زندہ رھنے کو بھی لازم ھے سہارا کوئی ۔۔۔،،
کاش مل جائے غمِ ہجر کا مارا کوئی ۔۔۔،،
ھے تیری ذات سے مجھ کو وہی نسبت جیسے
چاند کے ساتھ چمکتا ھوا تارہ کوئی ۔۔۔،،
کیسےجانوگےکہ راتوں کا تڑپنا کیا ھے ۔۔۔،،
تم سے بچھڑا جو نہیں جان سے پیاراکوئی ۔۔۔،،
ہم محبت میں بھی قائل رھے یکتائی کے
ہم نے رکھا ہی نہیں دل میں دوبارہ کوئی ۔۔۔،،
سوچتا ھوں کہ تیرےپہلو میں جو بیٹھا ھوگا
کیسا ھوگاوہ پری وش وہ تمہارا کوئی ۔۔۔،،
کون بانٹے گا مرے ساتھ میری تنہائی
ڈھونڈکےلادو مجھے زیست سے ہارا کوئی ۔۔۔،،
یہ جبر کا، یہ جہل کا، یہ زَر کا تسلط
تم دیکھنا اِک وقت میں، تینوں سے لڑیں گے
عشروں کے تدبر نے یہی حکم دیا ہے
ہم خاک نشیں اب، تخت نشینوں سے لڑیں گے !
سرِ صحرا مُسافر کو ستارہ یاد رہتا ھــے
میں چلتا ہوں مجھــے چہرہ تمہارا یاد رہتا ھــے
تمہارا ظرف ھــے تم کو محبت بُھول جاتی ھــے
ہمیں تو جس نــے ہنس کر بھی پُکارا، یاد رہتا ھــے
محبت میں جو ڈُوبا ہو، اُســے ساحل ســے کیا لینا۔۔۔۔؟
کِســے اس بحر میں جا کر کِنارہ یاد رہتا ھــے۔۔۔۔؟
بہت لہروں کو پکڑا ڈُوبنــے والــے کــے ہاتھوں نــے
یہی بس ایک دریا کا نظارہ یاد رہتا ھــے
صدائیں ایک سی یکسانیت میں ڈُوب جاتی ہیں
ذرا سا مختلف جس نــے پُکارا یاد رہتا ھــے
میں کس تیزی ســے زندہ ہوں، میں یہ تو بُھول جاتا ہوں
نہیں آنا ھــے دنیا میں دوبارہ، یاد رہتا ھــے۔
✍️ *دنیا کی ہر چیز انسان کی خدمت کر رہی ہے اگر کوئی انسان کو تکلیف دے رہا ہے تو وہ خود انسان ہی ہے ....*✍️
اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا
جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا
یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے
آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا
کبھی تقدیر کا ماتم کبھی دنیا کا گلہ
منزل عشق میں ہر گام پہ رونا آیا
مجھ پہ ہی ختم ہوا سلسلۂ نوحہ گری
اس قدر گردش ایام پہ رونا آیا
جب ہوا ذکر زمانے میں محبت کا شکیلؔ
مجھ کو اپنے دل ناکام پہ رونا آیا
تو نے دیکھا ہے کبھی ایک نظر شام کے بعد
کتنے چپ چاپ سے لگتے ہیں شجر شام کے بعد
تو ہے سورج تجھے معلوم کہاں رات کا دکھ
تو کسی روز میرے گھر میں اتر شام کے بعد
مشہور بہت ہےمیرے الفاظ, کی تاثیر
مگر ایک شخص مُجھ سےمنایا نہیں جاتا
چہروں کا انبار لگا ہے میری ذات کے کمرے میں
دن بھر مجھ کو کتنے ہی کردار نبھانے پڑتے ہیں
،تمھارے بعد چمن پر جو اک نظر ڈالی
کلی کلی پر خزاں کے چراغ جلتے تھے ۔
کتنے ہی تعلق تو ضروری بھی نہیں تھے
بیکار ہی کاندھوں پہ کئی بوجھ اٹھائے
کاتب تقدیر سے کیا شکوہ اے دل ناداں
جب ہر شے نے مٹ جانا ھے تو پھر خواہش کیسی
ہمیں دیکھ کر نگاہوں کو پھیر لیا
خیر ہم خوش ہوئے پہچانا تو سہی
سیرت نہ ہو تو عارض و رخسار سب غلط
خوشبو اُڑی تو پھول کا فقط رنگ رِہ گیا
میں مٹ گیا ہوں تو پھر کس کا نام ہے بیدم
وہ مل گئے ہیں تو پھر کس کو ڈھونڈتا ہوں میں
میخانے میں نہیں ہے زماں کا کوئی وجود
کُھلتا ہے در ابد کی طرف اس رباط کا
*کیا خبر ان کو بھی آتا ہو کبھی میرا خیال*
*کن ملالوں میں ہوں ، کیسا ہوں ، کہاں رہتا ہوں !*
میں نے سمجھا تھا کہ لوٹ آتے ہیں جانے والے
تو نے جا کر تو جدائی مری قسمت کر دی
یُوں بظاہر تو دِیا میں نے بُجھا رکھا ہے
درد نے دل میں الاؤ سا لگا رکھا ہے
منصفو! کُچھ تو کہو، کیوں سرِ بازارِ حیات
مُجھ کو اِحساس نے سُولی پہ چڑھا رکھا ہے
*وہ جو اِک شخص بضد ہے کہ بُھلا دو مُجھ کو*
*بُھول جاؤں تو اُسی شخص کو صدمہ ہوگا*
چھپا رہا ہے کسی کرب کو،کسی درد کو۔۔
جو ہنس رہا ہے مسلسل،وہ شخص جھوٹا ہے۔۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain