Damadam.pk
Nazeerkh's posts | Damadam

Nazeerkh's posts:

Nazeerkh
 

رکھی تھی. اور زندگی نہایت سکون سے گزر رہی تھی.
بھارت سے ہماری جنگ جاری تھی. ہمارے ذرائع ابلاغ کامیابی کے بڑے بڑے دعوے کر رہے تھے.
کبھی چینی امداد تو کبھی امریکی کے چھٹے بحری بیڑے کی آمد کے مژدے سناے جا رہے تھے. Uno میں
ہزاروں سال تک جنگ جاری رکھنے کے عہد کیے جا رہے تھے. جنگ بند کرنے کے لیے پولینڈ کی قرارداد جسے عالمی طاقتوں کی حمایت حاصل تھی ہمارے وفد کے سربراہ نے پھاڑ دی تھی. یہ باآور کرایا جا رہا تھا کہ بھارت آئندہ چند دنوں تک گھٹنے ٹیک دے گا. ا

Nazeerkh
 

جہاز میں بٹھا دیا گیا.
ان تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود جب تک جہاز نے خاصی پرواز نہ کر لی. میرے دماغ میں اندیشے سر اٹھاتے رہے. جہاز میں مسافر بہت کم تھے اور میں جہازکی نسبتاً خالی سیٹوں کے درمیان ایک سیٹ پر بیٹھا تھا. بنکاک تک کا سفر ساڑھے چھے گھنٹوں کا تھا. ذہن نے ماضی میں چھلانگ لگائی اور آکر جہاں رکا وہ 16 دسمبر 1971 کا منحوس دن تھا.
میں تربیلا ڈیم بنانے والی کمپنی( T J V) ( تربیلہ جوائنٹ ونچر) میں اسسٹنٹ پبلک ریلیشنز آفیسر تھا. معقول تنخواہ تھی اور کمپنی نے بہت سی سہولیات دے رکھی تھی

Nazeerkh
 

وانٹیڈ ہوتا تو اسے جہاز سے اتار کر اپنے ساتھ لے جاتے تھے. میرا نام تو ان کے مطلوبہ افراد میں نمایاں تھا. اور پھر کھٹمنڈو میں بھارتی سفارت خانہ میری اصلیت کا علم ہو جانے پر میری نقل و حرکت پر گہری نگرانی رکھتا تھا. اس لیے مجھے کھٹمنڈو ائرپورٹ پر چین کی سفارتی گاڑی پر لایا گیا تھا. امیگریشن کے کاغذات بھی میری غیر موجودگی میں انہی کی نگرانی میں مکمل ہوے.
اور جہاز کی عین روانگی کے وقت جب جہاز کی سیڑھیاں ہٹائی جا رہی تھی. سفارتی گاڑی جہاز کے قریب آئ اور مجھے جہاز میں بٹھا دیا گیا.

Nazeerkh
 

اچانک میرے ذہن میں آ گیا. اور یہ میرے ساتھ بیتے واقعات کا حصہ تھا جسے میں نے آپ کے سامنے بیان کر دیا. میرا یہ سفر شروع کیسے ہوا اب میں آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں.
مجھے افغان ائر کے جہاز پر بھی بھیجا جا سکتا تھا. جو uno نے پاکستانی مہاجروں کے لیے ہائر کیے تھے. لیکن افغان ائر کے جہاز دہلی ہوائی اڈے پر ری فلنگ کے لیے اترتے تھے. اس دوران سی بی آئی اور فوجی جاسوس طیارے میں آ کر مسافروں کو چیک کرتے تھے. اگر ان میں کوئی وانٹیڈ ہوتا تو اسے جہاز سے

Nazeerkh
 

رکھی تھی.
شاید کسی ایسے ہی دلفریب منظر نے شیخ مجیب الرحمٰن کو مشرقی پاکستان کو علیحدہ کر بنگلہ دیش کے لیے ہمار دیش تمار دیش سنار دیش کہنے پر مجبور کر دیا تھا.
یہ ایک ایسا فریب نظر تھا جس نے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کو دولخت کر دیا تھا.
اس وقت بنگلہ دیش بنے کئی سال بیت چکے تھے. لیکن مشرقی پاکستان کے لیے لفظ بنگلہ دیش میرے ذہن کے کسی کونے میں بھی فٹ نہیں ہوتا تھا اور آج بھی یہی حال ہے.
چاہے کتنوں کو ہی برا لگے لیکن میں اس خطے کو مشرقی پاکستان ہی کہتا ہوں اور کہتا رہوں گا.
ہمارے جہاز کی منزل بنکاک تھی. اور مجھے بنکاک کے پاکستانی سفارت خانے سے کراچی کا ٹکٹ لینا تھا. یہ واقعہ اچانک میرے ذہن میں آ گیا

Nazeerkh
 

طرف جا رہا تھا.
ساڑھے تین سال یعنی 1185 دن اور 1185 دنوں میں میرے ساتھ گزرے ہوے ان گن واقعات ایک تیز رفتار فلم کی طرح میرے ذہن کے پردے سے گزر گئے . جلد ہی پہاڑ ختم ہو گئے ائیر ہوسٹس نے بتایا کہ ہم بنگلا دیش کے اوپر سے گزر رہے ہیں. اور کرنا فلی کا ڈیلٹا ہمارے نیچے ہے.
درجنوں پاٹوں میں منقسم ڈیلٹا میلوں تک پھیلا ہوا تھا. اور شام کے ڈھلتے ہوے سورج کی کرنوں نے دریائے کرنافلی کی ان شاخوں میں آگ سی لگا رکھی تھی.

Nazeerkh
 

سگریٹ پینے کی اجازت مل گئی تھی.
میں نے ایک سگریٹ نکال کر سلگایا اور ایک لمبا کش لیاجہاز ہمالیہ کی برف پوش چوٹیوں کو نیچے چھوڑتا ہوا بلند ہو رہا تھا.
ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی دائیں طرف دکھائی دے رہی تھی
جہاز کے اکثر مسافر ان چوٹیوں کو دیکھنے کے لیے اس طرف والی کھڑکیوں کے پاس آ چکے تھے. لیکن میرا ذہن سگریٹ کے دھوئیں کے مرغولوں کے ساتھ ماضی کی طرف جا رہا تھا.

Nazeerkh
 

تو تین اکے نہیں ملتے.
اب تو یہ آخری داؤ تھا. اگر بازی الٹی پڑی تو...
خوف کی لہر نے مجھے جھٹکا دیا. میں نے آنکھیں بند کر لیں.
اور سب کچھ اس قادر مطلق پر چھوڑ دیا.
جس کی طاقت اور قدرت کی کوئی حد نہیں.
انسان اس کے سوا اور کر بھی کیا سکتا ہے. انسانی جدوجہد کی ایک حد ہوتی ہے. اور اس کے بعد وہ محض مجبور اور لاچار ہوتا ہے. اور اپنے رب ذوالجلال کے کرم کا طلبگار ہوتا ہے.

Nazeerkh
 

اکے نہیں ملتے.
اب تو یہ آخری داؤ تھا. اگر بازی الٹی پڑی تو...
خوف کی لہر نے مجھے جھٹکا دیا. میں نے آنکھیں بند کر لیں.
اور سب کچھ اس قادر مطلق پر چھوڑ دیا.
جس کی طاقت اور قدرت کی کوئی حد نہیں.
انسان اس کے سوا اور کر بھی کیا سکتا ہے. انسانی جدوجہد کی ایک حد ہوتی ہے. اور اس کے بعد وہ محض مجبور اور لاچار ہوتا ہے. اور اپنے رب ذوالجلال کے کرم کا طلبگار ہوتا ہے. مجھ پر ایک غنودگی سی چھا گئی تھی. اچانک ائیر ہوسٹس کی مدھر آواز مجھے غنودگی سے باہر لے آئی. سیفٹی بیلٹ کھولنے اور سگریٹ پینے کی اجازت مل گئی تھی.

Nazeerkh
 

نمودار ہو گی. پائلٹ جہاز کو نیکسی وے پر ہی روک لے گا. اور پولیس مجھے گرفتار کر کے لے جاے گی
اگر چہ ایسے مرحلے مجھ پر پہلے بھی کئی بار گزر چکے تھے لیکن ساڑھے تین سال زندگی اور موت کا کھیل کھیلتے کھیلتے میں ذہنی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا تھا. اور اب تو بات یہاں تک آن پہنچی تھی کہ آزادی اپنا گھر اپنا وطن اور گھر والے اور دوسری طرف تھرڈ ڈگری ٹارچر کے ساتھ ذلت کے ساتھ موت اور ان دونوں کے بیچ صرف چند منٹوں کا فرق تھا. قسمت نے زندگی کی بازی کھیلتے ہوے مجھے تین اکے دیئے. لیکن ہر بار تو تین اکے نہیں ملتے.
اب تو یہ آخری داؤ تھا. اگر بازی الٹی پڑی تو..

Nazeerkh
 

ناول غازی
غازی" بھارت میں جاسوسی کرنے والے پاکستانی سرفروش کی سچی داستان
تحریر_ ابوشجاع ابووقار
قسط نمبر 1
کھٹمنڈو ائرپورٹ پر رائل نیپال ائیر لائنز کے جہاز نے ٹھیک چار بجے رن وے کیطرف بڑھنا شروع کیا. میں کھڑکی کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا. اس وقت میں حقیقتاً ڈرا ہوا تھا
خوف کی لہریں میرے آر پار ہو رہی تھیں. میری نظریں ائیر پورٹ بلڈنک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک لگی ہوئی تھی. ہر لمہے یہی خیال گزرتا کہ اب پولیس کی جیپ نمودار ہو گی

Nazeerkh
 

اسے خراش تک نہیں آئی تھی۔مجھے شک ہے کہ وہ لڑے بغیر بھاگ آتا رہا ہے،وہ میرے پاس آیا تھا،میں نے اسے کہہ دیا ہے کہ وہ مجھے بھول جائے۔میں کسی بزدل کی بیوی نہیں بن سکتی۔اس نے میرے باپ کو بتایا تو باپ نے مجھے کہا کہ میں تو اس کی بیوی بننے والی ہوں۔میں نے باپ سے بھی کہہ دیا ہے کہ میں میدان سے بھاگے ہوئے کسی آدمی کی بیوی نہیں بنوں گی۔میں نے باپ سے یہ بھی کہا ہے کہ مجھے اس شخص کی بیوی بنانا ہے تو میری لاش اس کے حوالے کر دو۔‘‘ ’’کیا اب تم میری بہادری آزمانا چاہتی ہو؟‘‘بلال نے پوچھا۔’’ہاں!‘‘صابحہ نے کہا۔’’اور اس کا انعام دیکھ۔اتنا حسین جسم تجھے کہا ں ملے گا!‘‘’’کہیں نہیں۔‘‘بلال نے کہا۔’’لیکن میں ایک کام کا وعدہ نہیں کروں گا۔ہمارے سردار اور ہمارے قبیلوں کے جوشیلے جوان یہ اعلان کرکے مسلمانوں کے خلاف لڑنے جاتے ہیں کہ مسلمانوں کے سالار خالدبن ولید کا سر ک

Nazeerkh
 

کبھی دیکھی ہے؟‘‘ ’’نہیں بنتِ ربیعہ!‘‘’’کبھی مدائن گیا ہے تو؟‘‘صابحہ نے کہا۔’’گیا ہوں؟‘‘’’سناہے فارس کی لڑکیاں بہت خوبصورت ہوتی ہیں۔‘‘صابحہ نے کہا۔’’کیا وہ مجھ سے زیادہ خوبصورت ہیں؟‘‘’’کیا یہ اچھا نہیں ہو گا کہ تو وہ بات کہہ دے جو تیرے دل میں ہے؟‘‘بلال نے پوچھا اور کہا۔’’میں نے تجھ سے زیادہ کسی لڑکی کو کبھی حسین نہیں سمجھا۔میں تھجے تیرے باپ سے مانگنا چاہتا تھا۔میں نہیں جانتا تھا کہ تیرے دل میں پہلے ہی میری محبت پیدا ہو چکی ہے۔‘‘’’محبت تو اب بھی پیدا نہیں ہوئی۔‘‘صابحہ نے کہا۔’’میں کسی اور کو چاہتی ہوں۔آج سے نہیں۔اس دن سے چاہتی ہوں اسے جس دن میں نے محسوس کیا تھا کہ میں جوان ہونے لگی ہوں، اور جوانی ایک ساتھی کا مطالبہ کرتی ہے۔‘‘’’پھر مجھے کیا کہنے آئی ہے تو؟‘‘’’یہ کہ میں نے اسے اپنے قابل سمجھناچھوڑ دیا ہے۔‘‘صابحہ نے کہا۔’’مرد کی طاقت عورت کے جس

Nazeerkh
 

ذرا رُک سکتے ہو میری خاطر؟‘‘’’اوہ!ربیعہ بن بجیر کی بیٹی!‘‘بلال بن عقہ نے مسرور سے لہجے میں کہا۔’’کیا میں ابھی ابھی تیرے گھر سے اٹھ کر نہیں آیا؟‘‘’’لیکن بات جو کہنی ہے وہ میں باپ کے سامنے نہیں کہہ سکتی تھی۔‘‘صابحہ نے کہا۔’’کیا تو نے مجھے اپنے قابل سمجھا ہے؟‘‘بلا ل نے کہا۔’’بات جو تو کہنا چاہتی ہے وہ پہلے ہی میرے دل میں ہے۔‘‘ ’’غلط نہ سمجھ ابنِ عقہ!‘‘صابحہ نے کہا۔’’پہلے میری بات سن لے!……مجھے بتا کہ مجھ سے زیادہ خوبصورت لڑکی تو نے کبھی دیکھی ہے

Nazeerkh
 

رہے پھر بلال بن عقہ چلا گیا۔رات کا وقت تھا۔رات سرد اور تاریک تھی۔مہینہ نومبر کا تھا اور اسی شام رمضان کا چاند نظر آیا تھا۔بلال باہر جا کر رک گیا۔وہ اپنے لشکر کے خیموں سے کچھ دور تھا۔اسے ایک طرف سے اپنی طرف کوئی آتا نظر آیا۔نیا چاند کبھی کا ڈوب چکا تھا۔تاریک رات میں چلتے پھرتے انسان متحرک سائے لگتے تھے۔سایہ جو بلال کی طرف آرہا تھا ،قریب آیا تو بلال نے دیکھا کہ وہ کوئی آدمی نہیں عورت ہے۔’’ابنِ عقہ!‘‘عورت نے کہا۔’’میں صابحہ ہوں……صابحہ بنتِ ربیعہ بن بجیر…… ذرا رُک سکتے ہو میری خاطر؟‘‘’’اوہ!ربیعہ بن بجیر کی بیٹی!‘‘بلال بن عقہ نے مسرور سے لہجے میں کہا۔’’کیا میں ابھی ابھی تیرے گھر سے اٹھ کر نہیں آیا؟‘‘’’لیکن بات جو کہنی ہے وہ میں باپ کے سامنے نہیں کہہ سکتی تھی۔‘‘صابحہ نے کہا۔

Nazeerkh
 

نے للکار کر کہا تھاکہ وہ خالدؓکا سر کاٹ کر لائے گا۔مگر عین التمر کے معرکے میں وہ پکڑا گیا،اس سے پہلے خالدؓ نے قسم کھائی تھی کہ وہ عقہ کو زندہ پکڑیں گے ۔خالدؓکی قسم پوری ہو گئی ۔انہوں نے عقہ کا سر اپنی تلوار سے کاٹا تھا۔بلال عقہ کا جوان بیٹا تھا۔جو اپنے باپ کے خون کا بدلہ لینے آیا تھا۔’’ابنِ بجیر!‘‘اس نے اپنے سردار ربیعہ کی بات سن کر کہا۔’’میں اپنے باپ کے سر کے بدلے خالد کا سر لینے آیا ہوں۔‘‘’’ایک نہیں ہم پر ہزاروں سروں کا قرض چڑھ گیا ہے۔‘‘ربیعہ بن بجیرنے کہا۔وہ کچھ دیر باتیں کرتے رہے پھر بلال بن عقہ چلا گیا۔رات کا وقت تھا۔رات سرد اور تاریک تھی۔مہینہ نومبر کا تھا اور اسی شام رمضان کا چاند نظر آیا تھا۔بلال باہر جا کر رک گیا۔وہ اپنے لشکر کے خیموں سے کچھ دور تھا۔اسے ایک طرف سے اپنی طرف کوئی آتا نظر آیا۔

Nazeerkh
 

اور بچے بھی تھے۔عورتوں نے مردوں کو بزدلی اور بے غیرتی کے طعنے دیئے اور انہیں لڑنے کیلئے تیار کیا۔ان دو مقامات پر جنگ کی تیاریوں کا منظر جنگ جیسا ہی تھا۔سوار اور پیادے تیغ زنی کی مشق صبح سے شام تک کرنے لگے۔سوار دستوں کو حملہ کرنے اور حملہ روکنے کی مشقیں کرائی جانے لگیں۔اس وقت تک کسریٰ کے سالار اور ان کے اتحادی عیسائیوں کے سردار خالدؓ کی جنگی چالیں سمجھ چکے تھے۔ ’’لیکن چالیں سمجھنے سے کیا ہوتا ہے!‘‘عیسائیوں کے ایک قبیلے کا سردار ربیعہ بن بجیر کہہ رہا تھا۔’’دل کو ذرا مضبوط رکھیں تو ان تھوڑے سے مسلمانوں کو کچلنا کوئی مشکل نہیں۔‘‘اس کے پاس عیسائیوں کے بڑے سردار عقہ بن ابی عقہ کا بیٹا بلال بن عقہ بیٹھا ہوا تھا۔عقہ بن ابی عقہ سرداروں میں سرکردہ سردار تھا۔اس نے للکار کر

Nazeerkh
 

کامیاب رہی تھی۔یہ تھا شب خون۔پورے لشکر نے دشمن کی خیمہ گاہ پر حملہ کر دیا تھا لیکن ضروری نہیں تھا کہ یہ چال ہر بار کامیاب ہوتی۔کیونکہ پورے لشکر کو خاموشی سے دشمن کی خیمہ گاہ تک پہنچانا آسان کام نہیں تھا۔اس وقت دشمن کا لشکر دو مقامات پر جمع تھا،ایک ذومیل تھا، اور دوسرا تھا ثنّی۔انہی دو مقامات کے متعلق اطلاع ملی تھی کہ آتش پرستوں اور عیسائیوں کے لشکر جمع ہیں۔اب حُصید کا بھاگا ہوا لشکر بھی وہیں جا پہنچا تھا اور مضیح سے دشمن کی جو نفری بچ نکلی تھی، وہ بھی انہی دو مقامات پر چلی گئی تھی۔اس شکست خوردہ نفری نے ثنّی اور ذومیل میں جاکر دہشت پھیلا دی۔وہاں سردار اور سالار بھی تھے،انہیں بہت مشکل پیش آئی۔جذبے کے لحاظ سے لشکر لڑنے کے قابل نہیں تھا۔جسمانی لحاظ سے لشکر تازہ دم تھا۔ثنّی میں ان کی عورتیں بھی تھیں اور بچے بھی تھے۔

Nazeerkh
 

ہت کمزور کر دیا تھا لیکن ان مؤرخین کے مطابق جو جنگی امور کو سمجھتے تھے ،خالدؓکو یہ خطرہ نظر آرہا تھا کہ ان کی سپاہ اس مقام تک نہ پہنچ جائے جہاں یکے بعد دیگرے کئی فتوحات کے بعد دشمن کے دباؤ سے تھوڑا سا بھی پیچھے ہٹنا پڑے تو سپاہ بالکل ہی پسپا ہو جائے۔اس خطرے نے انہیں پریشان سا کر دیا تھا۔انہوں نے یہ سوچا ہی نہیں کہ اپنے لشکر کو آرام کیلئے کچھ وقت دے دیں ، وہ ایسی جنگی چالیں سوچ رہے تھے جن سے دشمن کو بے خبری میں دبوچا جا سکے۔ایک چال خالدؓ مضیح میں آزما چکے تھے ۔یہ کامیاب رہی تھی۔یہ تھا شب خون۔پورے لشکر نے دشمن کی خیمہ گاہ پر حملہ کر دیا تھا لیکن ضروری نہیں تھا کہ یہ چال ہر بار کامیاب ہوتی

Nazeerkh
 

سکتی ۔انہیں بتاؤ کہ انہیں دشمن پر ہر میدان مین غالب کرنے والا صرف اﷲہے۔اس کی ذاتِ باری کو دل سے نہ نکالیں اور تکبر سے بچیں۔‘‘مدینہ کے مجاہدین کا حوصلہ تو بھاگتے دشمن کو، میدانِ جنگ میں اس کے زخمیوں کو تڑپتا اور لاشوں کو سرد ہوتا دیکھ کر تروتازہ ہو جاتا تھا لیکن وہ آخر انسان تھے اور انسان کوتاہی کا مرتکب بھی ہو سکتاہے۔اپنا سر غرور اور تکبر سے اونچا بھی کر سکتا ہے۔خالد اس خطرے کو محسوس کر رہے تھے انہوں نے کفار پر اپنی دہشت طاری کر کے اسے نفسیاتی لحاظ سے بہت کمزور کر دیا تھا