دوسرا یہ ہے کہ مرجائیں تو بس جاں چھوٹے پہلا حل یہ تھا میں اس شخص کے نزدیک ہوتا ہمت و حوصلہ کہنے کی فقط باتیں ہیں 'ٹھیک ہو جائے گا' کہنے سے نہیں ٹھیک ہوتا
وہ پہلے ،دل میں اترنے" کے فن میں تاک ہوا ' پھر اس نے سیکھا ، ہنر بات سے مکرنے کا ۔۔ جو "گفتگو" کے بہانے تلاش کرتا تھا جواز ڈھونڈتا رہتا ہے ، اب بگڑنے کا ۔۔۔
قسمت تُو مجھےکہاں رکھ کےبھول گئی میلے کپڑوں کی گٹھڑی میں برتنوں کی الماری میں قد سے اونچی شیلف پر مقفّل دراز میں یا پھر کِسی دِل کے دور دراز گوشے میں قسمت . کُچھ یاد کر تُو نے مُجھے کہاں ڈالا تھا اچار کے مرتبان میں مرچوں کے ڈبّے میں ماچس کی ڈبیا میں یا کِسی کے سگریٹ کیس میں قسمت ...یاد کر ... تُو نے مُجھے پھینک تو نہیں دیا تھا ...؟؟ چولھے کی راکھ میں یا پھر ... کِسی کے پیروں کی خاک میں...
جب جب کوئی پوچھتا ہے کہ کیا میں نے کبھی محبت کی ہے تو دل چاہتا ہے رو کر کہوں کہ ہاں کی تھی بہت محبت کی تھی ۔۔۔!! خود کی ذات سے بڑھ کر کی تھی، اتنی کہ وہ ہر وقت میرے ساتھ ہوتی ہے ۔۔۔۔! جب آنکھیں بند کروں تو اسی کا چہرہ نظر آتا ہے ۔۔۔! محبت نہیں "عشق" کیا تھا !اس کے ساتھ اس کے محبوب کو بھی چاہا تھا پھر بھی دغا ہوا پھر بھی میں ہی بربادی کی طرف گیا ۔۔۔ دل چاہتا ہے پوچھنے والے انسان کے آگے ہاتھ جوڑ کر کہوں کہ خدارا ۔۔۔۔! کبھی محبت مت کرنا "محرم"کے سوا کسی سے محبت نہ کرنا ۔۔۔۔ یہ وہ "دیمک" ہے جو اندر ہی اندر انسان کو چاٹ جاتی ہے ۔۔۔۔ لیکن میں یہ سب نہیں کہہ سکتا، اس لیے دوسروں پر اپنے جذبات اور احساسات واضح نہیں کر سکتا ۔۔۔۔!!! اس لیے منہ نیچا کیے مسکرا کر کہہ دیتا ہوں ۔۔۔۔!!! کبھی نہیں کی محبت اور اللہ بچائے اس محبت
بار بار آتے ہوئے نسووں نے گلے میں گولہ سا بنا دیا تھا ورنہ میں اسے کہہ دیتا محبت کی کوئی سیلف ریسپکٹ نہیں ہوتی، اگر ہوتی تو میں تمہارے آگے اور تم اس کے آگے محبت کی مٹی پلید نا کررہے ہوتے دوسری طرف سے فون بند ہوا تو کانپتے ہاتھوں نے کپکپاتے ہونٹوں پر چپ کا پتھر رکھا!!
مجھ سے مل لو، آخری بار "کس لئے چھ سے سات بار کبھی رحم کبھی ضد کبھی دھمکا کر ملنے والے جب آخری بار ملنے کی بات پر سوال کھڑے کریں تو محبت شرمندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں گر جاتی ہے "تمہیں مجھ سے محبت نہیں تھی تو تمہیں مجھے محبت میں مبتلا نہیں کرنا چاہئے تھا میرا اتنا کہنا تھا کہ اکتائے ہوئے شخص کی چڑچڑی آواز ریسیور سے ابھری محبت محبت محبت کب تک اس لفظ محبت کو رگیدتے رہو گے؟ نہیں ہے مجھے تم سے محبت کیا کرلو گئے میرا؟ نہیں سننا چاہتی تمہیں، نہیں ملنا چاہتی تم سے، تمہارے اندر کوئی عزت نفس نہیں ہے؟ شرم نہیں آتی تمہیں
میں نے اسکے اندر میرے لئے مری ہوئی محبت کو جھنجھوڑنا چاہا تو اس نے میری ہی محبت کے پرخچے اڑا دئیے تمہارا مسئلہ ہےمحبت شروعات سے ہی یکطرفہ ہو تو انسان کو اپنی اوقات کا اندازہ رہتا ہے، باہمی محبت میں اوقات کا ناپ تول نہیں ہوتا دونوں ایک دوسرے کو برابری سے گرنے نہیں دیتے، محبت کو یکطرفہ کا اعزاز حاصل ہوجاتے ہی ایک فریق دوسرے کو دھکا دیتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ محبت سے واپسی کے سفر میں اوقات کا دھبہ کس کو کتنا پڑنا ہے
میں نے اسے میسج کیا "مجھے تمہاری آواز سننی ہے" رپلائے آیا "مصروف ہوں، نہیں کرسکتی" ایک وقت تھا جب یہ عورت میری آواز سننے کیلئے میری طرح مجھ سے ہی التجا کرتی تھی میں نے سوچا اور تلخی سے مسکرادیا "سال کی آخری کال؟" میں نے التجا کی اس نے کال اٹھائی اور خاموش رہی میں نے پوچھا کیسی ہو؟ اس نے میرے سوال کو نظر انداز کردیا کہا "کیا کہنا ہے؟" "تمہیں مجھ سے محبت نہیں رہی؟ میں نے پوچھا اور دل میں ایک موہوم سی امید لئے سماعت کو منتظر پایا "نہیں" اسکا نہیں میرے اندر کسی زہر کی طرح پھیل گیا ایک وقت تھا مجھے کہتی تھی کہو نا مجھ سے محبت ہے؟ اصرار کرتی تھی، میرے لئے نظم لکھو، فرمائش کرتی تھی، میرے لئے غزل گنگناو مجبور کرتی تھی اور میں.؟ میں اسکے منہ سے نکلا ہر لفظ ضروری سمجھ کر فرض کرلیتا "تمہاری محبت کے نقش میرے اندر گہرے ہورہے ہیں"