کہیں امید سی ہے دل کے نہاں خانے میں
ابھی کچھ وقت لگے گا اسے سمجھانے میں
موسمِ گل ہو کہ پت چھڑ ہو بلا سے اپنی
ہم کہ شامل ہیں نہ کھلنے میں نہ مرجھانے میں
ہم سے مخفی نہیں کچھ راہگزرِ شوق کا حال
ہم نے اک عمر گزاری ہے ہوا خانے میں
ہے یوں ہی گھومتے رہنے کا مزا ہی کچھ اور
ایسی لذّت نہ پہنچنے میں نہ رہ جانے میں
نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے
ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں
موسموں کا کوئی محرم ہو تو اس سے پوچھو
کتنے پت جھڑ ابھی باقی ہیں بہار آنے میں
آنکھوں میں رہا دل میں اتر کر نہیں دیکھا
کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا
بے وقت اگر جاؤں گا سب چونک پڑیں گے
اک عمر ہوئی دن میں کبھی گھر نہیں دیکھا
جس دن سے چلا ہوں مری منزل پہ نظر ہے
آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا
یہ پھول مجھے کوئی وراثت میں ملے ہیں
تم نے مرا کانٹوں بھرا بستر نہیں دیکھا
یاروں کی محبت کا یقیں کر لیا میں نے
پھولوں میں چھپایا ہوا خنجر نہیں دیکھا
محبوب کا گھر ہو کہ بزرگوں کی زمینیں
جو چھوڑ دیا پھر اسے مڑ کر نہیں دیکھا
خط ایسا لکھا ہے کہ نگینے سے جڑے ہیں
وہ ہاتھ کہ جس نے کوئی زیور نہیں دیکھا
پتھر مجھے کہتا ہے مرا چاہنے والا
میں موم ہوں اس نے مجھے چھو کر نہیں دیکھا
ضبطِ گریہ پہ کوئ حد تو نہیں لگتی ناں
اشک پینے سے یہ روزہ تو نہیں ٹُوٹے گا؟
ہماری پیاس نے دریا کا طنز سنتے ہی
سفالِ صبر میں بھر کے لہو اچھال دیا
*دِلِِ فَسُردہ میں ، پھر دَھڑکنوں کا شور اُٹھا*
*یہ بیٹھے بیٹھے ، مجھے کن دِنوں کی یاد آئی*
دیکھو یہ میرے خواب ہے، دیکھو یہ میرے زخم ہیں
میں نے تو سب حساب جاں بر سر عام رکھ دیا
ستم ہو قہر ہو آفت، بلا ہو
یہ سب کچھ ہو مگر پھر دل ربا ہو
کسی کے غم میں کوئی رو رہا ہو
کوئی پردے سے چھپ کر دیکھتا ہو
بتاؤ کیا تمہارے دل پہ گزرے
اگر کوئی تمہیں سا بیوفا ہو
کب کہاں کیا مرے دل دار اٹھا لائیں گے
وصل میں بھی دل بے زار اٹھا لائیں گے
چاہئے کیا تمہیں تحفے میں بتا دو ورنہ
ہم تو بازار کے بازار اٹھا لائیں گے
یوں محبت سے نہ ہم خانہ بدوشوں کو بلا
اتنے سادہ ہیں کہ گھر بار اٹھا لائیں گے
ایک مصرعے سے زیادہ تو نہیں بار وجود
تم پکارو گے تو ہر بار اٹھا لائیں گے
گر کسی جشن مسرت میں چلے بھی جائیں
چن کے آنسو ترے غم خوار اٹھا لائیں گے
کون سا پھول سجے گا ترے جوڑے میں بھلا
اس شش و پنج میں گلزار اٹھا لائیں گے
کئی آنسوؤں کے قلزم ترے در پہ بہ چکے ہیں
غمِ دل کا تجھ سے پہلے کوئی راز داں نہیں تھا
غبارِ راہ سے کہہ دو سنبھالے نقشِ قدم
زمانہ ڈھونڈے گا پھر ان کو رہبری کیلئے
ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی
اب تو آجا اب توخلوت ہوگئی
میں اس کے پاس کبھی دیر سے گیا ہی نہیں
اسے خبر ہی نہیں کیا ہے انتظار کا دکھ ___!
گزار دیتے ہیں ہنس کر گزارنے والے!
نصیر وقت کا کیا ہے گزر ہی جاتا ہے!
اوجھل سہی نِگاہ سے ڈوبا نہیں ہوں میں
اے رات ہوشیار کہ،،،،،، ہارا نہیں ہوں میں
دَرپیش صبح و شام،،،،،، یہی کَشمکش ہے اب
اُس کا بَنوں میں کیسے کہ اپنا نہیں ہوں میں
مجھ کو فرشتہ ہونے کا دعویٰ نہیں مگر
جِتنا بُرا سمجھتے ہو اُتنا نہیں ہوں میں
اِس طرح پھیر پھیر کے،،،،، باتیں نہ کیجیئے
لہجے کا رُخ سمجھتا ہوں بچہ نہیں ہوں میں
مُمکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِ مُنافقت
دُنیا تیرے مزاج کا،،، بَندہ نہیں ہوں میں
امجدؔ تھی بھیڑ ایسی کہ،، چلتے چلے گئے
گِرنے کا ایسا خوف تھا ٹِھہرا نہیں ہوں میں
زندگی کٹتی چلی جاتی ہے، اس کا نہیں رنج
رنج یہ ہے کہ کبھی ڈھنگ سے زندہ نہ رہے
اسی دورانِ اسیری میں کبھی ہم سے ملو
جانے کب خاک کے پنجرے میں پرندہ نہ رہے
وَار کر جَہاں بھر کی خُوشیاں آپ پر♥️
آپ کو ہَنستا ہوا دیکھوں جِی چَاہتا ھے۔۔
جو تیری جستجو میں چھوڑ دیا
اس کا نعم البدل تو تُو بھی نہیں
پھر نہ پابندِ وفا ہو گا کوئی مجھ جیسا
رکھے رہ جائیں گے آدابِ وفا میرے بعد
تو نے گردشِ حالات میں دیکھا تھا مجھے
اب کے آؤ گے تو خوش باش نظر آؤں گا
روبرو اس کے مجھے بات نہ سوجھی کوئی
کتنا سوچا تھا اسے باتوں میں الجھاؤں گا
اب تو کہتے کو کہ جا ! میری نظر سے دور ہو
تم منانے آؤ گے مجھ کو ، مرے جانے کے بعد
شمعِ محفل روۓ یا ہنس کر گزارے صبح تک
کون اب جلنے یہاں آۓ گا پروانے کے بعد
وحشتِ دل کی بدولت ہم چلے آۓ یہاں
دیکھۓ اب کونسی منزل ہے ویرانے کے بعد
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain