حمید گیارہویں جماعت کا طالبِ علم تھا اور قریب ہی رہتا تھا۔اُس کی ماں بڑی چاہت سے سب کو بتاتی’’ میرے مِحدّا کے دو ہی شوق ہیں۔ خُوب پڑھنا اور جانوروں سے پیار کرنا۔‘‘
’’یہ تو بلیوں کا ماموں ہی بن گیا ہے۔‘‘وہ یہ کہتے ہوئے خُوب ہنستی۔
حمید نے دسویں جماعت میں پورے اسکول میں ٹاپ کیا تھا اور اب ایف ایس سی میں پری میڈیکل گروپ کا انتخاب کیا تھا۔ وہ ڈاکٹر بننا چاہتا تھا اور وہ بھی جانوروں کا۔محلّے میں کوئی اُسے جانے، نہ جانے، مگر بلیاں اُسے ضرور جانتی تھیں۔ وہ اُسے دیکھتے ہی میاؤں میاؤں کرتی گھیر لیتیں۔ اُنھیں پتا تھا کہ اُس کے ہاتھ میں پکڑی شاپر میں اُن کے لیے گوشت ضرور ہوگا۔اُس کا چھوٹا سا گھر تھا، جس کی چھت پر اُس نے کئی طرح کے پرندے اور مرغیاں پال رکھی تھیں۔کچھ دن پہلے کہیں سے ایک میمنا(بکری کا بچّہ) بھی خرید لایا تھا،
’’ شکور بھائی ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ایسے مسٹنڈے کی تو ہڈیوں کا قیمہ بنا دینا چاہیے۔اِس کی ہمّت کیسے ہوئی ہمارے محلّے میں چوری کرنے کی۔‘‘ ریٹائرڈ پٹواری کے جواب میں ایک ساتھ کئی آوازیں بلند ہوئیں۔
وہاں موجود ہر شخص مشتعل تھا اور وہ حمید کی طرف ایسی غضب ناک نظروں سے گھور رہے تھے،جیسے اُسے زندہ ہی نگل جائیں گے۔
’’ ابے توُں کرسی پر کس خوشی میں بیٹھا ہے…ہیں…مہمانِ خصوصی بن کے آیا ہے کیا…نیچے بیٹھ۔‘‘ایک موٹا شخص آگے بڑھا اور اُسے دھکّا دے کر زمین پر گرا دیا۔ توازن کھونے کی وجہ سے حمید کا چہرہ کرسی کے پائے سے ٹکرا گیا اور اُس کے ہونٹوں سے خون بہنے لگا۔یہ کارنامہ انجام دینے والے شخص کا پیٹ شدّتِ جذبات سے آخری دنوں کی کسی گیابھن بکری کی مانند ہچکولے کھا رہا تھا۔
لوگوں نے حمید کو ایک کباڑیے کی دُکان میں بٹھا رکھا تھا۔ اُس کے ہاتھ کرسی کی پُشت سے بندھے ہوئے تھے۔ جو آتا، اُس کے چہرے یا گُدی پر ایک، دو تھپڑ ضرور رسید کرتا۔ لوگوں کے ہجوم سے ایسا لگتا تھا،جیسے کوئی مداری بندر کے کرتب دِکھا رہا ہے اور مجمعے نے اُسے گھیر رکھا ہے۔گویا ایک شغل میلہ لگا ہوا تھا۔ ایک پستہ قد شخص ہجوم کو چیرتے ہوئے آگے بڑھا اور حمید کی ناک پے گھونسا جڑتے ہوئے چیخا۔
’’ آج اِس آوارہ نے یہاں سے مرغی چُرائی ہے، کل کلاں گھروں کے باہر بندھے بکرے، بکریوں پر ہاتھ صاف کرے گا، پھر گھروں اور دُکانوں میں نقب لگانے کو بھی اِس کا دل للچائے گا۔مَیں تو کہتا ہوں، اِسے ایسا سبق سِکھاؤ کہ آئندہ اِس طرف آنے کا سوچتے ہی اِس پر کپکپی طاری ہوجائے۔‘‘
اگر آپ چاہتے ہیں کہ کوئی عورت آپ کو شادی سے پہلے ہی چھوڑ دے، تو اسے اپنی غربت ، بھوک یا یتیمی کے بارے میں بتائیں، پہلے وہ آپ کی دوست بن جائے گی، اور آہستہ آہستہ وہ آپ کی بہن بن جائے گی، پھر آخر میں، وہ عورت آپ کی زندگی سے مکمل طور پر غائب ہوجائے گی - عورت کبھی اس شخص کے ساتھ محبت میں مبتلا نہیں ہوتی جس پر وہ ترس کھاتی ہے -
انسانی تکلیفوں کی دو ہی وجوہات ہیں؛ درد اور بوریت -
لوگ اپنے اندرونی خلا کو پُر کرنے اور اپنی بوریت کو دور کرنے کے لیے سیر و تفریح کے مقامات پر جاتے ہیں، رشتہ داروں اور عزیزوں سے ملاقات کرتے ہیں اور ایسی ملاقاتوں میں ہونے والی گفتگو کا مرکز صرف چار چیزیں ہی ہوتی ہیں؛
11 - مال و دولت؛ کتنا پیسا کمایا، کہاں انوسیٹ کیا، کتنا جمع کیا
2 - سامان؛ لباس، جوتے، گھر اور گاڑی پر بات
3 - بچے؛ ان کی تعلیم و مصروفیات پر بات
44 - طعام؛ کھانے پینے پر گفتگو اور کھانے ہی پر ملاقات کا اختتام
علم سے اخلاق پیدا نہیں ہوتا اور پڑھے لکھے لوگ ضروری نہیں کہ اچھے لوگ ہوں
تنہائی خطرناک ہے، اور یہ آسانی سے نشے میں بدل سکتی ہے۔ جب آپ کو احساس ہو کہ اس میں کتنا سکون ہے، آپ کبھی بھی لوگوں کے ساتھ دوبارہ معاملہ نہیں کرنا چاہیں گے
کوئی انسان ایسا نہیں ہے جو ہر وقت اپنے جذبات کو کنٹرول کر سکے سوائے منافق کے
آپ ایسے وقت سے اور ایسے لوگوں سے کیا امیدیں رکھتے ہیں ...؟
جن کے رول ماڈل اور آئیڈیل مصنوعی خوشی اور جھوٹے دکھ کی اداکاریاں کرنے والے ایکٹرز ہیں ، آپ ان لوگوں کے درمیان موجود ہیں جن کے رول ماڈلز پوری دنیا کے سامنے ناچنے والے فنکار ہیں - آپ ایسے وقت میں زندہ ہیں جس میں لوگوں کی پسندیدہ شخصیات کھیل کود کے کرتب دکھانے والے کرکٹ اور فٹبال کے کھلاڑی ہیں-
عورت کی خاطر مرنا آسان ہے, مشکل چیز اس کے ساتھ زندہ رہنا ہے۔
ہمیں ڈیلیٹ کرنے کی ہمت چاہیئے ۔ غیر ضروری تفصیلات کو ڈیلیٹ کریں ، ماضی کو ڈیلیٹ کریں ، پیغامات کو ڈیلیٹ کریں ، آوازیں ڈیلیٹ کریں، پرانی یادیں ڈیلیٹ کریں اور کچھ لوگوں کو بھی اپنی زندگی سے مکمل طور پر ڈیلیٹ کر دیں
"لوگ آپ کے ساتھ وفادار نہیں ہیں، وہ اپنی ضرورت کے مطابق آپ کے ساتھ وفادار ہیں ایک بار جب ان کی ضرورتیں بدل جائیں تو ان کی وفاداری بھی تبدیل ہو جاتی ہے۔
تمہارا ذہن ایک مقدس گودام ہے جس میں تمہاری اجازت کے بغیر کوئی نقصان دہ چیز داخل نہیں ہو سکتی۔"
عورت اپنے مستقبل کے بارے میں تب تک پریشان رہتی ہے جب تک کہ اس کو شوہر نہ مل جائے، شادی ہونے کے بعد عورت کو اپنے مستقبل کی فکر نہیں رہتی - اور مرد کو اس وقت تک اپنے مستقبل کی پریشانی نہیں ہوتی جب تک کہ اس کو بیوی نہ مل جائے
لوگوں کو راضی کرنا اس طویل اور ختم نہ ہونے والی سڑک کی طرح ہے ، جس پر یہ سائن بورڈ لکھا ہوتا ہے َ معذرت کے ساتھ روڈ بلاک ہے
"دو اہم ادوار ایسے ہیں جن میں مرد عورت کو سمجھنے سے یکسر قاصر ہوتا ہے: پہلا شادی سے پہلے اور دوسرا شادی کے بعد۔
آپ اچھے ہیں یہ جاننے کے لیے آپ کو کسی کی رائے یا اپروول کی ضرورت نہیں ہے - جب کوئی آپ کو ریجیکٹ کرتا ہے یا آپ کے ساتھ رابطہ کرنا چھوڑ دیتا ہے یا آپ کو جج کرتا ہے تو یہ آپ کے بارے میں نہیں ہوتا - یہ دراصل ان لوگوں کے اپنے بارے میں ہوتا ہے، یہ آپ کو لے کر ان کے اپنے خدشات، حدود اور مطلب ہوتے ہیں - لوگوں کے ان رویوں کو آپ کو اپنے اندر جگہ نہیں دینی چاہئیے -
لڑکیاں ہمیشہ اچھے لڑکے کے مقابلے میں برے لڑکے سے محبت کرنے کا انتخاب کرتی ہیں کیونکہ وہ کچھ ایڈوینچر ، کچھ تفریح ، کچھ سنسنی خیزی کا پیچھا کرنا اور اسے نزدیک سےجاننا چاہتی ہیں -
لڑکیاں ہمیشہ ایک اچھے مرد کی طلب کرتی رہتی ہیں لیکن جب انتخاب کی باری آتی ہے تو وہ ایک بدترین مرد سے محبت کرتی ہیں
میں صرف ایک ہی شخص کو جانتا ہوں جو اپنی عقل سے صحیح طور پر کام لیتا ہے - اور وہ شخص درزی ہے ! ہر بار وہ میری نئی پیمائش لیتا ہے ، لیکن باقی لوگ اپنی پرانی پیمائشوں کا استعمال کرتے رہتے ہیں اور مجھ سے ان گھسی پٹی پیمائشوں میں فٹ ہونے کی توقعات کرتے رہتے ہیں۔
"مگر مچھوں کو سمجھنا آسان ہے - وہ سیدھا آپ کو کاٹنے اور کھا جانے کی کوشش کرتے ہیں - جب کہ لوگوں کو سمجھنا انتہائی دشوار کام ہے - بسا اوقات لوگ آپ کو مارنے سے پہلے آپ کے دوست بننے کا ڈرامہ رچاتے ہیں-
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain