فنا کے رَستے پہ اک چراغ جلایا میں نے،
خود کو مِٹّا کے، خُدا کو پایا میں نے۔
عشقِ بشر نے دیا غُبار کا تحفہ،
دل کے مزار پہ نُور سجایا میں نے۔
جو چہرہ دیکھا، وہ عکسِ حق نکلا،
سرّ ِوصال کا راز سنایا میں نے۔
میں تھا کہاں؟ یہ سوال مٹ ہی گیا،
جب "میں" کو "وہ" میں سمایا میں نے۔
اب ہر نفس میں وہی صدا گونجے،
"لا مَوجودَ اِلّا ھُو" دوہرایا میں نے۔
لب پہ اذکارِ فریبِ جاں نہ رہے،
دل میں اب زخم مگر فغاں نہ رہے۔
کیمیا بن گیا دُکھِ عشقِ مجاز،
جب نگاہوں میں رُخِ جاناں نہ رہے۔
میں گرا خاک پہ، سجدہ ہوا،
جب مِرا نام، مِرا نشاں نہ رہے۔
فہمِ رازِ ازل عطا ہو گیا،
جب "میں" باقی رہا، "وہ" عیاں نہ رہے۔
عشقِ فانی گیا تو قرار آ گیا،
دل کے مزار پہ نُور اُتر آ گیا۔
جو جدائی تھی، وہ دعا بن گئی،
ہر آہ میں تیری صدا بن گئی۔
فنا میں تجھ کو کمال پایا،
فراق تھا، پر وصال آ گیا۔
عشقِ مجازی نے جلایا بہت،
دل کو توڑ کے سکھایا بہت۔
چہرے مٹے، پردے ہٹے،
تب حق نے خود کو دکھایا بہت۔
اب دل میں کوئی فانی نہیں،
بس نورِ خدا نے جگہ پایا بہت۔ 🌙
شکل و صورت سے نظر آتے تھے مغرور چراغ
ہم شبِ غم کے ستائے ہوئے بے نور چراغ
میرے آنگن کو اجالے کی نہیں ہے عادت
میری چوکھٹ سے جلا آؤ کہیں دور چراغ
زخم ہر شام ہتھیلی پہ یوں لَو دیتے ہیں
جیسے جلتے ہیں مسلسل ، شبِ عاشور ، چراغ
میری مٹھی میں جو جگنو ہیں وہی کافی ہیں
نہ ترے چاند کی خواہش ہے نہ منظور چراغ
رات ، شانوں پہ اٹھائے ہوئے بجھ جاتے ہیں
ہم ہیں اجرت پہ بلائے گئے مزدور ، چراغ
تیرگی والے مری ضد کو نہیں جانتے ہیں
میرے شجرے میں لکھا جائے گا غیّور چراغ
اب مرے بعد مرے گھر میں پڑے ہوتے ہیں
عطر ، لوبان ، اگر بتّیاں ، کافور ، چراغ
حُکم تیرا ہے تو تَعمِیل کِیے دیتے ہیں،
زِندَگی ہِجَر میں تَحلِیل کِیے دیتے ہیں،
تُو مَیری وَصل کی خواہِش پہ بِگَڑتا کِیُوں ہے،
راستَہ ہی ہے چَلو تَبدِیل کِیے دیتے ہیں،
آج سَب اَشکوں کو آنکھوں کے کِنارے پہ بُلاؤ،
آج اِس ہِجَر کی تَکمِیل کِیے دیتے ہیں،
ہَم جو ہَنستے ہُوئے اَچھّے نَہِیں لَگتے تُم کو،...
تُو حُکم کَر آنکھ اَبھی جھِیل کِیے دیتے ہیں...!
تم کو ہماری چال کی "چ" تک نہیں پتہ
تم پھنس گئے ہو جال میں یہ تک نہیں پتہ
یہ عین شین قاف بھلا کیا کرو گے تم
تم کو تو پیار کی ابھی "پ" تک نہیں پتہ
دکھ درد میں نبھاؤ گے تم ساتھ کس طرح
تم کو ہمارے حال کی "ح" تک نہیں پتہ
رکھوالی اور پہرے میں کچھ فرق ہوتا ہے
اس فرق کی تم ایسوں کو "ف" تک نہیں پتہ
ہم کو ترے مزاج کی پت جھڑ نے کھا لیا
ہم کو کسی بہار کی "ب" تک نہیں پتہ
کیا خاک سمجھو گے مری آنکھوں کا خالی پن
ان رتجگوں کی تم کو تو "ر" تک نہیں پتہ
ہم مبتلائے عشق تھے سو مبتلا رہے
ہم کو کسی فرار کی "ف" تک نہیں پتہ
میں کچھ بھی پوچھے بغیر اُٹھ کے آگیا واپس
سمجھ گیا تھا اُسے دیکھ کر، جواب ہی ہے!
ہماری اُونگھ ، کبھی نیند تک گئی ہی نہیں
سو خواب دیکھنا، تاحال ایک خواب ہی ہے
ھم ایک ہاتھ کی دُوری پہ، ساتھ پھرتے ہیں
وہ دَسترس میں نہیں ھے، وہ دستیاب ہی ہے
تیری طلب اگر آسُودگی ہے، رب راکھا
ہمارے پاس تو لے دے کے، اِضطراب ہی ہے
خاموش لمحوں میں بھی تیری باتیں ہوتی ہیں،
بے آواز سانسوں میں کچھ ملاقاتیں ہوتی ہیں۔
تنہا فضا میں گونجتی تیری ہنسی کی بازگشت،
یادوں کی راہوں میں کچھ خوشبو کی سوغاتیں ہوتی ہیں۔
دل سے نکل کر دل تک پہنچتی ہیں کچھ صدائیں،
چپ رہ کر بھی ہم میں کچھ باتیں ہوتی ہیں۔
نہ لب ہلتے ہیں، نہ آنکھ کچھ کہتی ہے،
پھر بھی نگاہوں میں تری حکایاتیں ہوتی ہیں۔
چاندنی راتیں بھی تجھے سنبھالے پھرتی ہیں،
تیرے بِن بھی دل کی کچھ عبادتیں ہوتی ہیں۔
کبھی دھوپ میں، کبھی سائے میں،
ہر لمحے تیری کچھ یادیں ساتھیں ہوتی ہیں۔
دوستی وہ آئینہ ہے جس میں صرف دل دکھائی دیتا ہے،
چہرہ نہیں، چال نہیں، صرف نیت بولتی ہے۔
یہ وہ رشتہ ہے جو زبان سے نہیں، دعا سے جڑتا ہے،
اور جب رب جوڑ دے… تو دوری بھی قربت لگتی ہے۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain