تمہاری انجمن سے اٹھ کے دیوانے کہاں جاتے جو وابستہ ہوئے تم سے وہ افسانے کہاں جاتے نکل کر دیر و کعبہ سے اگر ملتا نہ مے خانہ تو ٹھکرائے ہوئے انساں خدا جانے کہاں جاتے تمہاری بے رخی نے لاج رکھ لی بادہ خانےکی تم آنکھوں سے پلا دیتے تو پیمانے کہاں جاتے چلو اچھا ہوا کام آ گئی دیوانگی اپنی وگرنہ ہم زمانے بھر کو سمجھانے کہاں جاتے قتیلؔ اپنا مقدر غم سے بیگانہ اگر ہوتا تو پھر اپنے پرائے ہم سے پہچانے کہاں جاتے
اپنی زندگی میں آنے والی تبدیلیوں کو خوش آمدید کہنا سیکھیں۔۔۔۔۔۔کچھ تبدیلیاں ہمیں انتہائی ناگوار گزرتی ہیں لیکن درحقیقت انہی میں ہماری بہتری پوشیدہ ہوتی ہے۔۔۔!!
پتوں کی طرح شاخ پہ مرنا پڑا مجھے موسم کے ساتھ ساتھ گزرنا پڑا مجھے اک شخص کے سلوک کی سب کو سزا ملی ساری محبتوں سے مکرنا پڑا مجھے اس سے بچھڑ کے زندگی آسان تو نہیں پھر بھی یہ تلخ فیصلہ، ، کرنا پڑا مجھے آساں نہیں تھا توٹتی سانسوں کو جوڑنا اس سلسلے میں جاں سے گزرنا پڑا مجھے