جب کوئی چیز زیادہ مقدار میں کسی کو دی جاتی ہے تو ضائع ہی جاتی ہے چاہے وہ توجہ ہو احساس ہو یا پھر محبت
" عزت انسان کی نہیں ضرورت کی ہوتی ہے
ضرورت ختم تو
عزت ختم "
" کاش سڑکوں کی طرح زندگی کے راستوں پر بھی لکھا ہوتا آگے خطرناک موڑ ہے "
دسمبر کے بڑھتے ہوئے دن اور یہ بڑھتی ہوئی بے چینیاں درد سے پھٹا سر کمبل میں لپٹا لاغر وجود اور ذہن کے پردے پر پرانی یادوں اور نئی سوچوں کی نمائش
تم نے مجھے کھودیا، اب میں کبھی بھی تمہیں یہ سوچنے کا موقع نہیں دوں گا کہ اچھا کیا جو چھوڑدیا، نہ ہی خود کو ہمدردی اور ترس کے قابل ہونے دوں گا۔۔۔ ساری زندگی پچھتاوا رہےگا تمہیں، کاش میں بےوفائی نہ کرتی، میں تمہارے بعد خود کو برباد نہیں آباد کرو گا،، اور وہ سب کرو گا جو تمہارے ساتھ سوچا تھا۔۔۔ لیکن تمہارے ساتھ نہیں وہ کوئی اور ہوگی
تم دیکھتی رہنا، اور سوچتی رہنا
کاش۔۔۔
کچھ روز مرا فون اگر بند رہے تو
کر کر کے مجھے یاد برا حال نہ کرنا
سمجھاتی رہی مجھ کو یہی دیر تلک بات
جب تک میں تمہیں خود نہ کروں،کال نہ کرنا
ہم یہاں کیوں ہیں
اُسی شخص نے پوچھا ہم سے
جسکو معلوم تھا،
ہم اُس کے بھروسے پر ہیں
میں نے کل رات خواب دیکھا کے میرا ایک دوست سخت پریشان ہے ۔۔ کسی مصیبت میں ہے
میں آج اس کو بتانے جانا تھا مگر۔۔۔۔ وہ خود مٹھائی کا ڈبہ پکڑے میرے آفس آ گیا ۔۔۔۔ کہ اس کے بات پکی ہو گی ہے۔۔۔
میں اب چپ ہکّا بکّا ۔۔ کیا کہوں ۔۔۔ بتاوں یا نہیں
سوچ کے میں عمر کی اونچائیاں چڑھا
شاید یہاں شاید یہاں شاید یہاں ھو تُو
انسان کے لیے خوش رہنے اور فریب کھانے سے بہتر ہے کہ وہ ناخوش رہےاور صاحب علم ہو۔
ہم نے تو ان کو دل سے چاہا تھا
انہوں نے ہمیں دل میں بسایا ہی نہیں
کیا خوب تھا وہ وقت جب ہم ساتھ تھے
اب تو بس یادوں کا سہارا ہے ہمیں
دل توڑ کر چلے گئے وہ،
یہ کہ کر کہ ہم نہیں تھے
ہم نے بھی ہنس کر کہا،
ہمارے تو کبھی تھے ہی نہیں
تمہارے سامنے رکھی ہیں ہم نے دو راہیں۔۔۔
میرے لیے بناؤ چاۓ ، یا ، میرے ہاتھ کی پیو۔
ہمارے معاشرے میں بہترین انسان وہ ہے جو مر چُکا ہو۔
ہمیں ڈرنا ہر اُس شخص سے چاہیے جو ہمیں اپنی طرف اٹریکٹ کر رہا ہو اُس سے بات کرنے کو جی للچا رہا ہو اور ایسا شخص فیوچر کا ڈپریشن ہے اور کچھ نہیں اس لیے کوئی اٹریکٹیو لگے تو بس اسے چھوڑ کر آگے نکل جاؤ یہ درد قابل برداشت ہے آنے والے درد سے
وفاداری آپشن نہیں فرض ہوتی ہے، اور فرض میں بےایمانی کی کوئی معافی نہیں ہوتی
اگر آپ غیر ضروری چیزوں کو اپنی میموری میں save کر لیتے ہیں، تو آپ کا ذہن بھی موبائل ڈیوائس کی طرح ہینگ ہو نے لگے گا۔ ہمت کرو اور خود کو ہر طرح کی بری یادوں، لہجوں، باتوں اور ہر برے رویہ سے آزاد کرو تاکہ آپ کا ذہن فریش رہے اور آپ بہتر محسوس کرو۔
ﮨﺰﺍﺭ ﻋﻨﻮﺍﻥِ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﺗﮭﮯ مگر ﯾﮧ ﺳﻮچتے رہ گئے ہم
ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺍﺳﮯ ﻧﺎﮔﻮﺍﺭ ﮨﻮﮔﯽ ﯾﮧ ﻟﻔﻆ ﺍﺳﮯ ﻧﺎﭘﺴﻨﺪ ﮨﻮﮔﺎ
جب بندہ اندر سے ٹوٹ جائے تو پھر اپنا وجود اس کو ایک بوجھ لگتا ہے، رفتہ رفتہ اس کی زندگی اور لوگوں میں دلچسپی ختم ہو جاتی ہے خالی پن اور تنہائی اس کو جکڑ لیتی ہے یوں جیسے اس کی بدن سے روح چھینی گئ ہو اور وہ ایک لاش کی طرح گھوم پھر رہا ہو
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain