لاعلمی کے پردے میں چھپی ہر بات دیکھی ہے،
خود اپنی ہی ذات میں، گم ایک کائنات دیکھی ہے۔
---
جو جانا، وہی کم لگا، جو نہ جانا، وہی سچا،
اک لمحہ بےعلمی کا، سب سے بڑی سوغات دیکھی ہے۔
---
میں لفظ ڈھونڈتا رہا، سوال کے اندھیرے میں،
مگر سکوت کی گلی میں رب کی کوئی بات دیکھی ہے۔
---
عالم تھے سب، پر دل خالی، چہرے روشن، آنکھیں ساکت،
فقیر کے کُنج میں، بس خامشی کی زکات دیکھی ہے۔
---
لاعلمی ہی اصل ہے، یہ جانا جب دل ٹوٹا،
ادھوری سی دانائی میں اک تکلیف کی ذات دیکھی ہے۔
🕯🕯😴🕯🕯
خودی کی آنچ میں جلنا پڑا مجھے،
تب جا کے جاں سے ملنا پڑا مجھے۔
---
نظر کو جب اٹھایا تھا آسمان کی سمت،
پہلے زمیں سے نکلنا پڑا مجھے۔
---
ہر ایک صدا تھی باہر، سکوت تھا اندر،
خود اپنے دل میں چلنا پڑا مجھے۔
---
خودی میں گم تھا، اور دنیا خدا بنی،
اسی بت کو ہی ڈھلنا پڑا مجھے۔
---
جو اپنے آپ کو پہچان پایا، وہی جیا،
مجھے بھی خود سے ملنا پڑا مجھے۔
وقت کے ساتھ انسان بدلتا رہا ہے،
خود کو بھول کر دنیا میں چلتا رہا ہے۔
---
جو کل تک تھا خاموش، آج فیصلہ سنائے،
ہر لمحہ کسی چہرے سے ڈرتا رہا ہے۔
---
وقت نے سکون مانگا، شور میں دیا اُس نے،
اور پھر سوالوں میں ہی الجھتا رہا ہے۔
---
اپنی خواہشوں کو ہی خدا کر لیا اُس نے،
پھر بھی ہر دعا میں کچھ نہ کچھ مانگتا رہا ہے۔
---
وقت نے دکھایا آئینہ، پر وہ نہ رُکا،
منزل پہ پہنچ کر بھی بھٹکتا رہا ہے۔
---
چند دن کا راہی ہے، مگر فخر بے حساب،
قبر کی دہلیز پہ بھی اُکڑتا رہا ہے۔
انسان کی فطرت ہے، بھول جانا بھی سیکھ لینا،
چاہت میں جھکنا، طاقت میں دل توڑ دینا،
آئینہ دیکھے تو خود کو فرشتہ سمجھے،
مگر دوسروں کو ترازو میں تول دینا۔
جاتا کہاں عدمؔ! مَیں خرابات کے سِوا
بَندوں سے بَدگُماں تھا، خُدا سے ڈرا ہُوا.
رشتوں میں انسان کو چُنو، انا کو نہیں، رشتے تب جیتتے ہیں جب دونوں جھکنا جانتے ہوں!
پیاس دریا کی نگاہوں سے چھپا رکھی ہے
ایک بادل سے بڑی آس لگا رکھی ہے
تیری آنکھوں کی کشش کیسے تجھے سمجھاؤں
ان چراغوں نے میری نیند اڑا رکھی ہے
کیوں نہ آ جائے مہکنے کا ہنر لفظوں کو
تیری چٹھی جو کتابوں میں چھپا رکھی ہے
تیری باتوں کو چھپانا نہیں آتا مجھ سے
تو نے خوشبو میرے لہجے میں چھپا رکھی ہے
خود کو تنہا نہ سمجھ لینا نئے دیوانوں
خاک صحراؤں کی ہم نے بھی اڑا رکھی ہے

بے نام سا یہ دَرد،،، ٹھہر کیوں نہیں جاتا
جو بیت گیا ہے ، وُہ گُزر کیوں نہیں جاتا
سب کُچھ تو ہے ، کیا ڈھونڈھتی رہتی ہیں نِگاہیں
کیا بات ہے ، مَیں وقت پر گھر کیوں نہیں جاتا
وُہ ایک ہی چہرہ تو نہیں سارے جہاں میں
جو دُور ہے ، وُہ دِل سے اُتر کیوں نہیں جاتا
مَیں اپنی ہی اُلجھی ہُوئی راہوں کا تماشہ
جاتے ہیں جِدھر سب ، مَیں اُدھر کیوں نہیں جاتا
وُہ خُواب جو برسوں سے نہ چہرہ ، نہ بدن ہے
وُہ خُواب ،،، ہَواؤں میں بِکھر کیوں نہیں جاتا
> "تم نے کبھی ایسا محسوس کیا ہے کہ تمھارا دماغ مائیکروویو میں رکھا ہو؟
بس یہی احساس ہوتا ہے ان سے بات کر کے!
بارش بھی برسی، رات بھی جاگی،
اور میں بھی خاموش… خود میں ڈوبا ہوا۔
چائے کی خوشبو، کمرے کی روشنی مدھم،
دل میں کوئی یاد، کوئی دعا، کوئی بےنام سکون۔

جب مجھے صبر آیا تو معلوم ہوا وہ شخص اتنا بھی اہم نہیں تھا جتنا میں نے سمجھ رکھا تھا

کاسے میں محبت مجھے درکار نہیں ہے۔
دل بھیک میں کچھ لینے کو تیار نہیں ہے۔
کچھ وہ بھی پشیمان نہیں اپنے کیـے پر
کچھ دل بھی رعایت کا طلبگار نہیں ہے۔

تجھ کو معلوم نہیں ہے کسی کی ذات کا عکس
شیشہ دل میں اتر جائے تو کیا ہوتا ہے
اتنا نادان نہ بن تجھ کو بھی معلوم ہے
کہ پانی جب سر سے گزر جائے تو کیا ہوتا ہے
مستانہ طبیعت کی ادا سمجھیے صاحب
درویش کی چپ کو بھی صدا سمجھیے صاحب
کیا جانیے کیا اس کا تعلق ہو خدا سے
دِکھنے میں برے کو بھی بھلا سمجھیے صاحب

ستارے گر بتا دیتے سفر کتنا کٹھن ہوگا،
پیالے مے کے پیتے تلخ ایام سے پہلے ،
یہ جو ہم لکھتے رہتے ہیں، ہماری آپ بیتی ہے،
کہ دکھ تحریر کب ہوتے کسی الہام سے پہلے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain