Damadam.pk
Offline's posts | Damadam

Offline's posts:

Offline
 

دیا۔ میزبان خاموش تھا مگر ہر چیز پر دھیان دے رہا تھا۔
کچھ ہی دیر میں تنہا انگارے کا شعلہ بجھنے لگا، تھوڑی سی دیر میں جو کوئلہ پہلے روشن اور گرم تھا اب ایک کالے اور مردہ ٹکڑے کے سوا کچھ نہیں رہ گیا تھا۔
سلام کے بعد سے بہت ہی کم الفاظ بولے گئے تھے۔ روانگی سے پہلے، مہمان نے بیکار کوئلہ اٹھایا اور اسے دوبارہ آگ کے بیچ رکھ دیا، فوری طور پر اس کے چاروں طرف جلتے ہوئے کوئلوں کی روشنی اور حرارت نے اسے دوبارہ زندہ کر دیا۔
جب مہمان روانگی کے لئے دروازے پر پہنچا تو میزبان نے کہا: "آپ کی آمد کا، اور آپ کے اس خوبصورت سبق کے لئے بہت شکریہ، میں جلد ہی

Offline
 

آپ کی محفل میں واپس آؤں گا"
اکثر محفل کیوں بجھ جاتی ہے؟؟
بہت آسان: "کیونکہ محفل کا ہر رکن دوسروں سے آگ اور حرارت لیتا ہے۔ گروپ کے ارکان کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ شعلے کا ایک حصہ ہیں اور ہم سب ایک دوسرے کی آگ کو روشن کرنے کے ذمہ دار ہیں اور ہمیں اپنے درمیان اتحاد کو قائم رکھنا چاہئے تاکہ محبت کی آگ واقعی مضبوط، موثر اور دیرپا ہو، اور ماحول آرام دہ رہے"۔۔
دوسروں سے حرارت لیں اور اپنی حرارت سے دوسروں کو مستفید کریں
اس شعلہ کو زندہ رکھیں اور ﷲ کی بخشی گئی نہایت خُوبصورت چیز، "دوستی" کو آپس میں ہمیشہ قائم و دائم رکھیں۔
ماخوذ

Offline
 

وہ جب مُجھ سے باتیں کرتی تھی
.
.
لوگ تو دُور، سالن بھی جل جاتا تھا

Offline
 

خدا کے سامنے کِس منہ سے جائیں گے، خدا جانے
.
.
مُحبّت کا کوئی دھبّا نہیں ہے جن کے دامن پر

Offline
 

فیشن ایبل بوائز.
میں نے اُس کی پھٹی ہوئی پینٹ کی طرف دیکھا اور میری
آنکھوں میں آنسو آ گئے... !!!
پچھلے دنوں جب شدید بارش ہوئی تو دفتر سے واپسی پر مجھے فکر لاحق ہو گئی کہ کہیں میری گاڑی کشتی میں نہ تبدیل ہو جائے۔ اچانک ذہن میں آیا کہ گاڑی دفتر میں ہی کھڑی کر دیتا ہوں اور خود آن لائن ٹیکسی پر چلا جاتا ہوں۔ دو دن پہلے ہی میں نے ثمریز سے آن لائن ٹیکسی منگوانے کا طریقہ سیکھا تھا۔ موبائل نکالا اور ٹیکسی کے لیے آرڈر کیا۔ دس منٹ بعد ایک گاڑی قریب آ کر رک گئی۔ میں نے موبائل سے گاڑی کا نمبر چیک کیا‘ ڈرائیور کی شکل دیکھی‘ نام پوچھا اور اطمینان سے بیٹھ گیا۔ گاڑی نئے ماڈل کی تھی اور کافی آرام دہ‘ اے سی بہت شاندار کولنگ کر رہا تھا۔ ڈرائیور

Offline
 

ایک نوجوان لڑکا تھا‘ عمر یہی کوئی ستائیس اٹھائیس سال ہو گی۔ گاڑی مین روڈ پر آئی تو میری نظر اچانک اُس کی پینٹ پر پڑی جو جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی تھی..
. میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں سمجھ گیا کہ حالات سے تنگ یہ نوجوان مجبوراً کسی اور کی ٹیکسی چلانے پر مجبور ہے۔ مجھے یہ بھی سمجھ آ گئی کہ رات کو یہ ٹیکسی چلاتا ہو گا اور صبح یونیورسٹی جاتا ہو گا۔ اس کی ایک بیمار ماں اور اپاہج باپ بھی ہو گا‘ سر پر دو بہنوں کی شادی کا بوجھ بھی ہو گا‘ اسی لیے بیچارا نئی پینٹ تک نہیں لے سکتا۔ میں نے اپنی شرٹ کی

Offline
 

آستین سے آنسو پونچھے اور بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا ''بیٹا! ایک بات کہوں‘ برا تو نہیں منائو گے؟‘‘۔ اس نے چونک کر مجھے آنسو صاف کرتے ہوئے دیکھا اور جلدی سے بولا ''پلیز اب یہ نہ کہئے گا کہ آپ کے پاس کرایہ نہیں‘‘۔
میں سٹپٹا گیا ''نہیں نہیں بیٹا... یہ میں نے کب کہا ہے‘ میں اپنی نہیں تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں‘‘۔
''میری مدد... کیوں؟‘‘
''بس میرا دل کر رہا ہے... ایسا کرو جب تم مجھے ڈراپ کرکے جانے لگو تو جینز کی پینٹ لیتے جانا‘ میں نے زیادہ نہیں پہنی‘ چھ ماہ پہلے پانچ ہزار کی لی تھی...‘‘ میری بات سنتے ہی اس کا چہرہ لال ہو گیا‘ چلا کر بولا ''میں کیوں لوں آپ کی پینٹ؟‘‘۔ میں سمجھ گیا کہ بچہ انا پرست ہے‘ تسلی دی ''بیٹا! میں تمہاری خود داری کی قدر کرتا ہوں لیکن تمہیں پینٹ لینا ہی ہو گی‘ کسی کی اتنی اچھی گاڑی

Offline
 

میں یہ پھٹی ہوئی پینٹ پہن کر بیٹھنا اچھا نہیں لگتا‘‘۔ اس نے زور سے گاڑی کو بریک لگائے اور دانت پیستے ہوئے بولا ''اوئے... یہ میری اپنی گاڑی ہے اور میں شوق سے فارغ وقت میں اسے بطور ٹیکسی چلاتا ہوں اور جس پینٹ کو تم پھٹی ہوئی کہہ رہے ہو وہ آج کل کا فیشن ہے‘ یہ پھٹی ہوئی پینٹ دس ہزار کی ہے...‘‘ میں یکدم سہم گیا اور گھر کے باہر پہنچتے ہی ''نیواں نیواں‘‘ ہو کے اندر چلا گیا۔
میں فیشن ایبل تو ہونا چاہتا ہوں لیکن ہو نہیں پاتا۔ موٹے فریم والی عینک آج کل کا فیشن ہے لیکن اللہ جانتا ہے ایسی ہی عینک میری نانی پہنا کرتی تھیں‘ میں نانی کی عینک کو بطور فیشن کیسے پہن لوں؟ آپ نے کبھی لال رنگ کی پینٹ پر گہرے پیلے رنگ کی شرٹ اور پائوں میں نیلے بوٹ دیکھے ہیں؟ کہتے ہیں یہ بھی فیشن ہے۔ میں نے ایک فیشن ایبل دوست سے پوچھا

Offline
 

تھا کہ میرے لیے کوئی ہلکا پھلکا سا فیشن تجویز کرو۔ اس نے غور سے میرا جائزہ لیا اور کہنے لگا ''تم بال کھڑے کر لو‘‘۔ میرے کان کھڑے ہو گئے۔ وہ کیوں‘ میں کوئی...‘‘ اس نے جلدی سے میری بات کاٹی ''یقین کرو‘ کچھ کچھ فیشن ایبل لگو گے‘ چھوڑو یہ ڈریس شرٹس اور فارمل ڈریسنگ‘ کچھ مختلف نظر آئو۔ میں نے خوش ہو کر اس سے درخواست کی کہ وہ خود ہی میرے بال سیٹ کروا دے۔ موصوف مجھے ایک زنانہ نما مردانہ پارلر پر لے گئے۔ واپسی پر میں نے شیشہ دیکھا تو کانپ گیا‘ میرے بال کانٹوں کی طرح کھڑے تھے۔ اپنے گھر کی گلی کا موڑ مڑتے ہی ایک محلے دار کی نظر پڑ گئی‘ پہلے تو آنکھیں پھاڑے میرے بال دیکھتا رہا‘ پھر قریب آ کر اِدھر اُدھر دیکھ کر آہستہ سے بولا ''بھابی سے لڑائی ہوئی ہے؟‘‘
میں ہونٹ سکیڑ کر سیلفی بھی بنانا چاہتا ہوں لیکن مجھ سے موبائل ہی ٹھیک سے نہیں

Offline
 

پکڑا جاتا‘ پتا نہیں لوگ کیسے ایک ہاتھ سے موبائل سیدھا کرکے سیلفی بنا لیتے ہیں۔ میں نے تو جب بھی سیلفی بنانے کی کوشش کی موبائل پر نیا گلاس پروٹیکٹر لگوانا پڑا۔ میں جھینگے اور کیکڑے بھی کھانا چاہتا ہوں تاکہ شکل سے نہ سہی‘ کھانے سے ہی فیشن ایبل نظر آئوں لیکن پتا نہیں کیوں کسی چائنیز ریسٹورنٹ جاتے ہوئے راستے میں کسی چھوٹے سے ہوٹل پر دال ماش اور تندور کی تازہ روٹیاں دیکھتا ہوں تو غش پڑ جاتا ہے اور پھر میرے لیے آگے جانا مشکل ہو جاتا ہے۔ میں بات بات پر انگریزی بھی بولنا چاہتا ہوں تاکہ یکدم سامنے والے پر حاوی ہو جائوں لیکن یہاں بھی بڑی مشکل پیش آتی ہے۔
مردانہ کانوں میں بالی پہننا بھی فیشن ہے‘ بغیر جرابوں کے بوٹ پہننا بھی فیشن ہے‘ شرٹ کا اوپر سے دوسرا بٹن کھلا رکھنا بھی فیشن ہے حالانکہ پہلے یہ لفنگا پن کہلاتا تھا۔ کھانے پینے سے لے کر بول

Offline
 

چال‘ گھرکی بناوٹ‘ چہرے کے تاثرات‘ بالوں کی تراش خراش تک ہر چیز فیشن کی محتاج ہو کر رہ گئی ہے۔ ایک فیشن شو میں تو میں نے ایسے ماڈل لڑکوں کو بھی دیکھا جنہوں نے ''غرارے‘‘ پہن رکھے تھے۔ غرارے مجھے بھی پسند ہیں لیکن صرف گرم پانی کے۔ مجھے لگتا ہے میں کبھی فیشن ایبل نہیں بن سکوں گا‘ یہ دُکھ مجھے کھاتا جا رہا ہے۔ میں ٹنڈ کروا کے اپنے بازو پر ''ٹیٹو‘‘ بنوانا چاہتا ہوں... ٹی شرٹ اور شارٹ کے نیچے جوگر پہن کر کانوں میں ہینڈز فری لگا کر‘ ہاتھ میں منرل واٹر کی بوتل پکڑ کر شاپنگ کرنا چاہتا ہوں... باتھ ٹب میں نہانا چاہتا ہوں... کڑوی کسیلی کافی پینا چاہتا ہوں... بلکہ یہ سب تو کچھ نہیں‘ میں تو کانٹے سے چائے پینے کا بھی پروگرام بنا رہا ہوں لیکن تاحال کامیابی نہیں ہو رہی۔ جتنا فیشن ایبل ہونے کی کوشش کرتا ہوں اُتنا ہی روائتی زندگی میں دھنستا چلا جاتا

Offline
 

ہوں۔ میں نے کئی دفعہ کوشش کی کہ بیکری میں میرا ہاتھ چاکلیٹ کی طرف اٹھ جائے لیکن دوسری طرف کریم رول بھی رکھے ہوتے ہیں... ''لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے‘‘...‘ کلیجہ دھک سے رہ جاتا ہے... پھر میں‘ میں نہیں رہتا‘ تم ہو جاتا ہوں... کسی فوڈ چین سے سات سو روپے کا برگر کھا لوں تو گھر پہنچتے ہی پیٹ بھر کر کھانا کھاتا ہوں۔ سو طے ہوا کہ میں فیشن سے کوسوں دور ہوں۔ میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ میں صرف اسی صورت میں فیشن ایبل بن سکتا ہوں اگر میں کسی کی پروا نہ کروں۔ یہ طریقہ بھی میں آزما کر دیکھ چکا ہوں‘ ایک دفعہ اُس نے مجھے فیشن ایبل بنانے کی کوشش کرتے ہوئے سختی سے تاکید کی کہ کل میرے ہاں کھانے پر صرف جینز اور ٹی شرٹ پہن کر آنا..
. میں نے ایسا ہی کیا‘ لیکن جب وہاں پہنچا تو پتا چلا کہ لوگ جوتے بھی پہن کر آئے ہوئے تھے

Offline
 

"میں نے درخت سے شفقت سیکھی"
میں نے اسے پتھر مارا، اس نے مجھ پہ پھل اور پھول برسائے وہ شرمندگی میرے لئے سبق بن گئی۔!!!

Offline
 

"وہ سارا علم تو ملتا رہے گا آئندہ بھی
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے
سوکھے پھول
اور مہکے ہوئے رقعے
کتابیں مانگنے گِرنے اٹھانے کے بہانے رشتے بنتے تھے۔
ان کا کیا ہوگا ؟؟
وہ شاید۔۔۔ اب نہیں ہوں گے"۔

Offline
 

جو لوگ جلدی مر جاتے ہیں
وہ اپنی عمر یقینا پوری کرتے ہوں گے
کسی دور کی کہکشاں میں
جہاں ہر ستارے کے اپنے ڈھیروں چاند ہوتے ہیں
جن کے عکس سے ہر ایک ستارہ ہر روز منور ہوتا ہے
جہاں چاندنی کسی تپتے جلتے سورج کی محتاج نہیں ہو تی
اور نا ہی کسی گرہن کا خوف آڑے آتا ہے
ٹھنڈی میٹھی چھاؤں یقینا ماں کی گودجیسی ہوتی ہو گی ؟
ورنہ جلدی جانے والوں کو سکوں کہاں ملتا ہو گا

Offline
 

ہر اگتے چاند کو ایسے جلد بازوں نے نام دیے ہوں گے
نام ، جو موت کی جلدی میں پیچھے رہ گۓ
پر بازگشت چپکے سے کفن میں آ کر سو جاتی ہے
کسی چاند کا نام پہلی گود ہو گا
کسی کو ناز سے پہلا پیار پکارا جاتا ہو گا
کوئی چاند روح اور جسم کی جیت ہو گا
اور کسی چاند کا نام حسرت ہوگا
یہ جلدی جانے والے لوگ ہر روز چاندنی میں نہاتے ہوں گے
اور حسرتوں کے چاند کو ہر روز گھٹتااور بڑھتا دیکھ کر ان ناموں کو دہراتے ہوں گے
روزروز کے اس کھیل میں نا چاند سوتا ہے
نا حسرتیں کم ہوتی ہیں

Offline
 

اور نا واپسی کے لئے کوئی سیڑھی ملتی ہے
ستارے اپنے اپنے مداروں میں گردش کے پابند ہیں
اور ان کے مکین اس گردش کے رکھوالے
کبھی نا رکنے والی اس آنکھ مچولی کو کوئی ایسا نہیں ہے جو روک دے
مسیحا تو صرف سانس لیتی روحوں پر نازل ہوتے ہیں
خاک سے خاک کے سفر میں جلدی کرنے والے بس تماشائی ہیں
پورے وجود سے بنی ادھوری روحیں ہیں
جن کی کوئی کہانی نہیں ہوتی
بس وہ ایک ایسے اداکار کی ماند ذہن میں نقش رہ جاتے ہیں
جن کو اپنی لائنیں پوری ہونے سے پہلے ہی سٹیج سے اتار دیا جاتا ہے
وہ کیا کہنا چاہتے تھے ؟
ان کے ہونے سے کیا کہانی بدل جاتی ؟
بس ان سوالوں کی تشنگی یاداشت میں ان کرداروں کو امر کر دیتی ہے
یہ جلدی جانے والے بس یہیں جیت جاتے ہیں

Offline
 

ادھوری کہانیوں کی پوٹلی اٹھائے ،، اپنے ستاروں کی جانب گامزن
تشنگی کا آسیب پیچھے رہ جانے والوں کو تحفے میں دے جاتے ہیں
تحفہ بھی ایسا جو کوئی نہیں چاہتا
لیکن چاہنے سے کبھی کچھ نہیں بدلتا
نا جلدی جانے والے رکتے ہیں
نا پیچھے رہ جانے والے روک پاتے ہیں
یہ کھیل تمہاری اور میری کہانی سے صدیوں پرانا ہے
میں بس اتنا چاہتی ہوں
اس سفر میں ستارے کھوجنے پہلے میں جاؤں
تو میری پوٹلی میں ادھوری کہانیوں کی رنگ بِرنگ کترنیں نا ہوں
نا الجھے خوابوں کے دھاگے لپٹے پڑے ہوں
مجھے کسی چاند کا نام حسرت نا رکھنا پڑے
اور تحفے میں تشنگی کا کوئی بھوت تمہارے گھر بسیرا نا کرے

Offline
 

خط میں میرے ہی خط کے ٹُکڑے تھے۔۔۔!!
اور میں سمجھا!!!
جواب آیا ہے۔۔۔۔۔

Offline
 

جب اُس نے مُجھ سے کہا مُجھے تُم سے مُحبت ہے تو میں چَھت سے کُود کر فوراً کمرے میں آ گیا
اُس رات میں نے پہلی بار موبائل کے فرنٹ کیمرہ کو بطور آئینہ استعمال کرتے ہُوئے خُود کا بغور مطالعہ کِیا
گھنٹوں خُود کو تسلیاں دینے کے بعد اِس نتیجے پر پہنچا کہ نہیں
یہ سب دھوکا ہے، جُھوٹ ہے، فریب ہے