باندھ لیں ہاتھ پہ سینے پہ سجا لیں تم کو
جی میں آتا ہے کہ تعویذ بنا لیں تم کو
پھر تمہیں روز سنواریں تمہیں بڑھتا دیکھیں
کیوں نہ آنگن میں چنبیلی سا لگا لیں تم کو
جیسے بالوں میں کوئی پھول چنا کرتا ہے
گھر کے گلدان میں پھولوں سا سجا لیں تم کو
کیا عجب خواہشیں اٹھتی ہیں ہمارے دل میں
کر کے منا سا ہواؤں میں اچھالیں تم کو
اس قدر ٹوٹ کے تم پہ ہمیں پیار آتا ہے
اپنی بانہوں میں بھریں مار ہی ڈالیں تم کو
کبھی خوابوں کی طرح آنکھ کے پردے میں رہو
کبھی خواہش کی طرح دل میں بلا لیں تم کو
ہے تمہارے لیے کچھ ایسی عقیدت دل میں
اپنے ہاتھوں میں دعاؤں سا اٹھا لیں تم کو
جان دینے کی اجازت بھی نہیں دیتے ہو
ورنہ مر جائیں ابھی مر کے منا لیں تم کو
جس طرح رات کے سینے میں ہے مہتاب کا نور
اپنے تاریک مکانوں میں سجا لیں تم کو
دکھ دے کر سوال کرتے ہو
تم بھی غالب کمال کرتے ہو
دیکھ کر پوچھ لیا حال میرا
چلو کچھ تو میرا خیال کرتے ہو
شہرِ دل میں یہ اداسیاں کیسی
یہ بھی مجھ سے سوال کرتے ہو
مرنا چاہیں تو مر نہیں سکتے
تم بھی جینا محال کرتے ہو
اب کس کس کی مثال دوں تم کو
ہر ستم بے مثال کرتے ہو
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں
میری آواز گر نہیں آتی
داغ دل گر نظر نہیں آتا
بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی
کعبہ کس منہ سے جاوگے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی
دن کچھ ایسے گزارتا ہے کوئی
جیسے احساں اتارتا ہے کوئی
دل میں کچھ یوں سنبھالتا ہوں غم
جیسے زیور سنبھالتا ہے کوئی
آئنہ دیکھ کر تسلی ہوئی
ہم کو اس گھر میں جانتا ہے کوئی
پیڑ پر پک گیا ہے پھل شاید
پھر سے پتھر اچھالتا ہے کوئی
دیر سے گونجتے ہیں سناٹے
جیسے ہم کو پکارتا ہے کوئی
🍃🌺🍂🍁
ہر ایک غم نچوڑ کے ہر اک برس جیے
دو دن کی زندگی میں ہزاروں برس جیے
صدیوں پہ اختیار نہیں تھا ہمارا دوست
دو چار لمحے بس میں تھے دو چار بس جیے
صحرا کے اس طرف سے گئے سارے کارواں
سن سن کے ہم تو صرف صدائے جرس جیے
ہونٹوں میں لے کے رات کے آنچل کا اک سرا
آنکھوں پہ رکھ کے چاند کے ہونٹوں کا مس جیے
محدود ہیں دعائیں مرے اختیار میں
ہر سانس پر سکون ہو تو سو برس جیے
شب ماہتاب نے شہ نشیں پہ عجیب گل سا کھلا دیا
مجھے یوں لگا کسی ہاتھ نے مرے دل پہ تیر چلا دیا ..
💖💕🍃🍂🌺
بے خیالی میں یوں ہی بس اک ارادہ کر لیا
اپنے دل کے شوق کو حد سے زیادہ کر لیا
جانتے تھے دونوں ہم اس کو نبھا سکتے نہیں
اس نے وعدہ کر لیا میں نے بھی وعدہ کر لیا
غیر سے نفرت جو پا لی خرچ خود پر ہو گئی
جتنے ہم تھے ہم نے خود کو اس سے آدھا کر لیا
شام کے رنگوں میں رکھ کر صاف پانی کا گلاس
آب سادہ کو حریف رنگ بادہ کر لیا
ہجرتوں کا خوف تھا یا پر کشش کہنہ مقام
کیا تھا جس کو ہم نے خود دیوار جادہ کر لیا
ایک ایسا شخص بنتا جا رہا ہوں میں منیرؔ
جس نے خود پر بند حسن و جام و بادہ کر لیا
💖💕💜🍃🌺🍂🍁
خیال جس کا تھا مجھے خیال میں ملا مجھے
سوال کا جواب بھی سوال میں ملا مجھے
گیا تو اس طرح گیا کہ مدتوں نہیں ملا
ملا جو پھر تو یوں کہ وہ ملال میں ملا مجھے
تمام علم زیست کا گزشتگاں سے ہی ہوا
عمل گزشتہ دور کا مثال میں ملا مجھے
ہر ایک سخت وقت کے بعد اور وقت ہے
نشاں کمال فکر کا زوال میں ملا مجھے
نہال سبز رنگ میں جمال جس کا ہے منیرؔ
کسی قدیم خواب کے محال میں ملا مجھے
💖💜🍃🌺🍂🍁
زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا
دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا
ہستی ہی اپنی کیا ہے زمانے کے سامنے
اک خواب ہیں جہاں میں بکھر جائیں ہم تو کیا
اب کون منتظر ہے ہمارے لیے وہاں
شام آ گئی ہے لوٹ کے گھر جائیں ہم تو کیا
دل کی خلش تو ساتھ رہے گی تمام عمر
دریائے غم کے پار اتر جائیں ہم تو کیا
💖💕🌺🍃🍂
یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خمار میں ہوں
تو آ کے جا بھی چکا ہے میں انتظار میں ہوں
مکاں ہے قبر جسے لوگ خود بناتے ہیں
میں اپنے گھر میں ہوں یا میں کسی مزار میں ہوں
در فصیل کھلا یا پہاڑ سر سے ہٹا
میں اب گری ہوئی گلیوں کے مرگ زار میں ہوں
بس اتنا ہوش ہے مجھ کو کہ اجنبی ہیں سب
رکا ہوا ہوں سفر میں کسی دیار میں ہوں
میں ہوں بھی اور نہیں بھی عجیب بات ہے یہ
یہ کیسا جبر ہے میں جس کے اختیار میں ہوں
منیرؔ دیکھ شجر چاند اور دیواریں
ہوا خزاں کی ہے سر پر شب بہار میں ہوں
💖💕🌷🌺🍃🍂
یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خمار میں ہوں
تو آ کے جا بھی چکا ہے میں انتظار میں ہوں
مکاں ہے قبر جسے لوگ خود بناتے ہیں
میں اپنے گھر میں ہوں یا میں کسی مزار میں ہوں
در فصیل کھلا یا پہاڑ سر سے ہٹا
میں اب گری ہوئی گلیوں کے مرگ زار میں ہوں
بس اتنا ہوش ہے مجھ کو کہ اجنبی ہیں سب
رکا ہوا ہوں سفر میں کسی دیار میں ہوں
میں ہوں بھی اور نہیں بھی عجیب بات ہے یہ
یہ کیسا جبر ہے میں جس کے اختیار میں ہوں
منیرؔ دیکھ شجر چاند اور دیواریں
ہوا خزاں کی ہے سر پر شب بہار میں ہوں
💖💕🍃🍂🍁🌺
یہ ایک بات سمجھنے میں رات ہو گئی ہے
میں اس سے جیت گیا ہوں کہ مات ہو گئی ہے
میں اب کے سال پرندوں کا دن مناؤں گا
مری قریب کے جنگل سے بات ہو گئی ہے
بچھڑ کے تجھ سے نہ خوش رہ سکوں گا سوچا تھا
تری جدائی ہی وجہ نشاط ہو گئی ہے
بدن میں ایک طرف دن طلوع میں نے کیا
بدن کے دوسرے حصے میں رات ہو گئی ہے
میں جنگلوں کی طرف چل پڑا ہوں چھوڑ کے گھر
یہ کیا کہ گھر کی اداسی بھی ساتھ ہو گئی ہے
رہے گا یاد مدینے سے واپسی کا سفر
میں نظم لکھنے لگا تھا کہ نعت ہو گئی ہے
💖💕🍃🍂🌺
ذہن سے یادوں کے لشکر جا چُکے
وہ میری محفل سے اُٹھ کر جا چُکے
میرا دِل بھی جیسے پاکستان ہے
سب حکومت کر کے باہر جا چُکے
💕💖🍃🍂🍁
یہ کس طرح کا تعلق ہے آپ کا میرے ساتھ
مجھے ہی چھوڑ کے جانے کا مشورہ،میرے ساتھ..
💖💕🍃🌺🍂🍁
میں جس کے ساتھ کئی دن گزار آیا ہوں
وہ میرے ساتھ بسر رات کیوں نہیں کرتا
😍💖💜🌺🍃🍂
سخت بزدل ہیں کہ جو عشق میں تھک جاتے ہیں
میں تو ہاں تم سے بچھڑ کر بھی تمھارا رہوں گا..
💖💕💜💛
تیرے قریب آکے بڑی الجھنوں میں ہوں
میں دشمنوں میں ہوں کہ ترے دوستوں میں ہوں
مجھ سے گریز پا ہے تو ہرراستہ بدل
میں سنگ راہ ہوں تو سبھی راستوں میں ہوں
تو آچکا ہے سطح پہ کب سے خبر نہیں
بے درد میں ابھی انہیں گہرائیوں میں ہوں
اے یارِ خوش دیار تجھے کیا خبر کہ میں
کب سے اداسیوں کے گھنے جنگلوں میں ہوں
تو لُوٹ کر بھی اہلِ تمناکوخوش نہیں
میں لُٹ کے بھی وفا کے انہیں قافلوں میں ہوں
بدلا نہ میرے بعد بھی موضوعِ گفتگو
میں جاچکا ہوں پھر بھی تری محفلوں میں ہوں
مجھ سے بچھڑ کے توبھی تو روئے گا عمر بھر
یہ سوچ لے کہ میں بھی تری خواہشوں میں ہوں
تو ہنس رہا ہے مجھ پہ مرا حال دیکھ کر
اور پھر بھی میں شریک ترے قہقہوں میں ہوں
خود بھی مثالِ لالۂِ صحرا لہولہو
اور خود فراز اپنے تماشائیوں میں ہوں
یوسف نہ تھے مـــگر سرِ بازار آ گئے
خوش فہمیاں یہ تھیں کہ خریدار آ گئے
ھم کج ادا چراغ کہ جب بھی ہوا چلی
طاقوں کو چھوڑ کر سرِ دیوار آ گئے
پھر اس طرح ہُوا مجھے مقتل میں چھوڑ کر
سب چارہ ساز جانبِ دربار آ گئے
اَب دل میں حوصلہ نہ سکت بازوں میں ہے
اب کے مقابلے پہ میرے یار آ گئے
آواز دے کے زندگی ہر بار چُھپ گئی
ہم ایسے سادہ دل تھے کہ ہر بار آ گئے
سورج کی روشنی پہ جنہیں ناز تھا فراز
وہ بھی تو زیرِ سایۂ دیوار آ گئے
💖💜🌺🍃🍂
گنگناتے ہوئے آنچل کی ہوا دے مجھ کو
انگلیاں پھیر کے بالوں میں سلا دے مجھ کو
جس طرح فالتو گلدان پڑے رہتے ہیں
اپنے گھر کے کسی کونے سے لگا دے مجھ کو
یاد کر کے مجھے تکلیف ہی ہوتی ہوگی
ایک قصہ ہوں پرانا سا بھلا دے مجھ کو
ڈوبتے ڈوبتے آواز تری سن جاؤں
آخری بار تو ساحل سے صدا دے مجھ کو
میں ترے ہجر میں چپ چاپ نہ مر جاؤں کہیں
میں ہوں سکتے میں کبھی آ کے رلا دے مجھ کو
دیکھ میں ہو گیا بدنام کتابوں کی طرح
میری تشہیر نہ کر اب تو جلا دے مجھ کو
روٹھنا تیرا مری جان لیے جاتا ہے
ایسے ناراض نہ ہو ہنس کے دکھا دے مجھ کو
اور کچھ بھی نہیں مانگا مرے مالک تجھ سے
اس کی گلیوں میں پڑی خاک بنا دے مجھ کو
لوگ کہتے ہیں کہ یہ عشق نگل جاتا ہے
میں بھی اس عشق میں آیا ہوں دعا دے مجھ کو
یہی اوقات ہے میری ترے جیون میں کہ میں
کھینچی ہے تصور میں تصویر ہم آغوشی
اب ہوش نہ آنے دے مجھ کو مری بے ہوشی
پا جانا ہے کھو جانا کھو جانا ہے پا جانا
بے ہوشی ہے ہشیاری ہشیاری ہے بے ہوشی
میں ساز حقیقت ہوں دم ساز حقیقت ہوں
خاموشی ہے گویائی گویائی ہے خاموشی
اسرار محبت کا اظہار ہے نا ممکن
ٹوٹا ہے نہ ٹوٹے گا قفل در خاموشی
ہر دل میں تجلی ہے ان کے رخ روشن کی
خورشید سے حاصل ہے ذروں کو ہم آغوشی
جو سنتا ہوں سنتا ہوں میں اپنی خموشی سے
جو کہتی ہے کہتی ہے مجھ سے مری خاموشی
یہ حسن فروشی کی دوکان ہے یا چلمن
نظارہ کا نظارہ روپوشی کی روپوشی
یاں خاک کا ذرہ بھی لغزش سے نہیں خالی
مے خانۂ دنیا ہے یا عالم بے ہوشی
ہاں ہاں مرے عصیاں کا پردہ نہیں کھلنے کا
ہاں ہاں تری رحمت کا ہے کام خطا پوشی
اس پردے میں پوشیدہ لیلائے دو عالم ہے
بے وجہ نہیں بیدمؔ کعب
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain