ہاتھ‘‘ کہنے سے معلوم نہیں ہوتا کہ کہاں تک دھونا ہے، کیونکہ کلائی تک کو بھی ہاتھ کہا جاتا ہے۔ اس لیے حد کو بیان کیا کہ کہنیوں تک دھونا ہے، نہ زیادہ نہ کم۔ لہٰذا یہ مغسول کی حدبندی ہے، غسل (دھونے) کی نہیں۔ یہاں دھونے کی ابتداء اور انتہا کا ذکرنہیں ہے۔ اس کا تعین سنت سے ہوتا ہے۔ وَ امۡسَحُوۡا بِرُءُوۡسِکُمۡ یعنی پورے سر کا نہیں ایک حصے کا مسح کرو۔ روایت ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھاگیا: ایک حصہ کہاں سے سمجھا جاتا ہے؟ آپؑ نے فرمایا : لمکان الباء یعنی باء سے جو رُءُوۡسِکُمۡ میں ہے۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قُمۡتُمۡ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغۡسِلُوۡا وُجُوۡہَکُمۡ وَ اَیۡدِیَکُمۡ اِلَی الۡمَرَافِقِ وَ امۡسَحُوۡا بِرُءُوۡسِکُمۡ وَ اَرۡجُلَکُمۡ اِلَی الۡکَعۡبَیۡنِ
..............................
اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لیا کرو نیز اپنے سروں کا اور ٹخنوں تک پاؤں کا مسح کرو
وضو کا طریقہ قرآن کی رو سے
سورت المائدہ آیات 06
باغ فدک
(حق بی بی پاک فاطمہ س)
وَ اٰتِ ذَاالۡقُرۡبٰی حَقَّہٗ وَ الۡمِسۡکِیۡنَ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِ وَ لَا تُبَذِّرۡ تَبۡذِیۡرًا
قریب ترین رشتے دار کو اس کا حق دیا کرو اور مساکین اور مسافروں کو بھی اور فضول خرچی نہ کیا کرو
سورت الاسراء آیات 26
ابن مردویہ، بزاز، ابویعلی اور ابو حاتم نے ابوسعید خدری سے اور ابن مردویہ نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہؐ نے فدک حضرت فاطمہ (س) کے حوالے کر دیا۔ (در منثور 4: 320)۔ حضرت امام زین العابدین(ع) نے ایک شامی کے سوال کے جواب میں فرمایا ذا القربی ہم ہیں (در منثور 4: 318)
چنانچہ چشم تاریخ نے دیکھ لیا کہ عصر رسولؐ کے بعد بااثر لوگوں کے ترکے میں ملنے والے سونے کو کلہاڑیوں سے تقسیم کیا گیا۔ وَ مَاۤ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ خاص کر اس جگہ پر رسولؐ کے فرامین کی تعمیل پر تاکید سے عندیہ ملتا ہے کہ اس جگہ خلاف ورزی کا زیادہ امکان ہے۔ چنانچہ اس حکم کے لفظ میں عمومیت ہے اور رسول کے ہر حکم کو شامل کرتا ہے۔ تاہم اصل محل کلام فیٔ کا مال ہے۔ یہ مال چونکہ رسول کریمؐ کی ملکیت ہے، لہٰذا رسولؐ جو تمہیں دے دیں وہ لے لو اور جس مال سے روک دیں، اس سے رک جاؤ۔ لہٰذا یہ بات نہایت ہی واضح ہے کہ رسولؐ نے اپنی زندگی میں اس مال کے بارے میں جو بھی فیصلہ کیا ہے، اس آیت کی روشنی میں اس کے خلاف کرنا جائز نہیں ہے۔
ان بستیوں سے مرادبنی قریظہ، بنی نضیر، فدک، خیبر، عرینہ اور ینبع کے علاقے ہیں۔ پہلا حصہ اللہ اور رسولؐ کا ہے۔ اس حصے کو رسولؐ اپنے اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتے تھے اور جو بچ جاتا اسے راہ خدا میں خرچ کرتے تھے۔ دوسرا حصہ رسول اللہؐ کے قریبی رشتہ داروں کا ہے۔ حضرت امام زین العابدینؑ سے روایت ہے: یتیموں، مسکینوں اور مسافروں سے مراد ہم اہل بیت (ع) کے یتیم، مسکین اور مسافر ہیں۔ اللہ کے بعد رسولؐ کا حصہ اور ذوالقربیٰ کا حصہ آل رسولؐ کا حق ہے۔چنانچہ اسی بنیاد پر اللہ کے رسولؐ نے فدک حضرت فاطمہؑ کی ملکیت میں دے دیا تھا۔ مال غنیمت لڑنے والوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ جو مال بغیر لڑائی کے ہاتھ آئے اس میں درج بالا تقسیم ضروری ہے، وگرنہ اقتدار وغیرہ کے اثر و رسوخ کی وجہ سے یہ مال چند غیر محتاج لوگوں کے ہاتھوں چلا جائے گا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
...
مَاۤ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ مِنۡ اَہۡلِ الۡقُرٰی فَلِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوۡلِ وَ لِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ کَیۡ لَا یَکُوۡنَ دُوۡلَۃًۢ بَیۡنَ الۡاَغۡنِیَآءِ مِنۡکُمۡ ؕ وَ مَاۤ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ ٭ وَ مَا نَہٰىکُمۡ عَنۡہُ فَانۡتَہُوۡا ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ
(الحشر آیات 07)
اللہ نے ان بستی والوں کے مال سے جو کچھ بھی اپنے رسول کی آمدنی قرار دیا ہے وہ اللہ اور رسول اور قریب ترین رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے تاکہ وہ مال تمہارے دولت مندوں کے درمیان ہی گردش نہ کرتا رہے اور رسول جو تمہیں دے دیں وہ لے لو اور جس سے روک دیں اس سے رک جاؤ اور اللہ کا خوف کرو، اللہ یقینا شدید عذاب دینے والا ہے۔
مولا علی ع نے اپنے ایک ساتھی سے اس کی بیماری کی حالت میں فرمایا۔اللہ نے تمہارے مرض کو تمہارے گناہوں کو دور کرنے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔کیونکہ خود مرض کا کوئی ثواب نہیں ہے۔مگر وہ گناہوں کو مٹاتا ،اور انہیں اس طرح جھاڑ دیتا ہے جس طرح درخت سے پتے جھڑتے ہیں۔ ہاں ! ثواب اس میں ہوتا ہے کہ کچھ زبان سے کہا جائے اور کچھ ہاتھ پیروں سے کیا جائے ،اور خدا وند عالم اپنے بندوں میں سے نیک نیتی اور پاکدامنی کی وجہ سے جسے چاہتا ہے جنت میں داخل کرتا ہے۔
روحانیت سے عاری مادی ذہن میں وحی کا مفہوم ٹھہر نہیں سکتا
اَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَنۡ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی رَجُلٍ مِّنۡہُمۡ۔۔۔
مؤمن کے لیے ثواب آخرت کی ضمانت دی جاتی ہے
یعنی قیامت کے دن اس زمین و آسمان کا موجودہ نظام دگرگوں ہو جائے گا اور موجودہ نظام عالم بدل جائے گا۔ چنانچہ ایک جرثومہ جس نظام زندگی کے تحت زندہ رہتا ہے، وہ جب بدل جاتا ہے اور عالم نطفہ میں داخل ہوتا ہے تو زندگی کے طور و طریقے اور لوازم و قوانین بدل جاتے ہیں۔ نطفہ جب جنین بنتا ہے نیز جب جنین شکم مادر سے اس دنیا میں قدم رکھتا ہے تو زندگی کے لوازم و قوانین بدل جاتے ہیں۔ عالم آخرت کا نظام اگرچہ طبیعی ہے، مگر وہ مختلف نظام طبیعت ہے۔ اس نظام میں یہ زمین کسی اور زمین میں بدل جائے گی۔ اس نظام طبیعت میں مجرم لوگ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہوں گے۔ ان کے جسم پر گندھک یا تارکول جیسا آتش گیر مادہ بطور لباس ہو گا اور ان کے جسم پر آگ چھائی ہوئی ہو گی۔ اس کے باوجود وہ زندہ رہیں گے۔
بروز قیامت ظالم، مفاد پرست اور ان کے پیروکار اور شیطان سب اللہ کے حضور پیش ہوں گے تو حقائق سامنے آ چکے ہوں گے۔ عذاب الٰہی کا جب مشاہدہ کریں گے تو پیروکار اپنی دنیاوی عادت کے مطابق آخرت میں بھی انہی رؤساء کی طرف رجوع کریں گے اور دنیا میں ان کی پیروی کو ذریعہ نجات تصور کر کے کہیں گے: ہم تمہارے تابع تھے کیا تم اللہ کے عذاب کا کچھ حصہ ہم سے ہٹا سکتے ہو ۔جبکہ یہ تابعیت اور اطاعت نہ صرف ذریعہ نجات نہیں ہے بلکہ ہلاکت ہے۔
دنیا میں کمزور لوگ ہمیشہ طفیلی سوچ رکھتے تھے۔ وہ اپنے عقائد و افکار میں آزاد نہ تھے، وہ آنکھیں بند کر کے اپنے بڑوں کی پیروی کرتے تھے۔ وہ آخرت میں بھی دنیاوی عادت کے مطابق پھر انہی کی طرف رجوع کریں گے۔
قوم ثمود کے مطالبے پر حضرت صالح (ع) نے ایک اونٹنی کو بطور معجزہ پیش کیا اور یہ اعلان کیا کہ یہ اونٹنی اپنی مرضی سے چرتی رہے گی اور ہر دوسرے دن سارا پانی اس کے لیے مخصوص ہو گا ۔ لیکن اس قوم کے سب سے بدطینت شخص نے اس اونٹنی کو مار ڈالا، جس کے وجہ سے اس قوم پر عذاب نازل ہوا۔
شمس حیات و زندگی کا منبع ہے۔ کہتے ہیں سورج اہل ارض کے لیے ایک سال کی انرجی ایک منٹ میں فراہم کرتا ہے، اگر زمین والے اس انرجی کو ذخیرہ کر سکیں۔
سعادت مندی اور خوش نصیبی و ہ شخص حاصل کر سکتا ہے جو اللہ کی مذکورہ بالا نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس راہ میں پیش آنے والی دشوار گزار گھاٹیوں کو عبور کرے۔ وہ گھاٹی مال و دولت کی محبت ہے۔ اس مال کو غلام آزاد کرنے پر خرچ کرے۔ اسلام کا انسان کو غلام بنانے کے ساتھ واسطہ پڑا تو اس کے لیے حل پیش کیا اور صرف کفر کے ساتھ جنگ کی صورت میں کافر اسیروں کو غلام بنانے کی صورت باقی رکھی۔ فاقہ کش کو یا رشتہ دار یتیم کو یا مسکین کو کھانا کھلانا بھی نجات کا راستہ ہے۔
قرآن و حدیث سے ناداروں، خاص کر نادار یتیموں کی کمک کا جو اجر اور درجات معلوم ہوتے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ کے نزدیک یہ عمل سب سے زیادہ پسندیدہ عمل ہے۔

روایت کے مطاق ہر مؤمن کو احتضار کی حالت میں پنجتن پاک علیہم السلام نظر آئیں گے اور یہی ندا آئے گی: میرے بندوں! محمد و اہل بیت محمدؐ کے ساتھ شامل ہو جاؤ اور میری جنت میں داخل ہو جاؤ، تو اس وقت اس کے لیے موت سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہ ہو گی۔ (الکافی 3: 127) تاہم اس آیت کا صریح ترین مصداق سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کو قرار دیا گیا ہے۔
قرآن میں فرعون کو ’’میخوں والا ‘‘ اس لیے کہا گیا کہ وہ لوگوں کے ہاتھوں اور پیروں میں میخیں ٹھونک کر عذاب دیتا تھا۔
آپ کی ذمے داری نصیحت کرنا ہے۔ ان پر اسلام تھوپنا اور مجبور کرنا آپ کی ذمے داری نہیں ہے۔ عقیدہ و ایمان دل سے مربوط ہے اور دل جبر کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالتا۔ لہٰذا یہاں کسی قسم کا جبر نہیں چلے گا۔ ارتقائی سفر جبر سے نہیں، اختیار و ارادے سے طے ہوتا ہے۔ جہاد ان لوگوں کے خلاف ہوتا ہے جو اس آزادی و اختیار اور ارادے کی راہ میں حائل ہوتے ہیں۔
اونٹ میں جو خاصیتیں ہیں وہ کسی اور جانور میں نہیں ہیں۔1۔ اس کا گوشت دودھ سواری باربرداری۔ 2۔ سات سے دس دن تک پیاس برداشت کرتا ہے، بھوک اس سے زیادہ۔ 3۔ اسے صحرائی کشتی بھی کہتے ہیں۔ ایک دن میں طویل مسافت طے کرتا ہے۔ 4۔ تھوڑے سے چارے سے سیر ہوتا ہے۔ 5۔ سخت موسمی حالات کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ 6۔ ایسا فرماں بردار کہ ایک بچہ بھی پورا قافلہ قابو کر سکتا ہے۔
عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ ۙ
عَامِلَۃٌ : کے ایک معنی یہ کیے گئے ہیں کہ قیامت کے دن کی مصیبتیں اٹھا اٹھا کر تھکے ہوئے ہوں گے۔ دوسرے یہ معنی کیے ہیں کہ دنیا میں اس کے سارے اعمال باطل اور بے سود رہ گئے، سوائے تھکاوٹ کے۔ اس کو آخرت میں کوئی فائدہ نہیں مل رہا ہو گا۔ عمل کے باوجود تھک ہار چکے ہوں گے۔ یعنی مذاہب باطلہ کے پیروکار لوگ۔
قیامت ایک ایسا عظیم حادثہ ہے، جس کی زد میں تمام مخلوقات نے آنا ہے۔ اسی لیے اسے غاشیہ یعنی چھا جانے والا کہا گیا ہے۔ اس روز کی اہمیت کے پیش نظر سوالیہ جملہ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے خطاب فرمایا۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain