ہمارا کیا ہے کہ ہم تو چراغِ شب کی طرح اگر جلے بھی تو بس اِتنی روشنی ہوگی کہ جیسے تُند اندھیروں کی راہ میں جگنو ذرا سی دیر کو چمکے ، چمک کے کھو جائے پھر اُس کے بعد کِسی کو نہ کُچھ سُجھائی دے نہ شب کٹے نہ سُراغِ سحر دکھائی دے ہمارا کیا ہے کہ ہم تو پسِ غُبارِ سفر اگر چلے بھی تو بس اِتنی راہ طے ہوگی کہ جیسے تیز ہوائوں کی زد میں نقشِ قدم ذرا سی دیر کو اُبھرے ، اُبھر کے مِٹ جائے پھر اُس کے بعد نہ رستہ نہ راہگزر مِلے حدِ نگاہ تلک دشتِ بے کنار مِلے ہماری سمت نہ دیکھو کہ کوئی دیر میں ہم قبیلہءِ دِل و جاں سے بِچھڑنے والے ہیں بسِ بسائے ہوئے شہر اپنی آنکھوں کے مثالِ خانہء۔ ویراں اُجڑنے والے ہیں ہوا کا شور یہی ہے تو دیکھتے رہنا ہماری عمر کے خیمے اُکھڑنے والے ہیں
کون پرسان حال ہے میرا زندہ۔رہنا کمال ہے میرا تو۔نہیں۔توتیرا خیال سہی کوی۔تو ہم خیال ہے میرا میرے اعصاب دے رہے ہیں جواب حوصلہ کب نڈھال ہے میرا چڑھتا سورچ بتا رہا ہے مجھے بس۔یہں۔سےزوال ہے میرا سب کی نزریں میری نگاہ میں ھیں کس کو کتنا خیال ھے میرا