وہ چاہتی تھی کہ
جب میں اسے لینے جاوں تو
گاڑیوں کی اک لمبی قطار ہو
گھر کی چھتوں سے ڈالر لٹائے جائیں
اس کے گھر سے میرے گھر تک
گلاب کے پھول برسائے جائیں
لیکن
میں چاہتا تھا
میں گھٹنوں کے بل چل کر
اک ڈنڈی والا گلاب کا پھول تھامے
حق مہر میں اپنی زندگی گروی رکھ کر
اسے اپنے سنگ لے چلوں
بس اتنی سی وجہ تھی جدائی کی
وہ محبت چیزوں میں تلاش رہی تھی
مگر
میں محبت اندر چھپائے بیٹھا تھا
وہ چاہتی تھی کہ
اک بڑے سے محل میں
وہ اپنی بھیگی ذلفیں لہرائے اور
میں محل کے دوسرے کونے سے
اسے دیکھ کر کوئی شعر لکھوں
لیکن
میں چاہتا تھا اک چھوٹے سا گھر ہو
جہاں چاروں طرف محبت پھیلی ہو
کمرے کی کھڑکی سے آنے والی ہوائیں
صرف اور صرف محبت کا پیغام لائیں
جب وہ بھیگی ذلفیں لہرائے تو
میں اسے اتنا قریب سے دیکھوں
جتنا کوئی مشرق کے اس مقام پر
ٹھہر کر طلوع ہوتا سورج دیکھ لے
وہ چاہتی تھی کہ
کسی مہنگے ہوٹل پر جا کر
وہ میری آنکھوں میں اپنی محبت دیکھے
لیکن
میں چاہتا تھا کہ کچھ گمنام راستوں پر
میں اس کا ہاتھ تھام کر پیدل چلوں
اسی طرح شام ہو جائے
پھر راستے میں اک بہتا ہوا دریا
کسی ٹوٹتے تارے کا عکس لئے
ہمارا راستہ روک لے
یہاں بیٹھ کر میں اس کی آنکھوں پر
ناول کے اقتباس اور کچھ افسانے لکھوں
ان لمحوں میں اس کے چہرے کو
اپنی داستانوں میں قید کر لوں
اتنی سی وجہ تھی جدائی کی
وہ چاہتی تھی کہ
اک لمبے سفر پر
گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر
وہ ہم سفر بن کر چلے
لیکن
میں چاہتا تھا
موٹر سائکل کی پچھلی سیٹ پر
وہ مجھے پکڑ کر بیٹھے اور میں
دیوانوں کی طرح آوارہ سڑکوں پر
گنگناتے ہوئے اس کے خوف میں
خود پر اس کی گرفت کو مضبوط ہوتا دیکھوں
میں نے فقط اسے مزاق میں کہا کہ آپ سے محبت کرتا ہوں پھر وہ ہر روز گجرے پہنتی تھی ہر روز نئی چوڑیاں پہن کر مجھے دیکھاتی تھی اس کے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی تھی پھر تقدیر نے اپنا کام کیا وہ کہیں اور چلی گئی میں اس کا انتظار کرنے لگا ،،
میں اس لئے بھی محبت سے بچ کے رہتا ہوں
یہ لڑکیاں نہیں ہیں دوست! بلائیں ہیں
لوگ باتیں بھول جاتے ہیں۔ لوگ واقعات بھول جاتے ہیں۔ لوگ لوگوں کو بھول جاتے ہیں
تم دلکش ہو جیسے وہ پیچیدہ فن پارے جنھیں لوگ گھنٹوں بغور دیکھتے ہیں جائزہ لیتے ہیں تاکہ وہ انکی تشریح کر سکیں انہیں سمجھ سکیں مگر بیچارے وہ یہ نہیں جانتے کہ وہ ہر ایک کی سمجھ میں آنے والے نہیں ہوتے ہر کسی کے نصیب میں انکا جادوئی راز پا لینا نہیں ہوتا!
میں جن کے دُکھ بٹا نہ سکا , اُن سے مَعذرت
میں جن کے کام آ نہ سکا , اُن سے مَعذرت
بیمار جن کو تھی , میری آمد کی آرزو
میں اُن کے پاس جا نہ سکا , اُن سے مَعذرت۔
نادِم ھُوں جن کے کام , یہ کاندھے نہ آ سکے
جو میّتیں اُٹھا نہ سکا , اُن سے مَعذرت
مجھ سے مِلے بغیر , جہاں سے چلے گئے
جن کو گلے لگا نہ سکا , اُن سے مَعذرت
وہ جان و دل سے واقعی , مجھ کو عزیز ھیں
اب تک جنہیں بتا نہ سکا , اُن سے مَعذرت
وہ خواب جن کو ٫ لِکھ نہیں پایا میرا قلم
وہ نقش جو بنا نہ سکا , اُن سے مَعذرت
کبھی کبھی مجھے یہ زندگی اتنی بوجھ سی لگتی ہے کہ دل کرتا ہے اتار کر پھینک دوں یہ سارا بوجھ ۔ سمجھ نہیں آتا کہ میرے ہونے سے دکھ ہیں یا دکھوں کے ہونے سے میں ہوں ۔ سب کچھ میسر ہونے کے باوجود کسی چیز کی کمی مجھے اندر ہی اندر سے کھاے جا رہی ہے ۔ خود کو ایسا اکیلا محسوس کر رہا ہوں کہ جیسے لوگ دفنا کے چلے گئے ہوں ۔ اکثر اوقات انسان کو جنازوں سے پہلے بھی کاندھے کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔۔
مجھ سے وعدہ کرو کہ تم مجھے ایک دم نہیں بھولو گے..
دھیرے دھیرے بھولنے کی کوشش کرنا..
آج میری آواز..
کل میری ہنسی..
اور اس کے بعد میری آنکھوں میں چمک..
میں بارش کی بوندوں کی طرح تیری یاد سے قطرہ قطرہ گرنا چاہتی ہوں.
بے جان لاش کی طرح
یکلخت نہیں۔
میں نے اخلاق بہترین کر کے دیکھا ہے
لوگ پھر بھی چہروں پر مرتے ہیں
جھانک کر دیکھا جب خود میں
بڑی تھی کئی لاشیں جذبات کی
ہم سب اس دنیا سے جانے والے ہیں اس لیے خیال رکھنا کسی کا دل نہ دکھانا چاہے وہ کوئی بھی ہو۔
؛ میں نے کل ایک مُردہ عورت کو دیکھا مگر وہ ہماری طرح سانس لے رہی تھی ۔۔۔ مگر عورت کیسے مرتی ہے؟ کِسی نے سوال کِیا تو میں نے جواب دِیا کہ ؛
جب اُس کی مُسکراہٹ اُس کے چہرے سے نِکل جائے
جب اُسے اپنی خُوبصورتی کی پرواہ نہ ہو
جب وہ کِسی کا ہاتھ مضبوطی نہ پکڑے
جب وہ کِسی کے گلے لگنے کا اِنتظار نہ کرے
اور جب بات کرتے ہُوئے اُس کے چہرے پر تلخ و طنزیہ مُسکراہٹ آ جائے ۔۔۔ مُحبت کے ہاں عورت کی اِس طرح موت ہو جایا کرتی ہے
منافقوں کے ڈسے ہوئے
پھر خلوص پر بھی یقین نہیں رکھتے
میں ہمدردی کی خیراتوں کے سکے موڑ دیتا ہوں
میں جس پہ بوجھ بن جاؤں میں اسکو چھوڑ دیتا ہوں
کاش تمہیں معلوم ہو کہ رات کا وہ پہر کتنا مشکل ہوتا جب کرنے کو کچھ نہ ہو نیند بھی نہ آ رہی ہو، نہ کوئی دوست ہو نہ کوئی اور
دمادم، واٹس ایپ سب کچھ کھول کر دیکھنا۔
لیکن پھر تھک کر موبائل رکھ دینا اور سونے کی ناکام کوشش کرتے رہنا...
بڑی اذیت دیتا ہے رات کا یہ حصہ!
مزاج کے خلاف کی گئی بات پر مسکرا دینا لڑنے سے بہتر ہے
ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جس میں کوئی بھی آزاد نہیں، جس میں شاید ہی کوئی محفوظ ہو، جس میں ایماندار ہونا اور زندہ رہنا تقریباً ناممکن ہے۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain