مسئلوں میں گھری زندگی، آخ تھو
آخ تھو! اس قدر بےبسی! آخ تھو
بھائیو! صبر سے، ہوش سے کام لو
اور مل کر کہو! عاشقی! آخ تھو
دوستوں کی محبت بڑی چیز ہے
دوستوں سے دغا! دشمنی! آخ تھو
چھوڑنے کا نہیں چاہے دنیا کہے
دل بری آخ تھو! شاعری آخ تھو!
بک گیا چار پیسوں کے لالچ میں تو
تجھ پہ مذہب شکن مولوی، آخ تھو!
اتنی آساں نہیں جتنی لگتی ہے یہ
چاہے آساں بھی ہو، خودکشی؟ آخ تھو
منھ بھی کڑوا ہوا، دل بھی میلا ہوا
باتیں سن کے تری شیخ جی! آخ تھو
😤💕🍃🌺🍂
سجدے ترے کہنے سے میں کر لوں بھی تو کیا ہو
تو اے بتِ کافر نہ خدا ہے نہ خدا ہو
غنچے کے چٹکنے پہ نہ گلشن میں خفا ہو
ممکن ہے کسی ٹوٹے ہوئے دل کی صدا ہو
کھا اس کی قسم جو نہ تجھے دیکھ چکا ہو
تیرے تو فرشتوں سے بھی وعدہ نہ وفا ہو
انسان کسی فطرت پہ تو قائم ہو کم از کم
اچھا ہو تو اچھا ہو برا ہو تو برا ہو
اس حشر میں کچھ داد نہ فریاد کسی کی
جو حشر کے ظالم ترے کوچے سے اٹھا ہو
اترا کہ یہ رفتارِ جوانی نہیں اچھی
چال ایسی چلا کرتے ہیں جیسے کہ ہوا ہو
میخانے میں جب ہم سے فقیروں کو نہ پوچھا
یہ کہتے ہوئے چل دیئے ساقی کا بھلا ہو
اللہ رے او دشمنِ اظہارِ محبت
وہ درد دیا ہے جو کسی سے نہ دوا ہو
تنہا وہ مری قبر پہ ہیں چاکِ گریباں
جیسے کسی صحرا میں کوئی پھول کھلا ہو
منصور سے کہتی ہے یہی دارِ محبت
اس کی یہ سزا ہے جو گنہگارِ
برباد طور بھی ہے موسیٰؑ ہیں بے خودی میں
بس اے ظہورِ جلوہ اب دم نہیں کسی میں
آنسو بھر آئے ان کی پرسش پہ جاں کنی میں
اب اور کیا بتاتے ان کی روا روی میں
جا تو رہے ہو موسیٰ دیدار کی خوشی میں
اوپر نظر نہ اٹھے بس خیر ہے اسی میں
اب تک ہے یاد دے کر دل ان کو دل لگی میں
رونا پڑا تھا برسوں مجھ کو ہنسی ہنسی میں
قیدِ قفس میں مجھ سے ارماں کا پوچھنا کیا
صیاد اب تو جو کچھ آئے تری خوشی میں
کوزے میں بھر گیا ہے جیسے تمام دریا
یوں اس نے بن سنور کر دیکھا ہے آرسی میں
ہر صبح آ کے گلچیں گلشن کو دیکھتا ہے
یہ وقت بھی ہے نازک پھولوں کی زندگی میں
دیکھیں قمر کچھ افشاں اس مہ جبیں کے رخ پر
کتنے حسین تارے ہوتے ہیں چاندنی میں
یہ نا ممکن ہو تیرا ستم مجھ سے عیاں کوئی
وہاں فریاد کرتا ہوں نہیں ہوتا جہاں کوئی
شکایت وہ نہ کرنے دیں یہ سب کہنے کی باتیں ہیں
سرِ محشر کسی کی روک سکتا ہے زباں کوئی
عبث ہے حشر کا وعدہ ملے بھی تم تو کیا حاصل
یہ سنتے ہیں کہ پہچانا نہیں جاتا وہاں کوئی
انھیں دیرو حرم میں جب کبھی آواز دیتا ہوں
پکار اٹھتی ہے خاموشی نہیں رہتا یہاں کوئی
لحد میں چین دم بھر کو کسی پہلو نہیں ملتا
قمر ہوتا ہے کیا زیرِ زمیں بھی آسماں کوئی
💖💜💛🍃🌺🍂🍁
آہ کو سمجھے ہو کیا دل سے اگر ہو جائے گی
وہ تو وہ ان کے فرشتوں کو خبر ہو جائے گی
پوری کیا موسیٰؑ تمنا طور پر ہو جائے گی
تم اگر اوپر گئے نیچی نظر ہو جائے گی
کیا ان آہوں سے شبِ غم مختصر ہو جائے گی
یہ سحر ہونے کی باتیں ہیں سحر ہو جائے گی ؟
آ تو جائیں گے وہ میری آہِ پر تاثیر سے
محفلِ دشمن میں رسوائی مگر ہو جائے گی
کس سے پوچھیں کے وہ میرے رات کے مرنے کا حال
تو بھی اب خاموش اے شمعِ سحر ہو جائے گی
یہ بہت اچھا ہوا آئیں گے وہ پہلے پہر
چاندنی بھی ختم جب تک اے قمر ہو جائے گی
💖💜💛🌺🍃🍃🍂🍁🌺🍃🍂
خشکی و تری پر قادر ہے آسان مری مشکل کر دے
ساحل کی طرف کشتی نہ سہی کشتی کی طرف ساحل کر دے
تو اپنی خوشی کا مالک ہے، کیا تاب کسی کی اف جو کرے
محفل کو بنا دے ویرانہ ویرانے کو بنا دے محفل کر دے
اس رہروِ راہِ الفت کو دیکھے کوئی شام کے عالم میں
جب اٹھ کے غبارِ راہگذر نظروں سے نہاں منزل کر دے
گر ذوقِ طلب ہی دیکھنا ہے منظور تجھے دیوانے کا
ہر نقش بنے زنجیرِ قدم اتنی تو کڑی منزل کر دے
💖💓💜🌷🌺🍃🍂
نزع کی اور بھی تکلیف بڑھا دی تو نے
کچھ نہ بن آیا تو آواز سنا دی تو نے
اس کرم کو مری مایوس نظر سے پوچھو
ساقی بیٹھا رہا اور اٹھ کے پلا دی تو نے
مجھ پہ احسان نہ رکھو جان بچا لینے کا
مرنے دیتے مجھے کاہے کو دعا دی تو نے
یہ کہو پیش خدا حشر میں منثا کیا تھا
میں کوئی دور کھڑا تھا جو صدا دی تو نے
ان کے آتے ہی مزہ جب ہے مرا دم نکلے
وہ یہ کہتے ہوئے رہ جائیں کہ دغا دی تو نے
کھلبلی مچ گئی تاروں میں قمر نے دیکھا
شب کو یہ چاند سی صورت جو دکھا دی تو نے
💖💕💜💛🌷🌺🍃🍃🍂🍁
ان کے لبوں پہ آج محبت کی بات ہے
اللہ خیر ہو کہ نئی واردات ہے
صرف اک امیدِ وعدہ پہ قائم حیات ہے
محشر میں تم ملو گے قیامت کی بات ہے
آخر بشر ہوں ہو گیا جرمِ وفا تو کیا
کوئی خطا نہ ہو یہ فرشتے کی بات ہے
💖💜💛💚🍃🌺🍂🍁
باغباں برق کا جب طور بدل جاتا ہے
یہ نشیمن تو ہے کیا طور بھی جل جاتا ہے
کچھ وہ کہہ دیتے ہیں بیمار سنبھل جاتا ہے
وقت کا ٹالنے والا ہو تو ٹل جاتا ہے
عشق اور حسن سے مانوس یہ کیسے مانیں
شمع کو دیکھ کہ پروانہ تو جل جاتا ہے
کون ساحل پہ دعا مانگ رہا ہے یا رب
بچ کے طوفان مری کشتی سے نکل جاتا ہے
اب بھی سنبھلا نہیں او ٹھوکریں کھانے والے
ٹھوکریں کھا کہ تو انسان سنبھل جاتا ہے
ہجر کی رات ہے وہ رات کہ یا رب توبہ
شام سے صبح تک انسان بدل جاتا ہے
یاس و امید کا عالم ہے یہ شامِ وعدہ
کبھی بجھتا ہے چراغ اور کبھی جل جاتا ہے
عہد کرتے ہیں کہ اب ان سے ملیں گے نہ قمر
کیا کریں دیکھ کہ دل ان کو مچل جاتا ہے
💖💜💛🌺🍃🍂🍁🍃🍃🌺🍂
مے کدے میں جو کوئی جام بدل جاتا ہے
عالمِ گردشِ ایام بدل جاتا ہے
شامِ فرقت وہ قیامت ہے کہ اللہ بچائے
صبح کو آدمی کا نام بدل جاتا ہے
ہم اسے پہلی محبت کی نظر کہتے ہیں
جس کے آغاز کا انجام بدل جاتا ہے
نامہ بر ان کی زباں کے تو یہ الفاظ نہیں
راستے میں کہیں پیغام بدل جاتا ہے
خواب میں رخ پہ آ جاتے ہیں ان کے گیسو
انتظامِ سحر و شام بدل جاتا ہے
تم جواں ہے کے وہی غنچہ دہن ہو یہ کیا
جب کلی کھلتی ہے تو نام بدل جاتا ہے
اے قمر ہجر کی شب کاٹ تو لیتا ہوں مگر
رنگ چہرے کا سرِ شام بدل جاتا ہے
💖💕💜💛🍃🍂🍁🌺🍃🍃🍂
اس تفکر میں سرِ بزم سحر ہوتی ہے
کس کو وہ دیکھتے ہیں کس پہ نظر ہوتی ہے
مسکرا کر مجھے یوں دیکھ کے دھوکا تو دو
جانتا ہوں جو محبت کی نظر ہوتی ہے
تم کیا چیز ہو کونین سمٹ آتے ہیں
ایک وہ بھی کششِ ذوقِ نظر ہوتی ہے
آئینہ دیکھنے والے یہ خبر ہے تجھ کو
کبھی انسان پہ اپنی ہی نظر ہوتی ہے
تم مرے سامنے گیسو کو سنوارا نہ کرو
تم تو اٹھ جاتے ہو دنیا مرے سر ہوتی ہے
عشق میں وجہ تباہی نہیں ہوتا کوئی
اپنا دل ہوتا ہے یا اپنی نظر ہوتی ہے
نزع میں سامنے بیمار کے تم بھی آؤ
یہ وہ عالم ہے اک اک پہ نظر ہوتی ہے
دل تڑپتا ہے تو پھر جاتی ہے موت آنکھوں میں
کس غضب کی خلشِ تیرِ نظر ہوتی ہے
جان دے دیں گے کسی دامنِ صحرا میں قمر
مر گیا کون کہاں کس کو خبر ہوتی ہے
💖💜💛🍃🍂🌷🍁🍀
منانے کو مجھے آئے ہو دشمن سے خفا ہو کر
وفاداری کے وعدے کر رہے ہو بے وفا ہو کر
نہ ابھری گردشِ تقدیر سے یہ ڈوبتی کشتی
میں خود شرما گیا منت گزارِ ناخدا ہو کر
💖💜🌺🍃🍂🍁
دل کو تسکیں جو صنم دیتے ہیں
شہد میں گھول کے سم دیتے ہیں
دل کو پتھّر نہ سمجھنا مری جاں
لے تجھے ساغرِ جم دیتے ہیں
ظرف کی داد یہی ہو جیسے
دینے والے ہمیں غم دیتے ہیں
دست کش ہو کے بھی دیکھیں تو سہی
یوں بھی کیا اہلِ کرم دیتے ہیں
چھینتے ہیں وہ نوالے ہم سے
اور بقا کو ہمیں بم دیتے ہیں
خود خزاں رنگ ہیں لیکن ماجدؔ
ہم بہاروں کو جنم دیتے ہیں
💖💜🍃🌺🍂🍁
سبھی یہ پوچھتے رہتے ہیں کیا گُم ہو گیا ہے
بتادوں؟ مجھ سے خود اپنا پتہ گُم ہو گیا ہے
تمہارے دن میں اک رُوداد تھی جو کھو گئی ہے
ہماری رات میں اک خواب تھا، گُم ہو گیا ہے
وہ جس کے پیچ و خم میں داستاں لپٹی ہوئی تھی
کہانی میں کہیں وہ ماجرا گُم ہو گیا ہے
ذرا اہلِ جُنوں آؤ، ہمیں رستہ سُجھاؤ
یہاں ہم عقل والوں کا خدا گُم ہو گیا ہے
نظر باقی ہے لیکن تابِ نظّارہ نہیں اب
سخن باقی ہے لیکن مدّعا گُم ہو گیا ہے
مجھے دکھ ہے، کہ زخم و رنج کے اِس جمگھٹے میں
تمہارا اور میرا واقعہ گُم ہو گیا ہے
یہ شدّت درد کی اُس کے نہ ہونے سے نہ ہوتی
یقیناً اور کچھ اُس کے سِوا گُم ہو گیا ہے
وہ جس کو کھینچنے سے ذات کی پرتیں کھُلیں گی
ہماری زندگی کا وہ سِرا گُم ہو گیا ہے
وہ در وا ہو نہ ہو، آزاد و خود بیں ہم کہاں کے
پلٹ آئیں تو سمجھو راستہ گُم ہو گیا ہے
ایک ملال تو ہونے کا ہے ایک نہ ہونے کا غم ہے
شہرِ وجود سے بابِ عدم تک ایک سا ہُو کا عالم ہے
کب تک راہ تکیں گے اُس کی کب تک اُس کو پکاریں گے
آنکھوں میں اب کتنا نم ہے سینے میں کتنا دم ہے
اُس کے ہوتے روز ہی آکر مجھے جگایا کرتی تھی
میری طرف اب بادِ صبا کا آنا جانا کم کم ہے
اب تعبیر نجانے کیا ہو خواب میں اتنا دیکھا تھا
ایک جلوس چلا جاتا ہے آگے خونیں پرچم ہے
تم لوگوں کی عادت ٹھہری جھوٹ کا شربت پینے کی
میرے پیالے سے مت پینا میرے پیالے میں سم ہے
ہاں ویسے تو حجرہءِ جاں میں بے ترتیبی ٹھیک نہیں
لیکن کیا ترتیب سے رکھوں سب کچھ درہم برہم ہے
درد کی پردہ پوشی ہے سب، کھل جائے گر غور کرو
آہوں کی تکرار ہیں سانسیں دل کی دھڑکن ماتم ہے
خوشبو کے پہلو میں بیٹھا رنگ سے ہم آغوش ہُوا
جب سے اُس کا قرب ملا ہے ہر احساس مجسم ہے
اب اظہار میں کوتاہی کی،
بہت خجل ہیں کہ ہم رائگاں بھی زندہ رہے
جہاں پہ تُو بھی نہیں تھا وہاں بھی زندہ رہے
عجیب شرط ہے اس بے یقیں مزاج کی بھی
کہ تُو بھی پاس ہو تیرا گماں بھی زندہ رہے
تجھے یہ ضد ہے مگر اس طرح نہیں ہوتا
کہ تُو بھی زندہ رہے داستاں بھی زندہ رہے
وہ کون لوگ تھے جن کا وجود جسم سے تھا
یہ کون ہیں جو پسِ جسم و جاں بھی زندہ رہے
جو یہ نہ ہو تو سخن کا کوئی جواز نہیں
ضمیر زندہ رہے تو زباں بھی زندہ رہے
یہ کائنات فقط منفعت کا نام نہیں
یہاں پہ کوئی برائے زیاں بھی زندہ رہے
عدم میں جو بھی نہیں تھا وہ سب وجود میں تھا
یہ ہم ہی تھے جو کہیں درمیاں بھی زندہ رہے
💖💜🍃🍂🌺🌷🍁
یہ زمیں اور آسماں نہ رہے
کچھ بھی میرے سِوا یہاں نہ رہے
میں ہی اول بھی اور آخر بھی
کوئی بھی میرے درمیاں نہ رہے
بس معانی ہوں، لفظ کھو جائیں
روح رہ جائے، جسم و جاں نہ رہے
میری یکسوئی میں پڑے نہ خلل
"میں رہوں اور یہ جہاں نہ رہے”
مہرباں آج مجھ پہ ہے جو نظر
عین ممکن ہے کل کلاں نہ رہے
ہاں بلا سے مری، رہے نہ وجود
نہیں رہتا عدم بھی، ہاں نہ رہے
سوچتا ہوں خموش ہو جاؤں
اور یہ حرفِ رائگاں نہ رہے
کاش چھا جائے ایک ابرِ اماں
اور کوئی بھی بے اماں نہ رہے
اک سہارا۔ ہے بے یقینوں کا
کیا کریں وہ اگر گماں نہ رہے
بات کیسی جو سننے والا نہ ہو
راز کیسا جو
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے باد نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے
💖💓💜
مر گیا میں ملا نہ یار افسوس
آہ افسوس صد ہزار افسوس
ہم تو ملتے تھے جب اہا ہاہا
نہ رہا ووہیں روزگار افسوس
یوں گنواتا ہے دل کوئی مجھ کو
یہی آتا ہے بار بار افسوس
قتل کر تو ہمیں کرے گا خوشی
یہ توقع تھی تجھ سے یار افسوس
رخصت سیر باغ تک نہ ہوئی
یوں ہی جاتی رہی بہار افسوس
خوب بدعہد تو نہ مل لیکن
میرے تیرے تھا یہ قرار افسوس
خاک پر میر تیری ہوتا ولے
نہ ہوا اتنا اقتدار افسوس
کیونکر رکھو گے ہاتھ دلِ بے قرار پر
میں تو تہِ مزار ہوں تم تو ہو مزار پر
یہ دیکھنے، قفس میں بنی کیا ہزار پر
نکہت چلی ہے دوشِ نسیم بہار پر
گر یہ ہی جور و ظلم رہے خاکسار پر
منہ ڈھک کے روئے گا تو کسی دن مزار پر
ابرو چڑھے ہوئے ہیں دلِ بے قرار پر
دو دو کھنچی ہوئی ہیں کمانیں شکار پر
رہ رہ گئی ہیں ضعف سے وحشت میں حسرتیں
رک رک گیا ہے دستِ جنوں تار تار پر
شاید چمن میں فصلِ بہاری قریب ہے
گرتے ہیں بازوؤں سے مرے بار بار پر
یاد آئے تم کو اور پھر آئے مری وفا
تم آؤ رونے اور پھر آؤ مزار پر
کس نے کئے یہ جور، حضور آپ نے کئے
کس پر ہوئے یہ جور، دلِ بے قرار پر
سمجھا تھا اے قمر یہ تجلی انھیں کی ہے
میں چونک اٹھا جو چاندنی آئی مزار پر
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain