محرم کی شام ہے، سکوت میں گری ہے صدا خیموں پہ چھائی خامشی، اور دلوں پہ غم کی ردا پیاسے لب، آنکھیں تر، پر زبان پر شکر کا نغمہ کربلا بتا رہا ہے، صبر کسے کہتے ہیں، وفا کیا ہے عباس کی نگاہ میں آج بھی وفا کا جلال ہے اور زینبؑ کے دل میں صبر کا جمال ہے نو محرم کا ہر لمحہ، اک چراغ بن کے جلتا ہے جو حق کے رستے کو ظلمت میں بھی روشن رکھتا ہے یہ دن ہے صبر کا، قربانی کا، خاموشی کی پکار کا یہ دن ہے بچوں کی بھوک کا، ماں کے انتظار کا زمین کانپتی ہے، آسمان بھی سجدے میں ہے کربلا فقط ایک واقعہ نہیں، یہ دلوں کی تربیت ہے
آواز تک اٹھا نہ سکے میرے واسطے کیسے گرے ہوؤں کا مقدّر رہا ہوں میں لازم ہے آسمان کرے مجھ سے گفتگو خاموش اتنے سال زمیں پر رہا ہوں میں اے حسنِ خوش گمان! ، ہوس بھی ہے کوئی شے کچھ سوچ کے تمہاری مدد کر رہا ہوں میں اچھے برے کا فیصلہ کرتے رہیں گے لوگ یہ شعر نذرِ اہلِ نظر کر رہا ہوں میں
جو کم سے بھی کمتر ہے اُسے دیکھ مجھے دیکھ تو جس کو میسر ہے اُسے دیکھ مجھے دیکھ یہ شخص کسی اور زمانے میں بھی ہوگا آیئنہ برابر ہے اُسے دیکھ مجھے دیکھ میں لخت جگر دست پدر کا ہوں نوالہ جس ہاتھ میں خنجر ہے اُسے دیکھ مجھے دیکھ یوں سیپ کے سینے میں کھنکتا ہوا مصرع موتی ہے کہ کنکر ہے اُسے دیکھ مجھے دیکھ پتھر کے زمانے سے یہی کانچ کا دل ہے صحرا میں کبوتر ہے اُسے دیکھ مجھے دیکھ عمار اقبال
تیری باتوں میں وہ نرمی ہے جو اکثر کہی اور نہیں ملتی خود کو کبھی آئینے میں مت دیکھنا تیری آنکھوں میں جو عکس ہے، وہ کہیں اور نہیں یہ جو تُو ہے نا… یہ بس تُو ہے — باقی سب صرف موجودگی ہے
خامشی کی بھی ایک زبان ہوتی ہے جو لفظوں سے زیادہ بیاں ہوتی ہے جہاں صدا نہ ہو، وہاں راز چھپے جہاں آنکھیں بولیں، وہاں دل جُڑے یہ جو رات ہے، یہ فقط اندھیرا نہیں یہ روح کی تنہائی کا گہرا بسیرا نہیں؟ تم سنو، اگر دل کی گہرائی میں اتر جاؤ تو ہر خاموش لمحہ صدیوں کی صدا بن جائے
لاعلمی کے پردے میں چھپی ہر بات دیکھی ہے، خود اپنی ہی ذات میں، گم ایک کائنات دیکھی ہے۔ --- جو جانا، وہی کم لگا، جو نہ جانا، وہی سچا، اک لمحہ بےعلمی کا، سب سے بڑی سوغات دیکھی ہے۔ --- میں لفظ ڈھونڈتا رہا، سوال کے اندھیرے میں، مگر سکوت کی گلی میں رب کی کوئی بات دیکھی ہے۔ --- عالم تھے سب، پر دل خالی، چہرے روشن، آنکھیں ساکت، فقیر کے کُنج میں، بس خامشی کی زکات دیکھی ہے۔ --- لاعلمی ہی اصل ہے، یہ جانا جب دل ٹوٹا، ادھوری سی دانائی میں اک تکلیف کی ذات دیکھی ہے۔ 🕯🕯😴🕯🕯
خودی کی آنچ میں جلنا پڑا مجھے، تب جا کے جاں سے ملنا پڑا مجھے۔ --- نظر کو جب اٹھایا تھا آسمان کی سمت، پہلے زمیں سے نکلنا پڑا مجھے۔ --- ہر ایک صدا تھی باہر، سکوت تھا اندر، خود اپنے دل میں چلنا پڑا مجھے۔ --- خودی میں گم تھا، اور دنیا خدا بنی، اسی بت کو ہی ڈھلنا پڑا مجھے۔ --- جو اپنے آپ کو پہچان پایا، وہی جیا، مجھے بھی خود سے ملنا پڑا مجھے۔
وقت کے ساتھ انسان بدلتا رہا ہے، خود کو بھول کر دنیا میں چلتا رہا ہے۔ --- جو کل تک تھا خاموش، آج فیصلہ سنائے، ہر لمحہ کسی چہرے سے ڈرتا رہا ہے۔ --- وقت نے سکون مانگا، شور میں دیا اُس نے، اور پھر سوالوں میں ہی الجھتا رہا ہے۔ --- اپنی خواہشوں کو ہی خدا کر لیا اُس نے، پھر بھی ہر دعا میں کچھ نہ کچھ مانگتا رہا ہے۔ --- وقت نے دکھایا آئینہ، پر وہ نہ رُکا، منزل پہ پہنچ کر بھی بھٹکتا رہا ہے۔ --- چند دن کا راہی ہے، مگر فخر بے حساب، قبر کی دہلیز پہ بھی اُکڑتا رہا ہے۔
پیاس دریا کی نگاہوں سے چھپا رکھی ہے ایک بادل سے بڑی آس لگا رکھی ہے تیری آنکھوں کی کشش کیسے تجھے سمجھاؤں ان چراغوں نے میری نیند اڑا رکھی ہے کیوں نہ آ جائے مہکنے کا ہنر لفظوں کو تیری چٹھی جو کتابوں میں چھپا رکھی ہے تیری باتوں کو چھپانا نہیں آتا مجھ سے تو نے خوشبو میرے لہجے میں چھپا رکھی ہے خود کو تنہا نہ سمجھ لینا نئے دیوانوں خاک صحراؤں کی ہم نے بھی اڑا رکھی ہے
بے نام سا یہ دَرد،،، ٹھہر کیوں نہیں جاتا جو بیت گیا ہے ، وُہ گُزر کیوں نہیں جاتا سب کُچھ تو ہے ، کیا ڈھونڈھتی رہتی ہیں نِگاہیں کیا بات ہے ، مَیں وقت پر گھر کیوں نہیں جاتا وُہ ایک ہی چہرہ تو نہیں سارے جہاں میں جو دُور ہے ، وُہ دِل سے اُتر کیوں نہیں جاتا مَیں اپنی ہی اُلجھی ہُوئی راہوں کا تماشہ جاتے ہیں جِدھر سب ، مَیں اُدھر کیوں نہیں جاتا وُہ خُواب جو برسوں سے نہ چہرہ ، نہ بدن ہے وُہ خُواب ،،، ہَواؤں میں بِکھر کیوں نہیں جاتا