میں جو مہکا تو میری شاخ جلا دی اس نے
سبز موسم میں مجھے زرد ہوا دی اس نے
پہلے ایک لمحے کی زنجیر سے باندھا مجھ کو
اور پھر وقت کی رفتار بڑھا دی اس نے
میری ناکام محبت مجھے واپس کر دی
یوں مرے ہاتھ، میری لاش تھما دی اس نے
جانتا تھا کے مجھے موت سکوں بخشے گی
وہ ستم گر تھا سو جینے کی دوا دی اس نے
اس کے ہونے سے تھی سانسیں میری دگنی محسن
وہ جو بچھڑا تو میری عمر گھٹا دی اس نے
میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا
قرعہ ء فال مرے نام کا اکثر نکلا
تھا جنہیں زعم وہ دریا بھی مجھی میں ڈوبے
میں کہ صحرا نظر آتا تھا سمندر نکلا
میں نے اس جان ِ بہاراں کو بہت یاد کیا
جب کوئی پھول میری شاخِ ہنر پر نکلا
شہر والوں کی محبت کا میں قائل ہوں مگر
میں نے جس ہاتھ کو چوما وہی خنجر نکلا
تو یہیں ہار گیا ہے مرے بزدل دشمن
مجھ سے تنہا کے مقابل تیرا لشکر نکلا
میں کہ صحرائے محبت کا مسافر تھا فرازؔ
ایک جھونکا تھا کہ خوشبو کے سفر پر نکلا
اے دل ! یہ تری شورشِ جذبات کہاں تک؟
اے دیدہءنم ! اشکوںکی برسات کہاں تک؟
برہم نہیں ہم آپ کی بیگانہ روی سے
اپنوں سے مگر ترکِ ملاقات کہاں تک؟
آخر کوئی مہتاب تو ہو اس کا مقدر
بھٹکے گی ستاروں کی یہ بارات کہاں تک؟
ہو جاتا ہے آنکھوں سے عیاں جرم ِ محبت
پوشیدہ رہے دل کی ہر اک بات کہاں تک؟
نکلو جو کبھی ذات کے زنداں سے تود یکھو
آباد ہیں عبرت کے مقامات کہاں تک؟
راسخ ہو اگر عزم تو ہے شے ہے مسخر
اے اہل نظر! شکوہءحالات کہاں تک؟
سورج کو نکلنا ہے ، نکل کر ہی رہے گا
پھیلائے گی دام اپنا سیہ رات کہاں تک؟
کس راہ میں ہے موسمِ گل ،ڈھونڈکے لاﺅ
زخموں سے مرے ہوگی مدارات کہاں تک؟
احساس سے ہرشخص ہو عاری جہاں نجمہ
بانٹوں گی وہاں درد کی سوغات کہاں تک؟
کبھی یاد آؤں تو پوچھنا
ذرا اپنی فرصتِ شام سے
کِسے عِشق تھا تیری ذات سے
کِسے پیار تھا تیرے نام سے
ذرا یاد کر کہ وہ کون تھا
جو کبھی تجھے بھی عزیز تھا
وہ جو جی اُٹھا تیرے نام سے
وہ جو مر مٹا تیرے نام پے
ہمیں بے رُخی کا نہیں گلہ
کہ یہی وفاؤں کا ہے صلہ
مگر ایسا جرم تھا کونسا ؟
گئے ہم دعا ؤ سلام سے
کبھی یاد آؤں تو پوچھنا
ذرا اپنی فرصتِ شام سے
*🌹مولانا روم رح فرماتے ہیں🌹*_
*ایک شخص مسجد میں نماز ادا کرنے کیلئے اندھیری رات میں گھر سے نکلا*,
*اندھیرے کی وجہ سے ٹھوکر لگی اور وه منہ کے بل کیچڑ میں گر گیا* ..
*کیچڑ سے اٹھ کر وه گھر واپس گیا اور لباس تبدیل کر کے دوبارہ مسجد کی طرف چل دیا* .
*ابھی چند قدم ہی چلا تھا کہ دوبارہ ٹھوکر لگی اور وه دوبارہ کیچڑ میں گر گیا* ..
*کیچڑ سے اٹھ کر وه ایک بار پھر گھر واپس گیا اور لباس تبدیل کر کے مسجد جانے کیلئے دوبارہ گھر سے نکل آیا* .
*گھر کے دروازے پر اسے ایک شخص ملا جو اپنے ہاتھ میں ایک روشن چراغ تھامے ہوئے تھا*,
*چراغ والا شخص چپ چاپ نمازی کے آگے آگے مسجد کی طرف چل دیا* ..
*اس بار چراغ کی روشنی میں نمازی کو مسجد تک پہنچنے میں کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑا اور وه بخیریت مسگیا* .
*مسجد کے دروازے پر پہنچ کر چراغ والا شخص رک گیا* ..
راز حیات
با مقصد زندگی گزارنے والا آدمی ایک مسافر کی طرح
ہر لمحہ منزل کی طرف بڑھنے میں لگانا چاہتا ہے
اس کے سامنے ایک سوچا ہوا نشانہ ہوتا ہے
جس کی صداقت پر اس کا ذہن اور ضمیر مطمئن ہوتا ہے
💦 ہم نے مقصد کا شعور کھو دیا ہے
یہ دنیا عمل اور مسابقت کی دنیا ہے
عمل کا تعلق جذبے سے ہے
نہ کہ صحت اور طاقت سے
زندگی مقصد سے خالی ہو جاۓ تو
وقت کی کوئی قیمت نہیں رہتی
زندگی کا آرٹ مثبت طرز فکر میں ہے
زندگی کا سارا معاملہ صحیح یا غلط سوچ کا معاملا ہے
سوچ اگر درست ہو تو عمل بھی درست ہوگا
امن کی قیمت ایڈجسٹمنٹ ہے
فطرت زندگی کا خاموش کتب خانہ ہے
ناخوشگوار تجربات انسان کے لیے تربیتی مراحل کی حیثیت رکھتے ہیں
زندگی نباہ کے آرٹ کا دوسرا نام ہے
بہت سے لوگ دنیا میں جان بوجھ کر دھوکا کھاتے ہیں۔
انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم جس بندے پر اپنے خالص جذبات کا خزانہ لٹا رہے ہیں وہ اس قابل نہیں ہے۔
اس کے باوجود انسان بڑا خوش فہم واقع ہوا ہے۔
وہ ایک ذرا سی امید اور خوش گمانی کے چکر میں اپنی محبت کے مدار کے اردگرد چکر لگاتا رہتا ہے کہ شاید کہیں کوئی اندر جانے کا راستہ مل جائے۔
ایسے لوگ جان بوجھ کر اپنے دل کے کہنے پر سرابوں کے پیچھے بھاگتے ہیں اور آخر کار تھک ہار کر گرجاتے ہیں۔‘‘
(صائمہ اکرم چوہدری کے ناول ’’گمشدہ جنت‘‘ سے اقتباس)
پرکھنا مت پرکھنے میں کوئی اپنا نہیں رہتا
کسی بھی آئنے میں دیر تک چہرہ نہیں رہتا
بڑے لوگوں سے ملنے میں ہمیشہ فاصلہ رکھنا
جہاں دریا سمندر سے ملا دریا نہیں رہتا
ہزاروں شعر میرے سو گئے کاغذ کی قبروں میں
عجب ماں ہوں کوئی بچہ مرا زندہ نہیں رہتا
محبت ایک خوشبو ہے ہمیشہ ساتھ چلتی ہے
کوئی انسان تنہائی میں بھی تنہا نہیں رہتا
پھر یوں ہوا کے ساتھ تیرا چھوڑنا پڑا
ثابت ہوا کے لازم و ملزوم کچھ نہیں
پھر یوں ہوا کہ راستے یکجا نہیں رہے
وہ بھی انا پرست تھا میں بھی انا پرست
ردیف محسن، شاعر محسن، تین غزلیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید غلام عباس محسن نقوی
اس نے جب جب بھی مجھے دل سے پکارا محسن
میں نے تب تب یہ بتایا کہ تمہارا محسن
لوگ صدیوں کی خطاؤں پہ بھی خوش بستے ہیں
ہم کو لمحوں کی وفاؤں نے اجاڑا محسن
جب بھی آیا یہ یقیں، اب نہیں آنے والا
غم اور آنسو نے دیا دل کو سہارا محسن
وہ تھا جب پاس تو جینے کو بھی دل کرتا تھا
اب تو پل بھر بھی نہیں ہوتا گزارا محسن
اس کا پانا تو مقدر کی لکیروں میں نہیں
اس کا کھونا بھی کریں کیسے گوارا محسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے غزلوں میں تمہیں ایسے پکارا محسن
جیسے تم ہو کوئی قسمت کا ستارا محسن
اب تو خود کو بهی نکهارا نہیں جاتا ہم سے
وہ بهی کیا دن تهے کہ تجھ کو بهی سنوارا محسن
مجھے اس سے ____________پہلا عشق ہوا ہے صاحب
وہ عشق جو کبھی____________ دوبارہ ہو نہیں سکتا
ہواؤں کی سرسراہٹ بھی_______ اسکے آس پاس نا ہو
کوئی چُھو لے اسے کیسے________ گوارا ہو نہیں سکتا
اب تو ستاروں کی چال بھی_____ گردش میں ہے شاید
جو مجھے مِلا دے اُس سے_____وہ ستارہ ہو نہیں سکتا
وہ شخص ایک ہے بس غلط، درست کا تصور نہیں کوئی
نہیں کوئی دوسرا متبادل اور___ استخارہ ہو نہیں سکتا
طبیب بیٹھا رہتا ہے پاس میرے، طبیعت سنبھلتی نہیں
کیسے سمجھاؤں اِسے سوا اُسکے کوئی چارا ہو نہیں سکتا
چل دل کوچ کر اس جہاں سے _______کسی اور جانب. !!
یہاں تو بغیر اسکے اب_________ گزارہ ہو نہیں سکت
u Poetry Collection...!!!
لب ساحل سمندر کی
فراوانی سے مر جاوں
مجھے وہ پیاس ہے شاید کہ
میں پانی سے مر جاوں
تم اس کو دیکھ کر چھو کر بھی
زندہ لوٹ آۓ ہو
میں اس کو خواب میں دیکھوں تو
حیرانی سے مر جاوں
غنیمت ہے پرندے میری
تنہائ سمجھتے ہیں
اگر یہ بھی نہ ہو تو
گھر کی ویرانی سے مر جاوں😞
جاتے جاتے وہ مجھے اچھی نشانی دے گیا
عمر بھر دہراؤں گا ایسی کہانی دے گیا
سب ہوائیں لے گیا میرے سمندر کی کوئی
اور مجھ کو ایک کشتی بادبانی دے گیا
خیر میں پیاسا رہا پر اس نے اتنا تو کیا
میری پلکوں کی قطاروں کو وہ پانی دے گیا۔۔
کیسے کیسے خواب دیکھے، دربدر کیسے ہُوئے
کیا بتائیں، روز و شب اپنے بسر کیسے ہُوئے
نیند، کب آنکھوں میں آئی، کب ہَوا ایسی چلی
سائباں کیسے اُڑے، ویراں نگر کیسے ہُوئے
کیا کہیں، وہ زُلفِ سرکش کِس طرح ہم پر کُھلی
ہم طرفدارِ ہَوائے رہگُذر کیسے ہُوئے
حادثے ہوتے ہی رہتے ہیں، مگر یہ حادثے
اِک ذرا سی زندگی میں، اِس قدر کیسے ہُوئے
ایک تھی منزل ہماری، ایک تھی راہِ سفر
چلتے چلتے تم اُدھر، اور ہم اِدھر کیسے ہُوئے
اجنبی خواہشیں سینے میں دبا بھی نہ سکوں
ایسے ضدی ہیں پرندے کہ اُڑا بھی نہ سکوں
پھونک ڈالوں کا کسی روز میں دل کی دنیا
یہ تیرا خط تو نہیں ہے کہ جلا بھی نہ سکوں
مری غیرت بھی کوئی شے ہے کہ محفل میں مجھے
اس نے اس طرح بلایا ہے کہ جا بھی نہ سکوں
پھل تو سب میرے درختوں کے پکے ہیں لیکن
اتنی کمزور ہیں شاخیں کہ ہلا بھی نہ سکوں
اک نہ اک روز کہیں ڈھونڈ ہی لوں گا تجھ کو
ٹھوکریں زہر نہیں ہیں کہ میں کھا بھی نہ سکوں
شاہ بکتے ہیں, فقیر بکتے ہیں یہاں صغیر و کبیر بکتے ہیں
کچھ سرعام , کچھ پس پردہ اس شہر میں ضمیر بکتے ہیں
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﮨﻤﯿﮟ ﯾﮧ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﺑﮭﯽ ﺩﻻﺗﯽ ہے ﮐﮧ...ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ہوﻧﮯ ﯾﺎ ﻧﮧ ہوﻧﮯ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﻕ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮍﺗﺎ...
ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﭼﻠﯿﮟ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺻﺮﻑ ﭼﻨﺪ ﺩﻥ ﮐﺎ ﺭﻭﻧﺎ ﺩﮬﻮﻧﺎ ہوﺗﺎ ہے ﭘﮭﺮ ﺻﺮﻑ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻧﺪﮔﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ ہو ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ...
ﻟﻮﮒ ﺟﻮ ﮨﻢ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﺩﻋﻮﮮ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ...
ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮨﻢ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﺍﻭﺭ ﻟﻮﮒ ﻣﻞ ﺟﺎﻧﮯ ﭘﺮ ﺧﻮﺷﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﮍﮎ ﭘﺮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺭﻭﺍﮞ ﺩﻭﺍﮞ ہو ﺟﺎﺗﮯ ہیں....
ﺑﺲ ﯾﮩﯽ ہے ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﻭﻗﺎﺕ....ﺍﻭﺭ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺗﻮ ﯾﮧ ہے ﮐﮧ....ﺍﻥ ﻣﭩﯽ ﮐﮯ ﭘﺘﻠﻮﮞ ﮐﯿﻠﮱ ﮨﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﮐﻮ ﺑﮭﻮﻝ ﺑﯿﭩﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ....ﺍﺱ ﺍﻟﻮﺩﻭﺩ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﻮ ﺑﮭﻮﻝ ﺑﯿﭩﮭﺘﯿﮟ ﮨﯿﮟ...ﺟﻮ ﮨﺮ ﺁﻭﺍﺯ ﭘﺮ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺘﺎ ہے...
ﻭﮦ ﺭﺏ ﺑﮭﯽ ﭘﮭﺮ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺗﻮﮌ ﺩﯾﺘﺎ ہے..ﺟﻦ ﺳﮯ ﮨﻢ ﺑﮯ ﭘﻨﺎﮦ ﻣﺤﺒﺖ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ.ﺍﻭﺭ ﭨﻮﭨﻨﮯ ﭘﺮ ﮨﯽ ﺍﺣﺴﺎﺱ ہوﺗﺎ ہے ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺭﺏ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺲ ﯾﮩﯽ ﻭﮦ ﻭﻗﺖ ہوﺗﺎ ہے...ﺟﺐ ﺳﺠﺪﮮ ﺍﻭﺭ ﺩعائیں ﻃﻮﯾﻞ ہو ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ...ﻧﻤﺎﺯﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮑﻮ
وفاکے پیکر★
*🌸باشعور بنئے🌸*
*🐍شعور کی ایک سطح وہ ہے جہاں انسان بد کلامی کا جواب بد کلامی سے دیتا ہے، اینٹ کے جواب میں پتھر دے مارتا ہے-*
*💐شعور کی دوسری سطح وہ ہے جہاں انسان بد کلامی کے جواب میں خاموشی اختیار کرتا ہے اور اور بد کلامی کرنے والے کو اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے-*
*🌳شعور کی ایک تیسری سطح بھی ہے- اس میں انسان نہ صرف یہ کہ اپنے جذبات پر قابو پاتا ہے بلکہ برے اخلاق کا جواب بہترین اخلاق سے دیتا ہے-*
*🕌شعور کی یہی تیسری سطح ہے جو بد ترین دشمن کو بہترین دوست میں تبدیل کر دیتی ہے*
*⚙فیصله آپکوکرناھےکہ آپ شعور کی کس سطح پر ھیں؟*
اسوچئے*
*کنول کے پھول کو اپنے آس پاس کے کیچڑ کی پروا نہیں ہوتی ۔ ۔*
*وہ اس بات کو لے کر کہ وہ بری جگہ میں نشونما پا رہا ہے ،*
*اپنا خوبصورت لگنا اور کھلنا کبھی نہیں چھوڑتا ۔*
*وہ تو پھول ہے اور کہاں آپ اشرف مخلوقات تو یہ کیسے ہو سکتا کہ آپ اپنے موجودہ وسائل ،*
*مشکل حالات ، لوگوں کی منفی تنقید سے گھبرا کر مرجھا جائیں ۔* ۔
*جیسے کنول کے پھول کے لیےیہی بات بہت حوصلہ افزا کہ واؤ کیچڑ میں اتنا اچھا پھول ۔ ۔تو دوستو*
*آپ کو بھی اس سے زیادہ اچھا سننے کو مل سکتا کہ واہ اتنے مشکل حالات میں رہ کر بھی تم آگے نکل گے ۔ ۔ ۔*
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain