میں جو مہکا تو میری شاخ جلا دی اُس نے سبز موسم میں مجھے زرد ہوا دی اُس نے پہلے ایک لمحے کی زنجیر سے باندھا مجھ کو اور پھر وقت کی رفتار بڑھا دی اُس نے جانتا تھا کہ مجھے موت سکوں بخشے گی وہ ستمگر تھا سو جینے کی دعا دی اُس نے جس کے ہونے سے تھیں سانسیں میری دگنی وہ جو بچھڑا تو میری عمر گھٹا دی اُس نے
آگ ہو تو جلنے میں دیر کتنی لگتی ہے برف کے پگھلنے میں دیر کتنی لگتی ہے چاہے کوئی رک جائے، چاہے کوئی رہ جائے قافلوں کو چلنے میں دیر کتنی لگتی ہے چاہے کوئی جیسا بھی ہم سفر ہوصدیوں سے راستہ بدلنے میں دیر کتنی لگتی ہے یہ تو وقت کے بس میں ہے کہ کتنی مہلت دے ورنہ بخت ڈھلنے میں دیر کتنی لگتی ہے موم کا بدن لے کر دھوپ میں نکل آنا اور پھر پگھلنے میں دیر کتنی لگتی ہے سوچ کی زمینوں پر راستے جُدا ہوں تو دُور جا نکلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
لوگوں نے مُجھے بتايا کہ وقت بدل جاتا ہے،اور وقت نے مجھے بتايا کہ لوگ بھی بدل جاتے ہيں۔ضروری نہيں جو آج تمہارے ساتھ ہے وہ کل بھی ساتھ رہے گا،اسی ليے اکيلے چلنا سيکھ لو اگر وقت اپنا ہے تو سب اپنے ہيں ورنہ کوئی اپنا نہيں* #___