my youtube channel is...
Mehram Sajjad Technical
..........
plz subscribe our youtube channel
امام علی ع فرماتے ہیں مستحبات سے قرب الہی نہیں حاصل ہوسکتا ،جب کہ وہ واجبات میں سدراہ ہوں۔
امیرالمومنین علیہ السّلام سے شام کی جانب روانہ ہو تے وقت مقام انبار کے زمینداروں کا سامنا ہوا ،تو وہ آپ کو دیکھ کر پیادہ ہو گئے اور آپ کے سامنے دوڑنے لگے۔آپ نے فرمایا یہ تم نے کیا کیا ؟انہوں نے کہا کہ یہ ہمارا عام طریقہ ہے۔جس سے ہم اپنے حکمرانوں کی تعظیم بجالا تے ہیں۔آپ نے فرمایا۔خدا کی قسم اس سے تمہارے حکمرانوں کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچتا البتہ تم اس دنیا میں اپنے کو زحمت و مشقت میں ڈالتے ہو ،اور آخرت میں اس کی وجہ سے بدبختی مول لیتے ہو ،وہ مشقت کتنی گھاٹے والی ہے جس کا نتیجہ سزائے اخروی ہو ، اور وہ راحت کتنی فائدہ مند ہے جس کا نتیجہ دوزخ سے امان ہو۔
پھر اگر تم حکمران بن جاؤ تو تم سے توقع کی جا سکتی ہے کہ تم زمین میں فساد برپا کرو گے اور اپنے رشتوں کو توڑ ڈالو گے۔
ولایت و حکومت میں زیادہ قرین سیاق ہے۔ یعنی اگر یہ حکومت و اقتدار تم کو مل جائے تو تم سے فَسَادٍ فِی الۡاَرۡضِ اور قطع رحمی کے علاوہ کیا توقع رکھی جا سکتی ہے؟ چنانچہ چشم جہاں نے دیکھ لیا کہ حکومت جب بنی امیہ کے ہاتھ آئی تو انہوں نے نہ کسی چھوٹے پر رحم کیا، نہ کسی بڑے پر اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھی جان سے مارتے رہے۔ صَدَقَ اللّٰہُ الۡعَلِیُّ الۡعَظِیۡمُ ۔
انسان بھی اسی طرح کھانے کا محتاج ہے جس طرح چوپائے۔ فرق مقصد اور ذریعے کا ہے۔ چوپائے کی زندگی کا مقصد کھانا ہے، لیکن انسان کے مقدس مقصد کے لیے کھانا ایک ذریعہ ہے۔ کفار چونکہ زندگی کے اصل مقصد سے عاری ہوتے ہیں، اس لیے ان کے لیے بس کھانا ہی مقصود زندگی ہے۔ بقول سعدی انسان زندہ رہنے کے لیے کھاتا ہے، جبکہ جانور کھانے کے لیے زندہ رہتے ہیں ۔
اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔
..............................
مقام تکلیف میں اللہ پہل نہیں کرتا، بلکہ بندے کا پہل کرنا لازمی ہوتا ہے۔ چنانچہ اس آیت میں فرمایا: پہلے تم اللہ کی مدد کرو اور اپنے اندر اللہ کی نصرت کی قابلیت و اہلیت پیدا کرو تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور مدد کی نوعیت بھی یہ نہ ہو گی کہ اللہ خود دشمنوں کو نابود کردے گا، بلکہ نصرت کی نوعیت یہ ہو گی کہ یہ کام بھی خود بندوں سے لیا جائے گا۔ یعنی ان کوثابت قدمی د ے کر۔ اللہ چاہے تو خود ہی دشمنوں کو نابود کرسکتا ہے، مگر اللہ اپنے بندوں کو آزمائش کے ذریعہ مرتبہ دینا چاہتا ہے۔
تَبَّتۡ یَدَاۤ اَبِیۡ لَہَبٍ وَّ تَبَّ
.................
ہلاکت میں جائیں ابولہب کے دونوں ہاتھ اور وہ تباہ ہو جائے۔
-----------------------------
ابولہب رسول اللہؐ کی دشمنی میں ہر مقام پر پیش پیش رہتا تھا۔ رسول اللہؐ دعوت اسلام کے لیے جاتے تویہ ان کے پیچھے جاتا اور لوگوں کو آپ کی بات سننے سے روک دیتا ۔ ابولہب حضورؐ کا قریبی ہمسایہ تھا۔ اس لیے حضورؐ کو گھر میں بھی چین سے رہنے، نماز پڑھنے یا صحن میں کھانا پکانے نہیں دیتا تھا اور آپؐ پر غلاظت پھینکتا تھا۔ ابولہب کی بیوی ام جمیل (ابوسفیان کی بہن) رات کو آپؐ کے گھر کے دروازے پر خاردار جھاڑیاں پھینک دیا کرتی تھی۔
رسول اللہؐ کے فرزند یکے بعد دیگرے جب انتقال کر گئے تو مکہ کے بڑے معاندین جیسے ابوجہل، ابولہب اور عتبہ نے یہ کہنا شروع کیا: محمدؐ اَبۡتَرُ (لاولد ) ہیں۔ جب وہ دنیا سے جائیں گے تو ان کا نام مٹ جائے گا، جس پر یہ سورہ نازل ہوا، جس میں یہ نوید سنائی: ہم نے آپ کو کوثر عطا کی، آپ ابتر نہیں ہیں، بلکہ آپؐ کا دشمن ہی ابتر ہے۔
....
فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَ انۡحَرۡ
لہٰذا آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی دیں۔
...اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الۡاَبۡتَرُ
یقینا آپ کا دشمن ہی بے اولاد رہے گا
بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
سورہ کوثر
...
کوثر، فوعل کے وزن پر کثرت بیان کرنے کے لیے آتا ہے اور روایات میں کوثر کی تشریح خیر کثیر سے کی گئی ہے۔ اس خیر کثیر کے مصداق کا تعین اگلی آیت: اِنَّ شَانِئَكَ ہُوَالْاَبْتَرُ ۔ تمہارا دشمن ہی ابتر ہے، سے ہوتا ہے۔ آپؐ کو کوثر عنایت ہوا ہے، چنانچہ آپؐ ا بتر نہیں، بلکہ آپؐ کا دشمن ابتر ہے۔ یعنی کوثر سے مراد حضورؐ کے لیے اولاد کثیر ہے، جو حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سے پھیلی ہے۔ فخر الدین رازی اس آیت کے ذیل میں کہتے ہیں: دیکھو اہل البیتؑ کے کتنے افراد شہید کر دیے گئے، پھر بھی آج دنیا ان کی نسل سے پر ہے اور بنی امیہ کا کوئی قابل ذکر فرد باقی نہیں ہے۔
.....
اِنَّاۤ اَعۡطَیۡنٰکَ الۡکَوۡثَرَ
..
بیشک ہم نے ہی آپ کو کوثر عطا فرمایا۔
..
بسم اللہ الرحمن الرحیم
(ولایت مولا علی ع)
سورت المائدہ آیات 55
.......
...اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمۡ رٰکِعُوۡنَ
تمہارا ولی تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں
پھر اللہ نے ایک کوے کو بھیجا جو زمین کھودنے لگا تاکہ اسے دکھا دے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپائے، کہنے لگا: افسوس مجھ پر کہ میں اس کوے کے برابر بھی نہ ہو سکا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا، پس اس کے بعد اسے بڑی ندامت ہوئی۔
انسان کی موجودہ نسل میں واقع ہونے والا پہلا خونی واقعہ اور اس کرہ ارض پر بہنے والا پہلا ناحق خون اور اولاد آدم(ع) میں وقوع پذیر ہونے والاپہلا معرکہ حق و باطل۔ یہ معرکہ خیرو شر، ظلم و عدل، قساوت و رحم، تجاوز اور صبر، اطاعت و نافرمانی اور سعادت و شقاوت کا نمونہ ہے۔ اس معرکے میں ہابیل حق اور قابیل باطل کا کردار ادا کرتا ہے۔
ہابیل.کابیل
اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ تیری طرف بڑھانے والا نہیں ہوں، میں تو عالمین کے رب اللہ سے ڈرتا ہوں۔
میں چاہتا ہوں کہ میرے اور اپنے گناہ میں تم ہی پکڑے جاؤ اور دوزخی بن کر رہ جاؤ اور ظالموں کی یہی سزا ہے۔
چنانچہ اس کے نفس نے اس کے بھائی کے قتل کی ترغیب دی تو اسے قتل کر ہی دیا، پس وہ خسارہ اٹھانے والوں میں (شامل) ہو گیا۔
قبولیت اعمال کے لیے تقویٰ بنیاد ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے: لَا یَقِلُّ عَمَلٌ مَعَ التَّقْوَی وَ کَیْفَ یَقِلُّ مَا یُتَقَبَّلُ ۔ (نہج البلاغۃ۔ حکمت:95) تقویٰ کے ساتھ عمل تھوڑا نہیں ہوتا۔ بھلا وہ عمل تھوڑا کس طرح ہو سکتا ہے جسے اللہ نے قبول کیا ہو۔
اس آیت میں یہ نہیں فرمایا کہ یہ قربانی کیا چیز تھی، البتہ دوسری جگہ اس کا ذکر ملتا ہے کہ اس زمانے میں قربانی کی قبولیت کی علامت یہ تھی کہ آسمان سے آنے والی آتش اسے جلا دے۔ ملاحظہ فرمائیں سورۂ آل عمران آیت 183۔
اللہ پاک اپنے حبیب ص سے فرماتا ہے
اور آپ انہیں آدم کے دونوں بیٹوں کا حقیقی قصہ سنائیں جب ان دونوں نے قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی تو اس نے کہا: میں تجھے ضرور قتل کروں گا، (پہلے نے)کہا: اللہ تو صرف تقویٰ رکھنے والوں سے قبول کرتا ہے۔
ایسی باتیں ہیں جو صرف بنی اسرائیل کے ساتھ مخصوص ہیں۔
بنی اسرائیل کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے چند ایک نعمتوں کا ذکر ہے: 1۔ بنی اسرائیل میں انبیاء پیدا کیے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب اور حضرت یوسف علیہم السلام جیسے جلیل القدر انبیاء اس قوم میں پیدا ہوئے اور کسی قوم میں اس تعداد میں انبیاء مبعوث نہ ہوئے، جس قدر بنی اسرائیل سے پیدا ہوئے ہیں ۔ 2۔ ملوک بادشاہوں کے معنوں میں لیا جائے تو بنی اسرائیل میں حضرت یوسف ، حضرت سلیمان اور حضرت طالوت علیہم السلام و دیگر بادشاہ حکمران رہے ہیں اور اگر ملوک سے مراد خود مختار لیا جائے تو بھی بنی اسرائیل کو ایک لمبی مدت تک ظلم و ذلت سے آزاد ہو کر خود مختاری نصیب ہوئی ہے۔ 3۔ بنی اسرائیل کو وہ کچھ دیا جو دنیا میں کسی کو نہیں دیا گیا، مثلاً دریا کا شق ہونا، من و سلویٰ کا نازل ہونا اور پتھر سے چشمے پھوٹنا وغیرہ وغیرہ
بنی اسرائیل کو اللہ پاک کی خاص عطا
..
المائدہ آیات 20
..
وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِقَوۡمِہٖ یٰقَوۡمِ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ جَعَلَ فِیۡکُمۡ اَنۡۢبِیَآءَ وَ جَعَلَکُمۡ مُّلُوۡکًا ٭ۖ وَّ اٰتٰىکُمۡ مَّا لَمۡ یُؤۡتِ اَحَدًا مِّنَ الۡعٰلَمِیۡنَ
اور (وہ وقت یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم! تم اللہ کی اس نعمت کو یاد رکھو جو اس نے تمہیں عنایت کی ہے، اس نے تم میں انبیاء پیدا کیے،تمہیں بادشاہ بنا دیا اور تمہیں وہ کچھ دیا جو اس نے عالمین میں کسی کو نہیں دیا
آپؑ نے فرمایا : ولکنی ادری ’’لیکن میں جانتا ہوں کہ رسول خداؐ نے موزوں پرمسح کرنا سورۂ مائدہ کے نزول کے بعد ترک کر دیا تھا۔‘
آیت کا ذمہ دار ترجمہ یہ بنتا ہے:مسح کرو اپنے سروں کا اور اپنے پاؤں کا بھی ٹخنوں تک۔ اس جملے کی دو قرائتیں ہیں: اَرۡجُلَکُمۡ میں لام پر زبر اور زیر کے ساتھ۔ دونوں قرائتوں کی بنا پر رُءُوۡسِکُمۡ کے محل یا لفظ پر عطف ہے۔ لہٰذا دونوں قرائتوں کی بنا پر مسح رجلین ثابت ہے۔ چنانچہ صاحب تفسیر المنار کہتے ہیں: و الظاھر انہ عطف علی الرأس ای و امسحوا بارجلکم الی الکعبین ۔ اسی لیے ابن حزم اور طحاوی کو یہ مؤقف اختیار کرنا پڑا کہ مسح کا حکم منسوخ ہوا ہے۔ (المنار 6: 228)
غیر امامیہ کے ہاں مسح علی الخفین ایک مسلمہ امر ہے۔ روایت میں آیا ہے کہ اصحاب نے کہا: ہم نے خود رسول خداؐ کو مسح علی الخفین کرتے دیکھا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: نزول سورہ مائدہ سے پہلے دیکھا یا بعد میں؟ انہوں نے کہا: یہ ہم نہیں جانتے۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain