کہ مشکل دن بھی آۓ لیکن فرق نہ آیا یاری میں ہم نے پوری جان لگا دی اس کی تابعداری میں بے ایمانی کرتے تو شاید جیت کر آ جاتے چاہیے ہار کر واپس آۓ پر کھیلے اپنی باری میں
ہوۓ بے بس مگر پھر بھی سدھر نہ پاۓ ہم پھر وہی دعا وہی عشق وہی تم اور صرف تم
قلم سے لکھ نہیں سکتے اُداس دل کے افسانے ہم تمہیں دل سے یاد کرتے ہیں باکی تمہارے دل کی خدا جانے
میری فطرت ہی مجھے تنہا رکھتی ہے منافق ہو جاؤں تو بھیڑ لگا دوں بھیڑیا
بہت اُداس ہے کوئی تیرے چپ ہو جانے سے ہوسکے تو بات کر کسی بہانے سے تو لاکھ خفا سہی مگر اتنا تو دیکھ وہ ٹوٹ گیا ہے
کبھی تو دیکھ مجھے ان حسین آنکھوں سے تیری گلی سے میں یوں ہی گزرتا رہتا ہوں
ایک جھلک دیکھ لے تجھ کو چلے جاۓ گے کون آیا ہے یہاں عمر بیتانے
دوستی ۔۔۔۔۔ سنا ہے لوگ دوستی میں جان بھی دے دیتے ہیں لیکن سوچنے کی بات ہے وقت نہیں دیتے وہ جان کیا دیں گے
دل نہیں مانتا ورنہ محسوس تو مجھے بھی ہوگیا ہے کہ اب تمہارے دل میں میرے لیے پہلے جیسی جگہ نہیں رہی
خود کو کسی کا پسندیدہ پھول مت سمجھیں یہ دنیا ہر روز ایک نیا گلدستہ بناتی ہے
بدلے بدلے سے ہو جناب کیا بات ہوگی ہم سے ناراض ہو یا کسی اور سے معلاقات ہوگی
لہجہ یار میں زہر ہے بچھو 🦂 کی طرح وہ مجھے ،آپ ،تو کہتا ہے مگر ، تُو ،کی طرح
ہلکے پھلکے ہیں یار کے پاؤں میں نے ہونٹوں پہ رکھ کے تولے ہیں
جب مطلب نہ ہو تو لوگ بولنا تو دور دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے
بدلتے انسانوں کی بات ہم سے نہ پوچھوں غالب ہم نے اپنے ہمدرد کو اپنا درد بنتے دیکھا ہے
اب کون ہرا سگتا ہے مجھے تو میرے دل کا آخری ڈر تھا
زندگی اپنا سفر طے تو کرے گی لیکن ہم سفر آپ جو ہوتے تو مزہ ہی اور تھا
تم مجھے روز توڑ دیتی ہو تم مجھے مار کیوں نہیں دیتی ہو