مطلب کی تم سُنو تو ذرا کوئی کُچھ کہے جب بھی سُنے خفا ھو تو کیا کوئی کُچھ کَہے سوچا جواب کیا مِرے حاضر جواب نے تاکید ھے کہ روزِ جَزا کوئی کُچھ کَہے ہم آپ چھیڑ چھیڑ کے کھاتے ہیں گالیاں کانوں کو پَڑ گیا ھے مَزا کوئی کُچھ کَہے بَندے ہیں ہم تو عشق کے اے شیخ و بَرہمن پروا نہیـں ہمیں بَخُدا کوئی کُچھ کَہے کَمبَخت نامُراد تو مُدت سے ھے خِطاب جی چاہتا ھے اِس سے سِوا کوئی کُچھ کَہے ناصِح کہی سُنی پہ ہمارا نہیں عَمل جو جی مِیں آ گیا وہ کیا کوئی کُچھ کَہے اُس کی بَزم مِیں ہم گُل کِھلائیں گے اِس کا ھے اِنتظار ذرا کوئی کُچھ کَہے
لیا ہے خاک میں خود کو مِلا ' ملا نہیں کچھ یہ کارِ زیست عبث ہے ' یہاں رکھا نہیں کچھ زمیں لرز اُٹھے گی ' آسمان گِر پڑے گا ہزار طرح کے اندیشے تھے ہُوا نہیں کچھ تمام عُمر خموشی کے بعد حاصلِ عمر کہا تو ہم نے ' کسی نے مگر سُنا نہیں کچھ
کوئی سوال ہو تو پوچھ لیا کریں کوئی یاد آرہا ہے تو رابطہ کر لیا کریں کوئی پریشانی ہے تو مدد طلب کر لیا کریں کچھ اچھا لگتا ہے تو بتا دیا کریں نہیں اچھا لگتا تو فاصلہ رکھیں لیکن معمولی معمولی باتوں پر اپنی اَنا کو بڑھاوا مت دیا کریں اگلے پل کا بھروسہ نہیں لوگ ہمیشہ ساتھ نہیں رہتے
تم نے مجھے کھودیا، اب میں کبھی بھی تمہیں یہ سوچنے کا موقع نہیں دوں گا کہ اچھا کیا جو چھوڑدیا، نہ ہی خود کو ہمدردی اور ترس کے قابل ہونے دوں گا۔۔۔ ساری زندگی پچھتاوا رہےگا تمہیں، کاش میں بےوفائی نہ کرتی، میں تمہارے بعد خود کو برباد نہیں آباد کرو گا،، اور وہ سب کرو گا جو تمہارے ساتھ سوچا تھا۔۔۔ لیکن تمہارے ساتھ نہیں وہ کوئی اور ہوگی تم دیکھتی رہنا، اور سوچتی رہنا کاش۔۔۔
میں نے کل رات خواب دیکھا کے میرا ایک دوست سخت پریشان ہے ۔۔ کسی مصیبت میں ہے میں آج اس کو بتانے جانا تھا مگر۔۔۔۔ وہ خود مٹھائی کا ڈبہ پکڑے میرے آفس آ گیا ۔۔۔۔ کہ اس کے بات پکی ہو گی ہے۔۔۔ میں اب چپ ہکّا بکّا ۔۔ کیا کہوں ۔۔۔ بتاوں یا نہیں