___💞کیوں ایک دعا میں اٹک کے رہے گیا ہے دل 💞___
___💞کیوں مجھ سے تیرے سوا کچھ مانگا نہیں جاتا _💞
ڈوب کر سورج نے مجهے اور بهی تنہا کر دیا
›~ یارا ~‹
میرا سایہ بهی الگ ہو گیا میرے اپنوں کی طرح
نیند بھی نیلام ھو جاتی ھے بازار عشق میں۔
اتنا آسان نہیں کسی کو بھول کر سو جانا۔
💔💔
*میں نے تڑپ کہ کہا بہت یاد آتے ہو وہ مسکرا کر بولا*
*تم غریب لوگوں کو اور آتا ہی کیا ہے*...!!!💔🥀
خیال رکها ______________کرو اپنا
میرے پاس تم جیسا اور کوئی نئیں ہے ❤❤
ہم وقت گزارنے والے نہیں --------- رونق محفل ہیں😊
زندگی بھر یاد کرو گے کہ زندگی میں آیا تھا کوئی😌❤
*سب تعریف کررہے تھے اپنے اپنے یار کی*🍷۔۔
*ہم نے نیند کا بہانہ کر۔کے محفل ہی چھوڑ۔دی..*❣
ﺯﺭﺍ ﺳﯽ ﺑﺎﺕ ﻫﻮﺗﯽ ﻫﮯ...ﺗﻮ تنہا ﭼﮭﻮﮌ ﺟﺎﺗﮯ ﻫﯿﮟ..!!⛔
ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ....ﺳﻨﺒﮭﺎﻟﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﯽ..!! 😒
"نبهانا جس کو کہتے هیں وہ کچھ هی لوگوں کو آتا هے___!!!
"بڑا آسان هے کہنا کہ ھم یاروں کے یار هیں___!💔
*_❤
فاصــــــلوں سے اگر مـــــــکراہٹ لوٹ آئے تمہــــــاری 💔💔
تو تمہـــــیں حق ہــے , کہ تـــم دوریاں بـــنـا لو ہـــم سے. 💔
دل کرتا ھـے، تمہیں دعا🤲 میں مانگوں
پر ڈر لگتا ھـے، سچ میں پَلے نہ پڑ جاؤ
😜😂😜
میں نے رات خواب میں اس نورانی چہرے والے بزرگ کو دیکھا جو مجھ سے یہ کہہ رہا تھا کہ
'' تم پر یہ گِراں گُزرا؟ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک گنہگار بندّے پر احسان فرما کر اس کو اپنے دربار کی طرف رجوع کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔اے ملاح! یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور اللہ تعالیٰ اپنا فضل جسے چاہے عطا فرما دیتا ہے۔“
( مستطرف،جِلد1،صفحہ 147 )
نام کتاب = روحانی حِکایات ( حِصّہ دوم )
صفحہ = 226،227
مصنف = حضرت مولانا عبدالمصطفیٰ اعظمی رحمتہ اللّہ علیہ
The end
ملاح نے بیان کِیا کہ:
'' میں نے ان بزرگ کی تینوں چیزیں حسبِ وعدہء وصیت بھانڈ لڑکے کو دے دیں۔لڑکے پر سامان ہاتھ میں لیتے ہی ایک انقلابی کیفیت نمودار ہو گئی۔ ''
اس نے باریک کپڑوں کو اُتار کر میری کشتی میں پھینک دیا اور کہا کہ:
'' تم میرے ان کپڑوں کو جیسے چاہو بطور صدقہ دے دینا اور خود اُن بزرگ کی گدڑی پہن کر اور عصا،مشک لے کر چل دیا۔ ''
ملاح کا بیان ہے کہ:
'' میں اس بھانڈ کے لڑکے کی خوش نصیبی اور اپنی محرومی کا خیال کر کے رونے لگا۔یہاں تک کہ رات آ گئی اور میں روتے روتے سو گیا۔ ''
Next
میں نے حیران ہو کر پوچھا کہ:
'' تمہیں اس کی خبر کیوں کر ہو گئی؟ ''
اُس نے کہا:
'' یہ نہ پوچھیے۔ ''
میں نے کہا:
'' تم کو بتانا ہی پڑے گا۔ ''
میرا اصرار سُن کر اُس نے کہا کہ:
'' بھائی! میں اس کے سِوا کچھ نہیں جانتا کہ گزشتہ رات ایک شادی میں ساری رات ناچتا اور گاتا رہا۔جب صبح کو اذانِ فجر ہوئی تو میں ناچ ختم کر کے سو گیا۔اچانک ایک شخص میرے پاس آیا اور مجھ کو جھنجھور کر کہا کہ اللّہ تعالیٰ نے فلاں ولی کو وفات دے دی ہے اور تجھ کو اس کا قائم مقام بنا دیا ہے۔لہٰذا تُو فلاں ملاح کے یہاں جا کر اُس وفات پا جانے والے ولی کے تبرّکات وصول کر لے۔جن کو وہ بزرگ تیرے لیے بطورِ امانت ملاح کے پاس رکھ کے دنیا سے تشریف لے گئے ہیں۔ ''
Next
میں نے جونہی ان کا جنازہ تیار کِیا۔ایک دم ناگہاں ایک طرف سے انسانوں کی ایک بہت بڑی جماعت آ گئی اور میں نے ان لوگوں کے ساتھ نمازِ جنازہ ادا کر کے اُسی درخت کے نیچے دفن کر دیا اور اپنے گھر آ کر رات میں سو رہا۔ ''
صبح سویرے ہی ایک جوان جو ناچنے گانے والے بھانڈ کا لڑکا تھا۔میرے پاس آیا،نہائیت ہی باریک کپڑے پہنے ہوئے ہاتھوں میں مہندی لگی ہوئی اور بغل میں ستار دبائے میرے سامنے کھڑا ہو گیا اور میں نے اُس کے سلام کا جواب دیا۔پِھر اُس نے مجھ سے دریافت کِیا کہ:
" فلاں بِن فلاں تم ہی ہو؟ ''
میں نے جواب دیا کہ:
'' ہاں! میں ہی ہوں۔ ''
اُس نے کہا کہ:
'' پِھر جو تمہارے پاس میری امانت ہے مجھے دے دو۔ ''
Next
میں نے کہا کہ:
'' جی حضور! ضرور قبول کر لوں گا۔ ''
تو انہوں نے فرمایا کہ:
'' کل فلاں درخت کے پاس ظہر کے وقت آنا تم کو وہاں میری لاش ملے گی۔تم مجھ کو غسل دینا اور میرے سرہانے جو کفن تم کو ملے اس کو مجھے پہنا کر اُسی درخت کے نیچے دفن کر دینا اور میری گدڑی اور عصا اور مشک کو اپنے پاس رکھنا اور جو شخص ان تینوں چیزوں کے طلب کرنے کے لیے تمہارے پاس آئے اُس کو یہ سب سامان دے دینا۔ ''
ملاح کا بیان ہے کہ:
'' میں ان بزرگ کی وصیت کو بھول گیا اور بجائے ظہر کے عصر کے وقت مجھے خیال آیا تو میں اُس درخت کے پاس حاضر ہُوا تو واقعی ان بزرگ کو مُردہ حالت میں پایا۔میں نے وصیت کے مطابق ان کو کفن پہنایا۔اُس میں مُشک کی خوشبُو آ رہی تھی۔
Next
دریائے نیل میں کشتی چلانے والے ایک ملاح کا بیان ہے کہ:
'' ایک دن ایک بہت ہی نورانی چہرے والے بزرگ میرے پاس آئے اور فرمایا کہ کیا تم مجھے اللّہ کے نام پر دریا کے پار اُتار دو گے؟ ''
میں نے عرض کِیا کہ:
'' ہاں۔ ''
وہ بزرگ میری کشتی پر سوار ہو گئے اور میں نے انہیں دریا کے پار اُتار دیا۔جب وہ کشتی سے اُترنے لگے تو انہو ں نے مجھ سے فرمایا کہ:
'' میں تمہیں ایک امانت سونپتا ہوں۔کیا تم اس کو قبول کرو گے؟ ''
Next
بہت کچھ جان کر خاموش رہنا،
میرا اک سوچا سمجھا فیصلہ ہے...
اگلے اسٹیشن پر لڑکے نے جب گاڑی سے اترنے کیلئے باہر کی طرف لپکنا چاہا تو بوڑھے نے پیچھے سے آواز دیتے ہوئے کہا؛
بیٹے ہمارے دیہات میں درخت پتوں سے ڈھکے رہیں تو ٹھیک،
ورنہ آگر کسی درخت سے پتے گر یا جھڑ جائیں تو ہم اسے کلہاڑی سے کاٹ کر تنور میں ڈال دیا کرتے ہیں۔
💝🧕🏻💝
The end
مگر اس کا جتنا جسم کھلا ہوا ہے اس پر تو ہم سب عوام کا حق بنتا ہے کہ ہم دیکھیں۔
اور اگر تجھے میرا اتنا قریب ہو کر تیری بیوی کو دیکھنا برا لگا ہے تو میرا نہیں میری نظر کا قصور ہے جو کمزور ہے اور مجھے دیکھنے کیلئے نزدیک ہونا پڑتا ہے۔
بوڑھے کی باتیں نہیں اچھا درس تھا مگر ذرا ہٹ کر،
لوگوں نے جان لیا تھا کہ بوڑھا اپنا پیغام اس جوڑے تک پہنچا چکا ہے۔
لڑکی کا چہرہ آگر شرم سے سرخ ہو رہا تھا تو لڑکا منہ چھپائے چلتی گاڑی سے اترنے پر آمادہ۔
اور ہوا بھی ایسے ہی،
Next
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain