منتظر کوئی نہیں ھے تو یہ عُجلت کیسی؟
میری رفتار اسی سوچ میں گھٹ جاتی ھے.
زندگی کی کڑی دھوپ میں جب سایہ بھی جل جائے،
غنیمت ہے وہ انسان جو پوچھے احوال اور پلائے چائے
نظر اب کمزور ہو چُکی ہے
تمہیں اب نزدیک آنا ہوگا۔۔
آج کل ہر کوئی کسی نا کسی کو دھوکہ دے
رہا ہے آج دن 12 بجے کے قریب ایک رکشہ میں دو لڑکیاں سوار تھی.....see more
جو حالات چل رہے ہیں اب تو رشتہ کرتے وقت
لڑکی والے پوچھا کریں گے
کیا لڑکا بجلی کا بل بھر سکتا ہے
:سچ تو یہ ہے کہ انسان ہی انسان کی دوا ہے اگر کوئی دکھ دیتا ہے تو کوئی سکون بن جاتا ہے کوئی نفرت کرتا ہے تو کوئی محبت دے کر حساب برابر کر دیتا ہے کوئی رلاتا ہے تو کوئی مسکرانے کی وجہ بن جاتا ہے کوئی ٹھوکر لگا کر گرا دیتا ہے تو کوئی انتہائی محبت سے سہارا بن جاتا ہے اور یہی زندگی ہے
کیا میرے بُرے دِنوں میں
میرا ہاتھ مظبوطی سے تھام کر
کیا تم کہو گے؟؟
میں یہاں ہُوں تُمہارے پاس
ماضی کی تکلیف دہ فائل لپیٹ کر رکھ دیں
تکلیف دہ یادوں کو کسی ڈبے میں ڈال کر تالہ لگائیں اور چابی دریا میں بہا دیں
تُم بھروسے کی بات کرتے ہو
ہم تو فون چارجنگ پر لگا کر سکرین on
کر کے دیکھتے ہیں
کہ چارج ہو بھی رہا ہے کہ نہیں
سوچا آج کچھ تیرے سوا سوچوں
ابھی تک اسی سوچ میں ھوں کہ اور کیا سوچوں
یہ محبت وغیرہ کچھ نہیں ہوتی۔۔
آپ صرف کسی کے فرصت کے اوقات میں دل بہلانے کا ایک ذریعہ ہوتے ہیں۔۔
دل بھر گیا آپ کا ساتھ ختم۔۔
اور یقین مانیں ہم کتنی آسانی سے خود کو دوسروں کے سپرد کر دیتے ہیں۔۔ کہ لو کھیلو ہم سے، اور پھر جب جی چاہے ہمیں توڑ دینا، پھینک دینا اور پھر کبھی بھی پیچھے مڑ کر مت دیکھنا کیونکہ ہم تو کچھ ہیں ہی نہیں ہماری ذات تو کچھ بھی نہیں
ﻟﻮﮒ ﺗﻮ ﻧﺌﮯ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺁﺗﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﭼﺎﺋﮯ ہمیشہ میرے ﺳﺎﺗﮫ ﺭﮨﮯ ﮔﯽ
جب کبھی ملاقات ہوئی ناں
خیال میں
چائے ایک ہی کپ میں پئیں گے
اور چائے کا پہلا گھونٹ تمارا
ہو گا
سمجھتا ہی نہیں وہ شخص الفاظ کی گہرائی کو
میں نے ہر وہ لفظ کہہ دیا جس میں محبت ہو
اداس دل ہے مگر ہر کسی سے ہنس کے ملتے ہیں
یہی فن سیکھا ہے بہت کچھ کھونے کے بعد
تراش لیتا ہوں لفظوں سے لوگوں کے دلوں کو
میں نے یہ ہنر بہت ٹھوکروں کے بعد سیکھا ہے
گیت لکھے بھی تو ایسے کہ سنائے نہ گئے
زخم لفظوں میں یوں اترے کہ دکھائے نہ گئے
تیرے کچھ خواب جنازے ہیں میری آنکھوں میں
وہ جنازے جو کبھی گھر سے اُٹھائے نہ گئے
ہم نے قسمیں بھی اٹھا دیکھیں مگر بھول گئے
ہم نے وعدے بھی کیے اور نبھائے نہ گئے
شہر میں فتح کی رونق تھی کسی دشمن پر
ہم سے لیکن در و دیوار سجائے نہ گئے
کیا بس اتنی ہی محبت تھی کہ بولے نہ چلے
کیا بس اتنا ہی تعلق تھا کہ آئے نہ گئے
میں اپنے سب سے بھاری بوجھ کی
تلاش میں تھا، اور مجھے اپنے سوا کچھ نہیں ملا،
ہم کسی اور کے واسطے کہاں ہوں گے دلچسپ
ہم تو خود اپنے آپ سے اُکتائے ہوئے لوگ ہیں
بچپن میں ڈرایا جاتا تھا کہ ؛ کِسی پر یقین نہ کرنا انجان لوگ بہلا پُھسلا کر ساتھ لے جاتے ہیں۔۔۔۔ اور ہاتھ پاؤں کاٹ کر بھیک منگواتے ہیں۔۔۔
آج بھی لوگ یہی کرتے ہیں۔۔۔ بہلا پُھسلا کر انجانی سی محبت کی راہ پر لے جاتے ہیں۔۔۔۔ اور پھر بھروسے کو توڑ کر۔۔۔ واپسی کی راہ بند کر دیتے ہیں۔۔۔ ، اور آپ سے بھیک منگواتے ہیں۔۔۔ اپنی توجہ کی۔۔۔۔ ، آواز کی۔۔۔ ، اپنی ایک نظر کی۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain