🍂مٹّی کو چوم لینے کی حسرت ہی رہ گئی
ٹوٹا جو شاخ سے تو ہوا لے گئی مجھے🍂
🎡💠💦🎡💦💠🎡
💙❣💙❣💙❣💙❣💙❣💙❣💙❣💙❣
*🌹اجازت ہـو اگـر تیــری ، تـو ایــک بـات پـوچھـو جـانـاں...!!!*💎
*🌹وہ عشق جو ہم سے سیکھا تھا ، اب کس سے کرتے ہو ۔...!!!*💎
💙❣💙❣💙❣💙❣💙❣💙❣💙❣💙❣
🎡💠💦🎡💦💠🎡
اپنی مَٹی پہ ہی چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگِ مرمر پہ جو چلو گے تو پھسل جاؤ گے
*سب تعریف کررہے تھے اپنے اپنے یار کی*🍷۔۔
*ہم نے نیند کا بہانہ کر۔کے محفل ہی چھوڑ۔دی..*❣
آج اس بات کو آدھی صدی گزر گئی ہے۔۔۔۔میری انگلی پر وہ نشان آج بھی باقی ہے۔۔۔۔
اس دن کے بعد میں اس سے کبھی نہیں ملا۔۔۔نا ہی اس شہر پھر کبھی لوٹ کر گیا ۔۔۔۔مگر وہ کھوئے والی قلفی کا سواد آج بھی میری زبان پہ محسوس ہوتا ہے۔۔۔اسکی ہنسی آج بھی اپنے قریب محسوس ہوتی ہے۔۔۔!!!
" میں رہوں یا نا رہوں
تم مجھ میں،کہیں باقی رہنا
مجھے نیند آئے جو آخری
تم خوابوں میں آتے رہنا
بس اتنا ہے تم سے کہنا
بس اتنا ہے تم سے😢😢😢😢
The end
پھر میں اس سے کوئی اور سوال نا کر سکا۔۔۔۔کیونکہ اسکا ہر جواب مجھے زندہ درگو کر دیتا۔۔۔۔۔میں نے اپنی انگلی سے اسکی دی ہوئی انگوٹھی اتار کر اسکی انگلی میں پہنا دی اور بغیر کچھ کہے وہاں سے اپنے دیس لوٹ آیا۔۔۔۔
نا ہی میں نے کچھ کہا تھا اور نا ہی اس نے مجھے روکا تھا۔۔۔۔
ریل کے ڈبے میں بیٹھے ہوئے سارے رستے میری آنکھوں سے آنسو بہتے رہے۔۔۔
سالوں گزر گئے۔۔۔۔میری انگلی پہ اسکی انگوٹھی سے بننے والے نشان آج بھی موجود ہین۔۔۔۔اس نشان والی جگہ کو دائرے کی شکل میں سوئی سے کھرچتا رہتا ہوں۔۔۔۔جس سے وہ زخم بن جاتا ہے اور وہ زخم مجھے آبش کی یاد دلاتا ہے۔۔۔۔۔
Nxt
میں نے آبش کو دیکھا جو بڑے چاو سے قلفی کھاتے ہوئے مجھے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
اس دن اس نے ساری قلفی بغیر ناک اور منہ گندہ کیے کھائی تھی۔۔۔جبکہ اسے دیکھتے دیکھتے میرے ہاتھوں میں پکڑی قلفی پگھل کر میرے ہاتھوں کو گندہ کر گئی تھی۔۔۔۔۔
میں نے دیکھا کہ اسکی کلائی میں میری دی ہوئی چین ویسے کی ویسے بندھی ہوئی تھی۔۔۔۔۔
"تمہارے بچوں کا کیا نام ہے۔۔۔"؟؟؟
میں نے یونہی پوچھ لیا تھا۔۔۔۔۔
اس نے میری طرف ذرا ٹھہر کر دیکھا پھر میرے چہرے پر نظریں ٹکا کر بولی؛
"بچوں کے نام تب رکھے جاتے ہیں جب بچے ہوں۔۔۔۔اور بچے تب ہوتے ہیں ج شادی ہو۔۔۔۔ہاں اگر میں شادی کرتی اور میرے بچے ہوتے تو میں اپنے بیٹے کا نام " آلف " رکھتی۔۔۔"
اس نے خود پر نجانے کیسے ضبط کر رکھا تھا جب کہ میرا ضبط جواب دیتا جا رہا تھا
Nxt
پھر آبش نے اپنے پرس سے چار آنے نکال کر چاچے کو دیے۔۔۔چاچے نے اسے دو کھوئے والی قلفیاں دیں اور بولے؛
" پتر کدی تے دوناں قلفیاں کھا لیا کر۔ بس ایک ای کھاندی ایں ۔۔دوجی نوں بس تکتی رہندی ایں "
چاچے کی بات نے میرے دل پہ ضرب سی لگائی تھی۔۔۔۔
وہ کیا تھی اور کیا بن گئی تھی۔۔۔۔۔
چاچے کو آبش بہت پسند تھی اسی لیے وہ اس دور میں جب دس روپے میں بھی ایک قلفی نہیں ملتی تھی وہ چار آنے میں دو قلفیاں اسے دیتے تھے۔۔۔جانے آبش نے چاچے سے اس "چار آنے" کے بارے میں کیا بتا رکھا تھا۔۔۔
آبش نے ایک قلفی خود لے لی اور دوسری قلفی میری طرف بڑھا دی۔۔۔۔
Nxt
وہ مجھے "چاچے گامے " کی ٹھیری پر لے آئی۔۔۔۔
چاچا گاما بھی بوڑھا ہو چکا تھا۔۔۔آبش کو دیکھ کر چاچے گامے نے اس سے جلدی میں سوال کیا؛
" آبش پتر۔۔اج خیر تے سی؟ دیر کیوں کر دتی آون وچ؟؟؟"
چاچے گامے کے سوال سے مجھے اندازہ ہوا کہ آبش وہاں روز ہی آتی تھی۔تبھی تو چاچا گاما اس سے اس بارے میں پوچھ رہا تھا۔۔۔۔
"بس چاچا۔۔۔بازار گئی سی۔۔۔اوتھے ای دیر ہو گئی ۔۔۔"
می حیرت سے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا جسکو پنجابی کا ایک لفظ نہیں آتا تھا اور اسے پنجابی سے چڑ تھی۔مگر آج وہ بہت اچھی پنجابی بول رہی تھی۔۔۔۔
Nxt
۔۔۔اور وہ بہت زیادہ حیرت اور سنجیدگی میں مبتلا ہو گئی تھی۔۔۔
وہ کچھ نہیں بولی۔۔۔۔صرف مجھے پیار بھری نظروں سے دیکھتی رہی۔۔۔۔
"چلو آو میں تمہیں ایک جگہ پر لے کر چلتی ہوں "
اس نے میرا ہاتھ تھا نا چاہا مگر پھر ایک پل میں رک گئی۔۔۔میری طرف اپنے بڑھتے ہاتھوں کو اس نے پیچھے ہٹا لیا۔۔
وہ مجھے تانگے پر بٹھا کر ایک یادوں بھری جگہ پر لے آئی۔۔۔میں سوچ رہا تھا کہ وہ کتنی بدل گئی تھی۔۔۔ کار میں بیٹھنے والی لڑکی تانگے پہ کیسے سکون سے بیٹھی تھی۔۔۔
Nxt
" کیا نام ہے تمہارے بچوں کا۔۔۔؟"
نجانے وہ کیا پوچھنے کی سعی کر رہی تھی۔۔۔بیٹے کا نام آیان علی ہے۔۔"
" بیٹی کا نام بتاتے ہوئے شرم آتی ہے؟؟؟"اس نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔۔
"آبش "۔۔۔
ہاں بولو سن رہی ہوں میں ۔۔
اس نے سمجھا تھا کہ میں اس سے مخاطب ہوں۔۔۔۔
"میری بیٹی کا نام آبش ہے۔۔۔۔"
میں نے گہری نظروں سے آبش کو دیکھا۔۔۔جس کی ہنسی ایک دم سے رک گئی تھی۔۔۔
Next
۔۔۔بس واپس جانے ہی والا تھا کہ تم نظر آ گئیں۔۔۔۔"
"شادی کر لی؟؟؟"
اس نے اچانک سے سوال کیا۔۔۔۔میں نے دل پہ پتھر رکھتے ہوئے سر کو اثبات میں ہلا کر جواب دیا۔۔۔۔
ایک دم سے اسکے چہرے پر اسی جاڑے کی شام جیسا منظر بن گیا جیسا منظر اس آخری ملاقات کے موقع پر بنا تھا۔۔۔۔
" کتنے بچے پیدا کر لیے؟ "
اس نے خود کو نارمل ظاہر کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے ہلکے سے مسکرا کر پوچھا۔۔۔۔
" ایک بیٹا اور ایک بیٹی ۔۔۔"
میں نے مختصر جواب دیا۔۔۔
Nxt
وہ وہی تھی۔۔۔۔۔آبش۔۔۔۔میری دوست۔۔۔میری سہیلی ۔۔۔میری بےچینی کی اکلوتی وجہ۔۔۔۔
میں حیرت سے اسکو دیکھے جا رہا تھا۔۔۔۔
وہ چلتی ہوئی میرے سامنے آ گئی۔۔۔۔۔
وہ بھی مجھے بڑی حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔اسکی آنکھیں وہی کچھ بیان کر رہی تھیں جو وہ اس آخری دن کہہ نہیں پائی تھی۔۔۔
" کیسے ہو آلف؟ "
اس کی آواز ایک لمبے عرصے بعد سنتے ہی دل کو سکون مل گیا تھا۔۔۔۔میں نے ایک پل کے لیے سکون سے آنکھیں بند کر لیں اور اسکی کوئل جیسی آواز کو اپنے دل میں قید کرنے لگا۔۔۔۔
" میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔تم سناو؟؟"
"میں بھی ٹھیک ہوں۔۔۔۔یہاں کیسے آنا ہوا۔۔۔؟"
"بس ایک کام کے سلسلے میں اپنے مادر علمی شہر آنا پڑا۔۔۔
Nxt
میں دو بچوں کا باپ بن گیا تھا۔۔۔۔ایک بیٹا تھا جسکا نام آیان علی تھا۔۔۔اور ایک بیٹی۔۔۔۔جسکا نام آبش تھا۔۔۔۔میں نے سوچ رکھا تھا کہ میں اپنی بیٹی کو اسکا نام دونگا۔۔۔اسے کسی بھی صورت اپنے قریب رکھوں گا۔۔۔ہر روز اسکو دیکھوں گا۔۔۔پیار کرونگا۔۔ ڈھیر ساری باتیں کرونگا ۔۔۔شاید ایسا کرنے سے میرے دل کو کچھ سکون مل سکے۔۔۔۔
ایک سردیوں کی جاڑے والی شام میں لاہور کی مارکیٹ میں کسی کام سے گیا تھا جب مجھے اپنے سامنے ایک خاتون بہت دیر سے مجھے تکتی نظر آئی۔۔۔اسکے چہرے پر نقاب تھا مگر اسکی آنکھیں جانی پہچانی تھیں ۔۔۔۔
ایک دم سے میرے ذہن میں دھماکا سا ہوا۔۔۔۔
" آبش "۔۔۔۔۔۔میں نے دل ہی دل میں کہا تھا۔۔۔
دفعتا ہی اس خاتون نے اپنے چہرے سے نقاب ہٹا دیا۔۔ اس کا ایسا کرنا تھا کہ میرا دل مٹھی میں آ گیا۔۔۔۔
Nxt
میں نہیں جانتا تھا کہ میں ایسا کیوں کرتا تھا۔۔۔۔یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ بھی مجھے یاد کرتی ہو گی یا نہیں ۔۔۔۔۔؟
" زندگی کسی بورنگ ریلوے اسٹیشن کی طرح ہوتی ہے۔۔۔۔نا چاہتے ہوئے بھی ہمیں کسی بورنگ اسٹیشن پر اترنا پڑتا ہے۔۔۔۔پھر وہیں سے اپنی منزل کی طرف بڑھنا ہوتا ہے۔۔۔۔"
میں بھی ایک بورنگ اسٹیشن پر اتر کر اپنی نا چاہی منزل کو پا چکا تھا۔۔۔اس اسٹیشن پر بہت سے لوگ مجھ سے بچھڑ کر اپنی اپنی منزل کی طرف جا چکے تھے۔۔۔۔وہ بھی اس اسٹیشن پر اتر کر مجھ سے جدا ہو گئی تھی۔۔یقینا اسکو بھی اسکی منزل مل گئی ہو گی۔۔۔۔
وقت کسی بے لگام گھوڑے کی طرح سر پٹ دوڑتا رہا۔۔۔۔
اس سارے عرصے میں بہت کچھ بدل گیا تھا ۔۔۔۔
Next
لیکن پھر کچھ عرصہ اور گزرا تو ابا نے روایتی والد کی طرح اپنی پگڑی میرے قدموں میں ڈال دی اور بولے کہ بیٹا تمہیں میری عزت کا واسطہ ہے شادی کر لو۔۔۔
بس پھر مجھ جیسے دیسی بندے کو اپنے باپ کی عزت کی لاج رکھنا پڑی اور کچھ دنوں بعد میری شادی ہو گئی۔۔۔۔۔
شادی ہونے کے بعد بھی میں آبش کو بھلا نہیں پایا ۔۔۔اسکی دی ہوئی انگوٹھی میری انگلی میں تھی۔۔۔انگوٹھی تنگ ہونے کی وجہ سے میری انگلی پر اس انگوٹھی کے گہرے نشان بن گئے تھے۔۔۔۔
وہ نشان مجھے آبش کی یاد دلاتے تھے۔۔۔جب بھی اسکی یاد آتی میں گھر سے باہر نکل کر پہاڑوں پر کی اونچائی پر چلا جاتا۔۔۔۔۔وہاں جا کر میں بے خود سا ہو کر زور زور سے "آبش آبش " پکارنے لگتا۔۔۔۔
Nxt
جانے اس کے ذہن میں کیا چل رہا تھا۔۔۔۔
میں نے آخری بار اپنی یونیورسٹی کے گیٹ کو دیکھا۔۔۔دل مٹھی میں آگیا تھا۔۔۔
پھر بے اختیاری کے عالم میں دو آنسو بہاتے ہوئے میں نے یونیورسٹی کو الوداع کہا اور اپنا سامان اٹھا کر تانگے پہ رکھا اور اپنے گھر کی راہ لی۔۔۔۔
ریل کے ڈبے میں بیٹھا میں اپنی یونیورسٹی اور اپنے سبھی دوستوں سے بہت دور جا رہا تھا۔۔۔۔۔
خوشیوں اور لا پرواہی کا دور اپنے اختتام کو پہنچ گیا تھا۔۔۔۔
گھر آ کر اپنوں سے اتنے لمبے عرصے بعد مل کر بھی خوشی نہیں ہو رہی تھی۔۔۔نا جانے کیوں ؟؟؟؟
کچھ عرصے بعد گھر والوں نے شادی کا کہا تو میں نے انکار کر دیا۔۔۔انکار کرنے کی وجہ مجھے خود معلوم نہیں تھی۔۔۔۔
Nxt
وہ بھی چپ تھی۔۔۔۔میں بھی چپ تھا۔۔۔۔
اسکی آنکھیں بھی سرخ ہو گئی تھیں۔۔۔
میری پیشانی بھی جلنے لگی تھی۔۔۔۔
پھر وہ ایک نظر مجھے دیکھ کر۔۔۔۔ہزار ضبط کے باوجود دو آنسو جلدی سے بہا کر۔۔۔بغیر کچھ کہے۔۔۔۔بغیر الوداع کیے۔۔۔وہ جلدی سے بھاگ کر اپنی گاڑی میں جا کر بیٹھ گئی۔۔۔میں حیرت سے اسے دیکھ رہاتھا۔۔۔اسکی گاڑی میری آنکھوں کے سامنے وہاں سے اسے لے کر چلی گئی۔۔۔۔
اور میں وہیں حیرت کا مجسمہ بنے اسکی گاڑی کو خود سے دور جاتا دیکھتا رہا۔۔۔
میں نے سوچا تھا کہ وہ اس آخری دن مجھ سے ڈھیروں باتیں کرے گی۔۔۔ہر ہفتے بعد یا کم سے کم ایک مہینے بعد خط لکھنے کا وعدہ ضرور لے گی۔۔۔اور اس آخری دن وہ مجھ سے مصنوعی جھگڑا کر کے مجھے ہماری پہلی ملاقات کی ضرور یاد دلائے گی۔۔۔
مگر اس نے میری امید کے مطابق کچھ نہیں کیا تھا۔۔۔
Next
میں بھی اپنے آنسو بہت مشکل سے روکے کھڑا تھا۔۔۔۔
اس نے مسکرانے کی ناکام کوشش کی۔۔۔میں اسے جی بھر کر دیکھ رہا تھا۔۔۔اس سے دور جانا پل صراط سے گزرنے کی طرح محسوس ہو رہا تھا۔۔۔
پھر اس نے اپنی انگلی سے ایک سلور رنگ کی انگوٹھی اتار کر میرے بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی میں پہنا دی۔۔۔میری چھوٹی انگلی اس کی لیڈی فنگر سے بڑی تھی اسی لیے وہ انگوٹھی میری آدھی انگلی میں ہی سما سکی۔۔۔
میں نے اپنے گلے میں پہنی ہوئی چین اتار کر پاگلوں کی طرح اسکے گلے کی بجائے اسکی کلائی پہ بل دے کر باندھ دی۔۔۔۔
یہ سب کچھ ایک ہولناک خاموشی کے زیر اثر ہو رہا تھا۔۔۔
Next
وہ تانگے کی سواری اور قلفی کا مزہ مجھے ساری زندگی یاد رہا۔۔۔کبھی بھلا ہی نہیں سکا ۔۔۔
جس دن ہمارا یونیورسٹی کا آخری دن تھا اس دن آبش بہت کمزور دکھ رہی تھی۔۔۔میں اپنا سامان بیگ میں سمیٹ کر یونیورسٹی ہی لے آیا تھا اور اسے باہر چائے کے ڈھابے پر رکھ دیا تھا تا کہ یہاں سے جب فارغ ہوا تو سامان یہیں سے اٹھا کر اپنے گھر کو لوٹ جاونگا۔۔۔۔
اس دن تمام اساتذہ نے ہمارے ساتھ تصویریں بھی بنوائیں۔۔۔یہ الگ بات ہے کہ وہ تصویریں کبھی مجھ تک نہیں پہنچیں ۔۔۔۔
تمام کلاس فیلوز سے آخری بار ڈھیر ساری باتیں کیں۔۔۔اس دن زندگی میں پہلی بار وقت بہت تیزی سے گزر گیا۔۔۔۔اساتذہ سے اور کلاس فیلوز سے باتیں کر کے جی ہی نہیں بھر رہا تھا مگر اس دن وقت ہمارے حق میں نہیں تھا۔۔۔
پھر میں آبش سے ملا۔۔۔۔۔وہ غمگین ہو گئی تھی۔۔۔۔
Nxt
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain