چلو شادی والی بات تو ٹھیک ہے لیکن کیا پوسٹ پہ آنے کیلیے بھی تمہارے ابا نہیں مانتے
کئی سال پہلے فلم میں ایک سین دیکھا جس میں عاشق کے ہاتھوں میں اس کی محبوبہ کے ہاتھ تھے. وہ اپنی محبوبہ سے پوچھتا ہے
'اس میں سے میری انگلیاں کون سی ہیں؟'
محبوبہ شرما کے کہتی ہے 'ساری آپ کی ہیں'
مجھ کو اس بات نے اپنا گرویدہ کر لیا. میری بڑی خواھش تھی کے تعلیم سے فراغت کے بعد تیس چالیس تک شادی ہو گی تو کوئی مجھے بھی ایسے کہے
سال پر سال گزرتے گئے. لیکن یہ خواہش نہ بھول سکا
آخر وہ میری زندگی میں آ ہی گئی.
ایک دن جب اس کے ہاتھ میرے ہاتھوں میں تھے مجھ کو اپنی وہ ہی خواہش یاد آگئی. میں نے بڑے جذب کے عالم اس سے پوچھا، 'ان میں سے میری انگلیاں کون سی ہیں؟'
اس نے کہا،
' اس میں پوچھنے والی کیا بات ہے، یہ کالی کالی آپ کی ہیں'
زندگی میں ایسا بھی ہوتا ہے ،
کہ آپ کسی ایک انسان پر چاہت، خلوص، عقیدت، محبت
اور اعتبار کے خزانے لُٹا رہے ہوں۔
اور وہ شخص زندگی کے کسی موڑ پر اپنے کسی گھٹیا عمل سے آپ پر یہ واضح کر دے
کہ وہ اس سب کے بالکل بھی قابل نہیں تھا،
کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے نا؟ ان تمام جذبات کا ضائع چلے جانا۔؟
آپ سب سے گزارش ہے
دل والا لائک نا دیا کریں
بندہ لمممممممبیاں سوچاں وچ پے جاندا اے
میں تجھ سے پوری توجہ کی طلبگار ہوں
اگر اوروں سے تعلق ہے تو مجھ سے دور رہو
اگر آپ فطرتًا مخلص انسان ہیں
تو یاد رکھیں آپ کو کھونے والا ہر شخص اپنا ناقابل تلافی نقصان کرے گا
جس کا خمیازہ اسے تمام عمر بھگتنا پڑے گا... اس لئیے خود کو کسی کے سامنے ڈاؤن کرنے کے بجائے پر اعتماد رہیں اور اپنی مخلصی پہ شک کئیے بغیر اسکو قائم رکھیں
عورت کو کسی بھی وقت، کسی بھی بات پر
روٹھ جانے کی آزادی ہوتی ہے۔۔
ایک تعلق کو نبھانے کے لئے آپ کی یادداشت کا کمزور ہونا بہت ضروری ہے
وہ ڈر سی گئی ہے کہ کہیں وہ جھوٹا نہ ہو، اور وہ بھی ڈر سا گیا ہے کہ کہیں وہ ڈھونگی ، ڈرامے باز اور دھوکے باز نہ ہو۔ "ماضی" نے ہماری نئی نسل کو "محبت" سے ڈرا دیا ہے۔ کوئی شخص کسی پر اعتبار نہیں کرنا چاہتا، کوئی بھی اب محبت نہیں کرنا چاہتا کہ وہ تعلق کے ٹوٹنے سے ڈرنے لگے ہیں۔ وہ چھوڑ جانے سے ڈرنے لگے ہیں۔ سب نے اپنے ٹوٹے دل کے گرد ایک دیوار تعمیر کر لی ہے جس میں اعتبار، بھروسہ، یقین اور محبت کا داخلہ ممنوع ہے
آئندہ تمہارا میسج نا آئے
کتنے ہی پل وہ سکرین کو ٹکٹکی باندھے بس دیکھتی رہی اسے لگا شاید کسی نے چوراہے میں کھڑا کر کے اس کے منہ پہ تمانچہ مارا ہو وہ کتنے ہی پل کچھ بول نا پائی اس. کے اندر جیسے کچھ ٹوٹا تھا مان اعتبار بھروسہ اس نے بمشکل ٹائپ کیا کیوں؟
اسکے اندر سے جیسے آواز آئی تم اپنا وقار نہیں کھو سکتی اک لمبی سانس کھنچنے کے بعد وہ چیٹ ڈلیٹ کر چکی تھی اس عہد کے ساتھ کے کبھی وہ کسی کو اپنا دل دکھانے یا اپنے قریب آنے کی اجازت نہیں دے گی
میں انسانی خواہشات کی تہہ تک گیا میں نے پایا کہ جو بھی جس کے پاس ہے اُسے اُس سے گلہ ہے
نہیں تھا اعتبار اس کو میری مخلصی پر
کھو دیا اس نے مجھے آزماتے آزماتے
سائکیٹرسٹ اپنے اس مریض کی حالت کے متعلق الجھن میں تھا، اس نے تھوڑی دیر سوچا اور کہا:
" مزاحیہ جوکروں میں سے ایک جوکر کا ڈیلی تھیٹر شو ہوتا ہے، یہ جوکر سارے غمگین افسردہ لوگوں کو ہنسا دیتا ہے- میں ذاتی طور پر اس کا شو دیکھتا رہا ہوں اور جب بھی یاد کرتا ہوں تو میں ہنستا ہوں -
ٹکٹ خریدیں اور اس شو میں شرکت کریں، یقین جانیں، آپ کے منہ میں ہنس ہنس کر درد ہونے لگ جائے گا "
اس آدمی نے جواب دیا : " جناب میں وہی جوکر ہوں! "
فیلیٹی اوگنی فرانسیسی جوکر جس نے لاکھوں لوگوں کو ہنسایا
اور خود اس نے خود کُشی کر لی
ایک شخص ماہر نفسیات کے پاس گیا اور کہا: " میں مسلسل افسردہ اور غمگین رہتا ہوں، اداسی میری زندگی پر حاوی رہتی ہے، براہ کرم میری مدد کریں "
تو ڈاکٹر نے اسے کچھ دوا دی
ایک ہفتہ بعد وہ شخص دوبارہ ڈاکٹر کے پاس واپس آیا اور کہا: " جناب! یہ دوائیاں میرے کچھ کام نہیں آئیں - مجھے جان لیوا کرب محسوس ہوتا ہے "
تو ڈاکٹر نے اسے مزید اور دوائیں دیں
دو ہفتے بعد وہ شخص دوبارہ ڈاکٹر کے پاس واپس آیا اور بتایا: " کچھ نہیں بدلا، اداسی ابھی بھی بے قابو ہے"
میں نایاب الجھنوں کی مکمل کتاب ہوں
مجھے میرے سوا کوئی نہیں سمجھتا
’ ذرا اِدھر کو تو آ… یہ مرغی تیرے پاس کہاں سے آئی‘‘
لڑکے نے حمید کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا’’ وہ ابّا…یہ انکل اپنی دُکان کے پاس سے جا رہے تھے، اپنی مرغی کی ٹانگ لوہے کے جالے میں اَڑی ہوئی تھی…انکل نے اس کی ٹانگ نکالی، تو یہ پھدک کے اپنے گھر کی سیڑھیوں کی طرف بھاگ گئی تھی…مَیں نے اور مُنّے نے مل کر اسے پکڑ لیا…دیکھ ابّا…جالے میں پھنس کے اِس کی ایک ٹانگ بھی زخمی ہوگئی۔‘‘
حمید بے چین ہوکر آگے بڑھا…اپنی خون آلود شرٹ کو ایک کونے سے پھاڑا اور اُسے مرغی کی زخمی ٹانگ پر باندھ دیا۔
خیرو حجام نے اُس کا آدھا سر اور ایک طرف کی بھنویں مونڈھ دیں، کسی نے آگے بڑھ کر اُس کے چہرے پر کالک بھی مَل دی۔ہجوم وہاں سے حمید کو مارتا پیٹتا شکور کے گودام کی طرف لے کر جا رہا تھا، جہاں اُس کے ساتھ جانے کیا ہوتا کہ کتب فروش، کریم نے دیکھا، کباڑی کا چھے سات سال کا بیٹا گود میں ایک مرغی اُٹھائے باپ کی دُکان کے باہر کھڑا ہے۔وہ چیخنے کے سے انداز میں بولا’’ ارے مرغی تو وہ رہی۔‘‘سب کی گردنیں ایک دَم پیچھے کی طرف مُڑ گئیں اور ہجوم پر ایسی خاموشی چھا گئی، جیسے کوئی اُن کا سانس پی گیا ہو۔
’’ چلو، اِسے خیرو حجام کی دُکان پر لے چلو‘‘ شکور نے حمید کے ہاتھ کھولے اور کمر پر مُکّے مارتا ہوا اُسے لے کر آگے بڑھا۔ باقی لوگوں نے بھی اُسے تھپڑ، لاتیں مارنا شروع کردیں۔ وہ گرتا پڑتا آگے بڑھ رہا تھا۔یہاں ایک اور مصیبت نے اُسے آ گھیرا۔ سامنے ایک سرکاری مِڈل اسکول تھا، بچّوں کی چُھٹی کی گھنٹی بجی، تو سیکڑوں بچّے دروازے سے اُبل پڑے اور جب اُنھیں پتا چلا کہ لوگوں نے ایک مرغی چور کو پکڑا ہوا ہے، تو وہ اپنے گھروں کو جانے کی بجائے’’ مرغی چور،مرغی چور‘‘ کے نعرے لگاتے حمید کے پیچھے ہولیے۔ اچھا خاصا جلوس بن گیا۔ کئی بچّوں نے تو اُسے پتھر بھی دے مارے۔ ایسے ہی ایک پتھر سے اُس کی پیشانی سے خون کا فوّارہ پھوٹ پڑا اور اُس کے کپڑے خون سے رنگ گئے۔
اُس نے آس پاس کھڑے لوگوں کی طرف دیکھا، وہ بھی اُس کی تائید میں زور زور سے گردن ہلا رہے تھے’’ہاں ہاں، کیوں نہیں۔‘‘
کئی افراد ایک دَم حمید کی طرف بڑھے اور اُسے اپنی لاتوں، گھونسوں میں لے لیا۔’’ میری بات تو سُنیے، مَیں…‘‘ اِس سے پہلے کے حمید کچھ مزید کہتا، ایک نے اُس کے چہرے پر زور سے تھپڑ مارا، جس سے وہ چکرا سا گیا۔وہ شخص دوبارہ تھپڑ مارنے کو ہاتھ اُٹھا رہا تھا کہ کتب فروش،کریم نے اُسے بازو سے پکڑتے ہوئے کہا’’ اِس کی سُن تو لو، آخر یہ کہنا کیا چاہ رہا ہے۔‘‘
’’ یہ یہی کہے گا نا… مَیں بے قصور ہوں… مَیں نے کچھ نہیں کیا۔مَیں نے خود اسے مرغی چوری کرتے دیکھا ہے…لیکن ہے کوئی مہا چور…پتا نہیں مرغی کہاں غائب کردی۔‘‘
جو اپنی شرارتوں سے گھر بَھر کو محفوظ کرتا رہتا۔
حمید آج کسی کام سے اِس علاقے میں آیا تھا کہ کباڑی نے اپنے دو ملازمین کے ساتھ اُسے دبوچ لیا۔’’ تُوں ہمارے محلّے میں چوریاں کرتا پِھر رہا ہے، سا…‘‘ کباڑی کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی حمید نے پُرسکون انداز میں کہا’’ دیکھیے…ایسا نہیں…‘‘ کباڑی کے ملازم نے اُس کی بات کاٹتے ہوئے کہا’’استاد! کوئی جنٹرمین چور لگتا ہے، دیکھیے، سُنیے، فرمائیے کہہ رہا ہے۔‘‘ اِس پر سب نے زور دار قہقہہ لگایا اور اُسے مارتے ہوئے دُکان میں لے آئے۔
’’ دیکھو بھئی! دھندے کا وقت ہے، جلدی جلدی اس کو مار کوٹ لو اور پھر پولیس کے حوالے کرکے دفع کرو۔ وہ خود ہی اِس جیسے لفنگوں سے نمٹ لے گی۔‘‘ ایک دُکان دار کی تجویز پر شکور نفی میں گردن ہلاتے ہوئے بولا’’ نہیں، نہیں۔ ارے ہم کیا پولیس سے کم ہیں…اِدھر ہی حساب چُکتا کردیں گے‘
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain