنے بیٹے کے حوالے کر کے کہا کہ اسے جنگل میں لے جا کر قتل کر دے اور اس کی آنکھیں اور خون نکال کر اسے دکھا دے۔ لیکن بھائی کو اپنے ہاتھوں سے بہن کو قتل کرنا گوارہ نہ ہوا اور اپنی بہن کو جنگل میں چھوڑ کر واپس آیا۔ جنگل میں وہ لڑکی بہت عرصہ رلتی رہی یہاں تک کہ اس کے جسم پر اس کا لباس تار تار ہو کر گر گیا اور وہ جنگل بیابان میں بے لباس وقت گزارنے لگی۔"
بادشاہ عمر رفتہ کے باعث اب بوڑھا ہو گیا ت

MushtaqAhmed
 

داستان سنانا بند کروں گی اور آئندہ کے لیے بھی کوئی قصہ سنانے نہیں آؤں گی۔"
بادشاہ نے سب کو حکم دیا۔ سب نے اقرار کیا کہ وہ داستان کے درمیان نہیں اٹھیں گے۔
شہزادی نے داستان سنانا شروع کی۔" ایک ظالم بادشاہ تھا۔ اسے اپنے گھر میں بیٹی کی پیدائش پسند نہیں تھی۔ جب اس کے گھر میں لڑکی پیدا ہوئی تو اپنے بیوی کو اسے مارنے کا حکم دیا۔ اس کے بیوی نے دائی کے ذریعے اپنی بیٹی کو بچا کر اس کی پرورش کی۔ ایک دن اس لڑکی پر بادشاہ کی نظر پڑی جو اب جوان ہو گئی تھی۔ بادشاہ نے اس بوڑھی دائی کے گھر اپنے لیے رشتہ بھیجا لیکن دائی نے تسلیم نہیں کیا۔ بادشاہ نے اس پر ظلم و ستم ڈھائے تب دائی نے بتایا کہ وہ لڑکی اسی بادشاہ کی بیٹی ہے۔"
بادشاہ حیران ہوا کہ یہ تو میرا قصہ ہے

MushtaqAhmed
 

ے ے سے بیزار تھے اس لیے بہت خوش تھے۔
شہزادی ہر رات آ کر بادشاہ کو ایک نیا قصہ سناتی۔ بادشاہ سے داد اور انعام و اکرام پا کر واپس اپنے فقیر بھائیوں کے ساتھ گھر لوٹ آتی۔ فقیروں کی جان بھی بھیک مانگنے سے چھوٹ گئی۔ایک رات جب وہ آئی تو دیکھا کہ آج تو اس کا شوہر بادشاہ، وزیر، وکیل، قاضی وغیرہ بھی اس کے باپ بادشاہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں ۔ شہزادی نے سوچا آج تو قصہ مزہ کرے گا۔
شہزادی آج بھی ہر روز کی طرح نقاب میں تھی۔ پردے کے دوسری طرف آ کر اپنی جگہ پر بیٹھ گئی اور اپنے باپ بادشاہ سے کہا۔"بادشاہ سلامت! آج میں ایک بہت خاص داستان سنانے والی ہوں۔ اگر کسی کو کوئی حاجت درپیش ہے تو ابھی سے اٹھ کر رفع حاجت پوری کرے۔ داستان کے درمیان کسی کو اٹھنے کی اجازت نہیں ہے۔ اگر کوئی اٹھ گیا تو میں داستان سنانا بند کروں گی اور آئندہ کے لیے بھی کوئی قصہ سن

MushtaqAhmed
 

کے باپ کو قصہ سننے کا بہت شوق ہے۔ اس نے اپنے فقیر بھائیوں سے کہا کہ جا کے بادشاہ کو بتا دو کہ ہماری بہن ایک قصہ گو ہے۔ کیا وہ اسے شاہی قصہ گو کے طور پر ملازمت دے گا یا نہیں۔ فقیروں نے بادشاہ کے دربار تک رسائی حاصل کر کے اس کو یہ گوش گزار دیا کہ ہماری ایک بہن ہے جو بہت اچھی قصہ گو ہے۔ اگر اسے پسند ہو تو اسے قصہ سنوانے کے لئے لے کر لائیں۔ بادشاہ نے انہیں اجازت دے دی اور کہا کہ اگر اس کے قصے پسند آئے تو وہ اسے شاہی قصہ گو رکھ دیں گے۔ شام کو فقیر شہزادی کو لے کر بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوئے۔ شہزادی نقاب میں تھی اور درمیان میں بھی پردہ حائل تھا۔ اس نے بادشاہ کے لیے ایک قصہ سنایا جو بادشاہ کو بہت پسند آیا۔ اس نے خوش ہو کر فقیروں کو بہت سا انعام و اکرام دیا۔ فقیر انعام و اکرام لے کر بہن کے ہمراہ واپس گھر آئے۔ وہ پہلے ہی بھیک مانگنے سے بیزار تھے

MushtaqAhmed
 

نوں بچوں کو کھا کر خود بھاگ نکلی۔"
بادشاہ حیران و پریشان ہو گیا کہ یہ کیا بات ہو گئی۔ وہ ان تینوں پر شک میں پڑ گیا۔ لیکن کہا کہ بعد میں دیکھتے ہیں۔ ابھی جس طرف جا رہے ہیں، وہاں جا کے فیصلہ کریں گے کہ آگے کیا کرنا ہے۔ بادشاہ اپنے دل میں یہی سوچ رہا تھا کہ جا کے اپنے ظالم سسر بادشاہ کو دیکھوں اور اس سے پوچھوں کہ اسے کیوں بیٹیوں سے اتنی نفرت ہے؟ اس کے ظلم و ستم کی وجہ سے اس کی بیٹی ڈائن بن گئی اور اپنے بچوں تک کو کھا گئی۔ چلتے چلتے انہوں نے ایک بڑے دریا کو پل کے ذریعے پار کیا اور اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔
ادھر شہزادی فقیروں کی بہن بن کر رہنے لگی۔ اسے ادھر ادھر سے سن گن مل گئی اور سمجھ گئی کہ اپنے باپ بادشاہ کے ملک میں پہنچ گئی ہے۔اسے پتا تھا کہ اس کے باپ کو قصہ سننے کا بہت شوق ہے۔ اس نے اپنے فقیر بھائیوں سے کہا کہ جا کے

MushtaqAhmed
 

گے۔ وہ جس کا کہے، یہ عورت اسی کی ہے۔ وہ شہزادی کو اپنے باپ کے پاس لے گئے۔ ان کا باپ ایک زیرک اور عقلمند انسان تھا۔ دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ یہ کسی شہنشاہ گھرانے کی عورت ہے۔ میرا کوئی بھی بیٹا اس کے لائق نہیں۔ اسی وجہ سے اس نے اپنے بیٹوں کو سمجھایا۔" اے میرے بیٹے! تم چھ بھائی ہو۔ تمہاری کوئ بہن نہیں ہے۔ اسے اپنا بہن بنا لو۔ تم چھ بھائی اور ساتویں تمہاری یہ بہن۔ اس کی خوب نگہداشت کرو۔ اس کی برکت سے تم سب سرخرو رہو گے۔" باپ کے فیصلے سے فقیر بہت خوش ہو گئے اور اپنے سے بڑھ کر شہزادی کا خیال رکھنے لگے۔
ان کو چھوڑ، جب بادشاہ چوتھے دن آ کر لشکر سے ملا تو دیکھا وزیر، وکیل اور قاضی اس سے کترا رہے تھے۔ اس کے سامنے شرمسار سے تھے۔ پوچھا میرے بیوی بچے کہاں ہیں؟ تینوں نے یک زبان ہو کر کہا۔" ملکہ تو ایک ڈائن تھی۔ تینوں بچوں کو کھا کر خود بھاگ نکلی۔"
ب

MushtaqAhmed
 

ہ نے پوچھا کہ بچے کدھر ہیں تو میں اسے کیا جواب دوں گی؟ اس سے بہتر ہے کہ خود کو اس دریا کے حوالے کر دوں۔ یہ فیصلہ کر کے اس نے دریا میں چھلانگ لگا دی۔ پر شور دریا اسے چکر دے کر کہیں کا کہیں پہنچا کے دوسری طرف نکال لے گیا۔ دوسری طرف چھ فقیر جو کہ بھائی تھے، اپنے کپڑے دریا پر دھونے کے لائے تھے۔ جب دیکھا کہ دریا میں کوئی عورت بہتی ہوئی آ رہی ہے تو پکڑ کر باہر نکال لائے۔
اب شہزادی کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ اس کے ہوش و حواس جواب دے گئے کہ کہاں وہ تینوں بد ذات و بدکردار کہ ان سے اپنی عزت بچا کر بھاگ نکلی تو ان چھ ننگ دھڑنگ فقیروں کے ہتھے چڑھ گئی۔ فقیروں میں سے ہر ایک یہی کہہ رہا تھا کہ یہ میری ہے۔ آخر صلاح یہی ٹھہری کہ اسے باپ کے پاس لے جائیں گے۔ وہ جس کا کہے، یہ عورت اسی کی ہے۔ وہ شہزادی کو اپنے باپ کے پاس لے گئے۔ ان کا باپ ایک زیرک ا

MushtaqAhmed
 

ح شیطان بن چکا تھا۔ اس پہ ان باتوں، منت سماجتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ شہزادی نے دیکھا کہ یہ بھی نہیں ٹلنے والا تو اس خیال سے کہ شاید اس کے دل میں رحم پیدا ہو جائے، اپنے تیسرے سب سے چھوٹے بیٹے کو اس کے سامنے کر دیا۔ اس کی دہائی دی۔ واسطے دئیے لیکن قاضی تو ان دونوں سے بھی دو ہاتھ آگے تھا۔قاضی بدبخت کو بھی رحم نہ آیا اور معصوم بچے کا سر قلم کر دیا۔ شہزادی نے اسے بھی یہی کہا کہ میں پاک و صاف ہوں۔ وضو سے ہوں ۔ مجھے موقع دو تاکہ اپنا وضو توڑ دوں۔ اس کے بعد جو تم چاہو، کرو۔قاضی نے بھی اسے جانے دیا۔
جیسے ہی شہزادی باہر نکلی، جدھر منہ اٹھا، بھاگ نکلی۔ بھاگتے بھاگتے اچانک اس نے دیکھا کہ آگے ایک بہت بڑا دریا بہہ رہا تھا۔ اس کے دل میں دھواں بھر گیا، اپنے معصوم بچے یاد آئے۔ اس کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا اور وہ سوچ رہی تھی کہ اگر بادشاہ نے پوچھا کہ

MushtaqAhmed
 

کر دیا گیا تو دیکھا کہ قاضی صاحب اپنا خیمہ اس کے خیمے کے سامنے ایستادہ کر وا رہا ہے۔ شہزادی نے اسے بھی بہتیرا سمجھانے کی کوشش کی لیکن قاضی بد ذات بھی ٹلنے والوں میں سے نہیں تھا۔
آج کی رات بھی شہزادی کے لیے قیامت کی رات تھی۔ وہ سمجھ چکی تھی کہ قاضی بد ذات بھی ان دونوں سے کسی طور کم نہیں۔ آج رات تو شہزادی بالکل بھی نہیں سوئی، بیٹھی رہی۔ جب رات آدھی سے زیادہ گزر گئی تو دیکھا کہ قاضی بھی خراماں خراماں خیمے میں داخل ہو رہا ہے۔ شہزادی نے اسے بھی بہتیرا سمجھانے کی کوشش کی۔ بہت منت سماجت کی۔ خدا رسول کے واسطے دئیے۔ یہاں تک کہہ دیا کہ اگر وزیر وکیل جاہل تھے لیکن تم تو عالم و فاضل انسان ہو۔ لوگوں کو انصاف فراہم کرتے ہو۔ تمہیں ایسی حرکت زیب بھی نہیں دیتی۔ لیکن قاضی بھی پوری طرح شیطان بن چکا تھا۔ اس پہ ان باتوں، منت سماجتوں کا کوئی اثر نہ

MushtaqAhmed
 

جا کر سو تا بن گیا۔
جب صبح پو پھٹی تو شہزادی آہستہ آہستہ اپنے خیمے میں داخل ہو گئی۔ دیکھا کہ دوسرے بیٹے کی لاش بھی نہیں ہے۔ سمجھ گئی کہ بدکردار وکیل نے اسے ٹھکانے لگا دیا ہے۔ بیچاری کس پر اعتبار کرتی، اس لیے چپ رہی۔ لشکر پھر شہزادی کے باپ بادشاہ کے ملک کی طرف روانہ ہو گیا۔ آج شہزادی اکیلی ایک بیٹے کے ساتھ غموں کا انبار لیے اونٹ پر سوار تھی۔ جب تیسرے منزل پر پڑاؤ ڈالا گیا تو آج وزیر اور وکیل نے اپنے خیمے شہزادی کے خیمہ سے بہت دور کھڑا کروا دئیے تھے۔ وہ شرمندہ شرمندہ شہزادی کے سامنے آ ہی نہیں رہے تھے۔ حیران و پریشان تھے کہ جب بادشاہ کو پتا چلے گا تو اسے کیا جواب دیں گے؟
آج جیسے ہی شہزادی کا خیمہ کھڑا کر دیا گیا تو دیکھا کہ قاضی صاحب اپنا خیمہ اس کے خیمے کے سامنے ایستادہ

MushtaqAhmed
 

ہیں ٹلنے والا تو مجھے موقع دے۔ کیونکہ میں پاک و صاف اور وضو سے ہوں۔ مجھے کچھ وقت دے تاکہ میں خود کو ناپاک کر دوں۔ اس کے بعد جو تمہارا دل چاہے، کرو۔" وکیل نے اسے جانے دیا ۔ شہزادی خیمے سے نکل گئی۔
آج بھی شہزادی میں جتنی ہمت تھی، نکل بھاگی۔ اور جہاں تک اس کے قدموں نے ساتھ دیا، بھاگی۔ اور آخر کار تھک ہار کر ایک بڑے جھاڑی کے پیچھے جا کر چھپ گئی۔ وکیل نے جب دیکھا کہ شہزادی ابھی تک نہیں آئی تو اس کے پیچھے نکل پڑا۔
ادھر ادھر بھاگ دوڑ کر کے اسے بہت ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ اب اسے ڈر لگنے لگا کہ بچہ بھی جان سے گیا اور شہزادی بھی بھاگ نکلی۔ اگر کسی نے بادشاہ کو خبر دی تو وہ مجھے کھولتے تیل میں تل دے گا۔ وکیل جلدی جلدی واپس آیا۔ مرے ہوئے بچے کو اٹھا کر کہیں دور دفن کیا اور اپنے خیمے میں جا کر سو تا بن گیا۔

MushtaqAhmed
 

ردار! میرے خیمے میں داخل ہونے کی تمہاری ہمت کیسے ہوئی؟ نکل جاؤ خیمے سے۔" لیکن وکیل اپنے ناپاک ارادوں کے ساتھ اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ شہزادی نے دوبارہ اسے کہا۔" تم جانتے ہو کہ میں ایک بادشاہ کی بیٹی ہوں اور ایک بادشاہ کی بیوی ہوں۔ ایک پاک دامن عورت ہوں۔ اس لیے میرا پیچھا چھوڑ اور اپنے انجام کی فکر کر۔" لیکن بدکردار وکیل کہاں ٹلنے والا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھنے لگا۔ شہزادی سمجھ گئی کہ یہ بد ذات بھی نہیں ٹلنے والا۔ اس نے اپنے دوسرے بیٹے کو اس کے سامنے کیا اور اسے دہائی دی کہ اس معصوم کے سر کی قسم ! میرا پیچھا چھوڑ اور نکل جا یہاں سے۔ لیکن وکیل نے بھی تلوار سے وار کر کے اس کے دوسرے بیٹے کا سر تن سے جدا کر دیا۔ شہزادی نے بیچارگی سے کہا۔" اگر تم اپنے ناپاک ارادوں سے نہیں ٹلنے والا تو مجھے موقع دے۔ کیونکہ میں پاک و صاف اور وضو سے ہوں۔ مج

MushtaqAhmed
 

ہ اچھی بات نہیں ہے۔" وکیل نے کہا۔" اے ملکہ! بادشاہ سلامت نے مجھے آپ کےساز و سامان کی حفاظت کے لیے آپ کے ہمراہ کر دیا ہے اور پر زور تاکید کی ہے۔ اگر آپ کو یا آپ کے سامان کو کچھ ہو گیا تو میں بادشاہ کو کیا منہ دکھاؤں گا۔"
شہزادی نے جواباً کہا۔" اتنے جم غفیر کے درمیان مجھے اور میرے سامان کو کوئی قزاق نہیں لے جا سکے گا۔ بہتر یہی ہے کہ تم اپنا خیمہ کہیں دور ایستادہ کر واؤ۔" لیکن بدکردار وکیل ٹس سے مس نہ ہوا۔ اور اپنا خیمہ ادھر ہی ایستادہ کروا دیا۔
شہزادی پہلے سے ہی وزیر کے ہاتھوں مار کھا چکی تھی۔ اس لیے اس رات اپنے پوری ہوش و حواس میں تھی۔ ویسے بھی اسے نیند نہیں آ رہی تھی۔ آج بھی اس نے آدھی رات کو کسی کے قدموں کی آہٹ اپنے خیمے کی طرف آتے سنی تو مکمل بیدار ہو گئی۔ جب اس نے دیکھا کہ آنے والا وکیل ہے تو اسے للکارا۔"خبردار! م

MushtaqAhmed
 

۔ وزیر کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد اسے ڈھونڈنے نکل گیا۔ ادھر ادھر تلاش کرنے لگا۔ لیکن ناکام رہا۔ صبح ہونے والی تھی۔آخر تھک ہار کر دوبارہ شہزادی کے خیمے میں داخل ہو گیا۔ بچے کی لاش اٹھا کر کہیں دور دفن کیا اور اپنے خیمے میں آ کر گھس گیا۔
صبح بہت دیر کے بعد شہزادی اپنے خیمے میں داخل ہو گئی۔ اپنے مقتول بیٹے کو نہ پا کر رونے لگی۔ لشکر دوبارہ روانہ ہو گیا۔ چلتے چلتے شام تک دوسری منزل پر جا پہنچے۔
خادموں نے شہزادی کا خیمہ ایستادہ کرنا شروع کیا۔ شہزادی نے دیکھا کہ وزیر نے آج اپنا خیمہ بہت دور کھڑا کروایا ہے۔ لیکن تھوڑی دیر بعد دیکھا کہ خدام ایک اور خیمہ اس کے خیمے کے قریب ایستادہ کر رہے ہیں۔ پوچھا۔" یہ کس کا خیمہ ہے؟" خدام نے جواب دیا کہ وکیل کا خیمہ ہے۔ شہزادی نے وکیل کو بلوایا اور کہا کہ میں ایک عورت ہوں۔ تم اپنا خیمہ میرے خیمے ک

MushtaqAhmed
 

لیکن بے غیرت وزیر نہیں ٹلا۔ جب شہزادی نے دیکھا کہ وزیر کسی صورت نہیں مان رہا تو اس نے اپنے بڑے بیٹے کو وزیر کےسامنے کیا کہ تمہیں اس بچے کے سر کی قسم اس طرح مت کرو۔ اسے اللہ رسول کے واسطے دیے۔ قرآن کی دہائی دی لیکن بدکردار وزیر کے دماغ میں شیطان پوری طرح سے گھر کر چکا تھا۔ وہ آگے بڑھا اور تلوار نکال کر ایک ہی وار سے بچے کا سر دھڑ سے الگ کیا۔ شہزادی سمجھ گئی کہ بد ذات وزیر بالکل بھی نہیں ٹلے گا۔ اس نے وزیر سے کہا۔" تم اب بالکل بھی نہیں ٹلو گے۔ میں ایک پاک عورت ہوں۔ اس وقت بھی وضو میں ہوں۔ مجھے اتنا موقع دو کہ میں اپنے وضو کو توڑ کر آ جاتی ہوں تب تمہارا جو دل چاہے، وہ کرو۔"
وزیر نے کہا۔" جاؤ اور جلدی آ جانا۔"
شہزادی خیمہ سے باہر نکل گئی۔بھاگتی ہوئی وہاں سے دور ایک بڑے جھاڑی کے پیچھے چھپ گئی۔