عشق کرنے کے بھی آداب ہوا کرتے ہیں
جاگتی پلکوں کے بھی خواب ہوا کرتے ہیں
ہر کوئی رو کے دکھا دے
یہ ضروری تو نہیں
خوش آنکھوں میں بھی
سیلاب ہوا کرتے ہیں
پھر بارشیں تو ہونی تھی
ہوا کو دکھ جو سنائیں تھے میں نے
تربیت مارتی ہے ورنہ ان دوغلے لوگوں کو
میں تو وہ بات کہوں سر نہ اٹھانے پائیں