اگر آپ یا آپ کے بچوں کو کچھ ہو گیا تو میں بادشاہ کو کیا جواب دوں گا۔"
شہزادی نے کہا۔" مجھے کچھ نہیں ہوگا۔ پر تم اپنا خیمہ یہاں سے دور کہیں اور لگوا دو۔" لیکن وزیر نہیں مانا۔ خیمے لگ گئے۔ کھانا وغیرہ کھایا گیا۔ رات ہو گئی تھی۔ تھکے ہارے لوگ سو گئے۔ وزیر کے دل میں کوٹ تھا، اسے نیند نہیں آ رہا تھا۔ آخر آدھی رات کو اٹھا اور شہزادی کے خیمے میں داخل ہو گیا۔ شہزادی پہلے سے ہی بھانپ چکی تھی کہ وزیر بد ذات کی نیت میں کھوٹ ہے۔ آہٹ پا کر شہزادی جاگ گئی۔ دیکھا کہ وزیر ہے تو اسے للکار کر باہر نکلنے کو کہا۔ لیکن وزیر آگے بڑھنے لگا۔ شہزادی نے کہا "اے بد ذات وزیر! تم جانتے ہوں کہ میں ایک بادشاہ کی بیٹی ہوں اور ایک بادشاہ کی بیوی بھی۔ نہ میں نے برائی کی ہے اور نہ کسی کا برا چاہا ہے۔ مجھے مخلوق کے سامنے بدنام مت کر اور میرے خیمے سے نکل جا۔" لیکن بے غیرت وزی
ھا۔ مجھے اپنے ساتھ لے کر آئے اور مجھ سے شادی کی۔
بادشاہ نے جب شہزادی کی دکھ بھری کہانی سنی تو اس سے کہا۔" اپنے آپ کو تیار کرو۔ میں تمہیں تمہارے ماں باپ کے گھر لے جاؤں گا۔" شہزادی نے بہت منت سماجت کی کہ مجھے میرے ظالم باپ کے سامنے مت لے جاؤ۔ وہ مجھے قتل کر دے گا۔ لیکن بادشاہ نہیں مانا۔ آخر کار وہ مجبور ہو کر اپنے ماں باپ کے گھر یعنی سسرال جانے کے لیے تیار ہو گئی۔ بادشاہ نے پورے جاہ و جلال اور طمطراق سے ایک بڑے لشکر کے ساتھ شہزادی اور تینوں بیٹوں کو بھیجا لیکن خود کچھ ملک کے ضروری کاموں کی وجہ سے رک گیا۔اپنے وزیر، وکیل اور قاضی کو شہزادی کے ساتھ کر دیا اور کہا کہ تم لوگ ملکہ کو لے کر روانہ ہو جاؤ۔ میں پہلی، دوسری یا تیسری منزل پر تم لوگوں سے ضرور آ کر ملوں گا۔
ہ سے تمہارا تعلق ہے؟"
شہزادی نے کسی طریقے سے بادشاہ کو ٹال دیا۔ ماہ و سال گزرتے چلے گئے۔ بادشاہ کے ہاں دوسرے بیٹے کی ولادت ہوئی۔ بادشاہ نے دوبارہ شہزادی سے وہی سوال دہرایا۔ شہزادی نے پھر بادشاہ کو ٹال دیا۔آخرکار ان کے ہاں جب تیسرے بیٹے کی ولادت ہوئی تو اس موقع پر بادشاہ نے شہزادی کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے بہت دباؤ ڈالا ۔ آخرکار شہزادی مان گئی اور بادشاہ کو حقیقت بتائی کہ وہ فلاں ملک کے بادشاہ کی بیٹی ہے۔ بادشاہ کو کس طرح بیٹیوں سے نفرت تھی۔ اس نے کس طرح مجھے مارنے کا حکم دیا اور دائی نے مجھے کس طرح بچا کر اپنے گھر میں میری پرورش کی۔ بادشاہ نے کس طرح مجھے دیکھا۔ پھر کس طرح اپنے بھائی کے حوالے کر کے قتل کرنے کا حکم دیا۔ میں اس طرح جنگل میں خوار زندگی گزارنے لگی۔ وہاں تم نے مجھے دیکھا۔ مجھے اپنے ساتھ لے کر آئے اور مجھ سے شادی کی
ں گا۔" وزیر نے آداب بجا کر کہا۔" بادشاہ سلامت، آپ پوری طرح سے تسلی رکھیے۔ یہ آپ کی امانت ہے اور میری بیٹی۔ جب آپ کا دل چاہے، اسے بیاہ کر لے جائیے۔" بادشاہ شہزادی کو وزیر کے گھر چھوڑ آیا۔
اگلے دن وکیل، قاضی بادشاہ کا رشتہ لے کر وزیر کے گھر آ پہنچے۔ وزیر نے رشتہ کے لیے ہاں کر دی۔ ایک دو دن بعد منگنی ہو گئی۔ بادشاہ شہزادی کے عشق میں سب کچھ بھول چکا تھا۔ جلد ہی شادی کا نیوتا بھیجا اور شہزادی کو بیاہ کر اپنے محل لایا۔ بادشاہ اور شہزادی اپنے شادی سے بہت خوش تھے۔
اس دوران بادشاہ نے شہزادی سے اس کے متعلق کچھ نہیں پوچھا تھا۔ چند سال بعد اس کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی۔ بادشاہ بہت خوش تھا۔ اس نے شہزادی سے جو اب ملکہ بن گئی تھی، پوچھا۔" اب جبکہ اللہ نے ہم دونوں کو اولاد نرینہ سے نوازا ۔ تم اب ایک بیٹے کی ماں بن گئی ہو۔ اب مجھے بتاؤ کہ تم کون ہو؟
شہزادی نے اس کپڑے سے اپنے جسم کو خوب اچھی طرح ڈھانپا اور کسی نہ کسی طریقے سے درخت سے اتر گئی۔ جب بادشاہ نے شہزادی کو دیکھا تو اس کے حواس گم ہو گئے۔ اس کے پورے ملک میں کوئی اتنی خوبصورت لڑکی نہیں تھی۔ پورے دل و جان سے شہزادی پر فریفتہ ہو گیا۔
جھٹ شہزادی سے کہا۔" میں ایک بادشاہ ہوں۔ اگر تم برا نہ مانو تو میں تم سے شادی کر کے تمہیں اپنی ملکہ بنانا چاہتا ہوں۔" اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ شہزادی نے حامی بھری۔ وہ بھی ایک ایسا بندہ چاہتی تھی جو اسے عزت دے۔ بادشاہ خوشی خوشی شہزادی کو لے کر اپنے ملک روانہ ہو گیا۔ اپنے ملک پہنچتے ہی بادشاہ پہلے وزیر کے گھر جا پہنچا اور اس سے کہا۔ "ایسا سمجھو کہ یہ تمہاری بیٹی ہے۔ میں کل رشتہ مانگنے آؤں گا۔ اور شادی بیاہ رچا کر اپنی امانت یہاں سے اپنے محل لے جاؤں گا۔"
چونکہ اس کا منہ آسمان کی طرف تھا اور وہ اپنے خیالوں میں گم تھا، اس کی نظر درخت کے گھنے پتوں میں پوشیدہ کسی ہیئت پر پڑی۔ وہ اچھل کر کھڑا ہو گیا اور بلند آواز سے کہنے لگا "اے اللہ کی مخلوق! تم کوئی پری ہو، فرشتہ ہو، جن ہو یا کوئی انسان؟ جو بھی ہو، اپنے آپ کو ظاہر کرو۔ میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔"
شہزادی نے پکار کر کہا۔" اے مسافر ! میں ایک لاچار لڑکی ہوں۔ میرے جسم پر کپڑے کے نام پر کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر تم اپنے نیچے بچھے چادر کو میری طرف پھینک دو تاکہ میں اسے ڈھانپ کر نیچے اتروں اور تم سے بات چیت کروں۔" بادشاہ نے اپنے نیچے بچھے کپڑے کو اٹھایا۔ اس کا گولا سا بنا کر اس کی طرف پھینکا۔
"
اب آگے شہزادی کا قصہ سنیے۔شہزادی جنگل میں رہنے لگی اور بھوک مٹانے کے لیے جنگلی پھل، پھول، بوٹے کھا کر اپنا وقت گزارنے لگی۔ اس دوران بہت سا وقت گزر گیا۔ جھاڑیوں، کانٹوں سے الجھ کر اس کے بوسیدہ کپڑے تار تار ہو گئے۔ آخر کار اس کے بدن پر کوئی کپڑا نہ رہا ۔
ایک دن کسی اور ملک کا بادشاہ اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ اسی جنگل کے راستے سے گزر رہا تھا۔ اتفاقاً بادشاہ اسی طرف جا نکلا جدھر شہزادی تھی۔ جب شہزادی کی کانوں میں کسی گھوڑے کے قدموں کی آہٹ پڑی تو جلدی جلدی کسی گھنے درخت پہ چڑھ گئی اور اس کے بڑے بڑے پتے توڑ کر اپنی ستر پوشی کر کے چھپ کے بیٹھ گئی۔ بادشاہ بھی آ کے اسی درخت کے نیچے ٹھہر گیا۔ درخت گھنا اور سایہ دار تھا۔ ایک طرف اپنے گھوڑے کو باندھا، اور درخت کے سائے میں کپڑا بچھا کر تھوڑی دیر سستانے کی خاطر لیٹ گیا۔
شہزادی آنسو بہاتے ہوئے گھنے جنگل کی طرف جانے لگی ۔ آخری بار پلٹ کر بھائی کو دیکھا اور جنگل میں گھس گئی۔ اس کے بعد شہزادے نے ادھر ادھر سے ڈھونڈ کر ایک ہرن کا شکار کیا۔ اس کے گردن کا خون نکالا اور آنکھیں نکال کر لے جا کر بادشاہ کو دکھا دیں۔ بادشاہ نے آئینہ منگوایا۔ اس میں ان آنکھوں کو اور اپنی آنکھوں کو غور سے دیکھا ۔ جب اس کو یقین ہو گیا کہ آنکھوں کا رنگ ایک ہی ہے تب اسے تسلی ہوئی۔
ملکہ نے کسی طور شہزادے کو بلا کر اس سے بیٹی کے متعلق پوچھا۔ شہزادے نے ماں کے سامنے سارا احوال گوش گزار کر دیا۔ ملکہ نے منہ آسمان کی طرف کر کے ہاتھ اوپر اٹھائے اور بیٹی کے لیے دعا مانگی کہ اے اللہ! تو میری بیٹی کی حفاظت کر۔ اسے اپنے امان میں رکھ اور اسے کسی اچھی جگہ پار لگا۔"
رہ نہ تھا اگرچہ اسے اپنی بہن کے متعلق اب معلوم ہوا۔ لیکن اسے پتا تھا کہ بادشاہ ہر صورت اپنی بیٹی کو ہلاک کرنا چاہتا ہے۔ اگر اس نے اسے قتل نہیں کیا تو بادشاہ دونوں کو ہلاک کر دے گا۔ مجبور ہو کر اپنی بہن کو ساتھ لے کر جنگل کی طرف چل پڑا۔ جب دونوں جنگل پہنچ گئے تو بھائی کی محبت بہن کے لیے جوش میں آ گئی۔ بہن سے کہا کہ میں کسی صورت تمہیں اپنے ہاتھوں سے قتل نہیں کر سکتا۔ میں تمہیں یہیں چھوڑے دیتا ہوں آگے تمہاری قسمت کہ تمہیں درندے کھا جائیں یا تم بچ کر کہیں اور نکل جاؤ۔" لیکن بہن نے بھائی کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔" نہیں بھائی !تم مجھے قتل کر دو۔ میری آنکھیں اور خون لے جا کر باپ کو دکھا دو۔ نہیں تو وہ تمہیں مار دے گا جو مجھے کسی صورت گوارہ نہیں۔" دونوں بھائی بہن ایک دوسرے کے گلے لگ کر رو پڑے۔ آخر کسی طرح بھائی نے بہن کو منا لیا۔
بیچاری پہلے سے ہی دو ہڈیوں پر تھی، اتنی مار برداشت نہ کرسکی اور بادشاہ کے سامنے چیخ پڑی۔" بادشاہ سلامت! یہ کوئی اور نہیں بلکہ آپ کی بیٹی ہے۔ میں نے اسے ہلاک کرنے کے بجائے لے جا کر اپنے گھر میں اس کی پرورش کی ہے۔"
اب بادشاہ کو احساس ہوا کہ وہ کیا غلطی کرنے جا رہا تھا۔ خدا نے اسے گناہ عظیم سے بچایا۔ وہ اور زیادہ غصے میں آ گیا۔ اپنے بیٹے یعنی شہزادے کو بلا کر حکم دیا کہ اپنی بہن کو جنگل میں لے جا کر قتل کر دے اور اس کی آنکھیں نکال کر اور گردن کا خون لا کر مجھے دکھا دے تاکہ مجھے یقین ہو جائے۔"
شہزادہ پریشان ہوا کہ وہ کیسے اپنے ہاتھوں سے اپنی بہن کو قتل کرے۔ اس کی آنکھیں نکال لے اور اس کے گردن کا خون لا کر باپ کو دکھا دے۔ اسے کسی صورت یہ گوارہ نہ تھا اگر
چونکہ حقیقت کا کسی کو پتا نہیں تھا۔ اس لیے دوسرے دن وزیر، وکیل وغیرہ دائی کے گھر بادشاہ کے لیے اس کی نواسی کا ہاتھ مانگنے گئے۔ اب دائی کے اوسان خطا ہو گئے کہ یا اللہ! اب کیا کروں؟ اس نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا " میں ایک غریب ہوں۔ میری نواسی بادشاہ کے لائق نہیں اور نا ہی بادشاہ کا کسی غریب سے رشتہ جوڑنا صحیح ہے۔ اس لیے دوبارہ اس سلسلے میں میرے گھر مت آئیے گا۔"
بادشاہ خود تو نہیں آیا لیکن دائی کے گھر رشتے کے لیے بہت سے بندے بھیجے۔ سب نے دائی کو بہت منت سماجت کی، لالچ دیے، دھونس دھمکی دی، لیکن دائی ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ تب بادشاہ نے حکم دیا کہ دائی کو پکڑ کے خوب سزا دے دو تاکہ وہ رشتے کے لیے مان جائے۔
سپاہی دائی کو پکڑ کر بادشاہ کے سامنے لائے اور انہوں نے اسے خوب کوٹ کوٹ کر پیٹنا شروع کیا۔ سپائیوں نے دائی کو کپڑے کی طرح نچوڑ کے رکھ دیا۔
کے باعث خوش ہوا۔
دائی نے لوگوں کے سامنے شہزادی کو اپنی نواسی ظاہر کیا۔ کبھی کبھار بادشاہ سے چھپ چھپا کے شہزادی کو لاتی اور ملکہ اپنی بیٹی کو دیکھ کر اس کی مامتا کو کچھ قرار ملتا اور وہ دائی کو سونا چاندی اپنے بیٹی کی نگہداشت کے واسطے دے دیا کرتی۔ چونکہ شہزادی کی پرورش اچھے طریقے سے ہو رہی تھی۔ اس لیے خوب قد کاٹھ نکالی۔ خوبصورت تھی ہی اس لیے جوان ہوتے ہی دنیا کے سامنے شہزادی نہ ہوتے ہوئے بھی شہزادیوں کی طرح دِکھنے لگی۔
ایک دن بادشاہ کی سواری شہر سے گزر رہی تھی ۔ اسی وقت شہزادی اور دائی بھی اسی راستے سے گزر رہی تھیں۔ بادشاہ کی نظر شہزادی پر پڑی۔ پوچھا "یہ کون ہے؟" وزیر نے کہا "یہ اس بیچاری عورت کی نواسی ہے۔" بادشاہ نے حکم دیا "مجھے یہ بہت پسند آئی ہے۔ کل اس کے گھر میرے لیے رشتہ لے کر جانا۔"
م پیدا کیا۔ اس نے ملکہ سے کہا۔
"اے ملکہ! آپ دل چھوٹا مت کیجئے۔ میں یہاں سے سب کے سامنے بچی کو ہلاک کرنے کے بہانے لے جاؤں گی۔ پر میں یہاں سے اسے اپنے گھر میں لے جا کر پالوں گی۔ اگر آپ کسی طرح سے بچی کے لیے خرچ وغیرہ بھیجتی رہیں گی تو آپ کی بچی خوشحال اور آسودہ ہوگی، وگرنہ مجھ غریب کو جو نصیب اس سے اسے بھی پالنے کی کوشش کروں گی۔"
ملکہ نے کچھ سونا چاندی، زیور وغیرہ بچی کے واسطے تھما دئیے۔ بچی کو اس کے حوالے کیا۔ محل میں یہ بات پھیلائی گئی کہ دائی نے بچی کو لے جا کر ہلاک کر دیا ہے۔ جبکہ دائی نے شہزادی کو اپنے گھر لا کر پورے ناز و نعم سے اس کی پرورش شروع کر دی۔
جب بادشاہ اپنے سفر سے واپس آیا تو اسے یہی احوال سنایا گیا کہ آپ کے جانے کے بعد بچی کی ولادت ہوئی اور آپ کے حکم کے بموجب اسے ہلاک کی گئی۔ بادشاہ اپنی بد عادتی کے باعث خوش ہوا۔
👑ایک بادشاہ تھا۔ تھا تو منصف اور عادل پراس میں ایک عادت بد تھی۔ اسے بیٹی سے بہت نفرت تھی۔ اللہ کی قدرت کہ اس کے ہاں پہلے بیٹا پیدا ہوا۔ اسے اپنا بیٹا بہت عزیز تھا۔ بہت ناز و نعم اور لاڈ و پیار سےاس کی پرورش ہو رہی تھی۔چند سال بعد ملکہ پھر امید سے ہو گئی۔ ولادت کے دن قریب تھے۔ لیکن بادشاہ سلامت کو کسی دوسرے بادشاہ کی دعوت پر ملک سے باہر جانا پڑا۔ جانے سے پہلے بادشاہ نے ملکہ کو حکم دیا کہ میں کہیں باہر جا رہا ہوں، اگر میرے آنے سے پہلے ولادت ہوئی، لڑکا ہوا تو ٹھیک لیکن اگر لڑکی ہوئی تو اسے ہلاک کر دینا۔
بادشاہ چلا گیا۔ چند ہفتے بعد اس کے ہاں لڑکی کی ولادت ہوئی۔ اولاد ماں کو بہت پیاری ہوتی ہے۔ ملکہ رونے لگی کہ اے اللہ! اب میں کیا کروں؟ ولادت کے وقت ایک دائی موجود تھی جو ملکہ کی حالت زار دیکھ رہی تھی۔ اللہ نے اس کے دل میں رحم پیدا کیا۔ اس نے م
کمبخت ضبط غم تجھے غارت کرے خدا
یوں لگ رہا ہے میں پریشان ہی نہیںGood night All😊😍
تیری ایک جهلک کو ترس جاتا ہے دل میرا
قسمت والے ہیں وہ لوگ جو روز تیرا دیدار کرتے ہیں
میں نے کچھ دیر خاموش راہ کر دیکھا
میرا نام تک بھول گئے میرے صدقے اتارنے والے
دیکھ کر مجھے کیوں تم دیکھتے نہیں
یاراں یہ بے رخی سہی تو نہیں !!!
پھر یو ھوا کہ حسرتیں پیرو میں گر پڑی
پھر میں نے انہیں روند کر قصہ ختم کر دیا
رنگ تیری یادوں کا اتر نہ پایا اب تک۔۔۔۔۔۔
لاکھ بار آنسوؤں سے دھویا ہم نے۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain