الروم آیات نمبر 21 اور یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے ازواج پیدا کیے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے مابین محبت اور مہربانی پیدا کی، غور و فکر کرنے والوں کے لیے یقینا ان میں نشانیاں ہیں۔ اول تو زن و مرد کی تخلیق میں توازن روز اول سے لے کر آج تک برقرار ہے۔ نہ عورتوں کے لیے مردوں کی قلت پیش آتی ہے اور نہ مردوں کے لیے عورتوں کی قلت۔ ثانیاً اللہ تعالیٰ نے ان دونوں میں ایک دوسرے کے لیے کشش ودیعت فرمائی کہ ایک کو دوسرے سے سکون مل جائے۔ سوم یہ کہ ان دونوں میں حاکم اور محکوم کا نہیں، محبت و شفقت کا رابطہ قائم کیا۔ دونوں احترام آدمیت میں مساوی ہیں۔
الروم آیات 20 دوبارہ زندہ کرنا ے جان عناصر ارضی سے ایک عقل و شعور کا مالک پیدا کرنا کیا اللہ کی قدرت کاملہ کی دلیل نہیں ہے کہ وہ انسانوں کے مرنے کے بعد بھی ایسا کر سکتا ہے۔
الروم آیات 19 اور وہ زندہ کو مردے سے نکالتا ہے اور مردے کو زندہ سے نکالتا ہے اور زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کرتا ہے اور اسی طرح تم بھی نکالے جاؤ گے۔ بے جان مادے سے جاندار، حیوانات اور نباتات پیدا ہوتے ہوئے ہم روز دیکھتے ہیں۔ اس ذات کے لیے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔
الروم آیات 14 قیامت کے دن دنیا کی ساری بندشیں ٹوٹ جائیں گی، یہاں ایمان و کفر کی بنیاد پر تقسیم بندی ہو گی۔ ایمان والے جنت میں خوشحال و شاداں ہوں گے اور کفر والے عذاب میں ہوں گے۔
الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ کا بِسۡمِ اللّٰہِ میں یکجا ذکر کرنے سے اللہ کے مقام رحمت کی تعبیر میں جامعیت آ جاتی ہے کہ الرَّحۡمٰنِ سے رحمت کی عمومیت اور وسعت: وَ رَحۡمَتِیۡ وَسِعَتۡ کُلَّ شَیۡءٍ (7: 156) " میری رحمت ہر چیزکو شامل ہے" اور الرَّحِیۡمِ سے رحم کا لازمۂ ذات ہونا مراد ہے: کَتَبَ رَبُّکُمۡ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ (6: 54) "تمہارے رب نے رحمت کو اپنے اوپر لازم قرار دیا ہے" ۔ لہٰذا اس تعبیر میں عموم رحمت اور لزوم رحمت دونوں شامل ہیں۔
بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡم سورت فاتحہ اس سورہ کو فاتحۃ الکتاب (کتاب کا افتتاحیہ) کہا جاتا ہے اور یہ بات مسلّم ہے کہ سورتوں کے نام توقیفی ہیں۔ یعنی ان کے نام خود رسول کریم(ص)نے بحکم خدا متعین فرمائے ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ قرآن عہد رسالت میں ہی مدون ہو چکا تھا جس کا افتتاحیہ "سورہ فاتحہ" ہے۔ ائمہ اہل بیت علیہم السلام کا اجماع ہے کہ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ سورۂ برائت کے علاوہ قرآن کے ہر سورے کا جزو ہے۔ عہد رسالت سے مسلمانوں کی یہ سیرت رہی ہے کہ وہ سورۂ برائت کے علاوہ ہر سورے کی ابتدا میں بِسۡمِ اللّٰہِ کی تلاوت کرتے تھے۔ تمام اصحاب و تابعین کے مصاحف میں بھی بِسۡمِ اللّٰہِ درج تھی، جب کہ تابعین، قرآن میں نقطے درج کرنے سے احتراز کرتے تھے۔
لہذا اگر ہم 421 سے 309 منفی کریں تو طراجان کا عہد حکومت 112ء نکل آتا ہے۔ بعض مستشرقین سریانی روایت کو بنیاد بنا کر قرآنی روایت کو مطعون کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ سریانی روایت اصحاب کہف کی بیداری کے چالیس سال بعد لکھی گئی جو بیداری کے حالات کے بارے میں کسی قدر قابل اعتماد ہو سکتی ہے، لیکن ان کی ہجرت کا واقعہ کب پیش آیا؟ اس کے بارے میں سریانی روایت بالکل قابل اعتماد نہیں ہے، کیونکہ واقعہ اس روایت سے صدیوں پہلے پیش آیا تھا۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ مدت بیان کرنے کا یہ قول لوگوں کے قول کا بیان ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کا اپنا قول، کیونکہ بعد میں اللہ فرماتا ہے کہ ان سے کہدیجیے اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنی مدت سوئے۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس نے بھی یہی کہا ہے کہ یہ اللہ کا اپنا قول نہیں، لوگوں کے قول کا بیان ہے۔
اصحاب کہف قیصر روم تھیوڈوسیس کے عہد سلطنت میں تقریباً 445ء میں بیدار ہوئے اور بقول بعضے یہ واقعہ قیصر دقیانوس کے عہد 249۔251 میں پیش آیا۔ اس طرح ان کے خواب کی مدت 197 سال بنتی ہے۔ جبکہ قرآن یہ مدت 309 سال بتاتا ہے۔ اس کے دو جواب ہیں۔ اصل تحقیق کے مطابق اصحاب کہف کا واقعہ قیصر روم طراجان کے عہد سلطنت 98۔117ء میں پیش آیا، نہ کہ قیصر دقیانوس 251ء کے عہد میں، جیساکہ بعض مسیحی راوایات میں آیا ہے اور نہ دقیانوس 305ء کے عہد میں جیسا کہ بعض دیگر مسلم و غیر مسلم روایات میں آیا ہے اور یہ بات مسلم ہے کہ اصحاب کہف قیصرتھیوڈوسیس کے عہد میں بیدار ہوئے جس کی سلطنت 408ء سے 450ء تک رہی۔
جب وہ قیصر تھیوڈوسیس کے عہد میں بیدار ہوئے تو اس وقت رومی سلطنت مسیحیت اختیار کر چکی تھی۔ بیدار ہوکر آپس میں ایک دوسرے سے پوچھا ہم کتنی دیر سوئے ہوں گے؟ کسی نے کہا دن بھر۔ کسی نے کہا دن کا کچھ حصہ۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے ایک ساتھی کو چاندی کے چند سکے دے کر کھانا لانے کے لیے شہر بھیجا۔ جب وہ شہر پہنچا تو حیرت زدہ ہو گیاک ہ ہر چیز بدلی ہوئی ہے، سب لوگ مسیحی ہو گئے ہیں اور بت پرستی کرنے والا کوئی باقی نہیں رہا۔ ایک دوکان سے روٹی خریدی، دوکاندار کو چاندی کا ایک سکہ دیا جس پر قیصر تھیوڈوسیس کی تصویر تھی تو وہ اس سے پوچھنے لگے کہ وہ دفینہ کہاں ہے جہاں سے تم یہ سکہ لائے ہو؟ کیونکہ قیصر تھیوڈوسیس کو مرے ہوئے مدت گزر چکی ہے۔ یہ سن کر وہ حیران رہ گیا اور کہا کل ہی تو میں اور میرے ساتھی اس شہر سے بھاگے تھے اور غار میں پناہ لی تھی کہ دقیانوس (تھیوڈوسی
اصحاب کہف رومی حکمران دقیانوس یا تھیوڈوسیس متوفی 251ء کے دور میں بت پرستی کا مذہب رائج تھا۔ وہ مسیح علیہ السلام کے پیروؤں پر سخت ظلم و ستم روا رکھتا تھا ۔ سات جوانوں نے اپنے دین کو بچانے کے لیے ہجرت کی اور راستے میں ایک کتا ان کے ساتھ ہو لیا۔ ان کی کوشش کے باوجود وہ کتا ان سے الگ نہ ہوا۔ جس شہر سے یہ ہجرت واقع ہوئی، وہ اکثر مورخین کے بقول شہر افسوس یا افسس یا اِفسس تھا جو موجودہ ترکی کے شہر ازمیر سے 20 میل کے فاصلے پر موجود تھا۔ یہ شہر ایشیائے کوچک میں بت پرستی کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ وہ ایک بڑے گہرے غار میں چھپ گئے اور کتا اس غار کے دہانے پر بیٹھ گیا۔ پیدل سفر کی وجہ سے تھک گئے تھے، فورا سو گئے۔ یہ واقعہ تقریباً 251 عیسوی کو پیش آیا اور قیصر تھیوڈوسیس کے عہد 447ء میں بیدار ہوئے۔ اس طرح اصحاب کہف کے خواب کی مدت 197 سال بنتی ہے۔