میری ہستی ہوئی زندگی ویران بنا کے چلی گئی دل پر میرے زخم کا نیا نشان بنا کے چلی گئی وقت ہی برا تھا یا برے تھے ہم ہمارے دل سے کھیل کر وہ انجان بنا کے چلی گئی For U Naina
برباد محبت کی دعا ساتھ لیے جا ٹوٹا ہوا اقرار وفا ساتھ لیے جا اک دل تھا جو پہلے ہی تجھے سونپ دیا تھا یہ جان بھی اے جان ادا ساتھ لیے جا تپتی ہوئی راہوں سے تجھے آنچ نہ پہنچے دیوانوں کے اشکوں کی گھٹا ساتھ لیے جا شامل ہے مرا خون جگر تیری حنا میں یہ کم ہو تو اب خون وفا ساتھ لیے جا ہم جرم محبت کی سزا پائیں گے تنہا جو تجھ سے ہوئی ہو وہ خطا ساتھ لیے جا
بابا جی کا کہنا ہے کہ کبھی کچن میں جا کر بیگم سے اونچی آواز میں بات نہ کریں کیونکہ کچن میں کھڑی بیگم اور باڈر پہ کھڑا سپاہی اسلحے سے لیس ہوتے ہیں 🤣😉😆🤗🙄😶😑☺🙂😎🤣
قربت بھی نہیں دل سے اتر بھی نہیں جاتا وہ شخص کوئی فیصلہ کر بھی نہیں جاتا آنکھیں ہیں کہ خالی نہیں رہتی ہیں لہو سے اور زخم جدائی ہے کہ بھر بھی نہیں جاتا وہ راحت جاں ہے مگر اس در بدری میں ایسا ہے کہ اب دھیان ادھر بھی نہیں جاتا ہم دوہری اذیت کے گرفتار مسافر پاؤں بھی ہیں شل شوق سفر بھی نہیں جاتا دل کو تری چاہت پہ بھروسہ بھی بہت ہے اور تجھ سے بچھڑ جانے کا ڈر بھی نہیں جاتا پاگل ہوئے جاتے ہو فرازؔ اس سے ملے کیا اتنی سی خوشی سے کوئی مر بھی نہیں جاتا For You N
🌟For You My Best Firend🌟 🌟GullNaaz🌟 تجھ سے مل کر تو یہ لگتا ہے کہ اے اجنبی دوست تو مری پہلی محبت تھی مری آخری دوست لوگ ہر بات کا افسانہ بنا دیتے ہیں یہ تو دنیا ہے مری جاں کئی دشمن کئی دوست تیرے قامت سے بھی لپٹی ہے امر بیل کوئی میری چاہت کو بھی دنیا کی نظر کھا گئی دوست یاد آئی ہے تو پھر ٹوٹ کے یاد آئی ہے کوئی گزری ہوئی منزل کوئی بھولی ہوئی دوست اب بھی آئے ہو تو احسان تمہارا لیکن وہ قیامت جو گزرنی تھی گزر بھی گئی دوست تیرے لہجے کی تھکن میں ترا دل شامل ہے ایسا لگتا ہے جدائی کی گھڑی آ گئی دوست بارش سنگ کا موسم ہے مرے شہر میں تو تو یہ شیشے سا بدن لے کے کہاں آ گئی دوست میں اسے عہد شکن کیسے سمجھ لوں جس نے آخری خط میں یہ لکھا تھا فقط آپ کی دوست
اس قدر مسلسل تھیں شدتیں جدائی کی آج پہلی بار اس سے میں نے بے وفائی کی ورنہ اب تلک یوں تھا خواہشوں کی بارش میں یا تو ٹوٹ کر رویا یا غزل سرائی کی تج دیا تھا کل جن کو ہم نے تیری چاہت میں آج ان سے مجبوراً تازہ آشنائی کی ہو چلا تھا جب مجھ کو اختلاف اپنے سے تو نے کس گھڑی ظالم میری ہم نوائی کی ترک کر چکے قاصد کوئے نامراداں کو کون اب خبر لاوے شہر آشنائی کی طنز و طعنہ و تہمت سب ہنر ہیں ناصح کے آپ سے کوئی پوچھے ہم نے کیا برائی کی پھر قفس میں شور اٹھا قیدیوں کا اور صیاد دیکھنا اڑا دے گا پھر خبر رہائی کی دکھ ہوا جب اس در پر کل فرازؔ کو دیکھا لاکھ عیب تھے اس میں خو نہ تھی گدائی کی 🌟Bewafa Log🌟