گزشتہ رات تیری یاد بھی نہیں آئی
اس برس کا یہ میرا آخری خسارہ تھا۔
میں تمہارے دل کے اندر ایسی موت نہیں چاہتا جس کا مجھ سمیت کسی کو پتہ بھی نا پڑے۔
اوارث احساسات پہ خواہشوں کے مقبرے قائم کرنے کے تجسس میں سولی پہ چڑھانے سے بھی گریز نہ کریں.
عورت ہر اُس مرد سے آدھی محبّت کرنے لگتی ہے، جو اُس کی پوری بات سُنتا ہے
خسارا ہے ہر وہ احساس اور شخص جس کی قیمت آپکا ذہنی توازن ہو ۔
میں آپ کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانا چاہتا تھا، یہاں تک کہ میری موت کی خبر سے بھی۔
جانتے ہو ؟
ذہنی دباؤ یہ نہیں کہ تم اپنا ہاتھ کاٹ ڈالو یا لٹک کر مر جاؤ ۔۔۔۔۔
بلکہ میں جانتا ہوں ذہنی دباؤ یہ ہے کہ تم اپنا سارا دن ہنسی خوشی گزار دو لیکن رات کو تکلیف کے باعث سو نہ پاؤ اور اپنی دوستیاں محدود کرتے جاؤ ۔
اس حد تک کہ اس میں صرف تم رہ جاؤ اندھیرے سے محبت ہے مجھے٫ شور سے نفرت ہے آپ کی خاطر برداشت کر لیتا ہوں میرے دل کے اندر کچھ ٹھیک نہیں ہے،
وہ بہـت خـوش رہتا تھا
اتنا خـوش کـہ لوگ اُسـں کو دیکھ کـر
اُسکـی جیسی زندگــی گزارنـے کی حسـرت کیا کرتـے تھـے
اور پھر اُس نـے خـود کُشـی کر لـی
میری موت اتفاقیہ حادثہ ہو گی
منظر چاہے خودکشی جیسا ہو
نا جانے کتنے درد ہیں جنھیں سر درد کہنا پڑتا ہے
میں اب ناول ادھورے چھوڑ دیتا ہوں، جہاں پہ دیکھ لوں بچھڑتا ہوا کسی کو کیونکہ میں اس ازیت سے گزر چکا ہوں مجھے خوف آتا کسی کو کھونے سے کسی کے چھوڑ جانے سے میری زندگی اب ادھوری ہے اس لیے ناول ادھورے چھوڑ دیتا ہوں،
وہ چاہتی تھی کہ
جب میں اسے لینے جاوں تو
گاڑیوں کی اک لمبی قطار ہو
گھر کی چھتوں سے ڈالر لٹائے جائیں
اس کے گھر سے میرے گھر تک
گلاب کے پھول برسائے جائیں
لیکن
میں چاہتا تھا
میں گھٹنوں کے بل چل کر
اک ڈنڈی والا گلاب کا پھول تھامے
حق مہر میں اپنی زندگی گروی رکھ کر
اسے اپنے سنگ لے چلوں
بس اتنی سی وجہ تھی جدائی کی
وہ محبت چیزوں میں تلاش رہی تھی
مگر
میں محبت اندر چھپائے بیٹھا تھا
وہ چاہتی تھی کہ
اک بڑے سے محل میں
وہ اپنی بھیگی ذلفیں لہرائے اور
میں محل کے دوسرے کونے سے
اسے دیکھ کر کوئی شعر لکھوں
لیکن
میں چاہتا تھا اک چھوٹے سا گھر ہو
جہاں چاروں طرف محبت پھیلی ہو
کمرے کی کھڑکی سے آنے والی ہوائیں
صرف اور صرف محبت کا پیغام لائیں
جب وہ بھیگی ذلفیں لہرائے تو
میں اسے اتنا قریب سے دیکھوں
جتنا کوئی مشرق کے اس مقام پر
ٹھہر کر طلوع ہوتا سورج دیکھ لے
وہ چاہتی تھی کہ
کسی مہنگے ہوٹل پر جا کر
وہ میری آنکھوں میں اپنی محبت دیکھے
لیکن
میں چاہتا تھا کہ کچھ گمنام راستوں پر
میں اس کا ہاتھ تھام کر پیدل چلوں
اسی طرح شام ہو جائے
پھر راستے میں اک بہتا ہوا دریا
کسی ٹوٹتے تارے کا عکس لئے
ہمارا راستہ روک لے
یہاں بیٹھ کر میں اس کی آنکھوں پر
ناول کے اقتباس اور کچھ افسانے لکھوں
ان لمحوں میں اس کے چہرے کو
اپنی داستانوں میں قید کر لوں
اتنی سی وجہ تھی جدائی کی
وہ چاہتی تھی کہ
اک لمبے سفر پر
گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر
وہ ہم سفر بن کر چلے
لیکن
میں چاہتا تھا
موٹر سائکل کی پچھلی سیٹ پر
وہ مجھے پکڑ کر بیٹھے اور میں
دیوانوں کی طرح آوارہ سڑکوں پر
گنگناتے ہوئے اس کے خوف میں
خود پر اس کی گرفت کو مضبوط ہوتا دیکھوں
میں نے فقط اسے مزاق میں کہا کہ آپ سے محبت کرتا ہوں پھر وہ ہر روز گجرے پہنتی تھی ہر روز نئی چوڑیاں پہن کر مجھے دیکھاتی تھی اس کے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی تھی پھر تقدیر نے اپنا کام کیا وہ کہیں اور چلی گئی میں اس کا انتظار کرنے لگا ،،
میں اس لئے بھی محبت سے بچ کے رہتا ہوں
یہ لڑکیاں نہیں ہیں دوست! بلائیں ہیں
لوگ باتیں بھول جاتے ہیں۔ لوگ واقعات بھول جاتے ہیں۔ لوگ لوگوں کو بھول جاتے ہیں
تم دلکش ہو جیسے وہ پیچیدہ فن پارے جنھیں لوگ گھنٹوں بغور دیکھتے ہیں جائزہ لیتے ہیں تاکہ وہ انکی تشریح کر سکیں انہیں سمجھ سکیں مگر بیچارے وہ یہ نہیں جانتے کہ وہ ہر ایک کی سمجھ میں آنے والے نہیں ہوتے ہر کسی کے نصیب میں انکا جادوئی راز پا لینا نہیں ہوتا!
میں جن کے دُکھ بٹا نہ سکا , اُن سے مَعذرت
میں جن کے کام آ نہ سکا , اُن سے مَعذرت
بیمار جن کو تھی , میری آمد کی آرزو
میں اُن کے پاس جا نہ سکا , اُن سے مَعذرت۔
نادِم ھُوں جن کے کام , یہ کاندھے نہ آ سکے
جو میّتیں اُٹھا نہ سکا , اُن سے مَعذرت
مجھ سے مِلے بغیر , جہاں سے چلے گئے
جن کو گلے لگا نہ سکا , اُن سے مَعذرت
وہ جان و دل سے واقعی , مجھ کو عزیز ھیں
اب تک جنہیں بتا نہ سکا , اُن سے مَعذرت
وہ خواب جن کو ٫ لِکھ نہیں پایا میرا قلم
وہ نقش جو بنا نہ سکا , اُن سے مَعذرت
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain