دیا۔ میزبان خاموش تھا مگر ہر چیز پر دھیان دے رہا تھا۔
کچھ ہی دیر میں تنہا انگارے کا شعلہ بجھنے لگا، تھوڑی سی دیر میں جو کوئلہ پہلے روشن اور گرم تھا اب ایک کالے اور مردہ ٹکڑے کے سوا کچھ نہیں رہ گیا تھا۔
سلام کے بعد سے بہت ہی کم الفاظ بولے گئے تھے۔ روانگی سے پہلے، مہمان نے بیکار کوئلہ اٹھایا اور اسے دوبارہ آگ کے بیچ رکھ دیا، فوری طور پر اس کے چاروں طرف جلتے ہوئے کوئلوں کی روشنی اور حرارت نے اسے دوبارہ زندہ کر دیا۔
جب مہمان روانگی کے لئے دروازے پر پہنچا تو میزبان نے کہا: "آپ کی آمد کا، اور آپ کے اس خوبصورت سبق کے لئے بہت شکریہ، میں جلد ہی
آپ کی محفل میں واپس آؤں گا"
اکثر محفل کیوں بجھ جاتی ہے؟؟
بہت آسان: "کیونکہ محفل کا ہر رکن دوسروں سے آگ اور حرارت لیتا ہے۔ گروپ کے ارکان کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ شعلے کا ایک حصہ ہیں اور ہم سب ایک دوسرے کی آگ کو روشن کرنے کے ذمہ دار ہیں اور ہمیں اپنے درمیان اتحاد کو قائم رکھنا چاہئے تاکہ محبت کی آگ واقعی مضبوط، موثر اور دیرپا ہو، اور ماحول آرام دہ رہے"۔۔
دوسروں سے حرارت لیں اور اپنی حرارت سے دوسروں کو مستفید کریں
اس شعلہ کو زندہ رکھیں اور ﷲ کی بخشی گئی نہایت خُوبصورت چیز، "دوستی" کو آپس میں ہمیشہ قائم و دائم رکھیں۔
ماخوذ
وہ جب مُجھ سے باتیں کرتی تھی
.
.
لوگ تو دُور، سالن بھی جل جاتا تھا
خدا کے سامنے کِس منہ سے جائیں گے، خدا جانے
.
.
مُحبّت کا کوئی دھبّا نہیں ہے جن کے دامن پر
فیشن ایبل بوائز.
میں نے اُس کی پھٹی ہوئی پینٹ کی طرف دیکھا اور میری
آنکھوں میں آنسو آ گئے... !!!
پچھلے دنوں جب شدید بارش ہوئی تو دفتر سے واپسی پر مجھے فکر لاحق ہو گئی کہ کہیں میری گاڑی کشتی میں نہ تبدیل ہو جائے۔ اچانک ذہن میں آیا کہ گاڑی دفتر میں ہی کھڑی کر دیتا ہوں اور خود آن لائن ٹیکسی پر چلا جاتا ہوں۔ دو دن پہلے ہی میں نے ثمریز سے آن لائن ٹیکسی منگوانے کا طریقہ سیکھا تھا۔ موبائل نکالا اور ٹیکسی کے لیے آرڈر کیا۔ دس منٹ بعد ایک گاڑی قریب آ کر رک گئی۔ میں نے موبائل سے گاڑی کا نمبر چیک کیا‘ ڈرائیور کی شکل دیکھی‘ نام پوچھا اور اطمینان سے بیٹھ گیا۔ گاڑی نئے ماڈل کی تھی اور کافی آرام دہ‘ اے سی بہت شاندار کولنگ کر رہا تھا۔ ڈرائیور
ایک نوجوان لڑکا تھا‘ عمر یہی کوئی ستائیس اٹھائیس سال ہو گی۔ گاڑی مین روڈ پر آئی تو میری نظر اچانک اُس کی پینٹ پر پڑی جو جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی تھی..
. میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں سمجھ گیا کہ حالات سے تنگ یہ نوجوان مجبوراً کسی اور کی ٹیکسی چلانے پر مجبور ہے۔ مجھے یہ بھی سمجھ آ گئی کہ رات کو یہ ٹیکسی چلاتا ہو گا اور صبح یونیورسٹی جاتا ہو گا۔ اس کی ایک بیمار ماں اور اپاہج باپ بھی ہو گا‘ سر پر دو بہنوں کی شادی کا بوجھ بھی ہو گا‘ اسی لیے بیچارا نئی پینٹ تک نہیں لے سکتا۔ میں نے اپنی شرٹ کی
آستین سے آنسو پونچھے اور بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا ''بیٹا! ایک بات کہوں‘ برا تو نہیں منائو گے؟‘‘۔ اس نے چونک کر مجھے آنسو صاف کرتے ہوئے دیکھا اور جلدی سے بولا ''پلیز اب یہ نہ کہئے گا کہ آپ کے پاس کرایہ نہیں‘‘۔
میں سٹپٹا گیا ''نہیں نہیں بیٹا... یہ میں نے کب کہا ہے‘ میں اپنی نہیں تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں‘‘۔
''میری مدد... کیوں؟‘‘
''بس میرا دل کر رہا ہے... ایسا کرو جب تم مجھے ڈراپ کرکے جانے لگو تو جینز کی پینٹ لیتے جانا‘ میں نے زیادہ نہیں پہنی‘ چھ ماہ پہلے پانچ ہزار کی لی تھی...‘‘ میری بات سنتے ہی اس کا چہرہ لال ہو گیا‘ چلا کر بولا ''میں کیوں لوں آپ کی پینٹ؟‘‘۔ میں سمجھ گیا کہ بچہ انا پرست ہے‘ تسلی دی ''بیٹا! میں تمہاری خود داری کی قدر کرتا ہوں لیکن تمہیں پینٹ لینا ہی ہو گی‘ کسی کی اتنی اچھی گاڑی
میں یہ پھٹی ہوئی پینٹ پہن کر بیٹھنا اچھا نہیں لگتا‘‘۔ اس نے زور سے گاڑی کو بریک لگائے اور دانت پیستے ہوئے بولا ''اوئے... یہ میری اپنی گاڑی ہے اور میں شوق سے فارغ وقت میں اسے بطور ٹیکسی چلاتا ہوں اور جس پینٹ کو تم پھٹی ہوئی کہہ رہے ہو وہ آج کل کا فیشن ہے‘ یہ پھٹی ہوئی پینٹ دس ہزار کی ہے...‘‘ میں یکدم سہم گیا اور گھر کے باہر پہنچتے ہی ''نیواں نیواں‘‘ ہو کے اندر چلا گیا۔
میں فیشن ایبل تو ہونا چاہتا ہوں لیکن ہو نہیں پاتا۔ موٹے فریم والی عینک آج کل کا فیشن ہے لیکن اللہ جانتا ہے ایسی ہی عینک میری نانی پہنا کرتی تھیں‘ میں نانی کی عینک کو بطور فیشن کیسے پہن لوں؟ آپ نے کبھی لال رنگ کی پینٹ پر گہرے پیلے رنگ کی شرٹ اور پائوں میں نیلے بوٹ دیکھے ہیں؟ کہتے ہیں یہ بھی فیشن ہے۔ میں نے ایک فیشن ایبل دوست سے پوچھا
تھا کہ میرے لیے کوئی ہلکا پھلکا سا فیشن تجویز کرو۔ اس نے غور سے میرا جائزہ لیا اور کہنے لگا ''تم بال کھڑے کر لو‘‘۔ میرے کان کھڑے ہو گئے۔ وہ کیوں‘ میں کوئی...‘‘ اس نے جلدی سے میری بات کاٹی ''یقین کرو‘ کچھ کچھ فیشن ایبل لگو گے‘ چھوڑو یہ ڈریس شرٹس اور فارمل ڈریسنگ‘ کچھ مختلف نظر آئو۔ میں نے خوش ہو کر اس سے درخواست کی کہ وہ خود ہی میرے بال سیٹ کروا دے۔ موصوف مجھے ایک زنانہ نما مردانہ پارلر پر لے گئے۔ واپسی پر میں نے شیشہ دیکھا تو کانپ گیا‘ میرے بال کانٹوں کی طرح کھڑے تھے۔ اپنے گھر کی گلی کا موڑ مڑتے ہی ایک محلے دار کی نظر پڑ گئی‘ پہلے تو آنکھیں پھاڑے میرے بال دیکھتا رہا‘ پھر قریب آ کر اِدھر اُدھر دیکھ کر آہستہ سے بولا ''بھابی سے لڑائی ہوئی ہے؟‘‘
میں ہونٹ سکیڑ کر سیلفی بھی بنانا چاہتا ہوں لیکن مجھ سے موبائل ہی ٹھیک سے نہیں
پکڑا جاتا‘ پتا نہیں لوگ کیسے ایک ہاتھ سے موبائل سیدھا کرکے سیلفی بنا لیتے ہیں۔ میں نے تو جب بھی سیلفی بنانے کی کوشش کی موبائل پر نیا گلاس پروٹیکٹر لگوانا پڑا۔ میں جھینگے اور کیکڑے بھی کھانا چاہتا ہوں تاکہ شکل سے نہ سہی‘ کھانے سے ہی فیشن ایبل نظر آئوں لیکن پتا نہیں کیوں کسی چائنیز ریسٹورنٹ جاتے ہوئے راستے میں کسی چھوٹے سے ہوٹل پر دال ماش اور تندور کی تازہ روٹیاں دیکھتا ہوں تو غش پڑ جاتا ہے اور پھر میرے لیے آگے جانا مشکل ہو جاتا ہے۔ میں بات بات پر انگریزی بھی بولنا چاہتا ہوں تاکہ یکدم سامنے والے پر حاوی ہو جائوں لیکن یہاں بھی بڑی مشکل پیش آتی ہے۔
مردانہ کانوں میں بالی پہننا بھی فیشن ہے‘ بغیر جرابوں کے بوٹ پہننا بھی فیشن ہے‘ شرٹ کا اوپر سے دوسرا بٹن کھلا رکھنا بھی فیشن ہے حالانکہ پہلے یہ لفنگا پن کہلاتا تھا۔ کھانے پینے سے لے کر بول
چال‘ گھرکی بناوٹ‘ چہرے کے تاثرات‘ بالوں کی تراش خراش تک ہر چیز فیشن کی محتاج ہو کر رہ گئی ہے۔ ایک فیشن شو میں تو میں نے ایسے ماڈل لڑکوں کو بھی دیکھا جنہوں نے ''غرارے‘‘ پہن رکھے تھے۔ غرارے مجھے بھی پسند ہیں لیکن صرف گرم پانی کے۔ مجھے لگتا ہے میں کبھی فیشن ایبل نہیں بن سکوں گا‘ یہ دُکھ مجھے کھاتا جا رہا ہے۔ میں ٹنڈ کروا کے اپنے بازو پر ''ٹیٹو‘‘ بنوانا چاہتا ہوں... ٹی شرٹ اور شارٹ کے نیچے جوگر پہن کر کانوں میں ہینڈز فری لگا کر‘ ہاتھ میں منرل واٹر کی بوتل پکڑ کر شاپنگ کرنا چاہتا ہوں... باتھ ٹب میں نہانا چاہتا ہوں... کڑوی کسیلی کافی پینا چاہتا ہوں... بلکہ یہ سب تو کچھ نہیں‘ میں تو کانٹے سے چائے پینے کا بھی پروگرام بنا رہا ہوں لیکن تاحال کامیابی نہیں ہو رہی۔ جتنا فیشن ایبل ہونے کی کوشش کرتا ہوں اُتنا ہی روائتی زندگی میں دھنستا چلا جاتا
ہوں۔ میں نے کئی دفعہ کوشش کی کہ بیکری میں میرا ہاتھ چاکلیٹ کی طرف اٹھ جائے لیکن دوسری طرف کریم رول بھی رکھے ہوتے ہیں... ''لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے‘‘...‘ کلیجہ دھک سے رہ جاتا ہے... پھر میں‘ میں نہیں رہتا‘ تم ہو جاتا ہوں... کسی فوڈ چین سے سات سو روپے کا برگر کھا لوں تو گھر پہنچتے ہی پیٹ بھر کر کھانا کھاتا ہوں۔ سو طے ہوا کہ میں فیشن سے کوسوں دور ہوں۔ میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ میں صرف اسی صورت میں فیشن ایبل بن سکتا ہوں اگر میں کسی کی پروا نہ کروں۔ یہ طریقہ بھی میں آزما کر دیکھ چکا ہوں‘ ایک دفعہ اُس نے مجھے فیشن ایبل بنانے کی کوشش کرتے ہوئے سختی سے تاکید کی کہ کل میرے ہاں کھانے پر صرف جینز اور ٹی شرٹ پہن کر آنا..
. میں نے ایسا ہی کیا‘ لیکن جب وہاں پہنچا تو پتا چلا کہ لوگ جوتے بھی پہن کر آئے ہوئے تھے
"میں نے درخت سے شفقت سیکھی"
میں نے اسے پتھر مارا، اس نے مجھ پہ پھل اور پھول برسائے وہ شرمندگی میرے لئے سبق بن گئی۔!!!
"وہ سارا علم تو ملتا رہے گا آئندہ بھی
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے
سوکھے پھول
اور مہکے ہوئے رقعے
کتابیں مانگنے گِرنے اٹھانے کے بہانے رشتے بنتے تھے۔
ان کا کیا ہوگا ؟؟
وہ شاید۔۔۔ اب نہیں ہوں گے"۔
جو لوگ جلدی مر جاتے ہیں
وہ اپنی عمر یقینا پوری کرتے ہوں گے
کسی دور کی کہکشاں میں
جہاں ہر ستارے کے اپنے ڈھیروں چاند ہوتے ہیں
جن کے عکس سے ہر ایک ستارہ ہر روز منور ہوتا ہے
جہاں چاندنی کسی تپتے جلتے سورج کی محتاج نہیں ہو تی
اور نا ہی کسی گرہن کا خوف آڑے آتا ہے
ٹھنڈی میٹھی چھاؤں یقینا ماں کی گودجیسی ہوتی ہو گی ؟
ورنہ جلدی جانے والوں کو سکوں کہاں ملتا ہو گا
ہر اگتے چاند کو ایسے جلد بازوں نے نام دیے ہوں گے
نام ، جو موت کی جلدی میں پیچھے رہ گۓ
پر بازگشت چپکے سے کفن میں آ کر سو جاتی ہے
کسی چاند کا نام پہلی گود ہو گا
کسی کو ناز سے پہلا پیار پکارا جاتا ہو گا
کوئی چاند روح اور جسم کی جیت ہو گا
اور کسی چاند کا نام حسرت ہوگا
یہ جلدی جانے والے لوگ ہر روز چاندنی میں نہاتے ہوں گے
اور حسرتوں کے چاند کو ہر روز گھٹتااور بڑھتا دیکھ کر ان ناموں کو دہراتے ہوں گے
روزروز کے اس کھیل میں نا چاند سوتا ہے
نا حسرتیں کم ہوتی ہیں
اور نا واپسی کے لئے کوئی سیڑھی ملتی ہے
ستارے اپنے اپنے مداروں میں گردش کے پابند ہیں
اور ان کے مکین اس گردش کے رکھوالے
کبھی نا رکنے والی اس آنکھ مچولی کو کوئی ایسا نہیں ہے جو روک دے
مسیحا تو صرف سانس لیتی روحوں پر نازل ہوتے ہیں
خاک سے خاک کے سفر میں جلدی کرنے والے بس تماشائی ہیں
پورے وجود سے بنی ادھوری روحیں ہیں
جن کی کوئی کہانی نہیں ہوتی
بس وہ ایک ایسے اداکار کی ماند ذہن میں نقش رہ جاتے ہیں
جن کو اپنی لائنیں پوری ہونے سے پہلے ہی سٹیج سے اتار دیا جاتا ہے
وہ کیا کہنا چاہتے تھے ؟
ان کے ہونے سے کیا کہانی بدل جاتی ؟
بس ان سوالوں کی تشنگی یاداشت میں ان کرداروں کو امر کر دیتی ہے
یہ جلدی جانے والے بس یہیں جیت جاتے ہیں
ادھوری کہانیوں کی پوٹلی اٹھائے ،، اپنے ستاروں کی جانب گامزن
تشنگی کا آسیب پیچھے رہ جانے والوں کو تحفے میں دے جاتے ہیں
تحفہ بھی ایسا جو کوئی نہیں چاہتا
لیکن چاہنے سے کبھی کچھ نہیں بدلتا
نا جلدی جانے والے رکتے ہیں
نا پیچھے رہ جانے والے روک پاتے ہیں
یہ کھیل تمہاری اور میری کہانی سے صدیوں پرانا ہے
میں بس اتنا چاہتی ہوں
اس سفر میں ستارے کھوجنے پہلے میں جاؤں
تو میری پوٹلی میں ادھوری کہانیوں کی رنگ بِرنگ کترنیں نا ہوں
نا الجھے خوابوں کے دھاگے لپٹے پڑے ہوں
مجھے کسی چاند کا نام حسرت نا رکھنا پڑے
اور تحفے میں تشنگی کا کوئی بھوت تمہارے گھر بسیرا نا کرے
خط میں میرے ہی خط کے ٹُکڑے تھے۔۔۔!!
اور میں سمجھا!!!
جواب آیا ہے۔۔۔۔۔
جب اُس نے مُجھ سے کہا مُجھے تُم سے مُحبت ہے تو میں چَھت سے کُود کر فوراً کمرے میں آ گیا
اُس رات میں نے پہلی بار موبائل کے فرنٹ کیمرہ کو بطور آئینہ استعمال کرتے ہُوئے خُود کا بغور مطالعہ کِیا
گھنٹوں خُود کو تسلیاں دینے کے بعد اِس نتیجے پر پہنچا کہ نہیں
یہ سب دھوکا ہے، جُھوٹ ہے، فریب ہے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain