حسن کو چاند ، جوانی کو کنول کہتے ہیں اُن کی صورت نظر آئے تو غزل کہتے ہیں ۔۔۔۔۔ اُف ! وہ مرمر سے تراشا ہوا شفاف بدن دیکھنے والے اسے تاج محل کہتے ہیں ۔۔۔۔۔ پڑ گئی پاؤں میں تقدیر کی زنجیر تو کیا ہم تو اس کو بھی تیری زلف کا بل کہتے ہیں ۔۔۔۔۔ وہ تیرے حسن کی قیمت سے نہیں ہیں واقف پنکھڑی کو جو تیرے لب کا بدل کہتے ہیں ۔۔۔۔۔ مَیں نے توڑی تھی صراحی کہ گِھر آئے بادل دوستو! اس کو مکافاتِ عمل کہتے ہیں ۔۔۔۔۔ مجھ کو معلوم نہیں اس کے سوا کچھ بھی قتیل جو صدی وصل میں گزرے اسے پل کہتے ہیں