Damadam.pk
Offline's posts | Damadam

Offline's posts:

Offline
 

خوش نصیبی کسی شے کا نام نہیں‘ سماجی مرتبے کا نام نہیں ‘ بینک بیلینس کا نام نہیں ‘ بڑے بڑے مکانوں کا نام نہیں …. خوش نصیبی صرف اپنے نصیب پر خوش رہنے کا نام ہے ۔
کوشش ترک کرنے کا مقصد نہیں ۔ کسی خوش نصیب نے آج تک کوشش ترک نہیں کی، لیکن یہ کوشش بامقصد ہونی چاہئے۔ایسی کوشش کہ زندگی بھی آسان ہو اور موت بھی آسان ہو۔ یہ دنیا بھی اچھی اور وہ دنیا بھی بہتر۔
ایسی زندگی کہ ہم بھی راضی رہیں اور ہماری زندگی پر خدا بھی راضی ہو۔…. خوش نصیبی ایک متوازن زندگی کا نام ہے …. خوش نصیب انسان حق کے قریب رہتا ہے ، وہ ہوس اور حسرت سے آزاد ہے ، وہ فنا کے دیس میں بقا کا مسافر ہے۔
واصف علی واصفؒ

Offline
 

شادی کی تقریب میں نہایت مع٘زز لوگ مدعو تھے
فلسفہ، سیاسیات۔ طبعیات و مابعد الطبیعیات اور معیشت پہ باتیں ہو رہی تھی کہ روٹی کُھل گئی۔۔۔
اور پھر۔۔سب کی اصلیت کھل گئی۔۔

Offline
 

زندگی روز مجھ سے پوچھتی ہے
آخری شعر ہوگیا ، تو چلیں؟
شب بخیر۔۔۔

Offline
 

دو وجوہات پہ اس دل کی آسامی نہ ملی
ایک درخواست گزار اتنے دوسرا سارے لائق

Offline
 

بارش اور اذانوں کا
اداسی سے
خاصا پرانا اور گہرا تعلق ھے

Offline
 

جو لوگ آدھے ادھورے اداس رہتے ہیں
انہیں سکھاؤں گا کیسے اداس رہتے ہیں
اداس تم ہو وہاں پر اداس ہم ہیں یہاں
کبھی ملو تو اکٹھے اداس رہتے ہیں
بنائے رکھتے ہیں ہر حال میں توازن ہم
کہ خوش بھی اتنے تھے جتنے اداس رہتے ہیں
اداسی تیرے ملازم نئے ہیں ہم لیکن
پرانے والوں سے اچھے اداس رہتے ہیں
شریک ہوتے ہیں کم محفل اداسی میں
زیادہ تر تو اکیلے اداس رہتے ہیں
تمہارے سامنے جلتا نہیں ہے ان کا چراغ
کہ چاند ہو تو ستارے اداس رہتے ہیں
کسے دکھاؤ گے اپنی اداسیاں شرجیلؔ
یہاں تو تم سے بھی اچھے اداس رہتے ہیں

Offline
 

عام ناول
لڑکے نے لڑکی کا ہاتھ پکڑا اور دونوں ہنسی خوشی اپنی منزل کی جانب چل دیئے۔
عمیرہ احمد کے ناول:
لڑکے نے فجر کے وضو میں دھوئے ہوئے ہاتھوں سے ماہِ مبارک میں چھٹکتی چاندنی جیسی دودھیا رنگت کی حامل لڑکی کا سیاہ دستانوں میں ملبوس گورا اجلا ہاتھ تھاما اور دونوں بآوازِ بلند الحمد للہ کہتے ہوئے ننگے پیر ساحلِ سمندر کی پاک ریت پر دھیمے قدموں سے چلنے لگے۔

Offline
 

مجھ جیسوں کا یہاں، وہاں کوئی دوست نہیں ہے ہمارا کوئی محبوب نہیں ہوتا، ہم صرف لوگوں سے ملتے رہتے ہیں جیسے کچی لپائی دیوار سے جھڑ جاتی ہے اور ایسے ہی ہم لوگوں کے دلوں سے اتر جاتے ہیں

Offline
 

مجھے ایک تسلی بھرا خط لکھو
اس خط میں کوئی ایسا پیغام
زندگی کے کچھ رنگ
، دلفریب مناظر __ اداسی مٹانے کے گُر اپنے انداز سے میرا نام ___ لکھو کچھ ایسا کہ میں سبھی مسائل بھول کر تمہیں یاد رکھوں۔

Offline
 

"هنالك قلوب خُلقت لتسعدنا وتُخبرنا أن الحياةَ ما زالتْ جميلة."
کچھ دل ہماری خوش بختی کے لیے بنائے گئے ہیں۔۔جو ہمیں بھروسہ دلاتے ہے کہ زندگی اب بھی خوبصورت ہے
شب بخیر ۔۔۔

Offline
 

عورتوں کی آدھی عمر تو اپنی عمر کم کرنے میں گزرجاتی ہے۔ ایک ملازمت کے انٹرویو کے دوران انٹرویو لینے والے نے پوچھا، ’’محترمہ! آپ کی عمر؟‘‘ جواب ملا، ’’ 19 سال کچھ مہینے‘‘ پوچھا، ’’کتنے مہینے؟‘‘ جواب ملا۔ ’’چھیانوے مہینے!‘‘

Offline
 

ہر موٹا انسان اکثر یہ سوچتا ہے کہ ایسا کیا کھاؤں جس سے پتلا ہو جاؤں.
لیکن سوچتا وہ کھانے کا ہی ہے

Offline
 

کچھ بھی ہوجائے یہ روح ہمیشہ اداس رہے گی کیونکہ یہ دنیا اس کا مسکن نہیں ہے۔

Offline
 

"بات زیادہ پڑھنے کی نہیں اچھا پڑھنے کی ہے۔"

Offline
 

داغستانی خاتون اور شاعر بیٹا۔
اس نے جب بولنا نہ سیکھا تھا
اس کی ہر بات میں سمجھتی تھی
اب وہ شاعر بنا ہے نام خدا
لیکن افسوس کوئی بات اس کی
میرے پلّے ذرا نہیں پڑتی۔

Offline
 

کسی پر نظم لکھنے سے
کوئی مِل تو نہیں جاتا
کوئی تعریف
بانہوں کے برابر تو نہیں ھوتی
کسی آواز کے پاوں
کبھی دل پر نہیں چلتے
کبھی کشکول میں
قوس و قزح اُتری نہیں دیکھی
کسی نے آج تک
شاعر کے آنسو
خود نہیں پونچھے

Offline
 

دلاسہ ، لفظ کی حد تک ھی اپنا کام کرتا ھے
کسی خواھش کو
سینے سے لگانے
کی اجازت تک نہیں ھوتی
تمھاری ضد کو پُورا کر دیا دیکھو
ستارے ، چاند، سُورج ، روشنی، خوشبو،
تمھارے دَر پہ کیا کیا دھر دیا دیکھو
گُلِ فردا
ابھی کِھل جاؤ ! کہنے سے
کوئی کِھل تو نہیں جاتا
کسی پر نظم لکھنے سے
کوئی مِل تو نہیں جاتا

Offline
 

ترکِ الفت کی اذیت بھی نزع جیسی ہے
کتنا مشکل ہے محبت سے گریزاں رہنا

Offline
 

انوکھی طلاق
دفتر میں کام کرتے ہوئے ایک صاحب کا موبائل چوری ہوگیا ...
دن بھر کی مصروفیت کے بعد تھکے ہارے صاحب بہادر نے جونہی گھر کی دہلیز پر قدم رکھا تو اگلا منظر دیکھ کر چونکے بنا نہ رہ سکے ...
گھر میں ساس اور سسر ... اپنی بیٹی کا سامان پیک کئے ان کے منتظر تھے ... بیگم اور ساس کی آنکهیں رو رو کر سرخ ہوچکی تهیں ... جبکہ ان کے داخل ہونے پر سسر کے ماتھے پر نفرت کی لکیریں بهی عیاں ہونے لگی تهیں ...
"کہاں لیکر جارہے ہیں میری بیوی کو ؟؟ خیریت

Offline
 

تو ہے ؟؟ "
انہوں نے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں دریافت کیا تو سسر نے آگے بڑھ کر ان کی بیوی کا موبائل ان کے سامنے کردیا ....
"میں تمہیں تین طلاق دیتا ہوں" ....
بیوی کو ان کے نمبر سے میسج آیا تھا ...
میسیج دیکھ کر صاحب نے ایک ٹهنڈی آہ بھری اور بتایا کہ ان کا موبائل تو صبح سے چوری ہوگیا تھا ....
انہوں نے اپنی جیبیں الٹ کر سب کو یقین دلایا ... تو ان کی بیگم اپنی ماں سے لپٹ کر رونے لگیں ... اور سسر صاحب نے اپنی ٹانگیں بیٹھے بیٹھے دراز کرلیں