ہمارے درمیان اب کوئی تعلق نہیں ہم ایک دوسرے سے کوسوں دور اپنی اپنی زندگی میں مصروف اِک دوسرے سے فرار ہیں نا تو ایک دوسرے کی تصاویر پاس رکھتے ہیں اور نا اِنھیں دیکھتے ہیں نا ایک دوسرے کو بھیجے گئے محبت کے پیغامات پڑھتے ہیں اور نا اِنھیں سنتے ہیں ایک دوسرے کے ذکر پہ دل دُکھتے ہی بات بدل دیتے ہیں مگر یاد ۔۔ یاد تو باقی رہ جاتی ہے !
محبت پیار کچھ نہیں ہوتا ، چاند تارے بلکل نہیں توڑ کے لائے جاتے خیالی دنیا سے نکل کر حقیقت کو اپنانا چاہیئے ، چاہے لڑکی ہو یا لڑکا شادی کے بعد کمپرومائز ہی کرنا پڑتا ہے ، بہت باتوں پر صبر کرنا پڑتا ہے چاہے آپکی شادی اپنی پسند کی ہو یا گھر والوں کی پسند کی !
محبت اس دواٸی کی طرح ہے جو ہمیں بچپن میں جوس بوٹل یا اور کچھہ بول کے پلاٸی جاتی تھی پینے کے بعد پتہ چلتا تھا کہ ییں تو کڑوی پھیکی دواٸی ہے ہمیں لگتا ہے محبت میں مزہ ہے باتیں ہال اہوال بحت اونچی اور دلکش سوچیں ہوتی ہے کیوں کے پہلے ہفتے پھر مہینے بحت ہی خوشی سے پاگل پھر جداٸی ہجر تب پتا چلتا ہے کہ اس میں فقت درد نیند حرام ذہنی عذاب ہے اس سے وہ دواٸی اچھی تھی جو کچہ منٹ تک موں کو کڑوہ کرتی تھی مگر محبت پوری زندگی کی مٹھاس بچپنا شوق خواہش سب کچھ لے کر تباہ کر دیتی ہے جیسے ہمارے خیال ہوتے ہیں ویسی نہی ہوتی ییں وہ زخم وہ بیماری ہے جو لاعلاج ہوتی ہے حقیقت میں نہی ہوتی محبت جیسی کوٸی چیز
اور ایک دن ہماری کنورزیشن بھی اس انسان کی چیٹ لسٹ سے خارج ہو جاتی ہے، مسئلہ پتہ ہے کیا ہے؟، بیزاریت کیوں ہوتی ہے؟ ، کیونکہ لوگ ہم کو کم وقت میں بہت زیادہ جان لیتے ہیں، کھانے پینے کا شوق، سونے جاگنے کی روٹین، زندگی کے دکھ، ڈر سب کچھ قیمتی متاع سے لے کر ایک عام انسان تک کا سفر بہت ہی تکلیف دہ ہوتا ہے.
اٹیچمینٹ سب کو ہو جاتی ہے کسی کے گڈ مارننگ کے میسیج سے کسی کے صرف یہ پوچھنے سے کیا تم ٹھیک ہو؟ روز باتیں ہونی لگتی ہیں، مسائل بانٹے جاتے ہیں، بھوک، پیاس، کی فکر ہونے لگتی ہے، کُچھ دنوں باد آہستہ آہستہ شوق کم پڑ جاتا ہے یہ پوچھنے کا کہ آپ آف لائن کیوں تھے آپ ٹھیک ہیں کہ نہیں؟ وقت آگے بڑھتا ہے تو لوگ بھی بڑھ جاتے ہیں وہ پہلے سے زیادہ میچور ہو جاتے ہیں رابطے کم کر دیتے ہیں جب اہمیت ہوتی ہے تو آپ کے ڈاٹ اور ہمم کا جواب بھی وقت پر آ جاتا ہے اور جب اہمیت ہی نہ رہے تو تب آپ کا ایک جملا یا پھر لمبے لمبے پیراگراف سب اگنور کر دیے جاتے ہیں