خوش نصیبی کسی شے کا نام نہیں‘ سماجی مرتبے کا نام نہیں ‘ بینک بیلینس کا نام نہیں ‘ بڑے بڑے مکانوں کا نام نہیں …. خوش نصیبی صرف اپنے نصیب پر خوش رہنے کا نام ہے ۔
کوشش ترک کرنے کا مقصد نہیں ۔ کسی خوش نصیب نے آج تک کوشش ترک نہیں کی، لیکن یہ کوشش بامقصد ہونی چاہئے۔ایسی کوشش کہ زندگی بھی آسان ہو اور موت بھی آسان ہو۔ یہ دنیا بھی اچھی اور وہ دنیا بھی بہتر۔
ایسی زندگی کہ ہم بھی راضی رہیں اور ہماری زندگی پر خدا بھی راضی ہو۔…. خوش نصیبی ایک متوازن زندگی کا نام ہے …. خوش نصیب انسان حق کے قریب رہتا ہے ، وہ ہوس اور حسرت سے آزاد ہے ، وہ فنا کے دیس میں بقا کا مسافر ہے۔
واصف علی واصفؒ
شادی کی تقریب میں نہایت مع٘زز لوگ مدعو تھے
فلسفہ، سیاسیات۔ طبعیات و مابعد الطبیعیات اور معیشت پہ باتیں ہو رہی تھی کہ روٹی کُھل گئی۔۔۔
اور پھر۔۔سب کی اصلیت کھل گئی۔۔
زندگی روز مجھ سے پوچھتی ہے
آخری شعر ہوگیا ، تو چلیں؟
شب بخیر۔۔۔
دو وجوہات پہ اس دل کی آسامی نہ ملی
ایک درخواست گزار اتنے دوسرا سارے لائق
بارش اور اذانوں کا
اداسی سے
خاصا پرانا اور گہرا تعلق ھے
جو لوگ آدھے ادھورے اداس رہتے ہیں
انہیں سکھاؤں گا کیسے اداس رہتے ہیں
اداس تم ہو وہاں پر اداس ہم ہیں یہاں
کبھی ملو تو اکٹھے اداس رہتے ہیں
بنائے رکھتے ہیں ہر حال میں توازن ہم
کہ خوش بھی اتنے تھے جتنے اداس رہتے ہیں
اداسی تیرے ملازم نئے ہیں ہم لیکن
پرانے والوں سے اچھے اداس رہتے ہیں
شریک ہوتے ہیں کم محفل اداسی میں
زیادہ تر تو اکیلے اداس رہتے ہیں
تمہارے سامنے جلتا نہیں ہے ان کا چراغ
کہ چاند ہو تو ستارے اداس رہتے ہیں
کسے دکھاؤ گے اپنی اداسیاں شرجیلؔ
یہاں تو تم سے بھی اچھے اداس رہتے ہیں
عام ناول
لڑکے نے لڑکی کا ہاتھ پکڑا اور دونوں ہنسی خوشی اپنی منزل کی جانب چل دیئے۔
عمیرہ احمد کے ناول:
لڑکے نے فجر کے وضو میں دھوئے ہوئے ہاتھوں سے ماہِ مبارک میں چھٹکتی چاندنی جیسی دودھیا رنگت کی حامل لڑکی کا سیاہ دستانوں میں ملبوس گورا اجلا ہاتھ تھاما اور دونوں بآوازِ بلند الحمد للہ کہتے ہوئے ننگے پیر ساحلِ سمندر کی پاک ریت پر دھیمے قدموں سے چلنے لگے۔
مجھ جیسوں کا یہاں، وہاں کوئی دوست نہیں ہے ہمارا کوئی محبوب نہیں ہوتا، ہم صرف لوگوں سے ملتے رہتے ہیں جیسے کچی لپائی دیوار سے جھڑ جاتی ہے اور ایسے ہی ہم لوگوں کے دلوں سے اتر جاتے ہیں
مجھے ایک تسلی بھرا خط لکھو
اس خط میں کوئی ایسا پیغام
زندگی کے کچھ رنگ
، دلفریب مناظر __ اداسی مٹانے کے گُر اپنے انداز سے میرا نام ___ لکھو کچھ ایسا کہ میں سبھی مسائل بھول کر تمہیں یاد رکھوں۔
"هنالك قلوب خُلقت لتسعدنا وتُخبرنا أن الحياةَ ما زالتْ جميلة."
کچھ دل ہماری خوش بختی کے لیے بنائے گئے ہیں۔۔جو ہمیں بھروسہ دلاتے ہے کہ زندگی اب بھی خوبصورت ہے
شب بخیر ۔۔۔
عورتوں کی آدھی عمر تو اپنی عمر کم کرنے میں گزرجاتی ہے۔ ایک ملازمت کے انٹرویو کے دوران انٹرویو لینے والے نے پوچھا، ’’محترمہ! آپ کی عمر؟‘‘ جواب ملا، ’’ 19 سال کچھ مہینے‘‘ پوچھا، ’’کتنے مہینے؟‘‘ جواب ملا۔ ’’چھیانوے مہینے!‘‘
ہر موٹا انسان اکثر یہ سوچتا ہے کہ ایسا کیا کھاؤں جس سے پتلا ہو جاؤں.
لیکن سوچتا وہ کھانے کا ہی ہے
کچھ بھی ہوجائے یہ روح ہمیشہ اداس رہے گی کیونکہ یہ دنیا اس کا مسکن نہیں ہے۔
"بات زیادہ پڑھنے کی نہیں اچھا پڑھنے کی ہے۔"
داغستانی خاتون اور شاعر بیٹا۔
اس نے جب بولنا نہ سیکھا تھا
اس کی ہر بات میں سمجھتی تھی
اب وہ شاعر بنا ہے نام خدا
لیکن افسوس کوئی بات اس کی
میرے پلّے ذرا نہیں پڑتی۔
کسی پر نظم لکھنے سے
کوئی مِل تو نہیں جاتا
کوئی تعریف
بانہوں کے برابر تو نہیں ھوتی
کسی آواز کے پاوں
کبھی دل پر نہیں چلتے
کبھی کشکول میں
قوس و قزح اُتری نہیں دیکھی
کسی نے آج تک
شاعر کے آنسو
خود نہیں پونچھے
دلاسہ ، لفظ کی حد تک ھی اپنا کام کرتا ھے
کسی خواھش کو
سینے سے لگانے
کی اجازت تک نہیں ھوتی
تمھاری ضد کو پُورا کر دیا دیکھو
ستارے ، چاند، سُورج ، روشنی، خوشبو،
تمھارے دَر پہ کیا کیا دھر دیا دیکھو
گُلِ فردا
ابھی کِھل جاؤ ! کہنے سے
کوئی کِھل تو نہیں جاتا
کسی پر نظم لکھنے سے
کوئی مِل تو نہیں جاتا
ترکِ الفت کی اذیت بھی نزع جیسی ہے
کتنا مشکل ہے محبت سے گریزاں رہنا
انوکھی طلاق
دفتر میں کام کرتے ہوئے ایک صاحب کا موبائل چوری ہوگیا ...
دن بھر کی مصروفیت کے بعد تھکے ہارے صاحب بہادر نے جونہی گھر کی دہلیز پر قدم رکھا تو اگلا منظر دیکھ کر چونکے بنا نہ رہ سکے ...
گھر میں ساس اور سسر ... اپنی بیٹی کا سامان پیک کئے ان کے منتظر تھے ... بیگم اور ساس کی آنکهیں رو رو کر سرخ ہوچکی تهیں ... جبکہ ان کے داخل ہونے پر سسر کے ماتھے پر نفرت کی لکیریں بهی عیاں ہونے لگی تهیں ...
"کہاں لیکر جارہے ہیں میری بیوی کو ؟؟ خیریت
تو ہے ؟؟ "
انہوں نے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں دریافت کیا تو سسر نے آگے بڑھ کر ان کی بیوی کا موبائل ان کے سامنے کردیا ....
"میں تمہیں تین طلاق دیتا ہوں" ....
بیوی کو ان کے نمبر سے میسج آیا تھا ...
میسیج دیکھ کر صاحب نے ایک ٹهنڈی آہ بھری اور بتایا کہ ان کا موبائل تو صبح سے چوری ہوگیا تھا ....
انہوں نے اپنی جیبیں الٹ کر سب کو یقین دلایا ... تو ان کی بیگم اپنی ماں سے لپٹ کر رونے لگیں ... اور سسر صاحب نے اپنی ٹانگیں بیٹھے بیٹھے دراز کرلیں
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain