الا ماشاء اللہ کا استثنیٰ صرف اس بات کا اظہار ہے کہ اگر اللہ آپؐ سے اس وحی کو سلب کرنا چاہے تو پھر آپ بھول سکتے ہیں، مگر اللہ ایسا نہیں کرے گا۔ چنانچہ سورہ بنی اسرائیل آیت 86 ۔ 87 میں فرمایا: وَ لَئِنۡ شِئۡنَا لَنَذۡہَبَنَّ بِالَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ بِہٖ عَلَیۡنَا وَکِیۡلًا ۔ اور اگر ہم چاہیں تو ہم نے جو کچھ آپ کی طرف وحی کی ہے وہ سلب کر لیں، پھر آپ کو ہمارے مقابلے میں کوئی حمایتی نہیں ملے گا۔ اِلَّا رَحۡمَۃً مِّنۡ رَّبِّکَ ؕ اِنَّ فَضۡلَہٗ کَانَ عَلَیۡکَ کَبِیۡرًا ۔ سوائے آپ کے رب کی رحمت کے، آپ پر اس کا بڑا فضل ہے۔ یعنی اللہ کی رحمت اور فضل کے ہوتے ہوئے یہ وحی سلب نہیں ہو سکتی۔
قرآن کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ذمے لی ہے، لہٰذاقرآن کے تحفظ کا اولین مرحلہ یہی ہے کہ جس ہستی کے سینے پر قرآن نازل کیا جا رہا ہے، اس سینے میں وہ حفظ ہو جائے اور عدم نسیان اس کا لازمہ ہے۔ ہم نے کئی بار پہلے بھی اس بات کی وضاحت کی ہے کہ رسول کریم وحی کو اپنے حواس ظاہری کے ذریعے وصول نہیں کرتے تھے، بلکہ آپؐ وحی کو اپنے پورے وجود کے ساتھ وصول فرماتے تھے۔ اپنے وجود کو نہ بھولا جا سکتا ہے، نہ اس میں غلطی سرزد ہو سکتی ہے۔ لہٰذا صحیح بخاری کی وہ روایت صریح قرآن کے خلاف ہے جس میں رسول اللہؐ کی طرف ایک آیت کی فراموشی کی نسبت دی گئی ہے۔
کافر اپنی احمقانہ چال چلتاہے اور اللہ بھی حکیمانہ چال چل رہا ہے۔ کافروں کی چال اللہ کے دین کے خلاف سازش کاری ہے اور اللہ کی چال ان کو مہلت دینا ہے۔ یہ مہلت کافر کے لیے مہلک ہے۔ ان کو جرم میں اضافے کی مہلت دی جاتی ہے، جو بہت بڑی سزا کا پیش خیمہ ہے۔
الرَّجۡعِ رجوع سے ہے۔ بارش کو رجع اس لیے کہتے ہیں کہ زمین سے اٹھنے والا بخار واپس زمین کی طرف بارش بن کر آتا ہے۔
دنیا میں تو اللہ ستار العیوب ہے، کیونکہ یہ دارالامتحان ہے، لیکن دارالجزاء میں تو بہت سے لوگوں کے راز فاش ہو جائیں گے۔ دنیا میں نیک اور صالح بن کر لوگوں کو دھوکہ دینے والے قیامت کے روز رسوا ہو جائیں گے۔
جو ذات ریڑھ اور سینے کی ہڈیوں سے نطفہ بنا سکتی ہے، وہ اس انسان کو مٹی کے ذرات سے بھی دوبارہ بنا سکتی ہے۔


بسم اللہ الرحمن الرحیم
سورت لقمان آیات 6
تفسیر ...
...
اس آیت کے شان نزول میں مروی ہے کہ نضر بن حارث تاجرتھا اور فارس (ایران) کے علاقوں میں سفر کرتا تھا اور وہاں کی داستانوں پر مشتمل کتب خرید کر لاتا اور انہیں قریش والوں کو سنایا کرتا اور کہتا تھا: محمد (ص) تمہیں عاد و ثمود کی داستانیں سناتا ہے اور میں تمہیں رستم و اسفندیار اور بادشاہوں کی داستانیں سناتا ہوں۔ چنانچہ لوگ قرآن کی جگہ یہ داستانیں سنا کرتے تھے۔ (مجمع البیان)
امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے: غنا وہ گناہ ہے جس پر اللہ نے جہنم کی سزا رکھی ہے، پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس آیت کے ذیل میں فرمایا: غنا بھی لَہۡوَ الۡحَدِیۡثِ میں شامل ہے۔حضرت امام رضا علیہ السلام سے بھی یہی مروی ہے۔ (المیزان)
سورت روم آیات 54
ترجمعہ
اللہ وہ ہے جس نے کمزور حالت سے تمہاری تخلیق (شروع) کی پھر کمزوری کے بعد قوت بخشی پھر قوت کے بعد کمزور اور بوڑھا کر دیا، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ بڑا جاننے والا صاحب قدرت ہے۔
تفسیر
...
اور انسان جو نہایت کمزور جرثومہ، کمزور بوند، کمزور جنین اور کمزور شیر خوار بچہ تھا، بعد میں کچھ طاقت و قوت کا مالک بن جاتا ہے، جس میں یہ نادان انسان اپنے ماضی اور مستقبل سے غافل ہوتا ہے، اتنے میں پھر ضعیفی اسے آ لیتی ہے۔
الروم آیات نمبر 47
تفسیر
...
یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب انبیاء علیہم السلام کی تکذیب کی جاتی تھی اور انبیاء کے ساتھ ایک چھوٹی سی جماعت حق پر قائم تھی۔ طاقتور باطل کے مقابلے میں یہ بے سر و سامان جماعت صرف اللہ کی نصرت کی امید میں استقامت دکھاتی تھی۔ ایسے مؤمنین کی نصرت اللہ کے ذمے ہے۔
الروم آیات 39
تفسیر
...
اپنے کاربار میں سہولت اور دولت میں اضافے کے لیے بااثر لوگوں کو تم جو مال و تحائف پیش کرتے ہو اس سے سرمائے میں اضافہ نہیں ہوتا۔ سرمائے میں اضافہ کی بہتر صورت یہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ اس سے تمہاری دولت بڑھے گی۔
ربا سے مراد یہاں اصطلاحی ’سود‘ نہیں ہے، بلکہ ہر قسم کا اضافہ مقصود ہے اور نہ ہی زکوٰۃ سے مراد اصطلاحی زکوٰۃ ہے، بلکہ ہر قسم کا صدقہ مراد ہے۔
آج کل ہمارا پاکستانی بینک کا قانون جس بات کو جائز قرار دیتا ہے اللہ تعالی نے اس کو واضع طور پر رد کیا ہے
الروم آیات نمبر
39
...
سود
!!
...
اور جو سود تم لوگوں کے اموال میں افزائش کے لیے دیتے ہو وہ اللہ کے نزدیک افزائش نہیں پاتا اور جو زکوٰۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے دیتے ہو پس ایسے لوگ ہی (اپنا مال) دوچند کرنے والے ہیں۔
الروم تفسیر آیات 36
جو شخص بھی ایک محکم اور استوار مؤقف پر قائم نہیں ہے وہ بدلتے حالات کی رو میں تنکے کی طرح بہ جاتا ہے۔ خوشحالی پر اترانا اور گردش ایام میں ناامیدی کی تاریکی میں ڈوب جانا بے مؤقف انسان کا شیوہ ہو سکتا ہے، جبکہ اللہ پر پختہ یقین رکھنے والے لوگ جبل راسخ کی طرح ہوتے ہیں اور وہ سخت آندھیوں سے نہیں ہلتے۔
الروم فرقہ واریت سے منع
آیات نمبر32
....
جنہوں نے اپنے دین میں پھوٹ ڈالی اور جو گروہوں میں بٹ گئے، ہر فرقہ اس پر خوش ہے جو اس کے پاس ہے۔
....
اور جنہوں نے اپنے دین میں پھوٹ ڈالی ہے ان میں بھی شامل نہ ہوں، کیونکہ شرک ہوس پرستی کی وجہ سے وجود میں آتا ہے اور خواہشات کی بنیاد پر جو چیز قائم ہو گی، اس میں اختلاف ضرور آئے گا، چونکہ لوگوں کی خواہشات مختلف ہوتی ہیں۔
الروم آیات نمبر
29
....
مگر ظالم لوگ نادانی میں اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں پس جسے اللہ گمراہ کر دے اسے کون ہدایت دے سکتا ہے؟ اور ان کا کوئی مددگار نہ ہو گا۔
...
الروم آیات نمبر 28
ترجمعہ
...
وہ تمہارے لیے خود تمہاری ایک مثال دیتا ہے، جن غلاموں کے تم مالک ہو کیا وہ اس رزق میں تمہارے شریک ہیں جو ہم نے تمہیں دیا ہے؟ پھر وہ اس میں (تمہارے) برابر ہو جائیں اور تم ان سے اس طرح ڈرنے لگو جس طرح تم (آزاد) لوگ خود ایک دوسرے سے ڈرتے ہو؟ عقل رکھنے والوں کے لیے ہم اس طرح نشانیاں کھول کر بیان کرتے ہیں۔
...
تفسیر
مشرکین اللہ کو مالک تسلیم کرتے ہیں، اس کے بعد کسی مملوک کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں۔ اس مثال میں یہ وضاحت ہے کہ تم اللہ کے دیے ہوئے مال میں اپنے مملوک غلام کو شریک کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہو، لیکن یہ بات کس قدر نامعقول ہے کہ اللہ کے مملوک اور مخلوق کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہو۔
الروم آیات 25 ترجمعہ
اور یہ بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ آسمان اور زمین اس کے حکم سے قائم ہیں، پھر جب وہ تمہیں زمین سے ایک بار پکارے گا تو تم یکایک نکل آؤ گے۔
...
تفسیر
آسمان اور زمین امر خدا سے قائم ہیں۔ یعنی یہ دونوں اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے ہر آن اللہ کے حکم کے محتاج ہیں۔ اگر ایک لمحے کے لیے بھی اللہ اپنا امر اٹھا لے تو ان کا وجود صفحہ ہستی سے مٹ جائے۔
الروم آیات 24
اور خوف اور طمع کے ساتھ تمہیں بجلی کی چمک دکھانا اور زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کرنے کے لیے آسمان سے پانی برسانا بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے، عقل سے کام لینے والوں کے لیے یقینا اس میں نشانیاں ہیں۔
الروم آیات 23 تفسیر
نیند اللہ کی واضح نشانی ہے جس سے انسان کو وہ طاقت واپس مل جاتی ہے جو دن میں زندگی کی دوڑ دھوپ میں خرچ ہو گئی تھی۔ اگر انسان کی تخلیق ایک باشعور و باارادہ ہستی کی طرف سے نہ ہوئی ہوتی تو اندھے بے شعور مادے کو نیند کے ذریعے انسان کو ہمیشہ مستعد رکھنے کی کیا ضرورت تھی۔
نیند ایک نعمت ہے۔ اس زندگی کا گزارنا کوئی آسان کام نہیں۔ دنیا ہمیشہ آپ کی خواہش کے مطابق نہیں چلتی۔ پریشانی اور ذہنی تناؤ اس زندگی کا حصہ ہیں۔ جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی۔ دوسری طرف دن بھر کی جفاکشی اور محنت کے بعد آپ کے اعصاب تھک جاتے ہیں۔ نیند ایک ایسی نعمت ہے جس میں انسان تمام پریشانیوں سے بے خبر سو جاتا ہے، خستہ اعصاب کو سکون ملتا ہے اور بدن کی صلاحیتیں دوبارہ تازہ دم ہو جاتی ہیں۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain