کہ کچھ نہیں بدلا دیوانے تھے
دیوانے ہیں دیوانے ہی رہے
اے پرندو ہجرتیں کرنے سے کیا حاصل ھوا
کہ چونچ میں تھے چار دانے
چار دانے ہی رہے
وہ جگہ چھوڑ دو
جہاں۔تمھارے۔
الفاظ۔احساسات۔جزبات کی قدر نہ ہو
کسی نے پوچھا ک فرحت بہت حسین ھو تم
تو
مسکرا۔کہ کہا سب جمال درد کا ہے
سب جمال درد کا ہے
یہں کہیں میرے اندر کوی تڑپتا ہے
یہں کہیں پہ کوی یرغمال درد کا ہے
نہ تم میں سکھ کی کوی بات یے نہ مجھ میں یے
تمھارا اور میرا ملنا وصال درد کا یے
یہ دل یہ اجھڑی ھوی چشم نم یہ تنہای
ھمارے پاس تو جو کچھ بھی ہے مال درد کا ہے
زندگی اب بتا کہاں جایں
زھر بازار میں ملا ہی نیں
سچ گھٹے یا بڑھےسچ نہ رہے
جھوٹ کی کوی انتہا ہی نہیں
بس اک لکیر کھینچ گیا درمیان میں
دیوار راستے میں بنا کر نیں گیا
یوں لگ رہا ھے جیسے ابھی لوٹ آے گا
جاتے ہوے چراغ بجھا کر نہیں گیا