آئینہ یہ تو بتاتا ہے کہ میں کیا ہوں، لیکن آئینہ اس پہ ہے خاموش کہ، کیا ہے مُجھ میں اب تو بس جان ہی دینے کی ہے باری، اے نُور میں کہاں تک کروں ثابت کہ وفا ہے مُجھ میں کرشن بہاری نُور لکھنوی
بچھائے جال کہیں جمع آب و دانہ کیا پھر اس نے سارے پرندوں کو بے ٹھکانہ کیا میں تیرا حکم نہیں ٹالتا مگر مجھ میں نہ جانے کون ہے جس نے تیرا کہا نہ کیا بجز یقیں کوئی چارہ نہیں رہا میرے پاس کہ پہلی بار تو اُس نے کوئی بہانہ کیا ملے جو غم تو انہیں اپنے پاس ہی رکھا خوشی ملی ہے تو تیری طرف روانہ کیا میں مشتِ خاک ستاروں کا ہم نوا ٹھہرا میں ایک پَل تھا اور اس نے مجھے زمانہ کیا
اک حرف تسلی کا اک لفظ محبت کا خود اپنے لیے اس نے لکھا تو بہت رویا پہلے بھی شکستوں پہ کھائی تھی شکست اس نے لیکن وہ ترے ہاتھوں ہارا تو بہت رویا اتنا آسان بھی نا تھا ہستی سے گزر جانا اترا جو سمندرمیں تو دریا بھی بہت رویا جو شخص نہیں رویا کبھی تپتی ہوئی راہوں میں دیوار کے سائے میں بیٹھا تو بہت رویا
ہم نے قسمیں بھی اٹھا دیکھیں مگر بھول گئے ہم نے وعدے بھی کیے اور نبھائے نہ گئے! کیا بس اتنی ہی محبت تھی کہ بولے نہ چلے کیا بس اتنا ہی تعلق تھا کہ آئے نہ گئے!