جو روز بدلتے ہیں معیار محبت کے وہ لوگ نہیں ہوتے حقدار محبت کے اس سال تمہارے بن رمضان گزارا ہے روزے بھی ہوئے مشکل افطار محبت کے یہ تاج محل دیکھو الفت کی نشانی ہے ایسے ہی ہزاروں ہیں شہکار محبت کے اب ہیر بھی جھوٹی ہے، رانجھا بھی فریبی ہے رہتے ہیں تعقب میں فنکار محبت کے اظہارِ محبت بھی تم نے ہی کیا تھا نا؟ تم نے ہی کیے رستے دشوار محبت کے ہولی بھی میں کھیلا ہوں، عیدیں بھی منائی ہیں ہوتے ہیں سبھی جائز تہوار محبت کے اب دل بھی ہمارا تو سنسان سا جنگل ہے باقی ہیں مگر اس میں آثار محبت کے لیلٰی کے بھی قصے ہیں، مجنوں بھی سلامت ہے مر کے بھی نہیں مرتے کردار محبت کے بالوں میں سفیدی بھی یوں ہی تو نہیں اتری سو رنج اٹھائے ہیں سرکار محبت کے وہ لوگ نہیں کرتے الفت میں کمی ہرگز جو وزن میں کہتے ہیں اشعار محبت کے